حقِ ملکیت اور گلگت بلتستان

1,164

ہر صوبے کے باشندے اپنے صوبے کی زمینوں کے مالک ہے تو صرف گلگت بلتستان میں گلگت بلتستان کے لوگ اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں ہیں اور وزارتِ اُمور کشمیر یا خطے کا چیف سکریٹری گلگت بلتستان کی زمینوں کے تصرف کا مالک کیسے بن سکتا ہے

گلگت  بلتستان میں ان دِنوں حقِ ملکیت کی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بالخصوص اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیاں بالعموم عوام میں اس تحریک کو لیکر خوب سیاسی جد و جہدکا آغاز کر چُکی ہے۔گلگت  بلتستان  کے مختلف اضلاع میں موجود ہزاروں بنجر اراضی پر متصّلہ مواضاعات  کے لوگوں کے حقوق ماضی  سے  تسلیم شدہ ہیں ۔اِن زمینوں پر مقامی آبادی کا حقِ ملکیت  اور حقِ تصرف کوتسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ایسی زمینیں ریونیو کاغذات میں بھی انہی مواضعات کے چراہ گاہوں کے طور پر اندراج ہے۔ لیکن اب حکومت کی جانب سے ان زمینوں کو سرکاری زمینیں قرار دی گئی ہیں  ۔حکومت گلگت  بلتستان میں زمینوں سے متعلق ر ایج   قانون نوتوڑ رولز کے سہارے یہ اقدامات کر رہی ہے۔ جس سے عوامی حلقوں میں بہت زیادہ تشویش اور اضطراب پایا جاتاہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کو گلگت  بلتستان قانون ساز اسمبلی کے پچھلے انتخابات میں عوام کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد اب عوام کے دلوں میں اپنے لئے پھر سے جگہ  بنانے کے لئے اس مسئلے کو  شدت سے اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔اگرچہ یہ حقیقت سب پہ عیاں ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں جب وفاق اور گلگت  بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کو مظبوط حکومت قائم تھی تب  اس نوتوڑ قانون کے خاتمے کے لئے عملی اقدام کرسکتی تھی، مگر اُنھوں نے اپنے دور حکومت میں کچھ نہیں کیا۔ بحر حال دیر آید درست آید کے مصداق پیپلز پارٹی نےاب اس مسئلے کوپوری قوت کے ساتھ اُٹھانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اسی مسئلے کو لیکر پہلے گلگت میں جلسہ کر چُکی ہے اب حال ہی میں حقِ ملکیت اور حقِ حاکمیت کے حوالے سے سکردو میں بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔جلسے میں پیپلز پارٹی گلگت  بلتستان کے مختلف اضلاع کے نمایاں عہدہ دار شریک تھے جن میں سے اکثر راہنماوں نے جلسہ سے خطاب بھی کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی گلگت  بلتستان کے موجودہ صوبائی صدر امجد ایڈوکیٹ،جن کا شمار گلگت  بلتستان کے ممتاز قانون دانوں میں بھی ہوتا ہے حقِ ملکیت اور حق ِحاکمیت کے مسئلے کو اُٹھانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ اُنھوں نے  اس مسئلے کے تناظر میں تمام قانونی پہلووں کو بھی اُجاگر کرتے ہوئے مسئلے کو لوگوں کو سمجھایا ہے جس کے باعث عام لوگوں کے لئے بھی ان مسائل کے سمجھنے میں اب آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ اُنھوں نے جلسہ میں اپنی تقریر میں بھی اس مسئلے پر فوکس کیا اور راقم نے ا  س  اہم مسئلے کے تناظر میں ان سے ایک نشت بھی کی تاکہ گلگت  بلتستان کے اس اہم قومی مسئلے کے تمام قانونی پہلووں کو بھی اُجاگر کیا جاسکے۔ حق ِ ملکیت ایشو  کا تاریخی پس منظر اس طرح ہے۔

