فلموں کے سکرپٹ لکھنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں
عالمی شہرت یافتہ ناول نگار محسن حامد کا تجزیات آن لائن کو دیا گیا خصوصی انٹرویو
انٹرویو نگار: علی عباس
محسن حامد معاصر جنوب ایشیائی انگریزی ادیبوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ ان کے ناول “Moth Smoke”، “The Reluctant Fundamentalist”، “How To Get Filthy Rich in Rising Asia” اور حالیہ ناول “Exit West” ادب کے سنجیدہ قارئین کی جانب سے زبردست پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ ان کی تخلیقات کو نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ مغرب میں بھی سراہا جا چکا ہے۔
محسن حامد پاکستان کے ان چند ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جن کا ناول “The Reluctant Fundamentalist” ادب کے نمایاں ترین اعزاز ‘مین بکر پرائز’ کے لیے بھی شارٹ لسٹ ہوا تھا۔ 2007ء میں شائع ہونے والا یہ ناول بیسٹ سیلر رہا اور امریکا کے معتبر ترین اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی اس برس سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں بھی یہ چوتھے نمبر پر تھا۔ اس ناول کے اب تک دنیا کی 25 سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور معروف انڈین نژاد امریکی ہدایت کارہ میرا نائر اس پر فلم بھی بنا چکی ہیں۔ محسن حامد کا حالیہ ناول “Exit West”سابق امریکی صدر باراک اوباما کی 2017ء میں شائع ہونے والی پسندیدہ ترین کتابوں کی فہرست میں شامل ہے۔
محسن حامد کا سفرِ زیست بھی ان کے ناولوں کی طرح نہایت دلچسپ ہے۔ انہوں نے ابتدائی تین برس لاہور میں گزارے، بعدازاں کچھ برس کے لیے امریکا منتقل ہو گئے اور نو برس کی عمر میں لاہور واپس آئے اور لاہور امریکن سکول میں زیرِتعلیم رہے۔کچھ برس بعد دوبارہ امریکا کا رُخ کیا اور پرنسٹن یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں انہیں عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ٹونی موریسن سے پڑھنے کا موقع بھی ملا جن کا نام ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے ادیبوں کی فہرست میں شامل ہے۔ ٹونی موریسن کی تخلیقات نے محسن حامد کی تخلیقی سمت متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ہارورڈ لا کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آٹھ برس لندن میں بھی قیام پذیر رہے۔ محسن حامد ان “ہجرتوں” کے باعث یہ تصور کرتے ہیں کہ ان کی کوئی قومی شناخت نہیں ہے۔
دنیا کے نمایاں ترین اخبارات اور جرائد ان کی تحریریں شائع کرنا اپنے لیے ایک اعزاز تصور کرتے ہیں جن میں نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور گارڈین وغیرہ شامل ہیں۔ محسن حامد عموماً میڈیا سے دور رہتے ہیں جس کے باعث مقامی میڈیا میں ان کے کوئی بہت زیادہ انٹرویو شائع نہیں ہوئے اور بالخصوص اردو میڈیا میں ان کا کبھی کوئی انٹرویو شائع نہیں ہوا۔ “تجزیات آن لائن” یہ دعوی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے کہ یہ ان کا ملک کے کسی بھی اردو اخبار یا ویب سائٹ کے لیے اپنی طرز کا اولین انٹرویو ہے جس میں انہوں نے اپنے بچپن سے لے کر ادبی سفر اور تخلیقات کے بارے میں کھل کر بات چیت کی ہے جس کی تفصیل ذیل کی سطور میں پیش کی جا رہی ہے:
تجزیات آن لائن: اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟
محسن حامد: جی بالکل! میں 1974ء میں محض تین برس کی عمر میں والدین کے ہمراہ کیلیفورنیا چلا گیا تھا لیکن میری پیدائش لاہور کی ہے۔ 1980ء میں پاکستان واپس ہوئی، اس وقت میری عمر صرف نو برس تھی۔ لہٰذا میرا ابتدائی بچپن کیلیفورنیا میں گزرا۔ نو برس کی عمر میں جب لاہور واپس آیا تو ہم ایک مشترکہ خاندان میں دادا، دادی اور چچاؤں کے ساتھ رہتے تھے اور اَپر مال کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ میرے نانا نانی گلبرگ میں رہتے تھے اور ہم کزنز اکثر سائیکل پر سوار ہو کر اَپر مال سے گلبرگ جایا کرتے تھے۔ سڑکوں پر خال خال ہی ٹریفک نظر آتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت صرف ایک ٹی وی چینل پی ٹی وی ہی ہوتا تھا اور اس پر بھی نشریات کا دورانیہ شام کے پانچ بجے سے لے کر رات کے گیارہ بجے تک ہوتا۔ ان دنوں میری اردو بہت خراب تھی۔ لہٰذا میں صرف انگریزی زبان میں نشر ہونے والے پروگرام ہی دیکھا کرتا اور ہفتے میں انگریزی کے غالباً دو تین پروگرام ہی نشر ہوتے تھے، مثال کے طور پر نائٹ رائیڈر وغیرہ۔ اس وقت وی سی آر یا ڈی وی ڈی پلیئر ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس کے باعث ان ٹی وی پروگراموں کا شدت سے انتظار رہتا۔ میرے لیے لاہور میرے کزنز، خاندان، سکول اور کھیل کود تک ہی محدود تھا۔ بچپن میں فٹ بال کھیلا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں خوب دوڑا کرتا۔ ہم نہر سے فورٹریس سٹیڈیم تک دوڑ لگاتے، حالانکہ اس وقت پاکستان کے حالات مثالی نہیں تھے۔ وہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا، پہلی سوویت افغان جنگ جاری تھی۔ میں ان واقعات کے بارے میں سن رہا تھا لیکن میری روزمرہ کی زندگی پر ان کے کوئی بہت زیادہ اثرات مرتب نہیں ہو رہے تھے۔ بہت برسوں بعد مجھ پر یہ ادراک ہوا کہ اس زمانے میں دراصل پاکستان میں ہو کیا رہا تھا؟
تجزیات آن لائن: آپ نے پہلی کتاب کون سی پڑھی اور اس کے آپ کے تخلیقی سفر پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟
