زد میں کون؟ سوشل میڈیا یا ادارے

913

لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ پاکستان کو درپیش مشکلات اور چینلجوں کے باوجود اگر ملک میں افراتفری کا عالم نہیں تو اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ضرور ہے کہ لوگ کھل پر مختلف معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔

ہر دور کے چینلج مختلف ہوتے ہیں اور اُن کو روکنے یا نمٹنے کی حکمت عملی بھی جدید دور کے مطابق اتنی ہی موثر ہونی چاہیئے، بصورت دیگرنہ صرف اندرون ملک شور اُٹھے گا بلکہ بیرون ملک بھی اس گونج سنائی دے گی۔

اگرچہ حکومت کے بقول معاملہ ‘سلامتی’ کے خدشات کا ہے لیکن اس میں سیاسی رنگ بھی جھلک رہا ہے۔

معاملہ شاید ہے بھی بہت نازک یعنی ‘آن لائن سپیس’ اور اس کے چیلنج۔وزیر داخلہ کی ہدایت پر اُن سوشل میڈیاصارفین یا سرگرم کارکنوں کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے ‘ایف آئی اے’ کے سائبر کرائم ونگ کو کارروائی کی ہدایت کی گئی جو مبینہ طور پر فوج کی ‘تضحیک’ میں ملوث تھے۔

حکم ہوا، لوگوں کی نشاندہی ہوئی اور اُن سے پوچھ گچھ بھی۔

حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف اس پر سراپا احتجاج نظر آئی، اسلام آباد اور کراچی میں علامتی مظاہرے کیے اور یہ دعویٰ کیا کہ جن افراد کو گرفتار کیا گیا اُن میں سے بیشتر کا تعلق ‘پی ٹی آئی’ سے  تھا۔حسب معمول جب شور بڑھا تو وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایک نیوز کانفرنس کے ذریعے اس معاملے کی وضاحت کرنا مناسب سمجھا۔

اُن کے بقول کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ صرف پوچھ گچھ یا انٹرویو کیے گئے، تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ ڈالا کے ملک کا قانون اور آئین فوج و عدلیہ کی تضیحک کی اجازت نہیں دیتا اور حکومت بھی ایسا نہیں ہونے دے گی۔

بقول وزیر داخلہ ‘‘کوئی قیامت نہیں آگئی’’، اُن کا کہنا تھا کہ یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ ‘‘سوشل میڈیا از انڈر اٹیک یا حملے کی زد میں ہے’’ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ پاکستان کا قانون اور آئین سوشل میڈیا کے ذریعے ‘‘انڈر اٹیک’’ہے۔

خیر اس کا تعین کسی ایک شخص نے نہیں بلکہ وقت نے کرنا ہے کہ کون حملے یا دباؤ کی زد میں ہے۔حکومت کے اقدامات بھی جاری ہیں اور بیانات کا سلسلہ بھی۔

اب وزیر داخلہ نے ہدایت کر ڈالی ہے کہ سوشل میڈیا کے مثبت، تعمیری اور صحت مندانہ ذریعے کے طور پر اس کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائے۔

تاکہ سماجی تعامل کے اس اہم ذریعہ کو غلط معلومات، بدنام کرنے والے تبصروں، قابل احترام شخصیات، قومی اداروں اور کسی خاص کمیونٹی کے سماجی، مذہبی اور ثقافتی اقدار کا مذاق اڑانے کے آلے کی بجائے خیالات اور نظریات کے تبادلے کا موثر پلیٹ فارم بنایا جا سکے۔

لیکن شاید یہ اتنا سہل نہیں ہو گا۔

کیوں کہ طریقہ کار اُس پڑھے لکھے طبقے کے لیے وضع کیا جانا ہے جو درست اور غلط کی بحث میں جائے بغیرشعور بھی رکھتا ہے اور سیاسی سوچ بھی۔

ایسے متحرک طبقے کو دلیل ہی سے روکا جا سکتا ہے کسی قدغن سے نہیں۔

حالیہ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف رائے کا اظہار سامنے آیا ہو، ورنہ تو اس ذریعے فوج کا موقف پیش کرنے ہی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جا رہا ہے۔

لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ پاکستان کو درپیش مشکلات اور چینلجوں کے باوجود اگر ملک میں افراتفری کا عالم نہیں تو اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ضرور ہے کہ لوگ کھل پر مختلف معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔

جو اُن کے ذہن میں آتا ہے کہ کہہ ڈالتے ہیں اور دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔

لیکن اگرایسے راستے بند کر دیئے جائیں تو پھر کیا راستہ بچے گا، نا تو یہ سوال مشکل ہے اور نا ہی جواب۔

یہ بات اپنی جگہ بجا کہ رائے کا اظہار مہذب ہونا چاہیئے، لیکن اس کا انحصار کسی نا کسی حد تک حالات پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اگر بدلنا ہے تو بہت کچھ تبدیل کرنا ہو گا، رویے بھی اور ردعمل بھی۔­­اس کام میں وقت لگے گا، جو شاید کسی کے پاس نہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...