نورین لغاری کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے

1,076

ملالہ تمھیں پاکستان سے باہر رہ کر ہی اس قوم کے طعنے برداشت کرنے چاہیں کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت لینے والی نورین لغاری کا جرم معاف ہو سکتا ہے اس کو تو نئی زندگی بھی مل سکتی ہے تمھیں نہیں

داعش سے تعلق رکھنے والی حیدر آباد کی 19 سالہ نورین لغاری ان خوش قسمت افراد میں سے ہے جنہیں فورا معافی دے دی جاتی ہے اور پھر ایسے افراد کا امیج بہتر کرنے کا بیڑہ بھی اٹھایا جاتا ہے ۔ حال ہی میں ایک چینل کی اسکرین پر ایسا ہی ہوا ۔ ایک چھوٹے سے مجرم کو بھرپور سزا دلوانے میں ہمارے ادارے قوم کے جذبات سے کھیل کر بلند بیان بازی کرتے ہیں لیکن دہشت گردوں کو راہ فراہ دینے میں جس فراخ دلی کا مظاہرہ ہوا افسوس ناک ہے ۔ نورین لغاری کو 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب لاہور کی ایک کالونی سے گرفتار کیا گیا ۔ نہ تو اس کے بعد اس سے کی گئی تفتیش منظر عام پر آئی اور نہ ہی کہیں گرفتار دہشت گردوں کے خلاف کوئی مقدمہ عدالت میں زیر سماعت آیا ۔ ایک مختصر ویڈیو جاری کی گئی جس میں نورین لغاری اپنے جرم کا اعتراف کرتی ہے اور سزا معاف ۔ نورین کو دہشت گردوں کی سہولت کار بھی نہیں سمجھا گیا ۔ اب نورین لغاری ہماری نبض پکڑنے کے لئے تیار کی جا رہی ہے ۔ پیغام دلوایا گیا ہے کہ اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے وہ جلد ڈاکٹر بنے گی ۔ انشاء اللہ ، نورین کے حالیہ انٹرویو کو دیکھ کر لگتا ہے ایک معصوم لڑکی خلافت لینے کے لئے ہجرت کرتی ہے اور دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئی ۔ دو ماہ تک وہاں رہی اور پھر ایک ایسا آپریشن ہوا جس سے اسے نئی زندگی مل گئی ۔ نورین کے والد پروفیسر جبار بھی نورین کی گرفتاری کو سراہتے ہوئے تربیت یافتہ غازی جوانوں کو شاباش بھی دیتے ہیں کہ دہشت گرد ٹھکانوں تک کوئی دن کو نہیں جاتا یہ کیسے رسائی حاصل کر کے کامیاب آپریشن کرتے ہیں ۔ پروفیسر صاحب ، یہ کوئی عام لوگ نہیں ہیں انہیں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے اور وہ خود اس فیلڈ کا چناو کرتے ہیں ، اور ہمیں تحفظ دینا ہی ان کا فرض ہے ، آپ کیوں اتنے حیران ہیں ؟ نورین کی گرفتاری کے لئے جو لفظ استعمال ہوا وہ تھا‘‘ بازیابی ’’ جو عموماً کسی اغوا شدہ یعنی مغوی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس لفظ کا استعمال ناظرین کے دل میں نرم گوشہ لانے کے لئے کیا گیا حالانکہ نورین نے خود بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے اس تنظیم میں شامل ہوئی ۔ فرض کریں ، نورین خود نہیں گئی اسے 10 فروری کو اغوا کیا گیا ، پروفیسر جبار کی جگہ کوئی بھی والد ہو پہلے وہ خود تحقیق کرے گا ، اپنی بیٹی کو رشتہ داروں ، سہلیوں کے گھر تلاش کرنے کے بعد اسپتالوں میں دیکھے گا کوئی سراغ نہ ملنے پر گمشدگی یا اغوا کی پولیس رپورٹ درج کروائے گا ، اور پولیس رپورٹ درج کروانا بھی ہمارے نظام میں کوئی زیادہ آسان نہیں ، لیکن کتنے والدین ہیں جن کی پنہچ اپنی بیٹی کی بازیابی کے لئے چیف آف آرمی اسٹاف ، ڈائریکٹر جنرل ملڑی انٹیلی جنس تک ہے ، پروفیسر جبار کا بھولپن بھی اپنی بیٹی سے کم نہیں ، گھر میں دہشت گرد پلتی رہی ، انہیں معلوم نہ ہوا ،  3 روز کی تلاش کے بعد نورین لغاری کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج ہوتی ہے اور پھر وطن عزیز کے مضبوط اداروں کے اہم ترین افسروں تک آسان رسائی ، ان کا اپنا کردار بھی مشکوک کر رہی ہے ۔ دہشت گرد نورین بازیاب ہوتی ہے گرفتار نہیں ، معاف بھی کر دی جاتی ہے صرف اسے نہیں بلکہ پورے خاندان کو نامعلوم مقام پر رکھ کر اب تک تحفظ دیا جا رہا ہے ۔ ناظرین کو بغیر ایڈریس بتائے پیغام دلوایا جاتا ہے کہ نورین کے والدین گھر چھوڑ کر کہیں نہیں گئے ۔ لوگ پریشان ہونا چھوڑیں ، پھر نورین وعدہ کرتی ہے کہ وہ واپس اپنے گھر جا کر تعلیم مکمل کرے گی کیونکہ داعش اس کی توقعات پر پوری نہیں اتری اور جو اعتماد اسے داعش پر تھا وہ ٹوٹ گیا ہے ۔  اب نورین کو اور اس کے گھر والوں کو تنگ کرنا بھی چھوڑ دیں غلطیاں ہر کسی سے ہو جاتیں ہیں ، آخر میں نورین قوم کی بیٹی بن کر پیغام دیتی ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ویب سائیٹس بند کرے  ۔ نورین ایک دہشت گرد ہے اور دہشت گرد کی  بیوی رہی ۔ نورین سے شادی سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا گیا ۔ اس انٹرویو سے ایک اور بات واضح ہوئی کہ نورین اور احسان اللہ احسان ایک ہی ڈرائنگ روم کے مہمان ہیں ۔ نورین لغاری اور احسان اللہ احسان اس وقت اس بچے کی مانند ہیں جو ماں کے پیٹ سے نکلے ہیں ۔ ہماری قوم ، نورین اور احسان اللہ احسان کو بھول چکی ہے ایک مانا ہوا دہشت گرد اور دوسری اس تیاری میں تھی ، اس مضحکہ خیز بیان نما سطحی انٹرویو کے بعد میرا دھیان ملالہ کی طرف چلا گیا ۔  ہماری قوم ملالہ یوسفزئی کو غیر ملکی ایجنٹ کہتی ہے یا اسے اسلام کے خلاف کی گئی کسی سازش کا حصئہ سمجھا جاتا ہے ۔ کبھی وہ کسی معلون کے ساتھ تصویر میں دکھائی دیتی ہے تو کہیں اس کی تصویر سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ واقعی ایجنٹ ہے  کھبی اسے لڑکیوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دلوانے کے لئے سفیر نہیں سمجھا گیا ، اسے کوئی ایوارڈ ملے تو فورا سوال اٹھتا ہے کہ آخر سب بچیوں پر ایسی توجہ کیوں نہیں دی گئی جو ملالہ کو دی جاتی ہے ، یہ توجہ اسے اپنے ملک میں تو نہ مل سکی ۔ ملالہ پر جتنے بھی الزام لگائے گئے اب تک ثابت نہیں ہو سکے لیکن اس کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے ہمارے اداروں نے اس کا کوئی خصوصی انٹرویو نشر نہیں کروایا ۔ یہاں اس کی زندگی خطرے میں ہے ، ایک حملہ ہو چکا ہے کوئی اور حملہ نہ ہو جائے اس خوف سے وہ بیرون ملک مقیم ہے کیونکہ یہاں اسے ہمارے سیکورٹی ادارے تحفظ فراہم نہیں کر سکے ۔ ملالہ تمھیں پاکستان سے باہر رہ کر ہی اس قوم کے طعنے برداشت کرنے چاہیں کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کی تربیت لینے والی نورین لغاری کا جرم معاف ہو سکتا ہے اس کو تو نئی زندگی بھی مل سکتی ہے تمھیں نہیں

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...