پشاورمیں پشتون تحفظ تحریک کاکامیاب جلسہ

918

اتوار8اپریل کوپشاورمیں پشتون تحفظ موومنٹ کا ایک بہت بڑا جلسہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق جلسہ میں پشتون علاقوں سے ڈھائی لاکھ سے زائد افراشریک ہوئے جن میں سے  کم و بیش  دوہزار افراد لاپتہ افراد کی تصاویراٹھائے ہوئے تھے۔ جلسہ کے اردگرد لاپتہ افراد کی تصاویزآویزاں کی گئیں تھیں۔ پاکستانی ریاست کے دباؤمیں میڈیا کے بائیکاٹ اورانٹرنیٹ کی سہولت بندکرنے کے باوجود سرگرم کارکن اس کوپوری دنیا میں شیئر کرنے میں کامیاب رہے۔ مقررین کی طرف سے پاکستانی فوج کوتنقید کا نشانہ بنانے پرامریکی ایف ریڈیوز اوراس کے ویب سائٹ پراس کی پل پل کی خبریں گردش کرتی رہیں۔ جلسہ کی اہم بات اس میں خواتین، بچوں اورشیعہ اقلیت کی بھی شرکت تھی۔ اے این پی، جوتحریک کواپنے سیاسی وجود کے لئے خطرہ سمجھتی ہے، کے بائیکاٹ کے باوجود نوجوان اوردانشوروں کی بڑی تعداد کسی نہ کسی  طرح جلسے کی تیاری میں پیش پیش رہی۔ نوجوان دانشورپارٹی کی طرف سے ھدایت کونظراندازکرتے ہوئے جلسے میں جوش وخروش کے ساتھ شریک ہوئے۔ جبکہ چندبڑے دانشورجیسے افراسیاب خٹک اوربشری گوہر، ایمل خان کی دھمکی کی وجہ سے شریک  نہ ہوئے۔ البتہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنمااورکارکن نہ صرف اس کیلئے تندھی سے کامکرتے رہے بلکہ تقاریربھی کیں۔ فاٹا اوربلوچستان سے کئی نوجوان ہفتہ پہلے ہی پشاورمیں پڑاوڈالے ہوئے تھے اوراس مہم میں شریک تھے۔ جلسہ سے زیادہ اہم اس کیلئے عوامی موبلائزیشن تھی جوتقریباپندرہ دنوں سے گلی کوچوں، محلوں اورتعلیمی اداروں میں جاری رہی۔ خواتین اورنوجوان لڑکے اورلڑکیوں  نے پشاور اوراسکے اردگردکے قبائلی علاقوں، سوات،مالاکنڈ، مردان، صوابی، چارسدہ، نوشہرہ سے لے کرباجوڑ، خیبراورمہمند ایجسنی میں مہم چلائی اوراجلاس منعقدکئے۔ جلسے میں کوئٹہ اورژوب سے لے کرفاٹا، سوات اوردیگرعلاقوں سے قافلے پہنچے۔ ایک جشن اورمسرت کے ساتھ لاپتہ افراد کے لواحقین کے غم والم سے ملاجلاماحول پیدا ہوا۔ البتہ نوجوان بہت ہی پرجوش دکھائی دئے۔ دا سنگہ آزادی دا یعنی یہ کس قسم کی آزادی ہے؟ کانعرہ اورترانہ جلسہ کاکائمکس کہلایاجاسکتاہے۔

