کراچی کی سیاست اورایم کیوایم

1,224

ایم کیوایم میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد کراچی میں سیاسی خلاء پایاجاتاہے جسے ایم کیوایم سمیت دیگرپارٹیاں پُرکرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایم کیوایم پاکستان کی قیادت سے ڈاکٹرفاروق ستارکومحروم کردیاہے، یوں عامرخان کی قیادت میں قائم بہادرآباد گروپ کوقانونی طورپرایم کیوایم پاکستان تسلیم کیاگیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے دیکھاجائے توفاروق ستار کی لیڈرشپ پرسینٹ الیکشن میں ناکامی نے مہرثبت کردی تھی۔ اگرچہ الیکشن سے قبل دونوں گروپوں میں ایک طرح کاعارضی صلح نامہ ہوگیاتھامگراس سے الیکشن کے نتیجہ پرخاطرخواہ اثرنہ پڑا۔ ایم کیوایم کی تین خواتین اراکین نے بغاوت کردی اورسارا الزام فاروق ستارپرڈال دیا۔ شازیہ فاروق ڈپریشن کا شکارہوئیں اوراس کاالزام بھی فاروق ستارپرآیا۔ ایم کیوایم پاکستان  اپنے سابقہ قائد اورتحریک کے روح رواں الطاف حسین سے قطع تعلق کے بعد سے عدم استحکام کاشکارہے جس کی وجہ سے  ایم کیوایم اب  کئی متحارب گروپوں میں تقسیم نظرآتی ہے۔ ماضی میں الطاف حسین کی شخصیت ہرچیز پرفوقیت رکھتی تھی اورتنقید سے بالاترتھی اور وہ ہرقسم کے فیصلوں  کے مجازسمجھےجاتے تھے۔

ایم کیوایم میں اختلافات  کراچی کے ایک بزنس مین کوسینٹ کاٹکٹ دینے سے ابھرےتھے۔ فاروق ستار  اپنے دوست کامران ٹیسوری کوسینٹ الیکشن کے لیے نامزدکرنے کے حق میں تھے جبکہ ایم کیوایم پاکستان کے سب سے طاقتورادارے رابطہ کمیٹی کے اراکین اوراہم اراکین عامرخان کی قیادت میں یہ ٹکٹ پارٹی کے پرانے ممبران میں سے ایک کو دینے  کے حق میں تھے۔ اس کشمکش نے دونوں کوالگ کردیاتھا۔ ایم کیوایم پاکستان کاایک دھڑا فاروق ستارکی قیادت میں ہے ، جس کاہیڈکوارٹرپی آئی بی کالونی ہے جبکہ دوسراگروہ  بہادرآبادمیں مرتکزہے۔فاروق ستارکئی ایک وجوہات کوسامنے رکھ کرکامران ٹیسوری کوسینٹ کاٹکٹ دینے کی وکالت کرتے تھے۔ ا سکی ایک وجہ تویہ ہے کہ کامران ٹیسوری ایک بہت بڑے کاروباری اوراثرورسوخ کے حامل ہیں۔ کامران نے ایم کیوایم پاکستان کوریاستی اداروں کے قریب لے جانے میں کرداراداکرتے ہوئے اس کے کئی دفاتربچائے اورریاستی اداروں سے اس کے کئی کارکن بازیاب کرانے میں کرداراداکیا۔ فاروق ستارکویہ بھِی امید تھی کہ اس کھڑے وقت میں ناصرف اس کی دولت پارٹی کواگلے الیکشن میں تقویت دے گی بلکہ اس کومڈل کلاس میں مقبول بھی بنائے گی۔ فاروق ستارنے ایم کیوایم کی پرانی رابطہ کمیٹی کوتوڑتے ہوئے نسبتاً نئے افرادپرمشتمل قیادت سامنے لائی تھی۔ اس نے پہلے ہی کامران ٹیسوری کوڈپٹی کنونئِر اوردیگراہم عہدوں پربراجمان کیاتھا۔ اس کے برعکس عامرخان کی قیادت میں پارٹی کے پرانے اورمنجھے ہوئے اراکین جمع ہیں۔ یہ لوئرمڈل کلاس کی طرف جھکاؤرکھتے ہیں۔ اس گروپ کایہ بھی خیال ہے کہ پارٹی کومڈل کلاس ووٹرزکوضرورمتوجہ کرناچاہیے مگراس کی جڑیں پرانی لوئرمڈل  کلاس میں پیوستہ رہنی چاہییں ۔ اس سے پہلے عامرخان کی قیادت میں اس گروپ نے فاروق ستارکی ان کوششوں پربھی پانی پھیردیاتھاجس میں اس نے کراچی کے سابق میئرمصطفیٰ کمال اورانیس قائم خانی کی قیادت میں قائم پاک سرزمین پارٹی سے الحاق اورایم کیوایم کے نام سے دستبرداری کی کوشش کی تھی۔ یوں عامرخان کی قیادت میں پرانی رابطہ کمیٹی مسلسل فاروق ستارکی کوششوں کے سامنے دیواربنتی رہی ہے۔ عامرخان اوران کے ساتھیوں کاخیال ہے کہ ریاستی جبرکی وجہ سے ایم کیوایم پاکستان نے اپنے قائد اورپارٹی کے بانی الطاف حسین سے تعلق توڑا۔ وہ اس فیصلے کوکسی حدتک قبول بھی کرتے ہیں لیکن بظاہرایسالگتاہے کہ یہ گروپ سمجھتاہے کہ ریاستی اداروں سے قربت کامطلب لوئرمڈل کلاس کی حمایت سے ہاتھ دھوبیٹھنا ہے کیونکہ یہی ایم کیوایم کی بنیادہے۔ فاروق ستاراورمصطفیٰ کمال مڈل کلاس کومتوجہ کرنے کی طرف مائل دکھائی دیتے ہیں۔

