اکیڈمک فریڈم، تنقیدی سوچ اوراظہاررائے کی آزادی

1,080

اعلی تعلیمی اداروں کامقصد عمومی بہتری ہے ناکہ کسی فرد یا ادارے کامفاد۔ عمومی بہتری کاانحصار سچائی کے ساتھ  آزادانہ تحقیق اوراس کاپتہ لگاناہے۔ یوں یونیورسٹی مباحثہ کی جگہ بھی  ہے۔ صحت مندمباحث، جوکہ تنقیدی سوچ وفکر کوپروان چڑھانے کیلئے ضروری ہے، وہ اکیڈمک فریڈم کے بغیرمشکل ہے۔ اسی طرح اعلیٰ دماغ کی تخلیق  اور تنقیدی فکراکیڈمک فریڈم سے فروغ پاتی ہے، جس کااپنا انحصارسماج میں پائی جانے والی اظہاررائے کی عمومی سطح پرہے۔  ایک فلسفی کہتاہے کہ جب ایک خاص قسم کی آزادی جیسے اکیڈمک فریڈم  پرسوال اٹھایاجاتاہے تواس کامطلب یہ ہے کہ عمومی آزادی کے سوال پرسوال اٹھایاجارہاہے۔ کسی ایک قسم کی آزادی کومسترد کرنا گویا عام آزادی کومسترد کرنے کے مترادف ہے۔  یعنی علمی حلقوں کی آزادی عمومی آزادی کاحصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمی حلقوں کی آزادی کاسوال سماج کے عمومی آزادی کے حق سے جڑا ہواہے۔ ایک آزادنہ تحقیقی ماحول ہی ایک تنقیدی اورسائنسی طرز فکرکوآگے لے جانے میں معاون ہوسکتاہے۔ فلاسفرجان ڈیوی کے نزدیک تنقیدی سوچ کامطلب یہ ہے کہ ہم شک کی حالت کوبرقراررکھتے ہوئے ایک منظم اورطول دینے والی چھان بین کوجاری رکھیں۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے بحث ومباحثہ اورتنقیدی سوچ کوپروان چڑھانے والے اداروں کے طورپرپہچانے جاتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف اکیڈمک فریڈیم، کرٹیکل سوچ اوراظہاررائے کی آزادی کوتسلیم کیاجاتاہے اوردوسری طرف  اس کومحدود کرنے  کی کوشش کی بھی جاتی ہے۔ یعنی عام طورپرممالک اوراداروں میں کاغذی سطح پریہ آئین اورقوانین کا حصہ ہیں لیکن عملی طورپردیکھاجائے تواس کے برعکس نظرآتاہے۔

سب سے اہم یہ ہے کہ اکیڈمک فریڈم یا اس سے بڑھ کرکوئی یونیورسٹی خلاء میں واقع نہیں۔ اس پرسماجی قوتوں اورریاستوں کی پالیسیوں کا براہ راست اثرپڑتاہے۔ اسی لیے علمی حلقوں اورریاستی اداروں کی پالیسی میں ایک تناؤ  رہتاہے۔ علمی حلقوں کواپنی آزادنہ حیثیت کوبرقراررکھنے کے لیے  بہت دباؤ میں رہ کر جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اسی لیے آپ اس کوسماج میں اظہاررائے کی عمومی آزادی سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اکیڈمک فریڈم یعنی اساتذہ اورطلبہ کی سوچ وفکر اورریسرچ کی آزادی سماجی آزادی سے براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ اسی لیے علمی حلقوں کوسماجی آزادی کی جدوجہد میں آگے آنا پڑتاہے۔ یہاں اکیڈمک فریڈم محض پڑھانے اورریسرچ سے جوڑنے کامعاملہ نہیں ہے۔ بلکہ اس پرقدغن ایک اسٹریکچرل معاملہ بھی ہے۔ اگراساتذہ اورطلبہ کویونین سازی اورکھل کراظہاررائے کی آزادی نہ ہوتواس صورت میں اکیڈمک فریڈم کاتصورمحال ہے۔ اگریونیورسٹی کےاساتذہ اورطلبہ اس کے پالیسی سازاداروں میں نہ ہوں اوریہ بیوروکریسی کے زیراثرہوں تو اس صورت میں اکیڈمک فریڈم متاثرہوتاہے۔ اگراساتذہ کوانتظامیہ کی طرف سے خوفزدہ کیاجارہاہو، ان کی نوکری سے لے کرپروموشن تک کوخطرے سے دوچارکیاجارہاہوتوایسے میں اکیڈمک فریڈم بہت دورکی بات ہے۔ مشینی اندازمیں ریسرچ توآمرانہ ریاستوں اورحکومتوں میں بھی ہوتی ہے۔ لیکن اعلیٰ پائے کی ریسرچ کےلیے ضروری ہے کہ طلبہ کوپڑھانے اورگائیڈکرنے والے اساتذہ اورپڑھنے یاریسرچ سے وابستہ طلبہ ہرقسم کے ذہنی دباؤ سے آزادہوں۔