محسن حامد: مجھے اس بارے میں اب کچھ یاد نہیں ہے۔ دراصل اس وقت بچوں کا ادب میرے لیے نہایت اہمیت رکھتا تھا۔ میں نے کیلیفورنیا میں قیام کے دوران ہی پانچ چھ برس کی عمر میں کتابیں پڑھنا شروع کر دی تھیں’ بہت زیادہ مطالعہ کیا کرتا ۔ جب نو، دس برس کا ہوگیا تو لارڈ آف دی رنگز اور اس طرح کی دیگر کتابیں پڑھیں۔ سائنس فکشن بھی پڑھی، سائنس فکشن پڑھنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ ان کتابوں نے میرے بعد کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اردو کتابوں کی جہاں تک بات ہے تو میرا خیال ہے کہ جب ہم 1980ء میں پاکستان واپس آئے تو میں نے اردو زبان سیکھنا شروع کی۔ میرے نانا قوالی کے دلدادہ تھے، ان دنوں ٹی وی پہ ویک اینڈز پر قوالی کے پروگرام نشرہوا کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ جاتا اور قوالی سنا کرتا۔ اسی طرح اردو شاعری سننے کا اتفاق بھی ہوا، اگرچہ مجھے اس کی کچھ خاص سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن میں شاعروں کو دیے جانے والے احترام کے بارے میں آگاہ تھا۔ بعدازاں میں نے کسی حد تک اردو زبان سیکھ لی اور 11 برس کی عمر میں پہلی اردو کتاب ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ پڑھی۔ پاکستان میں اس وقت چار پانچ برس کی عمر کے بچے ٹوٹ بٹوٹ پڑھ لیا کرتے تھے۔ میں نے اردو کی پہلی کتاب غالباً سولہ، سترہ برس کی عمر میں پڑھی جس نے مجھے متاثر بھی کیا، اس وقت تک میری اردو کوئی بہت اچھی نہیں تھی لیکن میَں اردو پڑھ ضرور لیتا تھا۔ میں نے اردو میں سب سے پہلے سعادت حسن منٹو کو پڑھا۔ دراصل مجھے سکول میں میرے اردو کے ٹیچر نے ان کا افسانہ پڑھنے کی اسائنمنٹ دی تھی۔ مجھے وہ افسانہ پڑھنے میں خاصا وقت لگا کیوں کہ میں لغت ساتھ رکھ کر اسے پڑھ رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ یہ افسانہ عام ڈگر سے ہٹ کر ہے۔ بعدازاں انگریزی زبان میں منٹوؔ کے افسانوں کے تراجم کا مطالعہ کرنا شروع کیا‘ اس وقت غالباً سترہ برس کا ہوں گا، میرا خیال ہے کہ خالد احمد صاحب نے ان افسانوں کا ترجمہ کیا تھا، دو تین اور تراجم بھی پڑھے۔ میں نے فیروز سنز سے یہ کتابیں خریدی تھیں۔ اگر آپ یہ سوال کریں کہ وہ کون سی ایک کتاب ہے جو مجھ پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوئی؟ میرا خیال ہے کہ میرے لیے کسی ایک کتاب کا نام لینا نہایت مشکل ہے۔ سکول کے زمانے میں ہی کلاسیکی امریکی و انگریزی ادیبوں کی تخلیقات کا مطالعہ کیا جن میں ہیمنگوے اور جین آسٹن وغیرہ بھی شامل ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور میں قیام کے دوران نائجیرین مصنف چینوا اچیبے کا ناول “No Longer at Ease” پڑھا‘ یہ ناول ایک افریقی شخص کے بارے میں ہے جو تعلیم حاصل کرنے لندن جاتا ہے اور جب واپس آتا ہے تو خود کو افریقی اور مغربی ثقافتوں کے درمیان معلق دیکھتا ہے اور اختتام پررشوت لینے کی پاداش میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ اس کتاب نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا جیسا کہ میں بھی کئی برس امریکا گزارنے کے بعد پاکستان واپس آیا تھا’ ان تجربات کے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ میں جب امریکا میں زیرِتعلیم تھا تو ٹونی موریسن سے پڑھنے کا موقع ملا، انہوں نے بعدازاں ادب کا نوبیل انعام بھی حاصل کیا۔ وہ افریقی نژاد امریکی مصنفہ ہیں۔ ان دونوں مصنفوں نے میرے تخلیق سفر کا رُخ متعین کیا۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا، میرے لیے کسی ایک کتاب کا نام لینا مشکل ہے جو میرے تخلیقی سفر پر اثرانداز ہوئی ہو۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے بچپن میں بیپسی سدھوا کو بھی پڑھا۔ اس زمانے میں میرا خیال ہے کہ بیپسی سدھوا واحد ایسی مصنفہ تھیں جو انگریزی میں لکھ رہی تھیں اور ان کا تعلق بھی لاہور سے تھا‘ کپلنگ کا تعلق بھی غالباً لاہور سے ہی تھا لیکن بیپسی ایک پاکستانی مصنفہ تھیں۔ میں نے ان کا ناول “Ice Candy Man”پڑھا۔ میرے دادا تقسیم سے متعلق کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ تقسیم ان کی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہے کیوں کہ ان کے دو تہائی دوست اور پڑوسی انڈیا ہجرت کر گئے تھے۔ میں نے اگرچہ تاریخ کے مضمون میں تقسیم کے بارے میں پڑھا تھا لیکن بیپسی سدھوا اور منٹو کی بدولت مجھے تقسیم کے بارے میں لکھا گیا ادب پڑھنے کا موقع ملا۔ منٹو نے 1947ء میں لکھا اور بیپسی نے 1980ء میں۔۔۔ لیکن وہ بھی 1947ء کے واقعات کا ہی ذکر کرتی نظر آتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کتابیں میرے تخلیقی سفر کو آگے بڑھانے میں نہایت اہم ثابت ہوئی ہیں۔
تجزیات آن لائن: لاہورسے امریکا آباد ہونے اور پھر وطن واپسی نے آپ کے ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
