ٹوٹی کمر والے دہشت گرد
سوال یہ ہے کہ داعش جیسی مذہبی شدت پسند تنظیم ایک ہم مکتب اور کم و بیش ہم خیال سیاسی جماعت جو پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ پر یقین رکھتے ہوئے آمادہ جہد بھی ہے پر کیوں و حشیانہ حملہ کیا گیا ہے؟
گزشتہ ہفتے بلوچستان میں دھشت گردی کے دو بھیانک واقعات نے معاشرے میں تشویش کی تازہ لہر دوڑا دی ہے۔ جبکہ دہشت گردی پہ قابو پا لینے یا ان کی کمر توڑ دینے کے دعوؤ ں پر بھی سوالات ابھر آئے ہیں۔
گوادر کے نواح میں مزدوروں پر ہو نے والے قاتلانہ حملے میں 9بے گناہ محنت کش انسان دہشت گردوں کی نفرت آمیز کارروائیوں کی نذر ہوئے۔ اس وحشیانہ کاروائی کے پیچھے کو ن سے عناصر ہیں ان کے کردار اور مقاصد سے صرف نظر کر کے بھی معاملات میں ملوث تمام اجزائے ترکیبی اور ان کے اہداف کو سمجھنا ممکن ہے۔ واقعہ کے دلخراش پہلو پر سماجی سیاسی رد عمل نے معاشرے میں انسانی اقدار کی موجود فعالیت کا اظہار کیا ہے تو دوسری طرف مسلح جہد کاروں کی اخلاقی سماجی سیاسی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے، دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس سانحے کے بعد ضلعی انتظامیہ نے لا قانونیت پر قابو پانے کیلئے اس ٹھیکیدار کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا ہے ۔ جو سرکاری منصوبے پر حکومتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے تعمیراتی فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھا۔
شاید ضلعی انتظامیہ اور امن امان قائم کرنے والوں کیلئے اصل ملزمان کی گرفت آسان نہ ہو یا پھر اس بلندی پرواز پر ان کے پیر جلتے ہوں ۔ مذکورہ واقعہ جو دلخراش سانحہ ہے گوادر کے نواحی علاقوں میں امن و عامہ کی مخدوش صورتحال عیاں کی ہے جہاں او بور کے تحت خطے میں سیاسی معاشی ریاستی کھیل بدلنے والے منصوبے یعنی سی پیک نے مکمل ہونا ہے کیا گوادر بندر گاہ کی فعالیت میں انفر ا اسٹریکچر کی نایابی کے ساتھ بدامنی کی مخدوش صورتحال مزاحمت نہیں کرے گی ؟
جہاں سے چند میل کے فاصلے پر واقع چار بہار بندر گاہ ، زمینی راہداریوں اور دیگر معاشی و معاشرتی ڈھانچے کی تکمیل پر امن طور پر جاری ہے!!!
گوادر بند گاہ کا عظیم منصوبہ اور سی پیک کے لوازمات شاہرا ہیں ریلوے لائن بجلی توانائی پانی اور پر امن سماجی ماحول کے قیام کیلئے صوبے کے عوام کے حقیقی منتخب نمائندوں کے ذریعے عوامی امنگوں کے تناظر میں درپیش صورتحال پیش رفتوں اور تقاضوں کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے محض گوادر کی بندر گاہ کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی سمت آتی جاتی OBORکی افادیت اہم تو ہوسکتی ہے مگر اس کی پر امن مستقل فعالیت کیلئے اہل بلوچستان کے حق ملکیت و تصرف و استفادے کو یقینی بنا ئے بغیر کسی سنہرے خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔
مستونگ میں جے یو آئی کے قافلے پر خود کش حملے نے صوبے کے امن و امان سے متعلق صوبائی اور مرکزی حکمران اداروں کے تمام دعوؤں کی نفی کی ہے، اس دھماکے میں 30کے قریب شہادتوں کے علاوہ کم و بیشتر 40افراد زخمی ہوئے ، اہم واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ حملہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے قافلے اور اس کے مرکزی رہنماء پاکستان سینٹ ( ایوان بالا ) کے ڈپٹی چیئر مین مولاناعبدالغفور حیدری پر ہوا ہے جس کی ذمہ داری داعش پاکستان نے قبل کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ داعش جیسی مذہبی شدت پسند تنظیم ایک ہم مکتب اور کم و بیش ہم خیال سیاسی جماعت جو پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ پر یقین رکھتے ہوئے آمادہ جہد بھی ہے پر کیوں و حشیانہ حملہ کیا گیا ہے؟