حال ہی سرکاری اورنجی اداروں میں لانگ مارچ کے دوران ماماقدیرکوجب لاہوراورکراچی کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے سامنے اپنی جدوجہد اورموقف پیش کرنے کے لیے  مدعو کیا گیا توریاستی اداروں نے مداخلت کرتے ہوئے یہ عمل زبردستی روکنے کی کوشش کی۔ ایک یونیورسٹی میں مقررکوایک ریاستی ادارے نے پروگرام سے باہرآتے ہی اغواء کرکے تشدد کانشانہ بنایا۔ اساتذہ کوان کے تعلیمی ادارے سے گرفتارکیاجاتاہے اوران کوشہرمیں انسانی حقوق کیلئے آوازبلندکرنے پرجیل میں ڈالاجاتاہے۔جب ریاستی پالیسیوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہیں، یا سماج ایک وبال سے گزررہاہوتو اس کااثراساتذہ اورطلبہ اوریوں اکیڈمک فریڈم پرپڑتاہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ جوپہلے کچھ آسان نظرآرہاتھا، اب مشکل ہوگیاہےیا اب ریاستی پالیسی اورسماجی حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ مثال کے طورپر1950کے عشرے میں دنیا میں ریڈیکل اساتذہ اورطلبہ کوکمیونسٹ سمجھ  کر ان پرحملے کیے گئے۔ یہ عمل امریکہ اورپاکستان میں بھی اپنایاگیا۔ خودکمیونسٹ روس اورمشرقی یورپ کے ممالک میں سخت ترین قوانین نافذکیے گئے اوراداروں میں لوگوں کوماراگیا۔ اسی طرح چین میں اب تک اکیڈمک فریڈم بمشکل حاصل ہے۔ یہی حال زیادہ تر عرب ریاستوں کاہے جہاں شخصی بادشاہتیں اورریاستیں بہت سختی سے کڑی نگرانی کے اصولوں پراستوارہیں۔ ان ریاستوں کودیکھ کر یہی نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ سماج میں عمومی میسرآزادی کالامحالہ اثراعلیٰ تعلیمی اداروں پرپڑتاہے۔  انڈیا میں تنقیدی سوچ اوآازادنہ سوچ کے سب سے بڑے مرکز، جواہرلال یونیورسٹی پرہندوتشدد پسندوں نے بی جے پی کی حکومت کے ساتھ مل کرحملہ کیا۔ عام طورپر عمومی ماحول ہی اعلی تعلیمی اداروں کے ماحول کاتعین کرتاہے۔