محسن حامد: میرے لیے اس حوالے سے کوئی بھی حتمی رائے ظاہر کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ سوال جو آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں، اس بارے میں میرے قارئین زیادہ بہتر طور پر جواب دے سکتے ہیں۔ میرے لیے اس موضوع پر بات کرنا ہمیشہ ہی نہایت مشکل ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا اور آپ کس طرح تبدیل ہوئے؟ میرا خیال ہے کہ میں ایک Strange Creature ہوں جیسا کہ میں پیدا تو لاہور میں ہوا اور رہتا بھی لاہور میں ہوں‘ میرے بچے لاہور میں پرورش پا رہے ہیں۔ وہ اپنے Grand Parents کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اگر آپ مجھ سے یہ سوال کریں کہ آپ پاکستانی ہیں؟ میرا جواب، ظاہر ہے کہ یہ ہوگا کہ ہاں، میں پاکستانی ہوں۔ لیکن ایک بار پھر میں چینوا اچیبے کی کتاب “No Longer at Ease” کا ذکر کرنا چاہوں گا ‘ میرا خیال ہے کہ I am also “No Longer at Ease”۔ میں یہاں پاکستان کی طرح، امریکا اور برطانیہ میں بھی خود کو Comfortable محسوس کرتا ہوں۔ میں نیویارک رہ سکتا ہوں، لندن بھی رہ سکتا ہوں اور لاہور میں بھی رہ سکتا ہوں۔ میرے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں ان شہروں میں رہ کر زندگی کے تمام رنگوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میں ان تمام مقامات پر ایک اجنبی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ان تجربات نے مجھے دوسروں سے مختلف بنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ ممکن ہے، اس اجنبیت میں کوئی انفرادیت نہ ہو اور ہر کوئی خود کو ایسے ہی ذاتی تجربات کی بنا پر دوسروں سے کچھ مختلف تصور کرتا ہو۔ جیسا کہ کوئی بچہ جب کسی پسماندہ گائوں سے لاہور آتا ہے اور وہ یہاں 20 برس تک رہتا ہے اور جب وہ واپس اپنے گاؤں جاتا ہے جہاں بجلی بھی نہیں ہے تو وہ خود کو اپنے گائوں میں ہی اجنبی تصور کرنے لگتا ہے۔ اس کے کزنز جب اس سے ملاقات کے لیے لاہور آتے ہیں تو وہ خود کو کسی حد تک اجنبی تصور کرتے ہیں۔ آپ ایک اور بچے کی مثال لے لیجئے جس کے والدین انجینئر ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ بھی انجینئر ہی بنے لیکن وہ شاعری کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس گھر میں ایک اجنبی ہے۔ ایک بچی ہے جس کے پانچ بھائی ہے ‘ وہ خود کو اجنبی محسوس کرتی ہے کیوں کہ چھ بچوں میں وہ واحد لڑکی ہے۔ دراصل بچپن میں میرے جو محسوسات تھے، وہ خاصے مختلف اور عجیب و غریب تھے۔ اب میں قریباً پچاس برس کا ہونے والا ہوں‘ میں نے اپنے محسوسات کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا۔ میرا اب یہ مقصد ہے کہ میں ایسی ہی مماثلت دیگر لوگوں میں بھی تلاش کروں۔ ممکن ہے، وہ بھی خود کو عجیب و غریب محسوس کرتے ہوں۔ ایک مصنف کے طور پر میرا خیال ہے کہ یہ مشاہدات میرے لیے مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
تجزیات آن لائن: Moth Smoke کے بارے میں کچھ بتائیے، اس میں آپ کے مرکزی کرداروں کے نام دارا شکوہ، اورنگزیب اور ممتاز ہیں، کیا یہ نام منتخب کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی؟
محسن حامد: Moth Smoke میں مرکزی کردار داراشکوہ کا ہے جس کا دوست اورنگزیب ہے اور اس کی بیوی کا نام ممتاز ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو ظاہر ہے، ممتاز اورنگزیب اور دارا شکوہ کی والدہ کا نام ہے۔ اس ناول کے اور بھی کرداروں کے نام ایسے ہیں جو اس عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے دراصل تاریخ بیان نہیں کی بلکہ اس عہد میں جاری رہنے والے ایک Conflict کی تصویر کشی کی ہے۔ داراشکوہ لاہور میں ہی رہتا تھا۔ اورنگزیب نے بھی لاہور میں اپنی زندگی کے کچھ ماہ و سال گزارے تھے لیکن داراشکوہ پکا لاہوری تھا۔ اس نے دراصل مغل سلطنت کا متبادل بیانیہ پیش کیا۔ دوسری جانب اورنگزیب رجعت پسند سوچ کا حامل تھا۔ دونوں بھائی فکری طور پر ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ میں نے سوچا کہ جدید پاکستان کے تناظر میں ان دونوں بھائیوں کے اس تاریخی Conflict کی تصویر کشی کرنا بہتر رہے گا، خاص طور پر جب معاشرے میں رجعت پسند سوچ فروغ پا رہی ہے۔ لیکن میں ایک ایسی کہانی پیش نہیں کرنا چاہتا تھا کہ ایک فریق مذہبی طور پر رجعت پسند ہو اور دوسرا فنکارانہ اور روشن خیال سوچ کا حامل۔ کیوں کہ اگر میں ایسا کرتا تو کہانی بہت سادہ اور سپاٹ ہو جاتی۔ میں نے سوچا کہ اگر پاکستان میں رجعت پسند سوچ فروغ پا رہی ہے تو ممکن ہے کہ اس رجعت پسندی کا تعلق اشرافیہ سے ہو جو کرپٹ ہے۔ ناول کا کردار اورنگزیب کوئی غلط بندہ نہیں ہے ۔ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک اچھا شخص بننا چاہتا ہے لیکن بنیادی طورپر کرپٹ ہے۔ دوسری جانب داراشکوہ کوئی فرشتہ صفت ولی نہیں ہے۔ وہ منشیات استعمال کرتا ہے اور مختلف نوعیت کی غلط سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اس ناول میں میں نے پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ اور جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان موجود تعلق کو بھی پیش نظر رکھا۔ میں نے کسی حد تک مغل تاریخ کی ازسرنو تصویر کشی کی ہے جس کا میں نے معاصر جنوب ایشیائی اور بالخصوص انگزیزی ادب میں بہت زیادہ مشاہدہ نہیں کیا۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا، مجھے منٹو کے افسانے پڑھ کر دھچکا لگا تھا، میرے ناول میں ممتاز ایک جرنلسٹ ہے جو خفیہ طور پر کام کر رہی ہے اور ذوالفقار منٹو اس کا قلمی نام ہے۔ یوں معاشرے کی اس ادبی روایت کا احاطہ بھی کیا جس کا تعلق منٹو سے تھا لیکن یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ میں نے سماج کو کسی مخصوص زاویہ نظر سے پیش نہیں کیا۔
تجزیات آن لائن: آپ کے ناولوں پر بالی ووڈ اور ہالی ووڈ وغیرہ میں فلمیں بھی بنائی گئی ہیں، کیا ایک ادبی تخلیق کو بڑی سکرین پر درست طورپر پیش کرنا ممکن ہے؟
