ڈاکٹرحسن ظفرعارف کاقتل اورعدم برداشت کی سیاست

1,209

کراچی یونیورسٹی کے سابق استاد اورایم کیوایم لندن کے ڈپٹی کنوینئیر ڈاکٹرحسن ظفرعارف کراچی کے تھانہ ابراہیم حیدری کے حدودمیں واقع الیاس گوٹھ میں اپنی کارکی پچھلی سیٹ پرمردہ پائے گئے۔ ان کے وکیل کے بقول وہ ان سے ملنے کے بعد سے لاپتہ ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر حسن ظفرعارف کوبائیں بازوکی تحریک میں عزت واحترام کی نظرسے دیکھاجاتاہے۔ انہوں نے پاکستان میں فوجی آمریتوں کے خلاف اورجمہوریت کی جدوجہد میں نمایاں کرداراداکیا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول  بھٹو نے صوبائی وزیرداخلہ  سے ڈاکٹرحسن ظفرعارف کے قتل کی تحقیقات فوری کرنے کاحکم دیاہے۔

بائیں بازومیں وہ ڈاکٹرحسن ظفرعارف کے نام سے مشہورتھے۔ میں نے ان کا نام پہلی مرتبہ سندھ میڈیکل کالج کے ہاسٹل کی دیوارپرپڑھا۔ کالی سیاہی سے لکھاتھا “ڈاکٹرحسن ظفرعارف کورہاکرو” یہ ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف ایم آرڈی کی تحریک  کادورتھا۔ ڈاکٹرصاحب کراچی یونیورسٹی  کے اساتذہ کی تحریکوں اورتنظیم کے روح رواں تھے۔ جب ضیاء الحق کے دورمیں سندھ کے گورنرنے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کومارشل لاء حکومت کے تحت جمہوری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی تویہ ڈاکٹرحسن ظفرعارف تھے جنہوں نے کھل کراس حکم کی خلاف ورزی کی اوربرطرف کردیے گئے۔ کہاجاتاہے کہ جب 1988میں جمہوریت بحال ہوئی تونکالے گئے اساتذہ کوایک خط لکھ کردرخواست دینے پربحال کرنے کی پیش کش کوبھی مسترد کرنے والوں میں سے ایک ڈاکٹرحسن ظفرعارف تھے۔

شعبہ فلسفہ کے استادکوسننے کیلئے ہروقت کلاس بھری رہتی۔ ان کے کئی شاگردوں نے اس وقت کے حالات سوشل میڈیاپرشیئرکیے ہیں  کہ کیسے طلبہ ان کے دیوانے ہوتے تھے۔ نظریاتی اختلافات رکھنےوالے بھی ان کے مداح تھے۔ وہ ایک دیوقامت آدمی تھے، جس نے  ایک خلقت کومتاثرکیا۔ انہوں نے اصولوں کے تحت یونیورسٹی سے نکلنا قبول کیا۔ڈاکٹرحسن ظفرعارف کی ایک خوبی ان کی مشکل پسندی تھی، ڈاکٹرصاحب بہت کھٹن دورمیں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے۔ جب زیڈ  اے بھٹونے اپنے دوراقتدارمیں پارٹی کے اندراورباہرریڈیکل عناصرپروارکیاتوڈاکٹرصاحب باِئیں بازوکی تحریک کے ہراول دستہ کے رکن تھے۔ لیکن جب ضیاء نے پیپلزپارٹی کی حکومت ختم کی اورفوجی آمریت نافذ کی توڈاکٹرصاحب پیپلزپارٹی کے قریب ہوگئے اورنصرت بھٹونے ان کوپیپلزاسٹوڈنٹس منظم کرنے پرلگایا۔ یوں ڈاکٹرصاحب طلبہ کوپی ایس ایف اوراین ایس ایف کے تحت مارشل لاء دورمیں منظم کرنے نکلے۔ کچھ عرصہ بعد وہ غیرمتحرک بھی رہے اورانھوں نے ایک لاء کالج بھی قائم کیاتھا۔