اکیڈمک فریڈم کے بارے عام طورپرامریکی یونیورسٹیوں کے 1915کے اعلامیہ کواہم تصورکیاجاتاہے۔ اس کاپس منظربھی دلچسپ ہے۔ 1900میں ایک معیشت دان کوسٹیفورڈ یونیورسٹی سے محض اس لیے نکالاگیاکہ اس نے تارکین وطن مزدوراورریل کی اجارہ داریوں پرجن خیالات کا اظہار کیا وہ لی لینڈ سٹینفورڈ کوپسند نہ آئے۔ اس واقعہ نے فلسفی ارتھر او لوجوئے  اورجان ڈیوی کو1915میں اکیڈمک فریڈم کوبرقراررکھنے کے لیے امریکی علمی حلقوں کی تنظیم بنانے کی طرف راغب کیا۔ اساتذہ اورطلبہ کی آزادی کوبرقراررکھنے کے لئے ان کی منتخب ادارے اوریونین اوران کاکرداربہت اہم ہے۔

ممالک ہی نہیں عالمی ادارے بھی اب تعلیم اورتعلیمی اداروں کوعمومی بہتری سے زیادہ منافع بخش کاروبارکے طورپردیکھتے ہیں۔ 2015میں یونیسکو نے “ری تھنکنگ ایجوکیشن: ٹوورڈز اے  گلوبل کامن گڈز” نامی رپورٹ شائع کی جس میں اس طرف قدم بڑھانے کی بات کی گئی۔ یہ ایک دلچسپ امرہے کہ انقلابی اورسرمایہ داردونوں ہی اعلی تعلیمی اداروں کی تبدیلی پرزوردیتے ہیں مگرمختلف نقطہ نظرسے۔ الیکس کالینی کوس لکھتاہے کہ 1960کی دہائی کے ریڈیکل یونیورسٹیوں کومراعات  یافتہ طبقہ  دانشورانہ ماحول کا مسکن سمجھتے تھے جس کا عملی طورپرعام لوگوں کی زندگی سے دورکابھی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح موجودہ دورمیں سرمایہ داروں کے نمائندے چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں سماج سے مطابقت پیدا کریں۔ یوں دونوں ہی یونیورسٹیوں کو تبدیل کرناچاہتے ہیں۔ لیکن ان کے مقاصد متصادم ہیں۔ 1960کی دہائی کے ریڈیکل طلبہ اس کوسرمایہ داری کے چنگل سے آزاد کرناچاہتے تھے جبکہ آج کی حکومتیں اورسرمایہ کاران کوتبدیل کرکے سرمایہ داروں کے ماتحت کرناچاہتے ہیں۔ یوں ہم دیکھتے ہیں یونیورسٹیوں میں مسلسل یہ جنگ جاری رہتی ہے کہ یہ عوامی بہتری کے ادارے ہونے چاہییں یا کہ  سرمایہ داروں  کے ماتحت ہوں۔

اب یونیورسٹی میں انتظامیہ کیلئے افسران کی تعیناتی کا رحجان نظرآتاہے اوراساتذہ کومحض پڑھانے کیلئے موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ یوں یونیورسٹیوں کی انتظامیہ منیجریل کلاس کے ماتحت کی جارہی ہے  تاکہ یہ علمی حلقوں کی بجائے کاروباری نقطہ نظررکھنے والوں کے تصرف میں دیے جائیں۔ پاکستان میں اساتذہ کے بجائے سخت قسم کے نظام کونافذکرنے کیلئے فوجی بھی وی سی کے عہدے پرتعینات کیے جاتے ہیں۔

