عرب بہار

وہ جس کا انتظار تھا، یہ وہ سحر تو نہیں

1,117

موسم بہار کی آمد آمد ہے،ٹھیک سات برس انہی دنوں آمریت کے جھلسا دینے والے طویل سیزن کے بعد جب پت جھڑ کا موسم آیا تو ڈکٹیٹرشپ کے ظلم و ستم سے پسے ہوئے عوام نے سمجھا کہ یہ جو ہوا کے جھونکے ہیں یہ بہار کی خبر دے رہے ہیں جس میں وہ اپنی آنکھوں سے کلیوں کو پھول بنتے دیکھیں گے لیکن شاید آمریت کی حدت کے زیر اثر انہیں دھوکہ  ہو گیا تھا کہ شدید گرم موسم کے فوراً بعد ہی بہار نہیں آیا کرتی بلکہ پہلے خزاں کا موسم آتا ہے جس میں خشک پتے گرتے ہیں پھر موسم سرما کی آمد ہوتی ہے اور اس کے بعد کہیں جا کر بہار آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سحر کے انتظار میں آمریت کی طویل سیاہ رات گزارنے کے بعد جب انہیں داغ داغ اجالا دکھائی دیا تھا تو وہ پکار اٹھے:
یہ داغ داغ اجالا،یہ شب گزیدہ سحر
وہ جس کا انتظار تھا، یہ وہ سحر تو نہیں
سات بہاریں گزر چکیں مگر وہ بہار تاحال دور دور تک  دکھائی نہیں  دے رہی جس کا خواب دیکھا گیا تھا،بلکہ اس نام نہاد بہار نے تو طوفانی آندھی کی مانند پہلے تیونس کو اپنی لپیٹ میں لیا،پھر یہ آندھی قاہرہ پہنچی،جلد ہی اس کی تیز ہواؤں کا رخ طرابلس،دمشق اور صنعاء کی جانب ہو گیا اور آن کی آن میں سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔بظاہر یہ سب کچھ اچانک ہوا تاہم ارباب حل و عقد کے لیے کچھ بھی اچانک نہیں تھا،بلکہ ان کے سامنے بہت سی علامات ظاہر ہو چکی تھیں لیکن اقتدار کے نشے نے ہوش میں آنے کا موقع نہیں دیا۔

مصری صحافی سلیمان جودہ کے مطابق عرب لیگ کے سربراہ احمد ابوالغیط کی2013  میں ( جو میں نے دیکھا ) کے نام سے قاہرہ سے شائع ہونے والی سیاسی یاداشتوں میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ حسنی مبارک کو عرب بہار کے آغاز سے سات سال پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ امریکہ نے انہیں اقتدار سے سبکدوش کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ابو الغیط لکھتے ہیں کہ وہ2004سے2011 تک مسلسل سات برس حسنی مبارک کے وزیر خارجہ رہے ہیں۔اس دورمیں امریکی سیکرٹری خارجہ کنڈولیزارائس سے ملاقات کے بعد وہ مبارک سے ملنے گئے اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا ،جس کے بعد حسنی مبارک انہیں رخصت کرنے کے لیے دروازے تک آئے ،پھر اچانک سے اپنے وزیر خارجہ کا ہاتھ پکڑ کر کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بغیر کسی تمہید کے گویا ہوئے” مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ واشنگٹن مجھے اقتدار سے الگ کرنا چاہتا ہے۔” ابولغیط کہتے ہیں کہ مجھے جرات نہیں ہوئی کہ میں اس بات کا اظہار کسی کے سامنے بھی کرتا اور میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اس بات کو اپنے تک ہی محدود رکھوں گا۔

سابق مصری صدر حسنی مبارک نے ابوالغیط اور کنڈولیزارائس کے درمیان ملاقات کے دوران پائی جانے والی سردمہری سے اندازہ لگا لیا تھا کہ اب ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے جس کا عملی اظہار سات سال بعد ہوا۔ حسنی مبارک اگر اسی وقت ہوش سے کام لیتے اور از خود پرامن انتقال اقتدار کی کوئی سبیل نکالتے تو مصر میں بےگناہوں کا خون نہ بہتااور دوسرے عرب ممالک بھی غیروں کی مسلط کردہ اس نام نہاد بہار کے بجائے حقیقی بہار کا مشاہدہ کرتے۔
خون آشام سات برس گزرنے کے بعد آج بھی تیونس ،مراکش اور اردن میں نظام بدلنے کے لیے مظاہرے ہو رہےہیں،مصر میں صدارتی انتخابات قریب ہیں اور صدر عبدالفتاح السیسی حزب اختلاف کے صدارتی امیدواروں کو گرفتار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مصری عوام میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔لیبیا میں طوائف الملوکیت ہے اور کرنل قذافی کے بعد اب تک کوئی نظم اجتماعی قائم نہیں ہو سکا۔شام کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ،ادھر ترکی نے بھی روس کے تعاون سے20 جنوری سے امریکی حمایت یافتہ شامی کردوں پر حملوں کا آغاز کر دیا ہےجبکہ عراقی کردستان کا معاملہ پہلے سے ہی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
یمن میں جنگ بندی پر سعودی عرب اور امارات کے مابین مذاکرات جاری ہیں جو نتیجہ خیز ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔یعنی ابھی یمنیوں کے لیے عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ایران   مہنگائی کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے باوجود بحرین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بڑی گیم کی منصوبہ بندی کر چکا ہے ،سوڈان اور ایرٹیریا کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہےاور قطر خلیج تنازعہ بھی روز افزوں ہے۔ایسے میں فوری طور پر صرف اسی بہار کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے جو ہر سال فروری میں آتی ہے۔رہی وہ بہار جس کا فروری2011 سے انتظار کیا جا رہا ہے تو وہ اگر اگلے سات سال میں بھی آجائے تو غنیمت ہو گی کہ یہ سات برس تو خزاں کے تھے۔یہ تو معلوم ہی ہے کہ خزاں اور بہار کے درمیان ایک موسم سرما بھی ہوتا ہے۔خداکرے کہ اب یہ عرب کا موسم سرما طول  اختیار نہ کرے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...