تجزیہ نگار ضیاء الرحمن کہتے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات ایک طرح سے پشتون خطے میں جنگ بندی کے لیےہیں۔ یہ طالبان اورفوجی آپریشنوں سے تنگ عوام کی صدا معلوم ہوتی ہے۔پی ٹی ایم کی تحریک پردباوبڑھتاجارہاہے اوراس کی بڑی وجہ اس کی مقبولیت ہے جس سے سیاسی جنتا اوراسٹبلشمنٹ دونوں پریشان ہیں۔  جب پشاورجلسہ کی تیاریاں جاری تھیں، اسی دوران آرمی چیف نے نقیب اللہ محسود کے والد سے وزیرستان میں ملاقات کی۔ نقیب اللہ محسود کے بچوں کوگودمیں لئے آرمی چیف کی تصویروائرل بھی ہوئی۔ اس سے قبل آرمی چیف نے لنڈی کوتل میں قبائلی عمائدین کے اصرارپروعدہ کیا کہ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث سابق ایس ایس پی ملیرراؤانوارکوتلاش کرلیا جائے گا۔ اورچند ہی دن بعد  وہ عدالت میں پیش ہوئے۔ ان اقدامات کامقصد عوامی سطح پرتحریک کے مطالبات کی طرف مثبت اندازمیں پیش رفت کاپیغام دیناتھا۔ آرمی چیف کایہ بھی کہناہے کہ فاٹااصلاحات کی جائیں گی۔ ریاست کے ایک حصہ کارحجان بھی اس طرف ہے کہ ایک نیاعمرانی معاہدہ کیاجائے اورازسرنومعاملات طے کئے جائیں کیونکہ پرانے معاہدے ملک میں امن وامان بحال کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ یوں اسٹبلشمنٹ کا خیال ہے کہ ملک میں اٹھنے والی تحریکوں کومحض دبانے سے کام نہیں چلے گابلکہ اس کوآئینی سطح پرحل کرنابھی ضروری ہے۔ اس طرح انسدادبغاوت اقدامات سے پشتون تحفظ تحریک، بلوچ اورسندھی نوجوانوں میں پیدا ہونے والی بےچینی کاتدارک ممکن ہے۔ دوسری طرف عوامی تحریکوں کی بدولت قوم پرست پارٹیاں جیسے اے این پی اورنیشنل پارٹی کوبےحدنقصان پہنچاہے اوران کی مقبولیت کودھچکاپہنچاہے۔

اے این پی کھل کرپشتون تحفظ تحریک کےخلاف میدان اتری اور اب وہ نوجوانوں  میں اپنا اثرکھوتاہوامحسوس کررہی ہے۔ اے این پی پشتون خطے ،جیسا کہ سوات میں فوجی آپریشن کاکریڈت لیتی رہی ہے اورہرجگہ فوجی آپریشن کی حامی رہی ہے، جبکہ پشتون تحفظ تحریک بنیادی طورپراپنے ابتدائی ایجنڈے کے نکات کے تناظرمیں جنگ مخالف تحریک کی شکل میں ابھری ہے اوراسی وجہ سے عوام میں مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ اس سے قبل عمران خان کی طرف سےامریکی ڈرون حملوں اورنیٹوسپلائی کے خلاف دھرنوں میں پشتون عوام نےبڑھ چڑھ کرحصہ لیاتھا اورایم ایم اے کی امریکہ کے افغانستان میں مداخلت اورقبضہ کے خلاف تحریک کانتیجہ یہ نکلا کہ پشتون قوم پرست کنارے لگادئے گئے جوکہ امریکی جنگ کے حامی تھے۔ان تحریکوں اورموبلائزیشن کے باعث 2002اور20013 کے انتخابات میں اے این پی کوشکست کاسامناکرناپڑا۔ البتہ موجودہ تحریک کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بلوچ عوام کے خلاف فوجی آپریشن کی حامی محمودخان اچکزئی کی پشتونخواملی عوامی پارٹی  کے کارکن اوررہنمازیادہ سرگرم ہیں۔ یوں یہ ایک طرف فوجی آپریشنوں کی حامی ہے اوردوسری  طرف موقع پرستی کاثبوت دیتے ہوئے پشتون تحفظ تحریک کے اس طرح کھلم کھل حامی  بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پشتونخوامیپ کی حکومت کواسٹبلشمنٹ نے نوازشریف کاساتھ دینے کی وجہ سے ختم کیاہے۔ یوں اس کے رہنمااس تحریک سے فائدہ اٹھارہے اوراس کواسٹبلشمنٹ مخالف بناکراپنے مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔ اس طرح یہ تحریک نوازشریف کیلئے سودمندثابت ہورہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ پربڑھتےدباؤ کودانشورملک میں جمہوریت کے لئے جدوجہد کے طورپربھی دیکھ رہے ہیں۔ یوں یہ تحریک دودھاری تلوارکے طورپرسامنے آرہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کے حامی میڈیا اس میں فوج پرتنقید کواپنے مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ اس طرح ایک بہت بڑے حلقے کے نزدیک پشتون تحفظ تحریک جہاں اسٹبلشمنٹ پردباوبڑھانے کاذریعہ ہے وہاں یہ افغانستان میں امریکی جنگ اورقبضہ کیلئے بھی ان معنوں  میں معاون ہے کہ یہ فاٹا میں فوج کے اثرونفوذ کم کردے گی، اس پرتنقید بڑھائے گی اوراچھے طالبان کے ٹھکانے ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ تحریک میں علی وزیرجیسے لیڈربھی شامل ہیں جو اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں  اوطالبان کے شدید مخالف بھی۔ منظورپشتین کے برعکس، علی وزیراورمحسن داوڑدونوں پشتون قوم پرستی  میں رہنے کی وجہ سے قوم پرستانہ جذبات رکھتے ہیں اورڈیورنڈ لائن کے آرپارپشتون یکجہتی پریقین رکھتے ہیں۔ اس طرح کے رحجانات کی وجہ سےپاکستانی فوج کے تحفظات میں اضافہ بھی ہورہاہے۔ کیونکہ منظورپشتین کے لہجے میں جارحانہ پن بڑھ رہاہے او بالخصوص پشاورجلسہ میں یہ اپنے عروج پرتھا۔ اگرچہ اب وہ یہ کہتےہیں  کہ ان کے مطالبات آئینی ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے جلسہ سے قبل جہاں منظورپشتین کو”ونڈرفل بوائے” قراردیا، وہاں اس کے بارے میں کچھ تحفظات کااظہاربھی کیا۔