پھرطبقاتی نظام تعلیم کافرق بھی ہے۔ تعلیمی ادارے بٹے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ طبقہ  کے بچوں کو الگ ماحول مہیاکیاجاتاہےجبکہ سرکارکے یہاں چلنے والی دوسرے اورتیسرے درجے کے تعلیمی  اداروں کے لیے الگ قسم کا۔ اول تودوسرے اورتیسرے درجے کے اداروں کے لئے فنڈزاور ٹریننگ کی کمی ہے اوران سے تقاضہ مقابلہ کاہوتاہے۔ کراچی یونیورسٹی کے مقابلے میں ایک کونے میں قائم ایچ ای جے اوردوسرے کونے میں قائم آئی بی اے جیسے ادارے ہیں جوسرمایہ داروں کے مفادات کیلئے براہ راست کام کرتے ہیں، ان کے فنڈز باقی یونیورسٹی کے مقابلے میں زیادہ رکھے جاتے ہیں اوریہی حال سہولیات کاہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں اعلیٰ دماغ بھی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی رینکنگ کیلئے اہم ہیں، حالانکہ یہ عوام  کے فنڈزسے مستفید ہوئے ہوتے ہیں۔ اب یہ پرائیوٹ یونیورسٹی میں ٹیچرزہیں۔ اس کے برعکس ہماری پرائیوٹ یونیورسٹیاں ہیں، جہاں اندرونی اوربیرونی ممالک سے لوگ پڑھاتے ہیں، جہاں پاکستان کے بہت اعلیٰ علمی ماہرین سے لے کر امریکہ اوردنیا بھرسے اساتذہ سیمنارزاورمباحث میں حصہ لیتے ہیں۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے طلبہ جوآئی بی اے، قائداعظم یونیورسٹی، غلام اسحٰق انسٹی ٹیوٹ، لمز اورحبیب جیسے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور  ان کاوژن بڑھاناضروری ہے تاکہ سرمایہ داری کیلئے بہترین منجریل کلاس کے دماغ تیارکرسکیں۔ ان کواچھے اسلامی اسکالرزسے لے کربہت ہی ریڈیکل اساتذہ کے ساتھ سرمایہ داروں کے بڑے نمائندے، اعلی بیوروکریٹ وافسران، بینکار، ڈائریکٹرز، مینجرز، اسمبلی کے اراکین سے لے کرچمبرزآف کامرس اورانڈسٹریزکے نمائندے آئے دن کسی نہ کسی عنوان کے تحت لیکچرزدے رہے ہوتے ہیں۔ ان کے دوروں کومنظم کیاجاتاہے۔ یوں ایک کرٹیکل سوچ پروان چڑھتی ہے۔

نیولبرل دورمیں یونیورسٹیاں علم کے فروغ  اور عمومی بہتری کی  بجائے زیادہ کمانے کے مراکزبنتے جارہے ہیں۔ پبلک یعنی سرکارکے تحت چلنے والی یونیورسٹیوں سے تقاضہ کیاجاتاہے کہ یہ سرکارپرانحصارکرنے کے بجائے اپنے وسائل خود پیداکرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ دباؤ مسلسل بڑھتاجارہاہے۔ اب رحجان یہ ہے کہ سرکارکے فنڈز کارکردگی سے جوڑے جارہے ہیں نہ کہ یونیورسٹی کی تعلیمی ضروریات کے مطابق۔ اس کامطلب یہ ہے کہ جس یونیورسٹی کی “رینکنگ” جتنی زیادہ ہوگی، اسی حساب سے فنڈزدیے  جائیں گے۔ جس طرح اسٹاک ایکسچینج میں فرمز کے منافع جات کے حساب سے رینکنگ ہوتی ہے اورلسٹ شائع ہوتی ہے، اسی طرح یونیورسٹیوں کی رینکنگ اور لسٹ بھی ترتیب دی جاتی ہے۔ ہردوسرے ماہ ہمیں بتایاجاتاہے کہ دنیا کی ہزار، پانچ سو اورسو یونیورسٹیوں کی فہرست میں پاکستان کے کون کون سے اعلی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ یہ اساتذہ اورطلبہ کیلئے ادارے چننے میں معاون ہوتے ہیں۔

