بطور قوم ہم کارکن بہت اچھے مگر قائدانہ صلاحیتوں سے محروم

1,296

اگر ہم وسیع تناظر میں جائزہ لینے کے بجائے صرف اور صرف بر صغیر کے مسلمانوں کا جائزہ لیں تو یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم Workerبہت اچھے ہیں لیکن Leadershipکی صلاحیت و اہلیت سے محروم ہیں۔ ہم دنیا میں جہاں بھی گئے ہیں وہاں اپنی محنت کا لوہا منوایا لیکن جب ہم اپنے ممالک  میں قیادت کی صورتِ حال کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ہم مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ ہم بیرون ممالک جانے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہاں خوشحالی، امن اور ترقی کے مواقع ہیں، وہاں حکمران ہمارے ہم وطن نہیں ہیں۔ ہمیں وہاں بھرپور ترقی کے مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے اور اچھی اچھی جاب اُن کی منتظر ہوتی ہیں۔ یہ ترقی کا سارا سفر ایک ایسے ملک میں ہے، جہاں اپنے حکمران نہیں ہیں۔ جہاں اپنے حکمران ہیں وہاں ایسے مواقع کمیاب ہی نہیں بلکہ کسی حد تک نایاب بھی ہیں۔ اگر اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو کیا یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی کہ ہم ورکربہت اچھے ہیں لیکن بطور لیڈراچھے نہیں ۔

ہم ایک شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قیادت کہیں  پیدا ہوتی ہے اور یک لخت سامنے آتی ہے۔ اس کے بعدسارے مسائل خودبخود حل ہو تے چلے جاتے ہیں، اگر ایسا کچھ ہونا ہوتا تو اب تلک ہو چکا ہوتا۔ ہمیں اپنی اس غلط فہمی کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے۔ قیادت اُگتی ہے  نہ یک لخت سامنے آتی ہے بلکہ قیادت قوم کی گود میں پل کر جوان ہوتی ہے، اس کا چہرہ ،مہرہ، ساخت و کردارسب کچھ قوم کی گود اور پرورش سے سامنے آتا ہے۔ اگرہم اپنی تاریخ کے چند نام بھی لیں تو یہ خالصاًدیسی لوگ نہیں تھے، بلکہ سب باہر سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے۔ مثلاً قائد اعظم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو ، یہ تمام افراد مغرب کی یونیورسٹیز سے تعلیم حاصل کر کے آئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی اصول پسندی، نظم و ضبط اور قانون کی پابندی جیسی صفات خودبخود باہر کے ماحول میں رہ کر پروان چڑھی تھیں۔ کیا ان صفات کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق ہے ۔ کیا ہم نے کبھی ان خوبیوں کو اپنی ذات کا حصہ بنایا ؟ اگر یہ لوگ اعلیٰ تعلیم کے بعد واپس لوٹے تو ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح بحیثیت گورنرجنرل ایک غیر معیاری ایمبولینس میں بے یار و مدد گار پڑے رہے، اُن کی ہمشیرہ انہیں اپنے ہاتھوں سے ہوا دے کر اُن کے چہرے سے مکھیاں ہٹاتی رہیں،گزشتہ سال بابائے قوم کی یادگار (زیارت)کو جلا دیا گیا اور اس کی بے حرمتی کی گئی،نواب زادہ لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی اور بے نظیر بھٹو کو بھی بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اگر یہ حقائق پیش کیے جائیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ ساری قوم کا کردار نہیں ہے لیکن ایسے دل دہلا دینے والے حادثات اسی سرزمین اور اسی قوم میں ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ 70سال گزر جانے کے باوجود ہم اپنے ملک کو اس جہالت، دہشت گردی اور افلاس سے پاک صاف نہیں کر سکے۔ علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان فقط کتابوں میں رہ گیااور ہم روزبروز جدید اسلامی ریاست سے قدیم غیر اسلامی ریاست کی طرف بڑھ رہیں ہیں۔
ہمیں اپنی نااہلی اور کمزوری کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم افراد سازی کی اہلیت سے محروم ہیں۔ اگر ہم اپنے دیسی حکمرانوں کے ماضی و حال پہ نظر ڈالیں تو ہمیں یہ لوگ بد عنوانی اور بد دیانتی کے پہاڑ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم جھوٹ، فریب ،منافقت اور دجل کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور ہماری زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں رشوت اور سفارش کا بازار گرم نہ ہو۔قائد اعظم محمد علی جناح پر بہت تنقید کی جاسکتی ہے مگر اس پر سب ناقدین کا اتفاق ہے کہ وہ بدعنوان نہ تھے۔

ہمیں یہ بات بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ مغرب ماضی اور حال میں افراد سازی کا وہ مرکز ہے جو دنیا کو لیڈرز، معیشت دان، سیاستدان،فلاسفرز، سائنٹسٹ اور سوشل سائنٹسٹ دستیاب کر رہا ہے۔ دنیا کے اعلیٰ دماغ ،اعلیٰ خاندان اور اپنے اپنے ممالک میں Elite Classاور Leading Classسے متعلق افراد اپنی تعلیمی اور فکری تربیت کے لیے مغرب کے جدید اداروں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ وہاں سے تعلیم و تربیت پانے کے بعد، اپنے ملک میں Adjustہونے کی بے پناہ کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کی بد انتظامی، بد عنوانی اور بے حسی پہ مبنی طرزِ زندگی سے مجبور ہو کر واپس وہیں چلے جاتے ہیں جہاں وہ کچھ سالوں کیلئے گئے تھے۔ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں دوبارہ اپنے الفاظ دہراتا ہوں کہ ’’ ہم بحیثیت قوم Workerبہت اچھے ہیں لیکن Leadershipکی صلاحیت و اہلیت سے محروم ہیں ‘‘ ہمیں لیڈ کرنے کیلئے کسی اور کی ضرورت ہوتی ہے، تبھی ہم اچھی قوم بن کر رہتے ہیں ۔ ورنہ 70سال کسی قوم کیلئے کم نہیں بلکہ بہت ’’ہی‘‘زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...