محسن حامد: ہاں بھی اور نہیں بھی۔ میرا یہ ماننا ہے کہ ناول اور فلم ایک دوسرے سے مکمل طور پر دو مختلف اصناف ہیں۔ جب آپ ایک کتاب پڑھتے ہیں تو آپ اس کے ہدایت کار بھی ہوتے ہیں، آپ ناول میں بیان کیے گئے منظرنامے کو Imagine کر رہے ہوتے ہیں۔ Imagination کے اس سارے عمل کے دوران آپ مختلف چہرے دیکھتے ہیں، مختلف مقامات کا رُخ کرتے ہیں، مختلف محسوسات سے متعارف ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ خود Create کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک ناول کے مطالعہ کے دوران قاری کو تخلیقی عمل میں شامل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فلم میں آپ جو کچھ دیکھتے ہیں‘ وہ حقیقی دنیا کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ایک فلم میں مختلف لوگ مل کر Creative Work کرتے ہیں اور جو ناظرین ہیں، وہ صرف مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ناول پڑھتے ہوئے آپ صرف مشاہدہ ہی نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک قاری بھی تخلیق کار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کسی بھی ناول پر فلم بنا پائیں لیکن آپ ایک ناول کی کہانی سے متاثر ہو کر فلم ضرور بنا سکتے ہیں۔ فلم میکرز ایسا کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں فلم کبھی ایک ناول کی جگہ نہیں لے سکتی۔ ہو سکتا ہے، کچھ ناولوں اور فلموں میں مماثلت موجود ہو لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف اصناف ہیں۔ لہٰذا میں نے جب بھی ہدایت کاروں کے ساتھ بات کی یا فلم سازی کے عمل میں شامل ہوا ہوں‘ تو میرا فلم سازوں کے حوالے سے ہمیشہ یہ Attitude رہا ہے کہ آپ نے جو بھی بنانا ہے، آپ وہ بنائیں۔ جیسا کہ آپ بچے کو سکول بھیجتے ہیں، لیکن آپ کبھی یہ تعین نہیں کرسکتے کہ آپ کے بچے کے ساتھ آگے جا کر کیا ہو گا۔ آپ صرف ایک معیاری سکول منتخب کرسکتے ہیں اور بہتر مستقبل کی امید رکھ سکتے ہیں۔ یہ میری سوچ ہے۔ آپ کسی ایسے ہدایت کار کو اپنا ناول دے دیں جسے آپ پسند کرتے ہیں اور جس کا آپ احترام کرتے ہیں۔ اب فلم اچھی بنتی ہے یا بری، اس سے بطور ناول نگار آپ کا کوئی سروکار نہیں۔
تجزیات آن لائن: کیا مستقبل میں فلموں کے لیے سکرپٹ رائٹنگ کا ارادہ رکھتے ہیں کیوں کہ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ اردو اور دیگر زبانوں کے بہت سے نامور ادیبوں نے سکرپٹ رائٹنگ میں طبع آزمائی کی یا فلم سازی کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے؟
محسن حامد: نہیں! فی الحال میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں نے The Reluctant Fundamentalist کے سکرپٹ پر تھوڑا سا کام کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہالی ووڈ کے رائٹرز نیویارک یا کارپوریٹ دنیا کے مناظر تو لکھ سکتے ہیں لیکن پاکستان کے مناظر لکھنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ دیسی رائٹرز یہاں کی چیزیں لکھ سکتے ہیں لیکن جو نیو یارک کی کارپوریٹ لائف ہے، اس بارے میں لکھنا ان کے لیے کچھ مشکل تھا۔ لہٰذا میں نے فلم کے مصنف کے ساتھ مل کر سکرپٹ کے اولین ڈرافٹ پہ کام کیا۔ لیکن یہ میرا سکرین پلے نہیں ہے‘ میں نے صرف مشاورت فراہم کی لیکن فائنل سکرپٹ بہت مختلف تھا۔ میں یہ کہوں گا کہ ایک ناول نگار کے طور پر آپ کے لیے سکرین پلے لکھنا بہت مشکل ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ناول میں مصنف کی اپنے کرداروں اور پلاٹ وغیرہ پر مکمل گرفت ہوتی ہے۔ سکرین رائٹنگ میں آپ ایک ٹیم کے رُکن ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ گھر بنا رہے ہیں تو ناول نگار کا کام بڑی حد تک آرکیٹیکٹ کے کام سے مشابہت رکھتا ہے۔ ایک ناول نگار کارپینٹر والا کام بھی کر لیتا ہے، وہ معمار کا کام بھی کر سکتا ہے، رنگ و روغن بھی کر لیتا ہے لیکن جب آپ سکرین پلے لکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت آپ کا کام بڑی حد تک صرف کارپینٹر کے کام سے ہی مشابہت رکھتا ہے جس میں آپ کی ایک مخصوص ذمہ داری ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ کوئی کم تر درجے کا کام ہے‘ ممکن ہے، یہ اعلیٰ درجے کا کام ہو۔ میرے خیال میں ایک دوسرے کے تعاون سے آرٹ پروڈیوس کرنا ایک شاندار کام ہے۔ جب چھ، آٹھ، دس موسیقار مل کر کوئی گیت تخلیق کرتے ہیں تو ان کا کام اس گلوکار سے کم تر درجے کا نہیں ہوتا جو اکیلا گیت گا رہا ہوتا ہے۔ ناول نگاری میں ایک مصنف کو جو آزادی حاصل ہوتی ہے‘میں سمجھتا ہوں کہ کسی اور کام میں اس قدر آزادی حاصل ہونا ناممکن ہے کہ آپ مکمل طور پر تنہا ہیں اور اپنی من پسند کہانی بیان کرسکتے ہیں’ میں یہ واضح کردوں کہ میرے لیے یہ آزادی نہایت اہم ہے۔ ہو سکتا ہے، کسی مرحلے پر میں یہ محسوس کروں کہ دیگر لوگوں کے ساتھ تخلیق کے عمل میں شامل ہونا دلچسپ ہو گا۔ فلم ایک سماجی آرٹ ہے‘ اس میں آپ کو ہمیشہ ہی دیگر لوگوں کے تعاون کی ضرورت پیش آتی ہے جو ایک شاندار تجربہ ہو سکتا ہے۔ ناول نگار کے طور پر میرا کام ہے کہ میں اپنے کمرے میں کچھ وقت تنہا گزاروں۔ کسی سے ملاقات کروں اور نہ ہی بات کروں۔ یہ میرا کام ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ناول لکھنا ایک نہایت عجیب و غریب کام ہے، اکثر اوقات یہ کام بہت Depressingہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ تصور نہایت خوش کن ہے کہ آپ کسی ٹیم کے ساتھ مل کر کام کریں۔ لیکن فی الحال میں خود کو ناول نگاری تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
