برطانوی انتخابی نتائج اورپاکستان پیپلزپارٹی کی امیدیں

917

بلاول کی سب سے بڑی کمزوری اس پر والد آصف علی زرداری اورفریال تالپورکاسایہ ہے۔ پارٹی کے ورکرزکہتے ہیں کہ پوری پارٹی ادی فریال چلاتی ہے۔ سندھ میں ترقیاتی ٹھیکے اورتعیناتی، وزراء میں رد وبدل پرفریال تالپورکی مضبوط گرفت کاتذکرہ عام ہے

پیپلزپارٹی نے ایک ایسے وقت میں اپنے انتخابی منشورکے لئے سینٹرسلیم مانڈوی والاکی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جب برطانوی الیکشن میں سب کی توقعات کے برعکس سنٹرل لیفٹ کی لیبرپارٹی نے حیران کن بہترکارکردگی کامظاہرہ کیاہے۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی بھی اس طرز کی پارٹی ہے۔ یہ بھی سوشل ڈیموکریسی کے اصولوں پرقائم ہوئی تھی اوراس کے 1970کے انتخابی منشورکوعوام دوست سے بڑھ کرانقلابی قراردیاجاتاہے ۔ اگرچہ پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکاہے اوربے نظیربھٹونے 1991میں نیولبرل ازم کواپنا کراس قسم کے منشورسے پارٹی کوآئندہ کے لئے ہٹادیا۔ اوربعد کی پیپلزپارٹی کی حکومتوں کی کارکردگی عوام دوست سے زیادہ سرمایہ داردوست ثابت ہوئی۔ لیکن پھربھی لیبرپارٹی کی طرح غیرمتوقع ووٹ کا حصول اس کے لئے امید کی ایک کرن ہے۔ پارٹی کے بہی خواہ لیڈران ان پیغامات کوسوشل میڈیا پرمسلسل شئیر کئے جارہے ہیں جس میں دعویٰ کیاجاتاہے کہ پیپلزپارٹی ختم نہیں ہوئی۔ یہ کھڑی ہوگی اورانتخابات جیتے گی۔ پہلے بلاول بھٹوکو میدان میں اتاراگیامگروہ نااہل ثابت ہوئےتو آصف علی زرداری خود پہلے پنجاب اورپھر صوبہ خیبرپختونخوا پہنچے مگرکوئی خاطرخواہ تبدیلی  اورکارکنوں کوہی متحرک کرنے میں زیادہ کامیاب نظرنہ آئے۔ لیکن اس کمی کوپی پی پی سندھ میں دیگرپارٹیوں سے بڑے لوگ توڑ کربرابرکرتی رہتی ہے۔

خورشید شاہ نے آج نیوزکے ساتھ ایک پروگرام میں اس بات کابھی عندیہ دیاکہ بلاول بھٹوکومیدان میں اتارنے کی تیاری ہورہی ہے۔ پیپلزپارٹی والوں کے نزدیک یہی پارٹی کی پالیسی میں ایک بہت بڑی متوقع تبدیلی ہوسکتی ہے۔ سیاست امکانات کاکھیل ہے۔ اورکسی موقع پرامکانات کوسامنے رکھ کرمؤثرحکمت عملی اورطریقہ کارغیرمتوقع نتائج سامنے لاسکتاہے۔ لیکن بڑی اورمستحکم سیاسی پارٹیوں پرکئی لحاظ سے بندشیں بھی آڑے ہوتی ہیں، خاص کرجب یہ اقتدارمیں بھی ہوں،جیساکہ پیپلزپارٹی ہے۔ یہ اس جمود کوبرقراررکھنےوالی ایک قوت بھی بنادیتی ہے۔ اورپارٹی کے اندرجمود کوتوڑنے اوربرقراررکھنے والوں کااظہاراس میں مختلف دھڑوں کے درمیان کشمکش اورآگےپیچھے جانے، پارٹی چھوڑنے اوراس میں شامل ہونے والی قوتوں سے لگایاجاسکتاہے۔ اگرایساہے توسندھ کی سطح تک تواس میں جمودکوبرقراررکھنے والی قوتیں مجتمع ہورہی ہیں جوہرقسم کی تبدیلی اورتحریک کی مخالف ہیں۔ جبکہ پنجاب اورکے پی میں پارٹی سے ایک طرف شدت پسند اوردوسری طرف اصلاح پسند انتخابی گھوڑے بھی ناامید ہوگئے ہیں۔

