خوابوں کی تاریخ اور ان کے نتائج

1,111

خواب انسانی نفسیات کا ایک لازمی جزو ہے،جو زندگی میں کچھ کرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتا ہے وہ خواب ضرور دیکھتا ہے۔ ایک خواب وہ ہے جو حالت بیداری میں انسان دیکھتا ہے اور ایک خواب وہ ہو تا ہے جو  نیند کی حالت میں دیکھا جا تا ہے ۔حالت بیداری میں دیکھے جانے والے خواب اکثر اوقات حالتِ نیند میں مجسم ہو کر سامنے آتے ہیں۔مذہب او رروحانیت میں خوابوں کی بہت اہمیت ہے ۔انبیاء علیہم السلام  کے خواب وحی کی ایک قسم ہوتے تھے۔غیر انبیاء یعنی  اولیاء وصالحین کے خوابوں کی حیثیت مبشّرات (بشارتیں)کی سی  ہے۔غیر انبیاء کے خوابوں سے متعلق متفقہ علیہ رائے یہی ہے کہ یہ ظنی ہوتے ہیں یعنی ان کی حقیقت یقینی اور قابل اعتبار نہیں ہوتی۔اس لیے ایسے خوابوں کوبیان کرنے سے منع کیا جاتا ہے ، خاص طور پر جب اس سے فتنہ و گمراہی اور بد عقیدگی کا اندیشہ ہو ۔خواب سے کم از کم یہ حقیقت ضرور متر شح ہوتی ہے کہ صاحب خواب تمام دن سو چتا کیا ہے اور اس کی نفسیات کے مختلف پہلو خواب کے ذریعے سامنے آ جاتے ہیں۔ صاحب خواب کے رجحان اور تو جہ کا پتا اس کے خواب سے ہو تاہے ۔یہاں تک بات درست ہے لیکن اس کی بنیاد پر جب خیالات و نظریات اورعزم و ارادہ کی بلند و با لا عمارت کھڑی کی جاتی ہے ،وہاں سے ایک خرابی جنم لیتی ہے اور وہ ہے افراد کا کسی مضبوط نظریہ سے وابستہ ہونے کی بجائے فقط ایک گمان اور ظن سے وابستہ ہو کر کسی بڑی تبدیلی کی امید لگا بیٹھنا ۔
مسلم تاریخ کے سیاسی حالات میں ہمیں ایسے بہت سے خواب سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں کہ کسی بڑی شخصیت نے بزرگ،صوفی ،عالم یا عام مسلمان کے خواب میں آ کر مشکلات سے نکلنے اور کامیابی کی خبر مسلمانوں کو دی۔ اس کے باوجود ان مشکلات سے نجات نہ مل سکی اور مسلمان پے در پے زوال کا شکار ہوئے ۔دور یزید ہو یا سقوط بغداد ،مسلم اسپین کی بر بادی ہو یا مغلیہ حکومت کا زوال ، کسی فاتح کی فتوحات ہوں یا کسمپرسی میں مسلمانوں کی فریاد۔ہر موقع پر ،نتائج بشارات کے بر عکس ہوئے۔اگر چہ کچھ نتائج خواب کیمطابق بھی ظاہر ہوئے لیکن ان حالات کا حقیقی تجزیہ کیا جائے تو مثبت نتائج کی دیگر وجوہات بھی سامنے آتی ہیں۔
تخلیق پاکستان سے قبل بزرگوں نے خواب دیکھے۔ تخلیق پاکستان کے حوالے سے ہی نہیں قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے حوالے سے بھی خوابوں کو بیان کیا گیا ۔ پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے تناظر میں جناب ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے بھی جذباتی خوابوں کو بیان کیا جا تا ہے۔  خادم حسین رضوی  نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ دھمکی آمیز انداز میں دعوت  جنگ دی ہے کہ تم پاکستان پر حملہ کرو۔اس  گفتگو کے پیچھے بھی ایک خواب ہے جس  کے مطابق پاکستان کی حفاظت کی نوید سنائی جا چکی ہے۔
گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں ڈاکٹرطاہر القادری نے اپنی تحریک کی بنیاد بھی  ایک طویل خواب پہ رکھی ۔وہ اپنے دیگر خواب بھی اپنی ذاتی مجلسوں میں سناتے رہتے ہیں۔جب ان کے خوابوں پہ اعتراضات ہوئے تو ان کے ادارے کی طرف سے اِن اعتراضات کے ردّعمل میں ایک کتاب شائع کی گئی جن میں علماء کرام ،بزرگان دین اورصوفیاء کرام کے خوابوں کو نقل کیا گیا تھا جس میں پوشیدہ پیغام یہ تھا کہ جب ماضی کی بر گزیدہ شخصیات کے خواب دیکھنے پر اعتراض نہیں تو پھر آج کی “بر گزیدہ شخصیت”کے خواب دیکھنے پر اعتراض کیوں؟یہ بات غیر جانبدارانہ تجزیے کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر عقیدت مند اپنے رہنما اور شیخ کے خوابوں کو ان کی فضیلت کے باب میں بیان کر تا ہے تو پھر آج کی شخصیت کے عقیدت مند خوابوں کو اس کی فضیلت میں بیان کیوں نہیں کر سکتے ۔ جوکام کل جائز تھاتو آج نا جائز کیسے ہو گیا؟
آج کل ایک خواب  پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے حوالے سے بھی میڈیا میں گر دش کر رہا ہے ۔اس خواب کی صورت کچھ ایسی ہے جس میں عمران خان ایک نجات دہندہ بن کرسامنے آتے ہیں۔جن کے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان کی تقدیر بدل جانے کا خواب دیکھا جا رہا ہے ۔ خواب حوصلہ، ہمت اور کامیابی کا استعارہ بن سکتاہے لیکن قومیں کٹھن سے کٹھن حالات میں جہد مسلسل سے ہی آگے بڑھتی ہیں اور قدرت کا اصول بھی یہی ہے ۔”بے شک اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت کونہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت کونہیں بدلتی ۔”

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...