حقِ ملکیت کا تصور آئین پاکستان  اخذ کیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ  ملک میں جو بھی زمین ہو گی وہ نجی ملکیت کی زمین ہوگی۔گورنمنٹ لینڈ اس زمین کو کہیں گے جو  قانون ِحصول اراضیات کے تحت ایک مالک اراضی سے حکومت حاصل کی جاتی ہے۔ سرکاری اراضی کی دوسری قسم وہ زمینیں ہیں جو حکومت کسی جنگ کے نتیجے میں کسی علاقے کو  فتح کر کے حاصل کرتی ہے۔وہ بھی سرکاری زمین کہلاتی ہے۔ایسی زمینیں حکومت پھر اصلاحات کے نتیجے میں عوام میں تقسیم کرتی ہے۔ہمارے ملک میں 1947 ء سے اب تک تین بار زمینوں کے حوالے سے حکومتوں نے اصلاحات نافذ کی ہیں۔موجودہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں شالمات ِدیھہ کا قانون آزادی سے قبل سے رائج تھا۔ آزادی کے بعد بھی حکومتِ پاکستان نے اس قانون کو چلنے دیا۔ یہی شاملاتِ دیھہ کا قانون بھارت میں بھی رایج ہے جس کے تحت ایسی زمینیں جو کسی گاوں سے متصل ہو  اُس پر تصرف اور ملکیت کا حق اُسی گاوں والوں کو حاصل ہے۔ہمارے ملک میں شاملاتِ دیھہ کے قانوں کے تحت ایسی زمینوں کی تقسیم کا اختیار متعلقہ علاقے کے ممبر یونین کونسل کو حاصل ہے۔ یونین کونسل  کے ارکان متعلقہ علاقوں کے نمبرداران اور سرکردگان کے ساتھ بیٹھ کر تقسیم کی تفصیلات طے کرتے ہیں۔ ا س میں ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ شاملات دیھہ کے قانون کے تحت ان زمینوں پر اُس علاقے کے پُشتنی باشندوں کو یہ حق حاصل  ہوتا ہے بلکہ پُشتنی باشندوں کی بھی درجہ بندی ہوتی ہے۔ان میں ایک کٹیگری کو اعلیٰ مالک کہتے ہیں اُس سے مراد وہ افراد جن کے پاس شاملات ِ دیھہ کے تحت زمینیں ہوتیں ہیں۔دوسرئے درجے کے لوگ ادنیٰ مالک کہلاتے ہیں۔اس کٹیگری میں وہ لوگ شامل ہیں جن کو اُس علاقے میں زمین حاصل نہیں ہوتی۔البتہ  وہ اپنی محدود ضرورت کے لئے زمین خرید لیتا ہے تو اُس کا حق صرف اُسی زمین کی حد تک ہے۔ابتدا میں اسی قانون کے تحت لوگوں میں زمینیں تقسیم ہوتی رہیں۔پاکستان میں زمینوں کے حوالے سے پہلے اصلاحات صدر ایوب خان کے دور میں ہوئے جس میں فی گھرانہ زمین کی حد 500  ایکڑ  مقرر کی گئی۔پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دوسری بار اصلاحات نافذ کئے گئے جس کے تحت لوگوں کے لئے ملکیتی زمینوں کی حد 300  ایکڑ فی گھرانہ مقرر ہوا۔ ان اصلاحات  کے تحت بنجر زمینوں کو لوگوں کی جانب سے آباد کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اُن بنجر زمینوں کی آباد کا ری کے لئے نہریں نکال کر دیں گئیں تاکہ ملک میں زراعت کا شعبہ ترقی کرسکے اور ملکی معیشت میں استحکام آئے۔جہاں تک گلگت  بلتستان میں زمینوں کی حیثیت کا تعلق ہے گذشتہ 68 سالوں میں گلگت  بلتستان کے لوگوں کو ان اصلاحات سے استفادہ حاصل کرنے کا حق نہیں دیا گیا کیونکہ ماضی کے ان اصلاحات کو یہاں تک توسیع نہیں دی گئیں۔