جعلی ادوایات اور سپریم کورٹ

1,045

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران جعلی ادوایات کی تیاری کے الزامات کی بنیاد پر اسلام آباد میں قائم ایک دواساز کمپنی ایورسٹ فارماسیوٹیکلز کے مالک کو گرفتار کروا دیا۔ عدالت کے اس فیصلے کی بڑے پیمانے پر تشہیر و تحسین کی جارہی ہے کہ ادوایات جیسی حساس اور ضروری پراڈکٹس بھی اگر جعلی بن رہی ہیں تو یہ امر تشویش کا باعث ہے۔ سپریم کورٹ اگر صحیح معنوں میں جعلی ادویات کا تدارک کر پائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا خدمت ہوسکتی ہے۔ مگر اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ جعلی ادویات کے تدارک اور روک تھام کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے اس میں حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر عوام کے لیے سستی ادوایات بنانے والی مقامی دواساز کمپنیوں کی دل شکنی ہوسکتی ہے جس کا سراسر فائدہ بین الاقوامی دواساز کمپنیاں اور کرپٹ پبلک سرونٹ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نکات پر غور کرنا مفید ہوگا:

جعلی دوا کسے کہتے ہیں؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب دیے بغیر یہ معاملہ پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ہر وہ دوا جو ملک میں رجسٹر ڈنہیں ہے وہ ایک جعلی دوا ہے اور اس کے بنانے والے کو سختی سے روکا جانا چاہیے۔ بظاہر یہ ایک مناسب بات ہے اور اس سے اختلاف کی گنجائش کم ہے۔ مگر مندرجہ ذیل مثال سے   اصل بات کو سمجھا جاسکتا ہے۔

 

ایک بین الاقوامی کمپنی کینسر یا ہیپاٹائٹس کے علاج کے لئے نئی دوا ایجاد کرتی ہے اور اسے دنیا کے مختلف ممالک میں رجسٹرڈ بھی کروالیتی  ہے۔ یہ کمپنی اس دوا کو بوجوہ  پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں کرواتی کہ پاکستان کی مارکیٹ اس کمپنی کے لئے فوری طور پرپرکشش نہیں ہے۔ ایک مقامی کمپنی یہ دیکھتے ہوئے کہ نئی دوا کی مقامی طور پر مریضوں کو ضرورت بھی ہے اور یہ ابھی تک دستیاب بھی نہیں، کسی طریقے سے چین یا انڈیا سے اس دوا کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال منگوا کر اسے یہاں بنا لیتی ہے۔ ایک معقول حد تک کیے گئے تجربات کی روشنی میں یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ مقامی کمپنی کی تیار کردہ دوا قابل اطمنان نتائج دکھا رہی ہے اور اس کی اثرپذیری اصل کے برابر یا قریب قریب ہے۔ اب یہ مقامی کمپنی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے اس دوا کی رجسٹریشن کے لئے رجوع کرتی ہے تو یہ اعتراض لگایا جاتا ہے کہ آپ کی دوا کو چانچنے کا پیمانہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ اس پیمانے کی عدم موجودگی کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی کمپنی جس نے یہ دوا ایجاد کی ہے اس نے پاکستان میں رجسٹریشن سرے سے کی ہی نہیں۔ کیا محض اس بنا پر کہ ہمارے پاس رجسٹریشن کا بینچ مارک موجود نہیں، اس مقامی طور پر بنائی گئی دوا کی رجسٹریشن کو روکا جاسکتا ہے یا پھر اس میں تاخیر کی جاسکتی ہے؟ قانونی طور پر اس کا جواب اثبات میں ہوگا مگر صحت عامہ اور مریضوں کی ادوایات تک رسائی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس دوا کو فورا ًمارکیٹ میں موجود ہونا چاہیے۔

اس مثال کے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض ایک نظری صورت ہے ورنہ حقیقت میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ حقیقت کتنی گھناؤنی ہوسکتی ہے اسے بیان کرنے کے لئے ہیپاٹائٹس سی کے علاج کے لئے استعمال ہونے والی مشہور زمانہ نئی دوا سوفسبوویر (برانڈ نام: سوالڈی) کی کہانی مدنظر رکھیں۔ بین الاقوامی دواساز کمپنی  گیلیاڈ نے اس دوا کو چند سال قبل متعارف کروایا تو دنیا بھر میں اس کی ایک مریض کے لئے کل ٹریٹمنٹ کی قیمت ہوشربا حد تک بڑھی ہوئی تھی (ستر ہزار امریکی ڈالر یا اس سے بھی زائد اور اس کے لگ بھگ امریکی و یورپی ممالک میں)۔ گیلیاڈ نے پاکستان میں اس دوا کے حقوق فیروزسنز نامی کمپنی کو دیے جس نے رجسٹریشن کے حصول کے ساتھ ہی اس کی قیمت بھی لگ بھگ ساٹھ ہزار روپے سے کچھ زائد منظور کروا لی (قیمتوں کو یاداشت کی بنیاد پر تحریر کیاجارہا  ہے ،کمی بیشی کا امکان موجود ہے)۔ اسی دوا کو ایک مقامی کمپنی(اتفاق سے یہی ایوریسٹ کمپنی جس کے مالک کو کل عدالت سے گرفتار کیا گیا ہے) نے سستے نرخوں پر بنانے کی کوشش کی تو اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار (جن کی مبینہ طور پر فیروزسنز والوں کے ساتھ رشتہ داری تھی) کے ایماء پر ایف آئی اے نے ایورسٹ کمپنی کے دفاتر پر چھاپے مارے اور سستی دوا کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بند کروا دیا۔