پیوستہ رہ شجرسے امید بہاررکھ

برطانیہ میں جرمی کوربن نے بہت شدت پسند رویہ اپنایا، اوربغیرکسی مصلحت اورسمجھوتہ بازی کے لیفٹ کے عمومی نعروں کے ساتھ آگے بڑھے:  جس کے لئے وہ مشہوربھی ہیں۔ اس نے سب کوحیران بھی کردیا۔ لیکن اس سےزیادہ حیران کن انتخابی نتائج بھی ہیں۔ سوال یہ ہےکہ کیابلاول بھٹوزرداری کوئی ایسی بڑی پیش رفت کی وجہ بن سکتے ہیں، کیااس میں اتنی صلاحیت اورپونٹنشل ہے؟ ظاہرہے یہاں مسئلہ صلاحیت اورپوٹینشل سے زیادہ سیاسی پالیسی سازی اورمفادات کاہے، محض نعرہ بازی کانہیں۔ اورنہ ہی خواہشات کاہے۔ جہاں بلاول بھٹوزرداری، بے نظیرکا بیٹااورذوالفقارعلی بھٹو کانواسہ ہے اوراس کے کچھ عقیدمند اوران شخصیات کی وجہ سے کچھ حلقوں میں احترام اوردیگرمیں جذباتی وابستگی بھی ہوگی وہاں اس کوزرداری کا بیٹا بھی کہاجاتاہے۔ اوراس پرآصف علی زرداری اوراس کے خاندان کے افراد جیسے بی بی فریال، عذرا، مظفراویس ٹپی کے اثرات اورکنٹرول کابھی چرچاہے۔ یوں بلاول ایک متضاد شخصیت کے طورپرہمارے سامنے ہے۔ اس کے بہت سارے بہی خواہوں کے مطابق جب وہ ایک مرتبہ میدان میں کودے گاتواس پرزرداری اینڈفیملی کی چھاپ ختم ہوکربھٹوخاندان کی چھاپ نمایاں ہوگی۔ اوریہی پارٹی کے مایوس کارکنوں اورپارٹی کی کھوئی ساکھ کی بحالی کاسبب بنے گی۔ اس طرح بلاول پارٹی میں نئی روح پھونکنے کاباعث بنے گااوریہی پیپلزپارٹی اگلے سال 2018کے انتخابات میں کرنے کی توقع پرکچھ لوگ امید وبیم کی کیفیت میں سوشل میڈیا پرمتحرک ہیں۔

ووٹوں کی غیرمتوقع شرح اورنوجوان

برطانوی انتخابات میں غیرمتوقع نتائج کی ایم وجہ اس میں بڑی تعداد  میں  ووٹ ڈالنے کی شرح اورنوجوانوں کامتحرک ہوناہے اوردونوں امورلیبرپارٹی کے لیفٹ ونگ لیڈرجرمی کوربن سے منسوب کئے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ٹوری پارٹی کے انتخابات میں غیرمتوقع خراب نتائج اورامید سے کم نشستوں پرکامیابی کی  بنیادی وجہ اس امرکی وضاحت میں ہےکہ ووٹ ڈالنے کی شرح 68.6 فیصد رہی۔ اوریہ 1997کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اوردوسری وجہ 18تا255سالہ عمرکے نوجوانوں کا ووٹ  ڈالنے کے لئے باہرنکلناہے،جو 72فی صدی رہی۔ یوں اس نے پانسہ پلٹ دیا اورلیبرپارٹی  نے غیرمتوقع طورپربہترکارکردگی دکھائی۔ اس سے پہلے جرمی کوربن نے پارٹی کوبہت متحرک کیامگرٹوری پارٹی کی وزیراعظم ٹریزامے کوپھربھی توقع تھی کہ پارٹی پہلے سے زیادہ نشستوں پرکامیابی حاصل کرلے گی۔ اس لئے اس نے وقت سے پہلے اپنی حکومت ختم کی اورانتخابات میں کود پڑی۔ وہ یورپ اورامریکہ رائٹ ونگ ابھارکودیکھ رہی تھِی جس میں لیفٹ کوبری طرح مارپڑرہی ہے۔ لیکن برطانیہ میں نتائج اس کے توقعات کے برعکس آئے۔

پیپلزپارٹی کے پاس بلاول بھٹوزرداری کی شکل میں پاکستان کی سب سے نوجوان قیادت ہے۔ جوآکسفورڈ ، برطانوی ہی سے تعلیم یافتہ بھی ہے اوربرطانوی طرزسیاست سے واقفیت بھی رکھتی ہے۔ یہاں اس کامقابلہ تحریک انصاف کے عمران خان اورمسلم لیگ ن کی مریم نوازاورحمزہ شریف سے ہے۔ یہ بھی نوجوانوں ہی کے طورپرپیش کئے جاتے ہیں اورمیڈیامیں نوجوانوں ہی کے لیڈرسمجھے جاتے ہیں، اگرچہ عمران خان شائد ان سب میں سنئرہیں لیکن اس کے پیچھے سب سے زیادہ نوجوان متحرک ہیں۔ پروفیشنل اورمڈل کلاس کے نوجوانوں کی بڑی تعداد پی ٹی آئی میں سرگرم ہے۔