اس کے برعکس پاکستان کے وہ سارئے قوانین جو عوام کو جکڑنے کے لئے ہوتے ہیں جن کے زریعے عوام کو سخت ترین سزائیں دی جاسکتی ہیں وہ یہاں فوراً نافذ کئے جاتے رہے۔جن میں آزادی کے فوری بعد یہاں ایف سی آر کا قانون، انسداد دھشت گردی کا قانون، ٹیکسیشن کا قانون وغیرہ وغیرہ ملک کے دوسرئے حصوں کی طرح گلگت  بلتستان  میں بھی نافذ ہیں۔لیکن ملک کے وہ سارے قوانین جو لوگوں کو حقوق، مراعات،حقِ ملکیت یا دیگر سہولتیں دیتے ہوں اُن کو یہاں تک  توسیع نہیں دئے گئے۔ گلگت  بلتستان میں  اس صورت ِحال کے پیدا کرنے میں وزارت ِاُمور کشمیر کا عمل دخل ہے۔وزارتِ اُمورکشمیر کی آفسرِشاہی نے گلگت  بلتستان کو اپنا محکوم رکھنے کے لئے ایسا کیا۔  یہ سلسلہ 1974ء تک جاری رہا۔ 1974 ء میں ذولفقار علی بھٹو نے گلگت  بلتستان کا دورہ کیا۔اُس دور میں ایک طرف ایف سی آر کا قانون نافذ تھا تودوسری طرف راجگی نظام رایج تھا۔غریب عوام ان دونوں جابرانہ قوانین کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ بھٹو نے یہاں کے عوام کی حالتِ زار کا بغور جائزہ لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ یہاں سے راجگی اور ایف سی آر دونوں قوانین کا خاتمہ کیا جائے گا۔راجگی نظام کے تحت زمینوں کی ملکیت مقامی راجاوں کے پاس تھی اور راجاوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کس کو کتنی زمین دے۔بھٹو نے ان راجاوں کی جاگیریں ختم کر دی اور زمینوں کا حق لوگوں کو منتقل کیا یعنی لوگوں کو حقِ ملکیت دے دی۔یہ بھٹو کا گلگت  بلتستان میں بڑا لینڈ ریفام ہے۔یہ اصلاحات ابھی عمل درآمد کے مراحل میں ہی تھا کہ 1978 ء میں نئے اصلاحات کا اعلان ہوتا ہے جس کی رو سے نوتوڑ  رولز نافذ ہوتا ہے۔نوتوڑ رولز کے جو الفاظ ہیں وہ بھٹو کے اصلاحات کے بلکل برعکس میں ہیں۔اگرچہ بھٹو نے وزیر اعظم کی حثیت سے ان اصلاحات کا نوٹفیکیشن کیا تھا لیکن نوتوڑ کا نوٹیفیکیشن وزارتِ اُمور کشمیر نے کیا۔اگرچہ اس میں بڑا قانونی خلا تھا مگر یہاں کی سیاسی قیادت اس کو سمجھنے اور عام عوام تک اس کی خامیوں کو پہنچانے میں ناکام رہے۔ان اصلاحات کے نتیجے میں اب صورتِحال اس طرح تبدیل ہوئی کہ ماضی میں زمینوں کے جو اختیارات راجاوں اور پھر پبلک کے پاس تھے اب نو توڑ رولز کے تحت بیو روکریسی کو منتقل ہو گئے۔ آج گلگت  بلتستان کا چیف سکریٹری یہ اختیار استعمال کرتا ہے۔یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ شاملات ِ دیھہ کے قانون کو شریعت بھی تسلیم کرتی ہے۔شاملات ِدیھہ شریعت میں حلیم البلد سے موسوم ہے۔اور شرعی قانون کے تحت بھی بنجر زمینں متعلقہ علاقے کے لوگوں کی ملکیت ہے۔یوں یہ جو  نوتوڑ رولز ہے یہ پاکستان کے آئین اور اسلامی قوانین دونوں سے متصادم ہے۔ کیونکہ آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ ملک میں کوئی ایسا قانوں بنایا یا لاگو نہیں کیا جاسکتا  جو شرعی قوانین سے متصادم ہو۔ ساتھ ہی پاکستان کا لینڈ ریونیو ایکٹ جو کہ گلگت  بلتستان میں بھی لاگو ہے یہ قانون بھی شاملات ِدیھہ کے قانون کو تسلیم کرتا ہے۔