‘خود کھانا گرم کرلو’

1,926

رواں سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پرکراچی میں ‘عورت مارچ’ نکالاگیا۔ اس مارچ کا مرکز کراچی کا فرئیرہال تھا۔ پاکستانی خواتین ایک ایسے موقع پرعورت مارچ کے لئے جمع ہورہی تھیں جب صنفی جبرایک اہم موضوع کے طور پر دنیا کی توجہ حاصل کرچکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس جبرکے خلاف ہوری شدو مد کے ساتھ آواز آٹھانے کی کوششیں بھی منظرعام پرآرہی ہیں۔

 
اس عورت مارچ میں ایک پلے کارڈ نے بہت توجہ حاصل کی تو نہ صرف سوشل میڈیا پرشئر ہوا بلکہ اس نے اخبارات میں بھی جگہ پائی۔ اس پلے کارڈ پرلکھاتھا: ‘خود کھانا گرم کرلو’۔ اس نعرے کے توجہ حاصل کرنے کی کئی عمومی وجوہات ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تقاضا کسی بیرونی قوت سے زیادہ گھرکے مرد حضرات سے کیاجارہاہے۔ اورلامحالہ یہ مرد شوہر یا بھائی ہوسکتے ہیں۔ نیوکلیئر فیملی، جس میں ساس سسر، نند اورفیملی کے دیگرافراد سے کٹ کرشوہراوربیوی رہتے ہیں۔ یعنی دومیاں بیوی اوردوبچوں والا خوش حال گھرانہ۔ اس  صورت میں یہ تقاضا شوہرتک محدود ہوکررہ جاتاہے۔ توجہ کی دوسری وجہ ‘مثالی بیوی’ کے کردار سے انحراف کی طرف اشارہ ہے۔ اورروایات کواگرمدنظررکھیں تو یہ دراصل بہت ہی باغیانہ تصورکواجاگرکرتاہے، نہ صرف اپنی ہی فیملی سے بغاوت بلکہ اپنے شوہرسے بغاوت۔ لکھاری محمد خاکوانی لاشعوری طورپراس تصورکویوں پیش کرنے پرمجبورہیں: ‘میں تو اس حوالے سے خوش نصیب ہوں کہ مجھے ایک مثالی بیوی ملی ہے۔۔۔میں روزانہ رات گیارہ بارہ بجے تک گھر پہنچتا ہوں، کبھی تو ایک ڈیڑھ بھی بج جاتے ہیں۔ میری بیوی ہمیشہ جاگتی ملتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کھانا ہاٹ پاٹ میں رکھ کر سوجایا کرو۔ مگر اس کا اصرار بلکہ ضد کی حد تک اصرار ہوتا ہے کہ نہیں، میں آپ کو تازہ روٹی بنا کر دوں گی۔ تازہ گرم کھانا کھلانے کے بعد قہوہ بناکر دینا وہ کبھی نہیں بھولتی۔ رات کو تین بجے تک سونے کے بعد صبح سات بجے دھیمی آواز میں الارم کی آواز سے اٹھ کر چھوٹے بیٹے عبداللہ کو تیار کرا کر سکول پہنچا تی ہے، اس احتیاط کے ساتھ کہ آواز سے میری آنکھ نہ کھلے اور پھر واپس آ کر جو تھوڑی بہت نیند پوری ہو سکے، کرتی ہے۔’ بظاہریہ ایک ایسے گھرانے کی داستان لگتی ہے جس میں ایک پارٹنریعنی مرد کام کرتاہے اورخاتون خانہ گھرکی خانہ پوری کرنے کی ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ یوں سماجی طورپراس کوباجواز بنانے کیلئے یہ دلیل اختیارکی جاتی ہے کہ مرد بیرونی امورکا ذمہ دارہے اورعورت چاردیواری کی وزارت سنبھالے ہوئی ہے۔ لیکن قبائلی معاشرہ ہو یا زرعی، ایسا کہیں نہیں ہوتا جس کولبرل جوازبنا کرپدرسری نظام پرحملہ آورہوتے ہیں۔ دیہات اورقبائل میں خواتین پردہ نہیں کرتیں اوربہت سارا کام جیسے کھیتوں میں کام سے لے کرلکڑیاں جمع کرنا اورپانی لانا عورت کی ذمہ داریوں کاحصہ تھا۔ مگراس کے ساتھ ہی عورت گھرکے کام کاج کا اضافی بوجھ بھی برداشت کرتی تھی۔
 
یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ عورت، سماج میں دوسرے درجے کی شہری سمجھی جاتی ہے اوربطورصنف یہ جبرکی شکارہے۔ اس طرح ملک کی نصف آبادی کوبنیادی حقوق سے کسی نہ کسی شکل میں محروم رکھاگیاہے۔ قطع نظراس کے کہ ملکی پارلیمان اوربلدیات میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کی تعداد کتنی ہے اس مسئلہ کوسماجی طورپردیکھنا ہوگا۔ طبقہ اعلیٰ کی خواتین نے جاگیردارانہ ماحول میں گھرکے کام کاج اورکھانا پکانے کی زحمت گواراکی ہے نہ اب سرمایہ دارانہ دورمیں بڑے سرمایہ دار، بیوروکریٹس اوراعلی افسران کی بیگمات ایسا کرنے کی تکلیف گواراکرتی ہیں۔ یوں اعلی اشرافیہ کی خواتین ماضی اورحال، دونوں میں گھریلو کاکام کاج سے گلوخلاصی حاصل کرتی رہی ہیں۔ البتہ بطور’صنف’ یہ ہرحال میں ‘نصف’ ہی رہیں۔ اس طرح اسٹکچرل پابندی کی یہ عمومی شکاررہی ہیں۔ اگرآئینی قوانین میں عورت بطورصنف متاثرہوتی ہے تو اس کااطلاق عام نچلے درجے کی عورت کی طرح طبقہ اشرافیہ کی عورت پربھی لاگوہوگا۔ یوں صنفی جبر، طبقات کے آرپارعورتوں کوجوڑتانظرآتاہے۔ اسی طرح  بڑے ریاستی عہدوں جیسے وزارتِ عظمیٰ اورصدرات سے لے کراسمبلی سینٹ اورانتظامی امور جیسے فوج اورپولیس کی سربراہی سے عورت کو دوررکھنے کیلئے جدوجہد جہاں عورت کے عمومی حق کامسئلہ ہے وہاں یہ محض بہت ہی معمولی اشرافیائی اقلیت کامسئلہ نظرآتاہے نہ کہ ایک عام عورت کا۔
 
لیکن اس پلے کارڈ کے مشہورہونے کی وجہ اس کا مڈل کلاس گھرانوں کی پروفیشنل خواتین کے کردارسے ہے۔  ایک طرف بہت ہی بڑی پروفیشنل کلاس ہے۔ ان کی زندگی بہت بڑے سرمایہ داروں، کاروباریوں اور بیوروکریٹس گھرانوں جیسی ہے جنہوں نےاپنے پروفیشنل’شیف’ رکھے ہوئے ہوتے ہیں جوملکی اورغیرملکی کھانے پکانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ ان کے ساتھ سرونٹ کوارٹرزمیں رہتے ہیں۔ اوریہ ہردم تازہ دم کھانا پکانے اورگرم کرنے کے لئے حاضررہتے ہیں۔ یا پھردیرسے گھرجاتے ہیں۔ یوں بڑے پروفیشنل مڈل کلاس گھرانوں کے خواتین کواپنے مردوں کویہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ کھانا خود گرم کرلو۔
 
البتہ یہ پوسٹردرمیانے درجے کے پروفیشنل مڈل کلاس گھرانوں کی نمائندگی کرتاہے اوریہی اس وقت موضوع بحث ہے۔ یہ وہ کلاس ہے جس میں میاں بیوی دونوں کام کرتے ہیں۔ یوں عام طورپر9بجے کے بعد اس گھریا فلیٹ کوتالے لگ جاتے ہیں۔ یہاں قدرتی طورپریہ سوال جنم لیتاہے کہ خواتین نے پلے کارڈ پریہ کیوں نہیں لکھاکہ کھاناخودپکالو، یا یصفائی خود کرلویاپھریہ کہ برتن خود دھولو؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارے کام پروفیشنل مڈل کلاس کی خواتین پہلے ہی نہیں کرتیں۔ ان کے لئے یہ کام صبح کام کرنے والی ماسی کرتی ہے۔ یہ گھرمیں جھاڑو پوچا لگاتی ہیں اورصبح کے ناشتے اورپچھلے دن اوررات کے برتن دھولیتی ہیں اورکھانا پکا کرفریج میں رکھ لیتی ہیں۔ دیگرحالات میں گھرکے افراد ہی میں سے کوئی ایک باہرسے کھانا لے آتاہے یاایک ہی وقت میں زیادہ پکا فریج میں رکھ لیا جاتاہے۔ یوں تیارکھانے بھی اسٹورز سے لاکرگھرمیں موجود رہتے ہیں۔ اس طرح ان گھرانوں میں محض باہرسے آنے کے بعد ‘کھانا گرم کرنا’ ایک کام رہ جاتاہے۔ اوردرمیانے درجے کے پروفیشنل مڈل گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا مطالبہ ہے کہ یہ فریضہ مردحضرات خود سرانجام دیں۔ یہ امردلچسپی کا حامل ہے کہ اس طبقہ کی خواتین زیادہ ترسوشل میڈیا اورمڈیا سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ خواتین کی تحریک میں بھی سرگرم نظرآتی ہیں۔ اسی لئے اس نعرے نے بہت جگہ پائی کہ ‘خودکھاناگرم کرلو’
۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...