تجزیات آن لائن: آپ کے دوسرے ناول The Reluctant Fundamentalist کو مغرب سمیت انڈیا و پاکستان میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ تھی کیوں کہ اس ناول کے منظرعام پر آنے سے چند برس قبل ہی نائن الیون کا سانحہ ہوا تھا؟
محسن حامد: اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا نہایت مشکل ہے۔ مجھ سے عمر میں دس پندرہ برس بڑے یا پانچ سات سال چھوتے لوگ اب بھی مجھ سے Moth Smoke کے بارے میں زیادہ بات کرتے ہیں۔ میں اس بارے میں میَں کچھ کہنے سے قاصر ہوں کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس کی وجہ ایک مخصوص ایج گروپ سے تعلق رکھنے والے قارئین ہیں جو بڑے شہروں میں رہتے ہیں اور وہ اس قسم کے تجربات سے گزرے ہیں۔The Reluctant Fundamentalist is speaking to a moment about mistrust. جب ہم ایک دوسرے کو انٹرپریٹ اور Imagine کر رہے ہوتے ہیں کہ امریکا کیسا ہے؟ پاکستان کیسا ہوگا؟ مسلمان کیا ہیں؟ مغربیت کس بلا کا نام ہے؟ ظاہر ہے، جب ہم یہ چیزیں کرتے ہیں تو ہم ایک تخلیق میں Fantasy شامل کر دیتے ہیں کیوں کہ حقیقت میں ایسا کچھ ہو نہیں رہا ہوتا۔ ہم مسلمانوں کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے کہ وہ ایسے ہیں کیوں کہ دنیا میں اربوں مسلمان بستے ہیں اور ان کے عقائد ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تمام امریکی ایک ہی طرح کے ہوں؟ مثال کے طور پر آپ اور میں دونوں لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔ ہم میں کچھ Common Attributes ہوں گے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ اس وقت کالج سے واپس جا رہی لڑکی بھی ہماری طرح ہی سوچ رہی ہو گی؟ ہم ان چیزوں کو Generalize نہیں کر سکتے۔ اورThe Reluctant Fundamentalist دراصل اس بارے میں ہی ہے کہ ہم کس قدر جلد معاملات کو Generalize کر ڈالتے ہیں اور وہ بھی خطرناک طریقے سے۔ The Reluctant Fundamentalist ایک ایسا ناول ہے جس میں کچھ ہوتا نہیں ہے۔ اس میں Conversation ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب میَں نے یہ کتاب لکھی تھی، اس وقت یہ ایک ایسا موضوع تھا جس کے بارے میں لوگ پڑھنا چاہتے تھے، تفکر کرنا چاہتے تھے۔ نائن الیون پر متعدد ناول اور فلمیں آچکی ہیں۔
تجزیات آن لائن: پاکستان اور انڈیا میں انگریزی لکھنے والے ادیبوں کی تحریروں میں کچھ موضوعات یکساں نوعیت کے ہیں۔ ان میں شناخت کا سوال ہے، ہجرت کا المیہ ہے جس کی جھلک آپ کے حالیہ ناول Exit West میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ کیا اردگرد کے سیاسی حالات ایک تخلیق کار پربھی اثرانداز ہوتے ہیں یا ان موضوعات کے چنائو کی وجوہ کچھ اور ہیں؟
محسن حامد: میرا خیال ہے کہ ہر مصنف کا طرزِ فکر مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے ہجرت کا ذکر کیا‘ پاکستان میں قریباً ہرشخص کی زندگی میں ہجرت کا تجربہ Fundamental اہمیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جو بچہ لاہور سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع گاؤں میں رہتا ہے‘ اس کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ لاہور آباد ہو جائے۔ یا جو بچہ وزیرستان میں رہ رہا ہے ‘ وہ کراچی جانے کا خواب دیکھتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ہجرت سے بڑی کوئی حقیقت نہیں۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ لوگ اس بارے میں کیوں لکھ رہے ہیں تو میں یہ وضاحت کردوں کہ نائن الیون ایک تھیم نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایونٹ ہے۔ جیسا کہ یہ دو تہذیبوں مشرق و مغرب کے درمیان جاری تصادم کو واضح کرتا ہے، لیکن یہ دہشت گردی کا صرف ایک واقعہ ہے۔ میں جب اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا ہوں توان کے سکول کی چھت پر سنائبرز بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب ہم سکول جاتے تھے تو دروازے پر چوکیدار تک نہیں ہوتا تھا یا غالباً ہمارا دھیان اس جانب نہیں جاتا تھا۔ اس کے پاس یقیناً بندوق نہیں ہوتی تھی۔ آپ اب دو سوال پوچھ سکتے ہیں: اول، آپ ان چیزوں کے بارے میں کیوں لکھ رہے ہیں؟ دوسرا، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بیرونِ ملک قارئین کو مطمئن کرنے کے لیے آپ ایسا کر رہے ہیں؟ آپ ایسا سوچ سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ایک مصنف کے لیے پاکستان کے موجودہ حالات سے راہِ فرار اختیار کرنا ممکن نہیں ہے بالخصوص جب آپ کے اپنے شہری ایک برس میں پانچ، دس ہزار کی تعداد میں مارے جا رہے ہوں۔ آپ کے ٹیلی ویژن چینلوں پر ہمہ وقت اس بارے میں ہی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ آپ یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہوں گے کہ آپ کسی اور موضوع پر کیوں نہیں لکھتے؟ میں یہ کہوں گا کہ ہر مصنف کی کتاب میں آپ کو دیگر موضوعات بھی مل جائِں گے۔ مثال کے طور پر وہ پیار کے جذبے کی عکاسی بھی کرتے ہیں‘ والدین اور بچوں کے باہمی تعلقات کے موضوع پر بہت لکھا گیا ہے‘ لوگ آسمان کو Describe کرتے ہیں، کھانے کو Describe کرتے ہیں تو یہ چیزیں بھی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو چیزیں آپ پر سب سے زیادہ Effect کرتی ہیں‘ آپ ان کے بارے میں زیادہ لکھتے ہیں۔ منٹو صاحب تقسیم اور سماجی مسائل پر ہی کیوں لکھتے رہے؟ کیوں کہ اس وقت حالات ہی ایسے تھے۔ ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ منٹو امریکی قارئین کے لیے لکھ رہے تھے۔ دوسرا، میرا خیال ہے کہ قارئین کے لیے لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ لوگ غالباً یہ سوچتے ہیں کہ غیرملکی قارئین ایسی تحریریں پڑھنا چاہتے ہیں اور ہمارے معدودے چند مصنفین ان کی یہ طلب پورا کر رہے ہیں جس کے باعث مغرب میں ان کو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان موضوعات پر ہزاروں ادیب لکھ رہے ہیں۔ ایک تحریر کسی ٹاپک کی بنا پر مقبول نہیں ہوتی۔ اہم یہ ہے کہ آپ نے موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے یا نہیں؟ آپ نے کس طرح کے الفاظ منتخب کیے؟ آپ نے کس طرح سوچا؟ درحقیقت ایک مصنف کا بنیادی کام یہ ہے’ موضوع کی اہمیت ثانوی رہ جاتی ہے۔ لیکن پاکستان اور انڈیا میں ایک خاص طرز کی فکر مقبول ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگ سیدھے راستے سے آگے نہیں جا سکتے اور ایک تخلیق کار بھی غالباً یہ سرحد عبور نہیں کر سکتا۔ تمام مصنفین کرپٹ ہیں‘ وہ بھی اقربا پروری ، کرپشن اور ایسے طریقوں سے ہی اپنی گیم چلا رہے ہیں۔ ادب میں کرپشن اور اقربا پروری یہ ہے کہ گوروں کی مرضی کے موضوعات پر لکھا جائے۔ میرے خیال میں یہ ایک کافی کمزور سوچ ہے کیوں کہ ادب کوئی کاروبار نہیں ہے۔ ادب دراصل ادب ہے جس میں یہ دیکھنا اہم ہے کہ فلاں مصنف کا طرزِ اسلوب کیا ہے؟ اس کی تحریریں مختصر ہیں یا طویل۔ اگر مختصر ہیں تو کیوں؟ اگر طویل ہیں تو بھی کیوں؟ کس طرح کے الفاظ کا چنائو کیا گیا ہے۔ اس میں شامل Rhythms کیا ہیں؟ اس میں موومنٹ کیا ہے۔۔۔ اس میں موسیقیت ہے یا نہیں؟ یہ ایک ناول کے اہم ترین اجزا ہیں۔ یہ سوال کہ ہمارے مصنفین بالخصوص انگریزی میں لکھنے والے ادیب کیا کسی فارن مارکیٹ کے لیے ایسا ادب تخلیق کر رہے ہیں‘ ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے اور صرف یہ دیکھا جانا چاہئے کہ اس ناول کا طرزِ اسلوب کیا ہے۔
تجزیات آن لائن: آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آپ Realism پر یقین نہیں رکھتے‘ اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟
محسن حامد: میرا خیال ہے اور جیسا کہ ہم اس میز کے گرد بیٹھے ہیں‘ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم اسے چھو سکتے ہیں کیوں کہ یہ ایک ٹھوس چیز ہے لیکن حقیقت میں یہ Solid نہیں ہے، اس میں بڑی حد تک خلا ہے۔ اس کے اندر چند بکھرے ہوئے ایٹم ہیں’ اگر ہم اسے الیکٹرو مائیکروسکوپ سے دیکھیں تو اس میں بڑی حد تک خلا ہے اور چند ایٹمز ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اس کے ساتھ ایک Solid چیز کے طور پر پیش آتے ہیں۔ کچھ اسی طرح آپ مجھ سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ آپ ادب کیوں تخلیق کرتے ہیں اور میں آپ کو جواب دے رہا ہوں ۔ میں آپ کو جو جواب دے رہا ہوں‘ وہ میں Invent کر رہا ہوں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو بھی Invent کر رہا ہوں۔ میں کیا ہوں؟ کون ہوں؟ کس طرح کا آدمی ہوں؟ یہ چیزیں ہم سب Invent کرتے ہیں۔ ہم کہانیاں بناتے ہیں اور کبھی کبھار ہم پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں غلط ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرویو مکمل ہونے کے بعد جب میں باہر نکلوں گا تو ہوسکتا ہے کہ کوئی میری گاڑی کے سامنے سے غلط طریقے سے گزر جائے یا کوئی حادثہ ہو جائے‘ میں گاڑی سے نکلوں اور اس شخص کو برابھلا کہوں اور شاید ماروں بھی۔ اور پھر میں دوبارہ سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگوں۔ میں یہ ضرور سوچوں گا کہ میں ایسا نہیں تھا‘ میں ایسا ہوتا نہیں ہوں۔ اور میں یہ سوچوں گا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ میں ہی تھا۔ یوں اگر تجزیہ کیا جائے تو ہم سب ناول نگار ہیں اور ہماری کتابیں جو ہیں‘ وہ ہم خود ہیں۔ ہم خود کو Invent کرتے رہتے ہیں۔ دراصل ہم سب ایک بہت Complex جانور ہیں۔ خود کو آپس میں Relate کرنے کے لیے ہمیں کہانیاں چاہئیں۔ اپنے آپ کو انڈرسٹینڈ کرنے کے لیے ہمیں کہانیاں چاہئیں۔ لیکن جب ہم کہانیاں بناتے ہیں تو وہ مکمل طورپر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں۔ کسی حد تک ان میں حقیقت ہوتی ہے اور کسی حد تک نہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو Realism ہے جس کے بارے میں آپ واقعتا یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک حقیقت ہے‘ میں اس پر یقین نہیں کر سکتا کیوں کہ میں یہ جانتا ہوں کہ میری اپنی زندگی میں حقیقتیں بدلتی رہتی ہیں۔ آج میں صبح اٹھا‘ اخبار کھولا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ پاکستان میں حالات بہت خراب ہیں۔ کل میں جاگوں گا تو ممکن ہے مجھے یہ محسوس ہو کہ حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ ایک دن میں Depressed ہوتا ہوں اور ایک دن Excited۔ ایک دن پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مایوس‘ اگلے روز بہت زیادہ پرامید۔۔۔ کیا کوئی تبدیلی آئی ہے؟ نہیں! درحقیقت صرف میری سوچ تبدیل ہوئی ہے۔ اس طریقے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ Realism ایک اجتماعی یقین ہے۔ اگر آپ Realism پر یقین نہیں رکھتے تو ممکن ہے تب آپ کو ایسی چیزیں نظر آ جائیں جو واقعتاً حقیقت پسندی سے بہتر ہوں۔