یہ کوئی محض الزام تراشی نہیں ہےبلکہ یہ سب کچھ اخبارات میں رپورٹ ہوتا رہا اور ہیپاٹائٹس کی سستی مقامی ادوایات کی رجسٹریشن نہ کرنے پر جاوید چودھری کو ایک کالم بھی لکھنا پڑا۔ بہت تگ ودو کے بعد مقامی کمپنیوں کی سوفسبوویر ادوایات کو رجسٹر کیا گیا اور اس دوا کی قیمت نیچے آئی۔

غور فرمائیں کہ رجسٹریشن سے پہلے فیروزسنز کی تیارکردہ ہیپاٹائیٹس کی دوا کے علاوہ باقی سب ادوایات “غیرقانونی” تھیں مگر یہ لازمی نہیں تھا کہ وہ “جعلی” بھی ہوں۔

ادوایات کی رجسٹریشن ایک اہم اور ضروری مرحلہ ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے جیسے ملکوں میں بعض اوقات مختلف عوامل کی وجہ سے جنیرک (برانڈ نام کی دوا کا ایسا متبادل جو عموما مقامی کمپنیاں تیار کرتی ہیں اور سستا ہوتا ہے مگر اس کا فامولا برانڈ والا ہی ہوتا ہے) ادوایات کی رجسٹریشن میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس تاخیر کا براہ راست اثر مریضوں کی ادوایات تک عدم رسائی یا کم رسائی کی صورت میں نکلتا ہے کہ ہر مریض برانڈ نام سے مارکیٹ کی جانے والی مہنگی دوا نہیں خرید سکتا۔ محض اس وجہ سے کہ ایک دوا جو عوام کی ضرورت ہے مگر اس کی رجسٹریشن کسی وجہ سے تعطل یا تاخیر کا شکار ہے، ہمیں یہ نہیں تصور کرلینا چاہیے کہ یہ لازمی طور پر جعلی دوا ہے۔ ادوایات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایڈز کے علاج کے لیے بنائی جانے والی وہ ادوایات جنہیں فکسڈ ڈوز کمبینیشن کہا جاتا ہے، ان میں سے کئی کا آغاز انڈیا میں ہوا تھا اور ابتداء میں ان کی رجسٹریشن میں کئی طرح کے مسائل تھے کہ انہیں کس بنیاد پر رجسٹر ڈکیا جائے۔ مگر انہی ادوایات کو بعدازاں بین الاقوامی اداروں نے دنیا بھر میں ایڈز کے موذی مرض کے علاج کے لئے بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے ہاں بھی ابھی تک False, Falsified, Spurious, Substandard اور Counterfeit کی اصطلاحات چل رہی ہیں اور اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ مشکوک و جعلی ادوایات کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے اور کس اصطلاح پر اتفاق رائے ہو۔

اس ساری بحث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر رجسٹرڈشدہ ادوایات کو بغیر کسی روک تھام کے مارکیٹ میں آنے دیا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ نئی ادوایات کی رجسٹریشن میں کئی طرح کی مشکلات سامنے آتی ہیں۔ ان کا تعلق ٹیکنیکل امور سے بھی ہوسکتا ہے اور انتظامی نوعیت کے مسائل بھی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ مگر محض اس بات پر کہ ایک دوا غیر رجسٹرڈشدہ ہے اسے جعلی قرار دے کر مکمل کریک ڈاون مستقبل میں ان تمام مقامی کمپنیوں کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے جو ہمت کر کے خام مٹیریل تک رسائی حاصل کرتی ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقابلے میں سستی جنیرک ادوایات کو مارکیٹ میں لانے کی ہمت کرتی ہیں۔ اگر کسی کمپنی نے رجسٹریشن کے لئے درخواست دے رکھی ہے اور اس کا ٹریک ریکارڈ مناسب حد تک پروفیشنل ہے تو اسے بند کرنے کے بجائے رجسٹریشن کے عمل کو تیزتر کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے غریب مریضوں کا مستقبل جنیرک ادوایات کے حصول کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب مقامی کمپنیوں کو کھل کر کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ انہیں بنیادی کوالٹی کے ضوابط کے تحت لائیں مگر کوالٹی کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تسلط کسی طور پر مناسب پالیسی نہیں۔

میرے خیال میں اس کالم  کو صرف سپریم کورٹ میں جاری کیس کے حوالے سے دیکھنے کے بجائے ایک بڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایورسٹ فارماسیوٹیکلز بڑے پیمانے پر غیرقانونی ادوایات کی تیاری میں ملوث ہو اور اگر ایسا ہے تو متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی پر اس فورم پر کاروائی ہونی چاہیے جو قانون میں بیان ہوا ہے۔ اس کیس سے قطع نظر “جعلی” اور “غیر قانونی” کی بحث اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور عدالتوں کو دوا کی سائینسی بنیاد (نہ کہ محض قانونی اسٹیٹس)،مریضوں کی ضرورت،دوا کی قیمت اور مارکیٹ میں موجود اس دوا کے متبادل وغیرہ جیسے اہم عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...