سعودی عرب کی معاشی اصلاحات دینی اقدار کی قیمت پر نہیں ہونی چاہییں

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کا "تجزیات آن لائن" کو خصوصی انٹرویو

1,751

ڈاکٹر قبلہ ایاز  ممتاز علمی  شخصیت ہیں اور اس وقت اسلامی نظریاتی  کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں،آپ  نے1975 میں  پشاور یونیورسٹی سے  ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور اگلے ہی سال  اسی یونیورسٹی میں لیکچرار تعینات ہو گئے۔1980میں آپ ایڈنبرا  یونیوسٹی برطانیہ چلے گئے جہاں   سے آپ ” وسطی دور کے  مشرق وسطیٰ کی  تاریخ  وسیاست ” میں  پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے1985میں واپس وطن لوٹے اور  دوبارہ پشاور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے ۔ 2013 تک  پشاور یونیورسٹی میں  شعبہ علوم اسلامیہ کے چیئرمین رہے  اور پھر  یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے  رہے ۔8 نومبر2017  کواگلے تین سال کے لیے  اسلامی نظریاتی کونسل  کے چیئرمین مقرر ہوئے۔

گزشتہ روز تجزیات  آن لائن کی ٹیم نے ان سے ایک مکالمہ کیا  جس میں  ملکی  و  بین الاقوامی  امور بالخصوص مسلم دنیا  کے مسائل  پر ان کی رائے لی گئی جس کا احوال قارئین کی نذر ہے۔

ادارہ تجزیات ڈاکٹر قبلہ ایاز کا ہمیں خصوصی وقت دینےپر بہت شکر گذار ہے۔

تجزیات:             سب سے پہلے تو  ہم آپ کو  نئے سٹیٹس  پر مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ صدر مملکت نے آپ کو وزیر مملکت کے  مساوی سٹیٹس دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز:        آپ کا بہت شکریہ،یہ اللہ کا فضل ہے  مجھ پر۔

تجزیات:چیئرمین شپ  تک رسائی کیسے ممکن ہوئی؟  کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ  اسلامی نظریاتی کونسل  کے چیئرمین  کا منصب سنبھالیں گے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         چیئرمین  کا تو کبھی نہیں سوچا تھا،دو سال قبل  مجھ سے ممبر شپ کے لیے رابطہ کیا گیا  تھا،پھر بعد میں  چیئرمین شپ کے لیے وزارت انصاف و قانون کی نظر مجھ پر پڑی اور8 نومبر2017 سے میں نے یہ منصب سنبھال لیا۔

تجزیات:              ابھی  دو دن قبل آپ کی امریکہ سے واپسی ہوئی، یہ دورہ ذاتی نوعیت کا تھا یا  کونسل کی طرف سے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         نہیں،یہ کونسل کی طرف سے نہیں تھا، بلکہ ہر سال  اقوام متحدہ کی جانب سے خواتین کے حقوق سے متعلق یہ پروگرام امریکا میں  ہوتا ہے ،اس دفعہ افریقہ میں عورتوں سے متعلق مخصوص قسم کی رسوم زیر بحث آئیں جن میں خاص طور پر  افریقہ میں رائج  بچیوں کے ختنہ کی رسم ہے۔

تجزیات:              کونسل  کی آئینی حیثیت کے بارے میں بھی  عموماً ایک  سوال اٹھتا ہے کہ جب اس کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہوتا  تو پھر ادارے کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         آپ کی بات درست ہے،اس معاملے میں،ہماری مقننہ کی طرف سے کوئی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں ہوا،  دوسری طرف جب  ہم اپنی صفوں کو بھی ٹٹولتے ہیں تو نظر یہ آتا ہے کہ  ہماری سفارشات   ایک رپورٹ یا  بیانیہ ہوتی ہیں، وہ کہتے ہیں قانون بنانا  ہماری ذمہ داری نہیں  بلکہ قانون پاس کرنا ہماری ذمہ داری ہے،چونکہ کونسل کی رپورٹس قانونی زبان میں نہیں ہوتیں   اس لیے یہ سفارشات ، سفارشات ہی رہتی ہیں۔

