ملک داخلی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے؟

1,260

مشرقی و مغربی سرحدات پر ابھرتے خطرات اور عالمی طاقتوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی پیکار ہمیں ایک قوم کی طرح متحد کر دے گا یا پھر ہمارا داخلی انتشار مملکت خداداد کو پھر کسی حادثہ سے دوچار کرے گا ؟بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سن دوہزار اٹھارہ کی الیکشن مہم ملک کے مستقبل کا تعین کر دے گی ،لیکن سوال یہ ہے کہ خوشگوار امیدوں کے باوجود مملکت کی داخلی سیاست میں ستر سالوں سے برپا کشمکش کی موجیں تھمتی کیوں نہیں؟ مارشل لاء کے ادوار کو چھوڑ کے ہر جمہوری عہد میں تراشیدہ اپوزیشن کا حکومتی اتھارٹی پر مسلسل حملہ  آئین کی حکمرانی اور جمہوری عمل سے عوام کو مایوس بنانے کی سکیم کا حصہ ہے یا پھر ہماری افتاد طبع ہی ہمیشہ جمہوری استحکام کو متزلزل رکھتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کوئی نہیں پوچھتا لیکن ہر آدمی ان کا جواب دینے کو تیار ہے۔

اس منظرنامہ کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ عسکری اداروں کی پروجیکشن پالیسی کی بدولت قوم نے فوج سے جس قسم کی بلند توقعات وابستہ کر  لی ہیں، دفاعی اداروں کیلیے ان امیدوں پہ پورا اترنا  ممکن نہیں،خاص کر اٹیمی اثاثوں کو قومی سلامتی کا حتمی ہتھیار باور کرا کے عسکری دانش کو ملکی سلامتی کا واحد محافظ اور سیاسی،انتظامی اور داخلی مسائل کو سلجھانے والا مسیحا مان کے دفاعی اداروں کو قومی سلامتی کا سنٹر آف گرویٹی سمجھ لیا گیا۔اسی مہمل تصور نے سواد اعظم کی اجتماعی دانش کو عملیت پسندی اور معروضیت سے دور کر کے قومی ذمہ داریوں  کے احساس سے عاری کر دیا،سب اسی آس پہ بیٹھے گئے کہ ملک کیلئے جو کچھ کرنا ہے دفاعی اداروں نے کرنا ہے،قوم امیدوں سے لبریز قومی ترانے گا کے صرف داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گی،چنانچہ لوگ اب آئینی نظام اور سیاسی استحکام جیسی ضروری اور مفید چیزوں کو ادنیٰ اور حقیر سمجھتے ہیں اور ان چیزوں کو فوقیت دیتے ہیں جو غیرمعمولی اور حیرت انگیز ہوں۔بلاشبہ قومی سلامتی کیلئے ایسے مربوط زاویہ نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے جو قوم کو موزوں و متحد بنا سکے۔عساکر سے لامحدود توقعات کی وابستگی کے رجحان کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اگر بقاء کے فطری تقاضوں کے پیش نظر فوجی قیادت تصادم سے بچنے کی خاطر کم سے کم سطح  پہ دنیا کے ساتھ  ہم آہنگ ہو نے کی کوشش بھی کرے گی تو اسے داخلی مزاحمت کے علاوہ  قومی سطح پہ وسیع ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ملک ایسی مشکل صورت حال سے دوچار ہے،جس میں ہم نے خود پارلیمنٹ،عدلیہ،انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں سمیت قومی قیادت کو متنازعہ بنا کے بداعتمادی کی جس عادت کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا،اسی رجحان  نے اس قوم کو  لیڈرشپ کے بحران میں مبتلا کر دیا۔چنانچہ اب ہمار معاشرہ فانی اور ناپائیدار دلچسپیوں کی لذت میں کھو کے لافانی قوتوں کی نشو ونما کو بالائے طاق رکھ بیٹھا جس سے روح کی رفعت مرجھا کے ذلت و خواری میں غرقاب ہونے لگی۔یعنی اب ہماری مصیبت زدہ نسل آزادی کی عظمت حاصل کرنے کی بجائے صرف تحفظ کی متقاضی رہے گی،اسکے اجتماعی شعور نے ایسا بیمار نظام پیدا کر لیا جو قومی وجود کے دیگر حصوں کی ساکھ کو مجروح کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔

جب مملکت چاروں اطراف سے خطرات میں گھری ہوئی تھی عین اسی وقت سرجوڑ کے بیٹھنے کی بجائے اجتماعیت کے شعور سے عاری گروہ باہم دست و گریباں ہو گئے،حالات کی سنگینی کا درست ادارک نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ مذہبی اور سیکولر جماعتوں نے بلوچستان جیسے حساس ترین صوبہ کے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر بیج منجدھارکے گھوڑے تبدیل کرنے کی مشق ناز کو آزمایا،ساڑھے چار سال تک بظاہر ہموار انداز میں چلنے والی صوبائی حکومت کے خلاف آخری چھ ماہ میں اچانک عدم اعتماد کی تحریک کو فقط بد شگونی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔بلوچستان جیسے حساس خطہ میں جہاں علیحدگی کی تحریکیں برپا ہوں، وہاں سیاسی انتشار مایوسی کو مزید بڑھا دے گا۔اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بلوچستان کے بعد سندھ اور خیبر پختون خواہ میں بھی مصنوعی طریقوں سے سیاسی انتشار پیدا کر کے مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن کی راہ کھوٹی کر کے قبل از وقت عام انتخابات کرانے کی خواہش پوری کی جائے گی۔اگر ایسا ہی ہوا تو سیاسی بحران پورے ملک کو  اپنے مہیب پنجوں میں دبوچ  لے گا۔قرائن بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک اچانک پیش نہیں ہوئی بلکہ اس شعوری عمل کی تقویم کئی ماہ قبل شروع  ہو گئی تھی،فاٹا اصلاحات کے ایشو کو ہوا دیکر مسلم لیگی حکومت کے دو موثر اتحادیوں مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی، کو صف آراء کرنے  کے پیچھے بھی یہی عوامل کار فرما ہوں گے۔ اگر وفاقی حکومت اپوزیشن کے دباؤ میں آ کر فاٹا اصلاحات کا متنازعہ بل منظور کرنے کی غلطی کر لیتی تو بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک لانے والوں کا کام مزید آسان ہو جاتا،اب اگر جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمٰن وفاق میں اپنی اتحادی مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بنے تو انہیں قومی سطح پہ وسیع مفادات سے دستبرداری کے علاوہ سیاسی ساکھ کے خسارہ کا سامنا کرنا پڑے گا اور بلوچستان سمیت خیبر پختوں خوا میں بھی مستقبل کے سیاسی منظرنامہ میں انکی گنجائش کم ہو جائے گی۔

ملک و ملت کے لئے مشکل ترین وقت میں ریاست کے استحکام کو گزند پہنچانے والے کھیل کی شروعات کرنے والے معلوم نہیں حالات کی سنگینی سے واقف ہوں گے یا نہیں،کیا واقعی ہمارے ارباب حل و عقد کو قومی سلامتی کا ادراک نہیں؟ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، لیکن اگر یہ سب کچھ جان بوجھ کے کیا جا رہا ہے تو اسے ہم کم نصیبی ہی سمجھ سکتے ہیں کہ محمد شاہ رنگیلا کی طرح مصیبت کے لمحات میں بھی جھولا جھولنے کا شوق پورا کرنے والے بیکسی کی موت مرنے کیلئے تقدیر کو اکساتے ہیں۔اس ریاست میں کوئی کج کلاہ  وسیع تر قومی مصالح کے لئے ریاستی اتھارٹی پر اپنے غیر ضروری تصرف سے دستبرادار ہونے کو تیار نہیں۔1971 کی طرح انتخابی مہم کی جدلیات سیاست دانوں کو اپنی سرگرمیاں بڑھانے پہ مجبور کرے گی لیکن سیاسی کشمکش کے خروش میں  پہلے آدھی مملکت گنوانے کا صدمہ برداشت  کرنے کے باوجود ہماری قومی قیادت ایثار،قربانی اور ترک آروز کے احساس سے عاری ہے۔انہیں ہر قیمت پر مطلق اقتدار پہ تصرف چاہیے خواہ وہ ایک ضلع تک ہی محدود کیوں نہ ہو۔حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ تصادم ناگزیر ہے۔چونکہ ہمارے سماج میں کامیابی و ناکامی کا معیار پالینے اور کھو دینے  کے مادی تصور سے وابستہ ہے۔اس لیے یہاں کی قومی قیادت اپنی جبلی خواہشات کو ترک کرنے یا مملکت کے اقتدار کو ٹھکرا کے وہ لافانی کامیابیاں حاصل کرنے کے روا دار نہیں رہی جو انہیں ابدی شہرت اور غیر محدود عزت و احترام سے سرفراز کر سکتی تھیں۔

دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں مقبول ترین لیڈر شپ نے کا میابیوں کے بام عروج پر پہنچ کے رضاکارانہ طور پہ اقتدار و مراعات سے الگ ہو کے خود کو  امر کرلیا۔جارج واشنگٹن دو بار امریکہ کے صدر منتخب ہوئے،انکے پاس تیسری اور چوتھی بار بھی منتخب ہونے کے سنہری مواقع موجود تھے ،لیکن انہوں نے یہ کہہ کے تیسری بار صدر بننے سے انکار کر دیا کہ مجھ سے بہتر لوگ یہاں موجود ہیں،میں  نے جو کچھ کرنا تھا کرلیا،جارج واشنگٹن کے اسی باوقار طرز عمل نے امریکی سیاست میں معیار کا درجہ پا لیا۔صدیاں بیت گئیں آج بھی امریکہ کا سیاسی نظام اسی  روایت پہ استوار ہے کہ کوئی شخص تیسری بار صدر منتخب نہیں ہوتا۔دور مت جائیے! ہندوستان کی تحریک آزادی کے ہیرو موہن چند گاندھی کو  بھارت کی آزادی کے وقت 15 اگست 1947 کی رات اقتدار سنبھالنے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کے وزیراعظم بننے سے انکار کر دیا کہ وہ اپنی جدوجہد کا صلہ نہیں لیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...