ابھی تک پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے کھل کر  پشتون تحفظ تحریک کے خلاف اقدامات کیے ہیں  اورنہ ہی اے این پی نے اس کی سخت مخالفت  کی ہے۔ لیکن پشتونخوامیپ کو اس تحریک نے وادئ پشاوراورسمہ سمیت مالاکنڈ ڈویژن میں کام کرنے اورقدم جمانے کے مواقع فراہم کردیے ہیں۔ اس کے رہنما اورکارکنوں نے اے این پی کی تحریک سے دوری کوموقع غنیمت جان کرعوام اورکارکنوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ لیکن بذات خود تحریک ابھی تک غیرسیاسی ہونے پربضدہے۔ اس کے رہنماوں نے مولاناسمیع الحق کے مدرسے حقانیہ میں جاکرعلماء سے لے کرعمران خان اوراسمبلی کے اسپیکرتک سے ملاقاتیں کیں اوران کوجلسے میں شرکت کی دعوت دی۔

منطورپشتین نے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں کراچی اورسوات سے لے  کرلاہورمیں جلسے کرنے اوراسلام آباد میں ایک بارپھردھرنے کااعلان کیا۔ منظورپشتین نے ہرفوجی آپریشن کانام لے کراس کے خلاف اسی نام سے ایک احتجاجی جلسے کا بھی اعلان کیا۔ اس میں سب سے اہم لاہورمیں ردالفسادکے نام سے جلسہ کااعلان ہے۔ اس آپریشن کااعلان موجودہ آرمی چیف نے چارج سنبھالنے کے بعدکیاتھا جس کاٹارگٹ شہروں میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کاخاتمہ کرناہے تاکہ ملک کے شہری علاقوں کومحفوظ بنایاجاِئے۔ لیکن اس آپریشن کے نتیجہ میں پنجاب کے شہروں میں پشتون طلبہ اورکاروباریوں پروارکیاگیا اوران کے خلاف بازاروں اورتعلیمی اداروں میں تعصب پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے خلاف سوشل میڈیا پرجوابی مہم بھی چلائی گئی۔ لگتاہے لاہورمیں جلسہ کامقصد شہرمیں مڈل کلاس پشتون طلبہ اورکاروباریوں کے مفادات کا تحفظ کرنا  اورانتظامیہ کوخبردارکرناہے کہ وہ پشتون مڈل کلاس کے تاجروں اورطلبہ پرحملہ آور  ہوں اور نہ ہی ان کوبے یارومددگار سمجھاجائے۔

تاہم تحریک ابھی کئی تبدیلیوں سے گزرے گی۔ اس میں مختلف الخیال اور متضاد نظریات ک مالک  لوگ موجود  ہیں۔ اگرچہ ابھی تک منظورپشتین نے دیہی غریب کے جنگ مخالف  نعروں کے گرد عوام کواکٹھا کیاہے لیکن اس میں مڈل کلاس کے وہ افرادبھی شامل ہیں جوفاٹااصلاحات اورسی پیک جیسے منصوبوں کو اہم سمجھتے ہیں۔ اس میں ایسے افراد  بھی شامل ہیں جوجنگوں سے متاثرہیں اوران کاخاتمہ چاہتے ہیں اور ایسے بھی جوپاکستانی فوج کے آپریشنوں پرتحفظات رکھتے ہیں لیکن امریکی جنگ کے حامی ہیں۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...