اس طرح گلگت  بلتستان میں رایج نوتوڑ رولز شریعت، پاکستان کے آئین اور لینڈ رونیو ایکٹ ان تینوں کے خلاف ہے۔اس خلافِ ضابطہ قانون کو کلعد م قرار دینے کے لئے عدالتوں کا رخ کیا جاسکتا تھا لیکن بد قسمتی سے گلگت  بلتستان میں آئینی عدالتیں نہیں بلکہ ایکزیکٹیو  عدالتیں ہیں جو کہ گلگت  بلتستان سلف گورننس آرڈر کے تحت قائم ہیں یہ گورننس آرڈر بذاتِ خودایک ایکزیکٹیو آرڈرہے تو اس کے تحت قائم عدالتیں آئینی عدالتیں کیسے ہو سکتی ہیں۔لہذا عدالتوں میں جانے سے خاطر خواہ نتایج برآمد ہونے کی اُمید نہ تھی۔جس کے باعث ہم اس مسئلے پر قانون سازی کرنا چاہتے تھے۔سیلف گورننس آرڈر 2009 ء کے تحت ہماری قانون ساز اسمبلی کے پاس قانون سازی کا اختیار موجود ہے تو قانون سازی کی راہ میں اسٹبلیشمنٹ میں مذاحمت موجود تھی کیونکہ عوام میں اس حوالے سے آگہی موجود نہیں تھی۔ لہذاہماری ترجیحات میں یہ چیز آئی کہ پہلے ہم عوام میں آگہی پیدا کریں۔ اس مقصد کے لئے پپپلز پارٹی نے اس معاملے کو انتخابی منشور میں شامل کیا کہ نوتوڑ کے رولز غیر اسلامی ہے اس کو ہم ختم کرائیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں ہم اس منشور کو لیکر عوام میں گئے لیکن ہم عوام کو اس ایشو کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے باعث اس نعرئے کے باوجود ہمیں انتخابات میں پزیرائی نہیں ہوئی۔لہذا ہم نے اس اہم ترین مسئلے کو لیکر براہ راست عوام میں جانے کا فیصلہ کیاکہ ہم گاوں گاوں جائیں اور لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ یہ قانون غیر اسلامی اور غیر قانونی ہے اس  کو عوام تسلیم نہ کرئے۔ اس مہم کا آغاز ہم نے یکم نومبر کو گلگت سے کیا اور پھر اس مسئلے کو لیکر  بلتستان میں پاور شو کیا ۔ ان دونوں مقامات پر ہمیں عوام کی طرف سے پزیرائی ملی۔جس کا مطلب یہ کہ گلگت او ر  بلتستان دونوں ریجن کے عوام نے اس نوتوڑ کے قانون کو مسترد کردیا ہے۔ عوام یہ جان چُکے ہیں کہ بشمولملک کے چاروں صوبوں کے گلگت  بلتستان سے متصل خیبر پختون خواہ کے دو بڑئے علاقے چترال اور کوہستان میں بھی ایک انچ زمین خالصہ سرکار کے نام سے نہیں ہے۔کیونکہ ملک بھر میں نوتوڑ رولز نہیں بلکہ شاملاتِ دیھہ کا تصّور ہے۔اور ہر صوبے میں انہی کی شاملاتِ دیھہ کا قانون ہے جس کے تحت ہر صوبے کے باشندے اپنے صوبے کی زمینوں کے مالک ہے تو صرف گلگت  بلتستان میں گلگت  بلتستان کے لوگ اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں ہیں اور وزارتِ اُمور کشمیر یا خطے کا چیف سکریٹری گلگت  بلتستان کی زمینوں کے تصرف کا مالک کیسے بن سکتا ہے جبکہ یہ اپنے اپنے علاقوں میں شاملاتِ دیھہ قانون کے تحت زمینوں کے مالک ہیں۔ یوں یہ ایک بہت بڑا تضاد اور گلگت  بلتستان کے ساتھ امتیازی سلوک کی بد ترین مثال ہے جسے مسترد کرنا عوام کا بنیادی حق ہے۔اس مسئلے  پر  عدم توجہی سے خطے میں امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے جو ملکی موجودہ حساس حالات میں قومی مفاد میں نہیں ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...