ایم کیوایم پاکستان میں اندرونی خانہ جنگی کافائدہ جہاں الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیوایم لندن کوہوسکتاہے ،وہاں پی پی پی، پی ٹی آئی اورکسی حدتک جماعت اسلامی بھی اس سے  اگلے الیکشن میں فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی اورآصف علی زرداری کوشش کررہے ہیں کہ ایم کیوایم پاکستان کی تقسیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے کچھ ارکان کواپنے ساتھ شامل کیاجائے اورسینٹ کے الیکشن میں اس سے فائدہ بھی اٹھایا۔ بنیادی عنصرریاستی اداروں کی طرف سے جاری آپریشن کی طرف رحجان اورموقف کے علاوہ الطاف حسین کی قیادت کوشروع سے درپیش چیلنجزاورخطرات ہیں جوآپریشن سے پہلے بھی ابھرتے رہے لیکن الطاف حسین کسی نہ کسی طرح ان کودبانے میں کامیاب رہے تھے۔ البتہ 22اگست 2016کوپاکستان کے خلاف  کی جانے والی ایک تقریرنے ایم کیوایم کو فاروق ستارکی قیادت میں الطاف حسین سے ناطہ توڑنے پرمجبورکیاگیا۔ فاروق ستارنے ایک پریس کانفرنس میں ہمیشہ کیلئے الطاف اوراس کی ایم کیوایم لندن سے تعلق توڑنے کااعلان کرتے ہوئے ایم کیوایم پاکستان کے قیام کااعلان کیاتھا۔ اس سے پہلے1992کے فوجی آپریشن میں بھی ایم کیوایم حقیقی سامنے آئی تھی۔ لیکن الطاف حسین کی قیادت کونقصان پہنچانے میں ناکام رہی۔ الطاف حسین اپنی قیادت کونقصان پہنچانے کی ہرکوشش کے پیچھے پاکستانی ریاستی اداروں کی سازش تلاش کرتے رہے ہیں۔ اب بھی ان کایہی موقف ہے۔ ان  کاخیال ہے کہ وہ ماضی کی طرح اس مرحلے سے بھی گزرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔فاروق ستارنے کوشش کی کہ کسی طرح رینجرزکے آپریشن، متحارب پی ایس پی اورپیپلزپارٹی کی حکومت کے پیش کردہ چیلنجزسے نبردوآزماہواجائے۔ لیکن ایم کیوایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے ان کوباربار زک پہنچائی اوران کوالطاف حسین کی طرح من مانے فیصلے کرنے  سے روکا۔

کراچی سمیت سندھ ہی نہیں پاکستان کی سیاست میں گزشتہ چاردہائیوں سے ایم کیوایم اہم کرداراداکرتی رہی ہے۔ اب تقسیم درتقسیم نے اس کے مستقبل کے کردارکے بارے میں شکوک وشہبات پیدا کردیے ہیں۔ ایم کیوایم کے مختلف گروپوں میں تقسیم کامطلب مہاجرکے نام پرپڑنے والے ووٹوں کی تقسیم ہے۔ مہاجرعوام خاص کرلوئرمڈل کلاس کے ووٹ کس طرف جاتے ہیں، اس کافی الحال اندازہ لگانامشکل ہے۔ کہاجاتاہے کہ فوجی آپریشن اورپروپیگنڈے کے باوجود مہاجرعوام میں الطاف حسین اب بھی مقبول ہیں۔ ایم کیوایم کی شکل میں مہاجرکے سرپرجوچھتری تھی وہ غائب ہوگئی ہے۔ کراچی اورسندھ کے مہاجرخود کواب لاوارث سمجھتے ہیں۔ جب سے ایم کیوایم میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی ہے، ایم کیوایم پاکستان ضمنی انتخابات میں کوئی خاص کارکردگی دکھانے سے قاصررہی ہے۔ دوسری طرف الطاف حسین کی ایم کیوایم لندن  اپنے  سب سے اہم لیڈر ڈاکٹرحسن ظفرعارف کےقتل پرکراچی میں سوگ بھی نہ مناسکی۔ ماضی میں ایم کیوایم شہرپرکنٹرول رکھتی تھی اوریہ شہرمیں کسی بھی وقت ہڑتال کرکے اسکوبند کرنے کی طاقت رکھتی تھی،لیکن اس کی طاقت دوامورپراستوارتھی۔ ایک لوئیرمڈل کلاس مہاجرعوام کی موبلائزیشن اوردوسرا اس کا دہشت گردگروہ۔ انہی دوعوامل کے بل بوتے پراس نے کراچی کے الیکشن اوراس کی سیاست پرگرفت مضبوط رکھی تھی ،لیکن اب حالات بدلے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...