امریکی دھمکی اور معروضی حالات

928

امریکی نائب صدر نے  پاکستان کو جو دھمکی دی ہے وہ نئی نہیں البتہ اس بار دھمکی کی نوعیت میں فاصلہ اور الفاظ مختلف استعمال ہوئے ہیں۔نائب صدر نے اس تنبیہ کیلئے افغانستان کے غیر اعلانیہ یا خفیہ دورے کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان  سے کتنے کم فاصلے سے بات کررہا ہے، ایک ایسے مقام سے جو امریکا کا ریپڈ رسپانس فوجی مرکز بھی۔نائب صدر نے کم فاصلے کے ذریعے،اپنی تنبیہ کی شدت کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے لیکن اس مقصد کیلئے  اسلام آباد کا دورہ  یا اپنے سفیر  کے ذریعے پیغام  بھی  بھجوایا جاسکتا تھا۔ایسا کرنا آسان اور ممکن تھا، یوں تنبیہ محض سفارتی سطح تک محدود رہتی یا یہ الفاظ  دوحکومتوں کے محض مقتدر حلقوں تک محدود رہتے۔لگتا یوں ہے کہ امریکہ کی حالیہ دھمکی اس کی پالیسی کے کھلے پن کا اظہار کررہی ہے جس سے دنیا بھر کی حکومتوں اور پاکستانی عوام کو سراسیمگی،تشویش کے گہرے احساس میں بدلنا بھی شامل تھا تاکہ عالمی سفارتی اور داخلی عوامی،دونوں طرح کے دباؤ استعمال ہوسکیں۔عالمی اور اہم دارالحکومتوں  کی طرف سے اس تنبیہ پر کیا رد عمل آیا  ہے، اس سے قطع نظر یہ تلخ حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ پاکستانی معاشرے ،رائے عامہ کے ذرائع،سیاست اور ریاست کے بہت بڑے حصے میں مذکورہ دھمکی کو مناسب سنجید گی کے ساتھ نہیں سنا گیا۔

وزارت خارجہ کا جوابی بیان معاملہ فہمی کی بجائے معاملے کو پیچیدہ بنانے جیسا دکھائی دے رہا ہے۔اسلام آاباد نے الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط برتی ہے اور ان اقدامات کی جانب توجہ دلائی ہے ،جو گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ و دفاع کے دورہ ہائے پاکستان کے ذریعے دونوں حکومتوں میں زیر بحث تھے۔پاکستانی ترجمان کے بیان کے الفاظ کے برعکس،دنیا بھر میں اس بیان کو پاکستانی ریاست کے اعتبار اور استعداد کے پس منظر میں دیکھا جائے گا۔ ہاں البتہ مقامی سطح پر مذکورہ بیان عوام کی جذباتی تسکین کا مناسب سامان  لیے ہوئے ہے۔حب الوطنی اور قومی حمیت کے تقاضے اپنی جگہ لیکن ممولے کو شاہین سے لڑانے کا سبق شاعری میں ہی اچھا لگتا ہے، معروضی حقائق اس طرز عمل کی تائید نہیں کرتے۔ملک کے بیشتر سنجیدہ دانشور حلقے آج بھی طالبان حکومت کی ہٹ دھرمی پر تنقید کرتے ہیں ،جس نے افغانستان کو تا راج کرنے کے مواقع فراہم کیے،خطے کو عدم استحکام کے گہرے خطرات سے دوچار کردیا،پندرہ برس سے افغان سرزمین نیٹو کے باورد سے جھلس رہی ہے،افغانستان کی سرزمین پڑوسی ممالک میں مسلح دہشتگردی کے مراکز میں بدل چکی ہے،تمام ہمسایہ ممالک اپنے اپنے محدود مقاصد کیلئے منفرد و مختلف اطوار سے پراکسی جنگوں میں الجھے ایک دوسرے کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔

مذکورہ حالات میں پاکستان کو زیادہ تدبر و برداشت کے ساتھ دنیا کی بھیانک جنگی مشینری اور اس کے مفلوج الذہن سربراہ کی جنونیت سے محفوظ رہنے کی کوشش کرنی ہوگی۔1970 کے بحران میں ماسکو نے مشرقی پاکستان کے سیاسی بحران کو سیاسی ذرائع سے حل کرنے کا بروقت اور صائب مشورہ دیا تھا، جسے اس وقت کے مدہوش آمر حکمران نے درخور اعتنانہ سمجھا اور الٹا ماسکو کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کا مشورہ دے ڈالا تھا۔ پھر جو نتیجہ برآمد ہوا، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔لمحہ موجود میں ایسے تمام شکوک دکھائی دینے والے اقدامات کا فوری خاتمہ ہی ملکی بقا و سلامتی کا ضامن ہوگا۔ایسا کرنے کے لیے فی الفور کابل کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات  اور اعتماد سازی کی بحالی کیلئے کوششوں کا آغاز کردینا چاہیے۔کابل کو سرحدوں کے آر پار امن و سلامتی یقینی بنانے کے لئے دو طرفہ تعاون پر آمادہ کیا جائے تو ایران و بھارت کو بھی پرامن ہمسائیگی پہ امادہ کرکے ایک نئے دور کا عندیہ دے کر امریکی بھوت کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔رد بلا کیلئے شاید یہی مناسب لائحہ عمل ہو۔دوست ممالک کے ساتھ بات چیت اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کرانے میں اہم ثابت ہوگی۔