تجزیات:              اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ  کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونے کی ذمہ دار خود کونسل ہی ہے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         ایک حد تک کونسل کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن  بنیادی طور پر یہ کام  منسٹری آف لا ءکا تھا کہ وہ  ہماری سفارشات کو قانونی زبان  میں مرتب کرتی، لیکن اب ہم خود یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جو امور ہمارے ہاں زیر بحث آئیں  ان کو صرف بیانیہ  کی شکل میں مرتب نہ کریں بلکہ قانونی زبان  میں بل کی شکل میں ترتیب دیں تاکہ انہیں اسمبلی سے پاس بھی کروایا جا سکے۔

تجزیات:              آپ کے اس منصب پر آنے کے بعد کونسل نے کون سے اہم قوانین   پر کام کیا؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز         : ہم نے کچھ بلوں پر کام کیا ہے  جن  میں سے تین انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ایک تو خواجہ سراوں کا مسئلہ  تھا،دوسرا غیر مسلموں کے لیے قومی پالیسی  اور اس کے ساتھ کم عمری  میں شادی کے مسئلے پر غور و خوض کے لیے ہم نے کمیٹی بنائی ہے۔ خواجہ سراوں  کا مسئلہ یہ تھا کہ انہیں وراثت وغیرہ جیسے حقوق کے لیے اپنے آپ کو  مرد یا عورت ثابت کرنے کے لیے میڈکل   رپورٹ دکھانا لازمی تھا،ہم نے یہ سفارش کی ہے کہ  جن  میں  عورتوں  کی علامات غالب ہیں انہیں   زنانہ اور جن میں مردوں  کی علامات غالب ہیں انہیں مردانہ حیثیت دی جائے،حج ان کا حق ہے،وراثت ان  کا حق ہے اس لیے ان کی اپنی  بیان کردہ حیثیت کو تسلیم کیا جائے اور میڈیکل رپورٹ لازمی قرار دے کر انہیں مشکل میں نہ ڈالا جائے۔اسی طرح غیر مسلموں کے  حقوق  بارے میں بھی ہماری قومی پالیسی نہیں ہے،ان کی عبادت کے لیے اور الگ سے عبادت گاہوں کے لیے73  کے آئین کے مطابق حقوق پر عملدرآمد کی سفارشات ہم نے مرتب کی ہیں۔رہی بات کم عمری میں شادی کی تو اس پر مختلف اسلامی ممالک میں بل پاس ہو چکے ہیں، جیسے مصر اور ترکی وغیرہ،ہمارے ہاں بھی ایک بل آیا ہے لیکن ہم نہیں چاہتے  تھے اسے جلدی میں پاس کیا جائے،بلکہ  پاکستانی معاشرے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کی  رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی ہم اس موضوع پر اگلا اجلاس بلائیں گے۔

تجزیات:              پیغام پاکستان  کے آنے والے بیانیے کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا،کیا اس کے کچھ اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوئے؟ باہر کی دنیا میں یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ اس فتویٰ کو پاکستان تک ہی کیوں محدود رکھا گیا؟جیسا کہ افغان صدر اشرف غنی  نے بھی  یہ سوال اٹھایا تھا۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز:          جہاں تک فتوی کے اثرات کی بات ہے تو وہ بالکل ظاہر ہو رہے ہیں اور  اسے  اب صوبائی سطح پر بھی متعارف  کروایا جا رہا ہے، جس سے اس کے اثرات  دور تک پھیلیں گے۔ رہی یہ بات کہ اسے پاکستان تک کیوں محدود رکھا گیا  تو اس کی    وجہ  یہ ہے کہ  آج کا   دور  قومی ریاستو ں کا دور ہے، ایسے میں ہم ساری دنیا کے لیے لائحہ عمل نہیں بنا سکتے،ہاں یہ ہو سکتا ہے  کہ باقی دنیا بھی ہمارے تجربات سے استفادہ کرے،اس فتویٰ میں ایسی شقیں  موجود ہیں جن میں خودکش حملوں میں معاونت کو غیر اسلامی قرار دیا  گیا ہے ۔افغانستان  بھی ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اشرف غنی   کو اس فتویٰ کا خیر مقدم کرنا چاہیے تھا،وہ چاہیں تو افغانستان کے علما کو بھی اس موضوع پر مکالمہ کی دعوت دے سکتے ہیں اور ہمارے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