حیرت انگیزطورپرمرتضی بھٹوکے انتقال کے بعد وہ سیاسی طورپرسامنے آئے اورغنویٰ بھٹوکے قریب ہوگئے۔ اس سلسلے میں سباوون بنگش نے بتایاکہ ڈاکٹرصاحب کاخیال تھا کہ جب تک بھٹوکودفن نہ کیاجائے، پاکستان میں بائیں بازوکی سیاست فروغ نہیں پاسکتی۔ وہ غنوی بھٹوکے استادبنے۔ اسے اردواورسیاست سکھانےلگے۔ یوں دوسرے لوگ ڈاکٹرصاحب کے خلاف ہوگَئے اورڈاکٹرصاحب کوگوشہ نشینی اختیارکرنی پڑی مگر کچھ ہی عرصہ بعد  جنرل مشرف کے دورمیں کچھ عرصہ کے لیے  پھر سرگرم ہوئے۔ ایک اجلاس میں انہوں نے ضیاء دورکے اپنے تجربات شیئرکرتے ہوئے کہاکہ”below the belt”وار کریں کہ  ہم نے ضیاء دورمیں ایساہی کیاتھا۔ مطلب ہم نے عوام کی نظرمیں ایک آمرکوبہت کمزوربناکرپیش کیاتھا۔  ڈاکٹرحسن ظفرعارف نے  خود اس دورمیں کوئی خاص سیاسی سرگرمی نہیں دکھائی۔  ایک دن اچانک خبرچلی کہ ڈاکٹرحسن ظفرعارف نے ایم کیوایم جوائن کرلی ہے۔ کسی کو حیرت بھی نہ ہوئی۔ انہوں نے اپنے خاص شاگردوں کے ساتھ  ایم کیوایم میں شمولیت اختیارکی۔ ایم کیوایم پرمشکل وقت آن پڑاتھااوریہ ڈاکٹرصاحب کی بے چین طبعیت کے عین مطابق تھا۔ ڈاکٹرحسن ظفرعارف نے سینئر صحافی وتجزیہ نگارضیاءالرحمن کوبتایاکہ میں   دووجوہات کی بناپرایم کیوایم میں شامل ہوا۔ایک یہ  کہ پارٹی کوجبرکاسامناہے اوردوسرا یہ کہ ایک سوشلسٹ  کی حیثیت سے کراچی کے رہائشیوں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد ہے۔ اس میں کوئِی شک نہیں کہ وہ بہت ہی ذہین اورحالات پرگہری نظررکھنے والے تھے۔ انہوں نے 1980 کی دہائی میں کراچی کے مہاجروں میں ہل چل اوربےچینی محسوس کرتے ہوئے کراچی شہری محاذ قائم کیا۔ تمام قومیتوں پر مشتمل ایک شہری محاذ کے تحت شہرکے مسائل کواجاگرکرکے سیاست کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایم کیوایم اس کودوسرے رخ پرلے گئی۔ بائیں بازوکے ایک کارکن سے جب نے استفسارکیاکہ ڈاکٹرظفرکوکیاپڑی تھی کہ ایم کیوایم جیسی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوئے؟ توان کے بقول  وہ پاکستان پر امریکی حملہ روکنے کے لیے ایم کیو ایم میں شامل ہوئے تھے، اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ ریاست پاکستان اگر ایم کیو ایم پر پابندی لگاتی ہے تو الطاف حسین امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں سے مدد مانگے گا  جس سے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو ہمارے اندرونی مسائل میں مداخلت کا موقع ملے گا۔ا س میں کوئی شک نہیں کہ وہ سامراج دشمن نظریات کے حامل تھےمگریہ استدلال ناکافی تھا۔

ڈاکٹرحسن ظفرعارف نے کراچی اسٹڈی سرکل کےلئے روس سے انگریزی میں شائع ہونے والے اے بی سی سیریزکے کتابچوں کابامحاورہ ترجمہ کیا۔ اگرچہ یہ کتابچے ایسے افرادکومدنظررکھ  کرلکھے گئے جوکسی موضوع کی الف ب ت پہلی بارپڑھ رہے ہوں۔ یہ عام سیاسی کارکنوں کے لئے لکھے گئے ہیں۔ لیکن ڈاکٹرصاحب نے اس کااسقدرمشکل اورادیبانہ ترجمہ کیاہے کہ جب میں ایک کتابچہ پڑھ رہاتو ایک لفظ “اکتساب” کوسمجھنے کےلیے اس کے انگریزی ترجمہ کوتلاش کرناپڑا۔ ڈاکٹرصاحب نے اس کے علاوہ ریسرچ فورم کےلئے بھی لکھا۔

ڈاکٹرحسن ظفرعارف نے کمیونسٹ پارٹی سے لے کر ایم کیوایم لندن تک میں سیاسی سرگرمیاں کیں۔ لیکن ایم کیوایم کی سیاست ان کی سیاسی زندگی اورجدوجہد کامحض ایک لمحہ شمارکیاجاسکتاہے۔ ان کواس لئے یادرکھاجائے گاکہ ڈاکٹرصاحب نے آمریتوں کے خلاف جمہوری جدوجہد کاراستہ اپنایا۔ ڈاکٹرحسن ظفر عارف  جبرکے شکارطبقات واقوام کی جدوجہد میں شامل رہے۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کے حقوق کی جدوجہد میں نمایاں مقام پایا۔ ڈاکٹرحسن ظفرعارف کی مشکل پسندی ان کے لئے وبال جان بنی۔ لیکن 72سالہ فلسفہ کاپروفیسرسقراط کے قبیلے کا فرد ثابت ہوا۔ اس نے اپنے عمل سے ثابت کیاکہ وہ سمجھوتہ بازی کوکس قدرناپسند کرتاتھا۔ اس کی موت پرسوشل میڈیا میں پاکستانی سماج کے بارے میں سینکڑوں پوسٹیں  کی گئیں ، جہاں سیاسی جدوجہد میں مصروف یونیورسٹی کے ایک ریٹائرڈ 72سالہ استاد کومحض اس لئے ماراجاتاہے کہ وہ ایک مختلف رائے رکھتاہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...