اپنے وسائل پرانحصارکادوسرامطلب یہ ہے کہ طلبہ سے زیادہ سے زیادہ فیس وصول کی جائیں اوران کے پڑھانے والے اساتذہ اورملازمین کوکم سے کم تنخواہ دے کرنچوڑا جائے۔ اساتذہ کوکنٹریکٹ اورلیکچرکےحساب سے رکھنے اورکچی نوکری دینے کی ترغیب عام ہے۔ یوں یہ مسلسل ذہنی اذیت کے شکاررہتے ہیں اوران پرمسلسل زیادہ کام اورکم مراعات کا دباؤرہتاہے۔ اس کے لیے  کئی ایک طریقے کام میں لائے جاتے ہیں۔ جہاں اساتذہ پکےہونے کے ساتھ یونین میں منظم ہیں، یہ اپنے مفادات کاتحفظ کرنے میں کسی حدتک کامیاب رہتے ہیں۔ یہ زیادہ ترسرکاری یونیورسٹیوں میں اپنے ایسوسی ایشن میں منظم ہیں۔ ان کی پاکستان کی سطح پربھی یونین ہے۔ لیکن کچے اساتذہ اورپرائیوٹ یونیورسٹیوں میں اساتذہ بہت غیرمحفوظ ہیں۔اساتذہ اورطلبہ کے مراعات میں کمی کامطلب یونیورسٹی  کے اخراجات میں کمی ہے۔ یونیورسٹیوں کوعلم کاگہوارہ بنانے کی بجائے اس میں کاروبارکے لیے شام  کی کلاسیں شروع کی گئی ہیں۔ یوں شفٹ کے نظام سے تحقیق اوربحث ومباحثہ کی بجائے ٹیکنیکل  لوگ تیارکرنے کی طرف توجہ مبذول کراناہے۔ اسی کی خاطراب “ہیومن کیپٹل”اور”نالج اکانومی” کے الفظ وضع کئے گئے ہیں جواعلی ٰتعلیم کوکاروباربنانے کے نسخے ہیں۔

یورپ میں یونیورسٹیاں بادشاہ اورچرچ سے چارٹرحاصل کرکے قائم ہوئیں اوراساتذہ اپنے آزادنہ عمل کے لئے کوشاں رہے۔ بعدازاں روشن خیالی کے دورمیں یہ پرانے خیالات کے سامنے صف آراء ہوتے بھی نظرآتے ہیں۔ یہ امردلچسپی سے خالی  نہیں کہ بڑے تعلیمی ادارے زیادہ تررجعتی قسم کے رہے ہیں۔ مثال کے طورپرآکسفورڈ یونیورسٹی وغیرہ۔ جبکہ انقلابات کے دورمیں انہی یونیورسٹیوں سے مڈل کلاس کے بہت سارے نوجوان ریڈیکل سوچ کے ساتھ بھی سامنے آئے۔

پاکستان میں بہت ساری نئی سرکاری اورنجی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ بعض پرائیوٹ یونیورسٹیاں تو سرکاری تعلیمی اداروں سے بھی بدترحالات میں ہیں جبکہ دیگراین جی اوز اوردیگرممالک سے فنڈزحاصل کرتے ہیں اورفلاح وبہبودکے نام پرکاروبارچلاتے ہیں۔ نالج اکانومی اورہیومن کپیٹل کی دوڑمیں اپنے مدمقابل تعلیمی اداروں سے پیچھے رہنے والے ادارے اگربند نہ  ہوئے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ان کے اساتذہ اورطلبہ کوبہت خراب حالات میں رہناپڑےگا۔ اگرادارے عوام کے ٹیکسوں سے چلانے ہیں توان کی ضرورت کومدنظررکھ ان کوفنڈزمہیاکئے جائیں اوراس میں بیوروکریسی کی مداخلت ختم کرکےاس میں ملک کے منتخب اداروں جیسے قومی اسمبلی ، سینٹ اورصوبائی اسمبلی سے لے کولوکل باڈیزکے اراکین اوریونیورسٹی کے اپنے اساتذہ، ملازمین اورطلبہ کے منتخب یونین سے افرادلیے جائیں توان اداروں کی اکیڈمک فریڈم میں اچھے خاصے اضافہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...