تجزیات:              سعودی عرب میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         سعودی عرب  کی مذہبی پالیسی ان کی تاریخ سے منسلک ہے، آل سعود  اور آل شیخ  کی مشترکہ جدودجہد  سے سعودی عرب وجود میں آیا۔آج  حالات کے جبر کی وجہ سے تبدیلیاں آرہی ہیں ہیں جن  میں   سے بعض باتوں کا  تو خیر مقدم کرنا چاہیے جیسے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت  وغیرہ، لیکن کچھ باتوں کے بارے میں حتمی رائے تو  مکمل تفصیلات سامنے آنے پر ہی قائم کی جا سکے گی ۔تاہم دستیاب تفصیلات کے مطابق نیوم منصوبہ جسے سعودی عرب اس صدی کا سب سے بڑا  منصوبہ قرار دے رہا ہے،  اس کا ایک تو معاشی حوالہ ہے لیکن    یہ معاشی اصلاحات دینی اقدار کی  قیمت پر نہیں ہونی چاہییں۔

تجزیات:             سعودی ولی عہد نے حالیہ امریکی دورے کے دوران سعودی عرب سے اخوانی فکر کے خاتمے کا دعویٰ کیا ہے،آپ کی نظر میں اس دعوی ٰمیں کہاں تک صداقت ہے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         مشرق وسطیٰ  سے اخوانی فکر کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اس فکر کی  جڑیں  بہت گہری ہیں، وجہ  یہ ہے کہ وہاں  ستر اسی سال  پہلے اسلامی فکر کا خلا تھا،وہ لوگ قوم پرست یا سیکولر تھے، اسلامی فکر کا خلا  اخوان المسلمین  نے پر کیا  اور پورے خطے  میں پھیل گئے،اس لیے میں سمجھتا ہوں  کہ اخوانی فکر کے خاتمے کی سعودی پالیسی بعد از وقت ہے،یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔

اس کا حل  یہ  ہے کہ  جس طرح تیونس میں  شیخ راشد الغنوشی  نے اپنی جماعت النھضہ  کو  وقت کے مطابق تبدیل کیا،اسی طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ  آج   کا  دور ٹکراؤ  کا نہیں بلکہ تعامل کا ہےاور معیشت کو مضبوط کرنے کا ہے۔تجارت اور تعلیم میں کمال حاصل کرنے کا ہے،  جب  آپ ان  میدانوں میں ترقی کریں گے تو دنیا میں آپ کا احترام ہو گا۔ ا خوانی فکر کی وجہ سے ٹکراؤکی ایک  کیفیت بن گئی ہے جس کی وجہ سے دینی طبقہ بحران سے گزر رہا ہے۔

تجزیات:              اس وقت  مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک شام اور یمن میں جنگ زوروں پر ہے،دونوں میں  کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         دونوں ملکوں میں اس وقت پراکسی وار جاری ہے،یمن کے حوثی زیدی شیعہ ہیں جنہیں  ایران کی طرف سے مدد مل رہی ہے،سعودی  عرب  کبھی نہیں چاہےگا  کہ اس کے پڑوس میں  ایران کے حامیوں کا غلبہ ہو، اس لیے  عرب اتحاد کے ساتھ مل کر وہ باغیوں پر حملہ آور ہے۔جبکہ شام میں اکثریت  سنیوں کی ہے اور  حکومت  علوی نصیریوں  کی ہے، وہاں اخوانی فکر کی وجہ سے  مسلح جدوجہد کے ذریعہ تبدیلی کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی،بہتر تھا  کہ وہ تعلیم،مسجد اور اصلاحی تحریکوں کے ذریعے غیر مسلح جدوجہد کرتے۔اس صورت میں  شام کی صورتحال قطعاً وہ نہ ہوتی جو آج ہمیں نظر آرہی ہے۔