ہمارے سماج میں بالعموم دو معروف سیاسی دھارے شناخت کئے جاتے ہیں آزاد خیال جمہوری حلقہ یا مذہبی سیاسی جدو جہد کرنے والا دایاں بازو ، آزاد خیال جمہوری حلقے میں بائیں بازو کے عناصر تو موجود ہیں لیکن سرے دست ، اسے خالص بایا ں سیاسی بازو سمجھنا غلطی ہے تاہم اس حلقے کے متعلق کم از کم داعش کا رویہ ، ایسی مخاصمت پر استوار ہے جو کبھی بھی داعش اور اس کے نقطہ نظر کو قبول کرنے والا نہیں ۔ اس کے برعکس داعش اور اس کے اہداف میں جے یو آئی جو ، ماضی میں افغانستان میں مسلح جدو جہد کی سرگرم حامی اور طالبان کی سرپرست رہی ہے، لمحہ موجود میں بالخصوص پاکستان میں اس کا پر امن جمہوری جدو جہد کا نقطہ نظر ، ایسا آسان ہدف ہے جس پر شدید چوٹیں لگانے سے خود جمعیت اور وسیع تر معنوں میں دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں ، حلقوں کو مائل و مجبور کیا سکتا ہے کہ وہ داعش کے بازو اسلامی خلافت کے ماورائی تصور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں یہی وہ حلقہ ہے جو داعش کیلئے مستقبل میں ہم خیال عوامی بنیاد مہیا کر سکتا ہے چنانچہ اسے خوفزدہ کرنا مفید المغی ہو گا کیونکہ اس سے عمومی طور پر معاشرے میں یہ خوف بھی سرایت کرے گا کہ داعش اپنے ہم مکتب و نزدیک تصور ہونے والے مذہبی حلقے کو بھی اختلاف کے باعث نشانے پر رکھ سکتی ہے تو باقی سماجی حلقوں کیلئے اس کا رویہ کتنا بے رحمانہ ہو سکتاہے ؟
اسے سمجھنا مشکل نہیں چنانچہ میرے خیال میں داعش سرعت انگیز معاشرتی سرایت کیلئے شعوری طور پر جمعیت کو ہدف بنا رہی ہے تاہم اس کے اثرات افغانستا ن کی داخلی صورتحال پر بھی مرتب ہونگے جہاں افغان طالبان ، کابل حکومت کے ساتھ ساتھ داعش افغانستا ن کے خلاف بھی بر سر پیکار ہیں گمان ممکن ہے کہ طالبان (افغان ) جو اب جمعیت العلمائے اسلام (ف)سے خفا ہیں۔ پرانے تعلق اور مدرسی رشتوں و احترام کے زیر اثر مستونگ حملے کے رد عمل میں افغانستان میں داعش کیلئے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ آور ہوں !!! الجھے ہوئے معاملات کو مجموعی تناظر میں ہی سمجھا اور بیان کیا جا سکتاہے انہیں الگ الگ پر کھنے سے ابہام میں اضافے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
کیا داعش بالذات بلوچستان پاکستان کی حدود میں ایک خود مختار مسلح انتہا پسند تنظیم کے طور پر موجود ہے؟
میرا خیال ہے کہ داعش آسمان سے اترنے والی یا شام و عراق سے آنے والی تنظیم کے بر عکس مقامی سطح پر موجود مسلح مذہبی جتھوں کیلئے بدلتے ہوئے مخدوش حالات سے جنم لے رہی ہے مقامی سطح پر جیسے ٹی ٹی پی اور اس طرح کی تنظیموں کیلئے حالات مشکل ہو رہے ہیں یا ان کی قیادت منظر سے غائب ہو رہی ہے تو در یں حالات اس کے اثاثے اور ارکان کیلئے داعش کے دامن میں پناہ لینا ممکن ہو رہا ہے اس کے سا دہ معنی یہ ہوئے کہ پاکستانی حدود میں داعش کیلئے پہلے سے ہی اثاثے موجود ہیں ، ان اثاثوں کو کس نے کب کیونکر اور کس لئے جنم دیا ہے ؟ یہ سوال اپنی جگہ تلخ نوائی کا حوالہ سہی مگر ماننا پڑے گا کہ سماج اپنے سیاسی اور مذہبی بیانیے میں تاحال پر امن بقائے باہمی اور متنوع تکثریت کیلئے گنجائش پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ چنانچہ گوادر پسنی میں محنت کشوں کے قتل اور مستونگ خود کش حملوں کے واقعات کا وقوع پذیر ہوتے رہنا ، حریت انگیز نہیں ، البتہ تشویشناک اور انسانیت سوز بہر طور پر ہے!!!
فیس بک پر تبصرے