بلاشبہ امریکہ اپنے اہداف و اغراض کے حصول کے لئے براہ راست حملہ آور نہیں ہوگا۔ایبٹ آباد طرز کی کارروائیوں کے خدشات سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔ایسی کارروائیاں بلوچستان  اور کے پی کے علاقوں میں ہوسکتی  ہیں یا پھر ملک کے اندرونی گنجان آباد شہر بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ امریکی  حکمت عملی کثیر الجہت ہوگی،ایسے آپریشن جن کے رد عمل میں عوامی غیض و غضب ابھرے گا،تمام سیاسی سماجی تنظیمیں اس کی مذمت  کریں گی لیکن خدشہ ہے کہ دفاع پاکستان کونسل اور فیض آباد انداز کے دھرنے باز،مذہبی انتہا پسند حلقے زیادہ شدت کے ساتھ جذبات کا مظاہرہ کریں۔چنانچہ ایسے واقعات کا وقوع پذیر ہونا بعید از قیاس نہیں جو بھیانک ہوں اور ان کی قیادت شدت پسند کررہے ہوں۔اس تناظر میں امریکہ پاکستان میں شدت پسندوں کے اثر ورسوخ کا حوالہ دے کر دنیا بھر میں پاکستان کے نیو کلیائی ہتھیاروں سے لاحق مفروضہ خطرات کا جواز پیش کرے،اس کی طرف  نشاندہی امریکی نائب صدر نے اپنے بیان میں بھی کی ہے  کہ دہشتگردوں سے تعاون کے نتیجے میں پاکستان بہت کچھ کھو سکتا ہے۔”بہت کچھ”کے معنیٰ پر غور کرنے کی ضرورت ہے،یہ امن و سلامتی کے علی الرغم ایٹمی اثاثوں سے محرومی کی جانب  ہی اشارہ ہے۔
علاوہ ازیں امریکی سفیر نے تلخ شکوہ کردیا ہے کہ سی پیک منصوبے کے مختلف ٹھیکوں میں امریکی کمپنیوں کو پوچھا تک نہیں گیا ۔ اس شکوے میں بھی کچھ پنہاں ہے۔ امریکہ کچھ ایسی  کارروائی بھی کرسکتا ہے جس سے سی پیک منصوبے پر گہرے منفی اثرات پڑیں اور یہ مدت تک سرد خانے میں پڑا رہے۔ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو لاحق ہونے والے خدشات جو افغان سرزمین سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے ذریعے سر اٹھا رہے ہیں، تقاضہ کرتے ہیں کہ  ملک میں مضبوط و مستحکم  اور سیاسی منتخب جمہوری حکومت موجود ہو۔معاشرتی ،سیاسی ،قومی ،مذہبی، لسانی ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی پر مبنی سماجی صورتحال  پیداہو، جس میں کوئی گروہ، فرقے ،تنظیم یا افراد کا جتھہ دوسروں کے جان و مال، عقائد، طرز زندگی ،بودوباش اور رسم و رواج کی ادائیگی میں خلل پیدانہ کرے۔ سب ایک دوسرے کا باہمی احترام کرتے ہوں،کوئی کسی کے درپے آزارنہ اور عوام کے تمام طبقات متحد ہوں۔ریاستی ادارے اپنی آئینی  وقانونی حدود میں فرائض منصبی انجام دے رہے ہوں ،سیاسی اختلاف رائے کے اظہار اور ان کے حل کا مہذب و شائستہ بندوبست ہو۔شومی  قسمت ان تقاضوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو ملک کے کسی کونے کھدرے یا اقتدار کی راہداریوں میں موجود ہو۔تو کیا اندرونی خلفشار کی موجود ہ نازک ترین صورتحال کسی طاقتور ملک کو حملہ کرنے سے روکنے میں معاون ہوسکتی ہے؟

میرا خیال ہے ہماری معروضی سماجی کیفیت پراکسی وار کیلئے سستے داموں کارندے مہیا کرنے کیلئے انتہائی سازگار ہے۔مخدوش معاشرتی صورتحال کا ایک بھیانک پہلو بلوچستان میں موجود ہے جو کسی بھی  امکانی کارروائی کا میدان عمل ثابت  ہوسکتا ہے۔وہاں ریاست کی رٹ یا اتھارٹی اس قدر متزلزل ہو چکی ہے کہ دو اکتوبر سے اب تک کوئٹہ سے شائع ہونے والے اخبارات شہر سے مستونگ اور اس سے آگے بلوچ علاقوں تک نہیں جارہے۔سبی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں اخبارات کی ترسیل معطل ہے، ان تمام علاقوں میں پریس کلب مقفل ہیں اور حکومت و ذرائع ابلاغ بالخصوص نام نہاد مرکزی دھارے کے تمام ذرائع ابلاغ اس صورتحال پر خاموش ہیں۔برقی ذرائع مواصلات ہر شب عمران  خان اور نواز شریف کے مختلف سیاسی بیانات کا جائزہ لینے میں یوں مصروف ہوتے ہیں اور بال کی کھال اتارتے نظرآتے ہیں جیسے ان امور کے علاوہ ملک میں کوئی دوسرا مسئلہ موجود ہی نہیں۔راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔ حالانکہ ملک کو خارجی اور داخلی سیکیورٹی اور عدم استحکام کے شدید خطرات لاحق ہیں۔بلاشبہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بلوچستان میں امن عامہ کے قیام کیلئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں لیکن تاحال وہ نتائج پیدا نہیں ہوسکے جن کی ضرورت ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...