یمن  اور شام دونوں  تاریخی علاقے ہیں، ان کی تاریخ بہت قدیم ہے،  عرب پہلے یمن میں آباد ہوئے تھے،اس کے بعد مکہ اور مدینہ گئے،  اسی طرح شام کو بھی انبیا ء علیہم السلام کی سرزمین کہا جاتا ہے۔حضرت ابراہیمؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر یہاں  آئے تھے لیکن   خانہ جنگی  نے ان تمام تاریخی علاقوں کو تباہ کر دیا ہے۔ داعش نے تو  ہر تاریخی نشان کو مٹا  کر رکھ دیا، بغداد کتنا خوشحال تھا؟ لیکن آج عراق اور لیبیا کا تیل امریکہ کو جا  رہا ہے۔

تجزیات:              شام ہی کے دوسرے حصے عفرین میں اس وقت ترکی کی جانب سے  شاخ زیتون آپریشن جاری ہے،ترکی کے اس اقدام کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         ترکی کا طرز عمل ناقابل فہم ہے،لگتا ایسا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں ایک جارحانہ خارجہ پالیسی  اپنے حق میں بہتر سمجھتا ہے،بہتر ہوتا کہ  ترکی اپنے آپ کو  جنگوں سے بچا کر اپنی معیشت  پر توجہ  دیتا اور اسےمزید بہتر بناتا۔ ترکی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ  معاشی طور پر بہت آگے جا سکتا ہے لیکن  جنگیں تو معیشت کو کھا جایا کرتی ہیں۔ اگر ترکی  جنگ میں الجھنے کے بجائے اپنی معیشت  پر فوکس کرتا تو وہ  عالم اسلام کا” چین”   بن سکتا تھا۔

تجزیات:              مسلم ممالک  کے  باہمی  تنازعات و خلفشار کے بعد امت مسلمہ کے تصور کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے؟متحد ہونے میں کیا رکاوٹیں حائل  ہیں؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         سب سے بڑی رکاوٹ  تو ہماری فرقہ وارانہ تقسیم ہے،اس وقت شام،یمن اور عراق میں جو خانہ جنگی چل رہی ہے اس کے پیچھے یہی فرقہ واریت استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی  پرو سعودیہ اور پرو  ایران طبقات ہیں،بحرین میں بھی اسی وجہ سے ایک  بڑا تناؤہےکہ وہاں کی اکثریت شیعہ ہے اور برسراقتدار سنی ہیں،پاکستانی فوج بھی اس میں  انوالو رہی ہے۔دوسری رکاوٹ  قومی مفادات میں یکسانیت کا  نہ ہونا ہے۔جن ممالک  میں انڈیا کے لوگ زیادہ کام کر رہے ہیں وہ انڈیا کو ناراض نہیں کر سکتے۔ملائشیا میں بھی  کثیر تعداد میں ہندو پائے جاتے ہیں، اس لیے  ملائشیا  پرو  پاکستان پالیسی نہیں بنا سکتا۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ  ان وجوہات کی بنا پر مسلم ممالک  آپس میں تعاون نہیں کر سکتے۔تعاون کے لیے بہت سے میدان کھلے ہیں۔ بطور مثال ہم تعلیم کا میدان لے سکتے ہیں ۔اچھی  اور بین الاقوامی معیار کی جامعات قائم کریں، آپس میں تجارت کو فروغ دیں، پاکستان کے پھل،سبزیاں ان ممالک میں برآمد کی جا سکتی ہیں، ہم انڈسٹریاں  قائم کر سکتے ہیں اور ویزے کی سختیاں کم کر سکتے ہیں۔

تجزیات:              قارئین تجزیات کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز:         میرا پیغام یہی ہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، یہ   بعد از عالمگیریت کا دور ہے،اس کے تقاضوں  کو سمجھنے ضرورت ہے، روح عصر کو  سمجھ کر چلنے سے ہی ہم معاشرے میں کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...