جنگ ہارتا امریکہ اور پاکستان

1,058

امریکی صدرٹرمپ نے پاکستان پرالزام پرلگایاہے کہ 15سال میں 33ارب ڈالرزوصول کرکے اس نے امریکہ کوبے وقوف بنایاہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی مسلسل دھمکیوں کے بعد سے پاکستان اورامریکہ کے تعلقات میں سردمہری پیدا ہوگئی ہے اوراس میں اضافہ ہورہاہے۔ امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد پہلے ہی بندکردی ہے۔ امریکہ کاالزام ہے کہ پاکستان میں طالبان اورحقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانے ہیں اوریہ کہ پاکستان امریکہ سے رقم بٹورنے کے باوجود پس پردہ  دشمن قوتوں ) طالبان (کی مددکررہاہے اورپورے جنوبی ایشیاء کوغیرمستحکم کرنے والے جہادی قوتوں کی آبیاری میں مصروف ہے۔ کشمیر جہاد میں مصروف قوتیں پاکستان میں کھل کرچندہ اورفلاح وبہبود کے کاموں میں مصروف ہیں اوراب تو سیاست میں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ ہندوستان کودرکاردہشت گردپاکستان میں کھلے عام سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ کہتاہے کہ کشمیرجہاد میں مصروف لوگ  افغان جہاد کو بھی کمک فراہم کرتے ہیں، یوں پورے خطے میں پاکستان دہشت گردی کوفروغ دینے کاباعث بناہواہے۔

امریکہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے قبضوں کوہرجگہ چیلنج درپیش ہیں۔ عراق اورافغانستان میں امریکہ کی تمام کوششوں کے باوجود کامیابی تودورکی بات ہے ،قبضہ برقراررکھنادشوارہوگیاہے۔ اس کے حامی حکومتوں کی رٹ نہ ہونے کے برابرہے۔ شام میں اس کی حامی قوتوں کوشکست  سےدوچارہوناپڑا۔ جبکہ روس، ایران اورچین کی حمایت یافتہ شامی حکومت حالات پرقابوپانے میں کامیاب رہی۔ اس کے اتحادی بحرانوں کا شکارہیں ،چین اورروس ایک متبادل اقتصادی اورفوجی قوت کے طورپرابھررہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے سب سے بری خبریہ ہے کہ افغانستان پرامریکہ کے قبضہ کے بعد سے 2017سب سے زیادہ خونی سال رہا۔ طالبان کی طرف سے حملوں میں اضافہ ہواہے۔ ایک خبرکے مطابق طالبان کی جانب سے حالیہ چند مہینوں میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی مہم بھی جاری ہے۔افغانستان میں سال 2017 کے آخری روز ہونے والا واقعہ ملک میں سال بھر ہونے والے خونی واقعات کا تسلسل تھا اور پورے سال کو 2001 میں امریکا کی مداخلت کے بعد سب سے زیادہ قتل وغارت کے طور پر ریکارڈ کیا گیا۔ افغانستان میں موجود اقوام متحدہ کے مشن کے اعداد وشمار کے مطابق 2017 کے ابتدائی 9 ماہ میں 8 ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہوچکے ہیں اورحالات امریکہ کے قابوسے باہرہیں۔ رائٹ ونگ امریکہ انتظامیہ کے لیے عالمی سطح پراپنی ساکھ اورامریکی عوام میں اپنی حیثیت کو برقراررکھنے کے لئے بہت بڑی سطح کے چیلنج درپیش ہیں۔ امریکی انتظامیہ اس حوالے سے تقسیم ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاملات سے کیسے نمٹاجائے ،اسی وجہ سے مسلسل متضاد قسم کے بیانات سامنے آتےرہتے ہیں اورکچھ ایساہی پاکستان کی طرف سے معاملہ ہے۔ جوایک طرف دہشت کی جنگ میں اپنی خدمات کااعتراف نہ کرنے کاگلہ کرتاہے تودوسری جانب  اسے امریکی  مداخلت کاخطرہ ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نےحال ہی میں کہاتھاکہ امریکہ پاکستان پرحملہ کرنے کی غلطی کرنے سے بازرہے۔یوں امریکہ کی طرف سے حملہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ پاکستان پرامریکہ ویسے ہی الزامات عائد کررہاہے جیسے اس نے ویت جنگ کے دوران کمبوڈیا پرلگائے تھے۔