تجزیات آن لائن: کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے ناول کسی حد تک آپ کی آپ بیتی کا تسلسل ہیں؟
محسن حامد: میرا خیال ہے کہ ہر ناول اپنے تخلیق کار کے بارے میں ہے بھی اور نہیں بھی۔ جب میں کوئی کردار تخلیق کرتا ہوں جیسا کہ Moth Smoke میں ممتاز اور Exit West میں نادیہ کا کردار تو ظاہر ہے کہ میں ممتاز ہوں اور نہ ہی نادیہ ہوں۔ لیکن جب آپ کوئی کردار تخلیق کرتے ہیں تو آپ ایک اداکار کی طرح ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک اداکار مختلف کرداروں میں ڈھل جاتا ہے، مثال کے طور پر ال پچینو۔ وہ ’’گاڈ فادر‘‘ میں مختلف طرح کے کردار میں نظر آتے ہیں اور کسی اور فلم میں ان کا کردار ہٹ کر ہوتا ہے۔ لیکن یہ تمام کردار ال پچینو میں سے نکلے ہیں‘ ال پیچینو نے انہیں Shape کیا ہے۔ ان کرداروں میں ال پیچینو کی جھلک ہے۔ اس لیے جب کوئی ناول نگار کوئی ناول لکھتا ہے تو اس ناول میں بڑی حد تک اس ناول نگار کی ذاتی زندگی کا عکس بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ناولوں میں ناول نگار کی زندگی کی پوری جھلک نظر آ جائے۔ میں ان ایشوز پر ناول لکھتا ہوں جو میرے لیے پریشانی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں‘ جنہیں میں سمجھنے سے قاصر ہوتا ہوں یا جن کے بارے میں کنفیوژ ہوتا ہوں۔ میں انہیں سمجھنے اور انڈرسٹینڈ کرنے کے لیے ناول لکھتا ہوں۔ Moth Smoke 2000ء میں شائع ہوا تھا۔ اسّی کی دہائی سے قبل کلاشنکوف اور ہیروئن کے الفاظ کوئی استعمال نہیں کرتا تھا ‘ یہ جو تبدیلیاں آئی ہیں، ان کو دیکھنے کے لیے اور انڈرسٹینڈ کرنے کے لیے میں نے یہ ناول تحریر کیا لیکن The Reluctant Fundamentalist میَں نے ایک ایسے کردار کے بارے میں لکھا جو یہ سمجھتا ہے کہ اسے یہ انتخاب کرنا ہے کہ وہ پاکستانی ہے یا امریکی؟ اپنی زندگی میں میَں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسا کوئی انتخاب کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس صورتِ حال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے میں نے یہ کردار تخلیق کیا۔ 2009ء میں جب پاکستان واپس آیا تو یہ محسوس کیا کہ پاکستان میں لوگوں کے لیے پیسہ خدا بن گیا ہے۔ اب اس دنیا میں انسان کیا کرسکتا ہے؟ میں نے سوچا کہ دنیا کو Resist کرنے کے کیا طریقے ہیں؟ میں نے اس حوالے سے ناول “How to Get Filthy Rich in Rising Asia” لکھا، یہ کتاب ایک طرح سے ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جو چیزوں کو Embrace کرتا ہے کیوں کہ اس کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ وہ ایک غریب پس منظر سے تعلق رکھتا ہے‘ اور پھر اختتام پر اس کا اپنا ایک کاروبار ہوتا ہے اور کچھ عرصہ بعد وہ ایک کامیاب بزنس مین بن چکا ہوتا ہے۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ اہل پاکستان کے خوابوں کی ایک Embodiment ہے کہ انسان کو ایسا ہونا چاہئے۔ لیکن اپنے اس سفر میں وہ اپنا خاندان، دوست احباب سب کچھ کھو بھی دیتا ہے۔ اس کردار کا کوئی نام نہیں ہے‘ وہ ’’آپ‘‘ ہے، “You” ہے۔ اگر ہم صوفی شاعری کی ہی مثال سامنے رکھ لیں تو اس میں پیار ہے، عشق ہے جس سے ہم ذات کی محدودیت کو ختم کر سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے، میں نے ایک دن مرنا ہے۔ لیکن مجھے پیار ہے، خدا سے، اپنے بچوں سے یا بیوی سے یا کسی اور سے۔ اس لیے میرا مرنا درحقیقت کوئی بہت بڑا المیہ نہیں ہے۔ ٹھیک ہے، میں مر جاؤں گا۔ لیکن یہ جو دوسری چیزیں ہیں جن سے مجھے پیار ہے’ ان چیزوں نے مجھے ایک Strength دی ہے، یہ دراصل زندگی سے محبت اور پیار کی اپروچ ہے۔ یہ ایک Antidote ہے۔ اس وقت میں نے یہ سوچا کہ میں ایک صوفی غزل کو ترجمہ کر کے ایک ماڈرن سرمایہ دارانہ کہانی میں شامل کروں تو کیسا رہے گا؟ میں پاکستان واپس آیا‘ ایک مکمل سرمایہ دارانہ نظام کے حامل پاکستان۔ میں نے ان حالات کو ایک Old Fashioned سوچ کے ساتھ Investigate کیا۔ میرے لیے ایسا کرنا نہایت اہم تھا۔
تجزیات آن لائن: اپنے حالیہ ناول Exit West کے بارے میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گے’ اس میں آپ نے ہجرت کو موضوع بنایا ہے؟
محسن حامد: سب سے پہلے تو یہ کہ میں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ مائیگریٹ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کل پوری دنیا میں Equality ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ مرد ہیں یا عورت تو آپ برابر ہیں۔ اگر آپ کالے ہیں، گورے ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تو بھی یکساں حقوق کے حامل ہیں۔ لیکن لاہور یا موغادیشو میں پیدا ہونے والا ایک بچہ اگر مغربی دنیا کا رُخ کرنا چاہتا ہے تو یہ مساوات ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے اس Inequality کی سمجھ نہیں آتی۔ اگر ہم واقعتاً ایک معیاری جمہوری نظام پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ہمیں ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم سب برابر ہیں، ہم سب کے حقوق یکساں ہیں۔ اور میں نے اس دنیا کو Imagine کرنے کے لیے ہی یہ کتاب Exit West لکھی ہے۔ امریکا میں اب جو لوگ آباد ہیں، ان کے آباؤ اجداد بھی کہیں اور سے ہی آ کر وہاں آباد ہوئے تھے۔ لہٰذا آپ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ لوگ اب امریکا کا رُخ کرنا چھوڑ دیں۔ جیسا کہ اگر پاکستان کے کسی اور علاقے سے کوئی بچہ لاہور آنا چاہے تو ہم اسے ایسا کرنے سے کس طرح روک سکتے ہیں؟ کیوں؟ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ ہم نے مختلف ملک بنائے ہیں‘ یہ تخیلاتی چیزیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ نے کہا کہ آپ پاکستانی ہیں‘ آپ نہیں آ سکتے تو اس نقطۂ نظر کو Question کرنے کے لیے میں نے یہ ناول لکھا۔۔۔ لاہورایک قدیم شہر ہے۔ آپ اس کا موازنہ مغرب کے قدیم شہروں سے کریں۔ بغداد، دمشق اور بہت سارے پرانے شہر ہیں جو شورش کے باعث تباہ ہو چکے ہیں۔ کیا لاہور کے حالات بھی ایسے ہو سکتے ہیں؟ ہم سب خوف زدہ ہیں کہ شاید پاکستان میں بھی ایسا کچھ ہوجائے۔ اس ڈر، خوف اور اپنے نقطۂ نظر کو واضح کرنے کے لیے میں نے یہ کتاب لکھی کہ سب انسانوں کے حقوق یکساں ہیں۔
تجزیات آن لائن: آپ کے اب تک شائع ہونے والے تمام ناول بہت زیادہ طویل نہیں ہیں‘ آپ کے خیال میں اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
محسن حامد: میرے پڑھنے کی رفتار چوں کہ بہت زیادہ تیز نہیں ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ قاری کا کام ناول نگار سے زیادہ اہم اور مشکل ہوتا ہے جس کے باعث میری یہ خواہش رہی ہے کہ میں چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھوں جنہیں اگر قارئین چاہیں تو دو تین بار پڑھ سکیں۔ لیکن اس سے بھی اہم نکتہ یہ ہے کہ ایک قاری اس مختصر ناول میں اضافہ کر کے اسے اپنی تخلیق بھی بنا سکتا ہے۔ اسی لیے میں اپنی کتابوں میں جان بوجھ کر Gap چھوڑتا ہوں۔
تجزیات آن لائن: کیا آپ کے لکھنے کا کوئی خاص معمول ہے، صبح کے وقت لکھتے ہیں یا شام کے اوقات میں؟
محسن حامد: میں تقریبا گزشتہ دو دہائِوں سے ناول لکھ رہا ہوں۔ Moth Smokeلکھنے کے لیے میرا معمول رات بارہ سے صبح آٹھ بجے تک ہوا کرتا۔ اب میں تقریباً 50 برس کا ہونے والا ہوں‘ میرے دو بچے بھی ہیں ۔ میں اب اس وقت لکھتا ہوں جب وہ سکول چلے جاتے ہیں۔ صبح نو سے دوپہر ایک، دو بجے تک لکھتا ہوں۔
تجزیات آن لائن: ان دنوں کون سی کتاب آپ کے زیرِمطالعہ ہے؟
محسن حامد: حقیقت یہ ہے کہ آج کل میں کچھ نہیں پڑھ رہا کیوں کہ گزشتہ برس بہت زیادہ سفر کیا ہے اور دنیا کے قریباً 80 شہروں کی سیاحت کی ہے۔ میں اس وقت بنیادی طور پر اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں۔ افریقی نژاد امریکی مصنفہ جیسمین وارڈ کی کتاب “Sing, Unburied, Sing” مطالعہ کے لیے بک مارک کر رکھی ہے۔ جیسمین وارڈ نے اس کتاب میں اپنی دنیا کی تباہی کا دردناک تجربہ پیش کیا ہے۔ ان کی اس کتاب کو امریکا میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
تجزیات آن لائن: آپ نے اپنے ناولوں میں مختلف تجربات کیے ہیں‘ کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
محسن حامد: میں جب ناول لکھنا شروع کرتا ہوں تو میں آگاہ نہیں ہوتا کہ اسے کس طرح لکھوں؟ میرے کچھ آئیڈیاز ہوتے ہیں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ میں اپنے ان آئیڈیاز کو کس طرح ایکسپریس کروں۔ میرے لیے موضوع اہم نہیں بلکہ آپ نے یہ جو سوال پوچھا ہے کہ اس کی فارم کیا ہے’ اس کی میری نظر میں زیادہ اہمیت ہے۔ Moth Smokeایک ٹرائل ہے۔ The Reluctant Fundamentalist دراصل ون مین پلے کی طرح ہے جس میں ایک شخص بول رہا ہے لیکن آپ دوسرے کردار کی گفتگو سن نہیں سکتے۔ میرے لیے How to Get Filthy Rich in Rising Asiaایک سیلف ہیلپ اور Exit West ایک چلڈرن بک کی طرح ہے۔ ہر کہانی کی اپنی ایک فارم ہے اور اسی سے اس کا تاثر طاقت ور بھی ہوتا ہے اور کمزور بھی۔۔۔ جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ انگریزی میں ناول کا مطلب ہے: ’’نئی چیز‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تجربات ایک Fundamental Component ہیں۔
تجزیات آن لائن: انگریزی زبان کا ادب تخلیق کرنے والے جنوب ایشیائی ادیبوں کا تجزیہ کس طرح کریں گے؟
محسن حامد: میں ان Generalities پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ آپ مجھ سے یہ سوال کریں کہ پاکستان کے بچے کس طرح کے ہیں؟ سب میں فرق ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح سوچنا غلط ہے۔
تجزیات آن لائن: معاصر جنوب ایشیائی انگریزی ناول نگاروں میں سے آپ کا پسندیدہ ترین ناول نگار کون ہے؟
محسن حامد: میرے لیے اس سوال کا جواب دینا کچھ مشکل ہے کیوں کہ یہ سب ناول نگار میرے معاصر ہیں اور ان میں سے بہت سے دوست بھی ہیں۔ میرے لیے کسی ایک کا انتخاب مشکل ہے۔ میں آپ کو کچھ کتابوں کے نام بتا سکتا ہوں جو حال ہی میں شائع ہوئی ہیں اور مجھے بہت پسند آئی ہیں۔ انگریزی میں محمد حنیف کی “A Case of Exploding Mangoes” اور دانیال محی الدین کے ایک ناول نے متاثر کیا لیکن میں ہر گز یہ نہیں کہوں گا کہ پاکستان کے انگریزی ناول نگاروں کی ایک یا دو کتابیں ہی میری فیورٹ ہیں۔ کاملہ شمسی، ندیم اسلم، عامر حسین وغیرہ کے علاوہ بھی بہت سے مصنفین ایسے ہیں جن کی ادبی کاوشوں نے متاثر کیا۔ انڈین مصنف سکیتا مہتا کی نان فکشن کتاب “Maximum City” نے متاثر کیا۔ جب میں ٹین ایجر تھا تو بیپسی سدھوا کی کتابوں اور سارہ سولیرو کی کتاب “Meet-less Days” نے متاثر کیا۔ ارون دتی رائے، وکرم سیٹھ، وی ایس نائپال اور بہت سے مصنفین کے ناول پسند آئے۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ میں ان میں سے اپنے چند فیورٹ مصنفین کا انتخاب کروں اور نہ ہی میں ایسا کرنا چاہوں گا۔
فیس بک پر تبصرے