2005میں “اے پیپلزہسٹری آف دی ورلڈ”کے مصنف کرس ہارمن سے  اس مسئلہ پر میراتبادلہ خیال ہواتھا۔ اس کاکہناتھاکہ جب امریکہ نے ویت  نا م کی جنگ ہاری تواس نے اپنی کمزوری چھپانے کے لئے کمبوڈیا پربمباری کی۔ امریکہ مخالفین کویہ پیغام دینا مقصودتھاکہ امریکہ کوکمزورنہ سمجھاجائے۔ امریکہ نے ویت نام میں شکست کے آثاردیکھ کر 18مارچ 1969تا 26مئی 1970تک “آپریشن مینو” کے نام سے کمبوڈیا پریہ کہہ کربمباری کی کہ یہاں ویت نام پیپلزآرمی اورویت کانگ کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ یہ ٹھکانے  ٹریننگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اوریہاں سے ویت نام میں حملے ہوتے ہیں۔ یوں امریکہ نے ویت نام کی سرحد سے دوسری طرف پڑوسی ملک کمبوڈیا پرحملہ کی مہم شروع کردی اوربمباری کی۔ محفوظ ٹھکانوں کونشانہ بنانے کے پروپیگنڈے کے نام پرشروع کی گئی مہم بعدازاں پھیلادی ۔

امریکہ پہلے ہی پاک افغان سرحدی پٹی یعنی فاٹا پرڈرونز حملے کرتارہاہے۔ پاکستان اس پرکبھی خاموشی اختیارکرتارہااورکبھی احتجاج کرتارہا۔ امریکہ کاکہناہے کہ یہ حملے پاکستانی حکام کے علم میں لاکرکیے جاتے ہیں اورپاکستان بھی اس کااعتراف کرتاہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت سے معلومات کا تبادلہ کرتارہاہے۔ لیکن امریکہ کے مطالبات “ڈومور” پرپاکستان کے اقدامات سے امریکہ کبھی بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا۔ دوسری طرف امریکہ دہشت  گردی کی جنگ میں پاکستانی خدمات کااعتراف بھی کرتارہاہے۔ اب پاکستانی وزیرخارجہ کہتاہے کہ ہم نے ہی پہلے امریکہ کو”نومور”کا سگنل دے دیاہے۔ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں ناکامی پرمایوس ہوکرپاکستان کودھمکیاں دے رہی ہے، امریکہ افغانستان میں پھنس گیاہے۔ اس لئے اپنی ناکامی کاغصہ پاکستان پراتاررہاہے۔ یوں ایک متضاد قسم کی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور اسی لئےغیریقینی بھی ہے۔

اندرونی اوربیرونی چیلنجوں کی شکارٹرمپ انتظامیہ کوکئی محاذوں پرچیلنجوں کاسامناہے۔ امریکہ کوعالمی سطح پرمتحارب ابھرتی فوجی واقتصادی قوتوں کاسامناہے۔ ایک جنگ ہارتی ہوئی  عالمی طاقت کوجوازکی تلاش ہے اوریہ الزام پاکستان پرلگایاجارہاہے۔ پاکستان پرپہلے امریکہ محدود پیمانے پرڈرونزحملے کرتارہاہے، نہ صرف اس میں اضافہ کی توقع کی جاسکتی ہےبلکہ اس کے دائرے کووسیع بھی کیاجاسکتاہے۔ ممکن ہے کہ کے پی کے، کے علاقوں کے علاوہ کوئٹہ اوراس کے آس پاس کے علاقوں جیسے کچلاک پرحملے کئے جائیں، جہاں امریکہ کے بقول افغانستان میں برسرپیکارافغان طالبان کی کوئٹہ شوری ٰموجودہے۔ حالات وواقعات کے مطابق اس دائرے کومزیدوسعت دی جاسکتی ہے۔ عالمی سطح پرماہرین ٹرمپ انتظامیہ سے کسی بھی ردعمل کومستردنہیں کرتے۔

ویت نام کی طرح امریکہ، افغانستان میں بھی جنگ ہاررہاہے اورجس طرح 1970ء کے لگ بھگ اس نے کمبوڈیا میں حریت پسندوں کے ٹھکانوں کاالزام لگارکربمباری کی اسی طرح پاکستان پربھی حملوں کوخارج ازامکان قرارنہیں دیاجاسکتا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...