بلاول کی سب سے بڑی کمزوری اس پر والد آصف علی زرداری اورفریال تالپورکاسایہ ہے۔ پارٹی کے ورکرزکہتے ہیں کہ پوری پارٹی ادی فریال چلاتی ہے۔ سندھ میں ترقیاتی ٹھیکے اورتعیناتی، وزراء میں رد وبدل پرفریال تالپورکی مضبوط گرفت کاتذکرہ عام ہے اوروہی سندھ کے وڈیروں سے معاملات طے کرنے میں بااختیارہے۔ یوں بلاول بھٹوکوزرداری اورفریال تالپورکے اثرکے سامنےبے اخیتارتصورکیاجاتاہے۔ پیپلزپارٹی کے ایک سرگرم رکن نے کہاکہ’ اگربلاول کوکھلاچھوڑدیاجائے تووہ بہت کچھ کرسکتاہے۔ اس کے اندازمیں بے نظیراوربھٹودونوں جھلکتے ہیں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ پیپلزپارٹی کے کارکن اس کوہی بھٹوزکاوارث سمجھتے ہیں‘۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے کارکن اب زرداری کوکسی نہ کسی طرح سے قبول بھی کرتےہیں۔ جس طریقے سے زرداری کی پیپلزپارٹی میں کارکنوں نوازے گئے، انھیں نوکری، مراعات، بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام، فلڈریلیف پروگرام، غریبوں کی مدد کے لئے وضع کردہ دیگرپروگراموں سے فائدہ اٹھانے کوملا یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے  پہلے کی بے نظیرحکومتیں بہت مختصروقفے کیلئے وجودمیں آئیں اورزیادہ عدم استحکام کی شکاررہیں۔ آصف علی زرداری 5سال تک صدررہے، پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت بھی اتنے ہی عرصے رہی اورسندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت 10سال پورے کرنے والی ہے۔ آصف علی زرداری خود بھی پیپلزپارٹی  میں ایک جیالے کے تصورمیں خود کوپیش کرنے کے لئے جئے بھٹوکانعرہ بھِی لگاتاہے اور11سالہ جیل کاتذکرہ بھی شدومد کے ساتھ کرتاہے۔

لیکن اس کے باوجود پی پی پی کے کارکن سمجھتے ہیں کہ عام آدمی زرداری کواس طرح نہیں دیکھتا، ان کے نزدیک وہ اب بھی مسٹر10پرسنٹ ہی ہیں، یعنی کرپٹ مافیہ کاسربراہ۔ اس کے منی لانڈرنگ اورعیان علی سے تعلق اوربحریہ ٹاون کے ساتھ پارٹنرشپ کے بارے میں چہ میگویاں عام ہیں۔ اس لئے کارکن سمجھتے ہیں کہ بلاول کوآگے لاناچاہیے۔ زرداری اورفریال کوپس منظرمیں لے جاناضروری ہے، اگرپی پی پی نے سندھ میں بھی امید سے بڑھ کر،خاص شہری حلقوں میں کوئی بہترکارکردگی دکھانی ہے۔ اب یہ ایک تصورہے کہ بلاول ہی پارٹی کے مرجھائے ہوئے بدن میں کوئی نئی روح پھونک سکتاہے۔ لیکن کون پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ پرہوگااس کافیصلہ ابھی ہوناباقی ہے جبکہ الیکشن قریب آرہے ہیں۔

پی پی پی کےکارکن سمجھتے ہیں کہ بلاول ناصرف خود نوجوان ہے بلکہ وہ نوجوانوں کواپنی طرف متوجہ بھی کرسکتاہے۔ اس میں ذوالفقارعلی بھٹواوربے نظیربھٹوکا اندازجھلکتاہے اوردرمیانی عمرکے لوگ بے نظیرکی شہادت کی وجہ سے اس سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔ اس طرح بلاول اپناحلقہ پیداکرسکتاہے۔

یہ درست ہےکہ بلاول یہ سب کرسکتاہے۔ اوراگرپیپلزپارٹی میں موجود پالیسی ساز سرمایہ دارقیادت یہ محسوس کرلےگی کہ اس سے پی پی پی آئندہ بہترکارکردگی دکھاسکتی ہے تووہ یقینا یہ کربھِی گزرے گی۔ بلاول کے آگے آنے اگر کچھ زیادہ نہ بھِی ہواتوپیپلزپارٹی کے اپنے نوجوان تومتحرک ہوہی جائیں گے۔ البتہ یہ دیگرمیں امید کی کرن پیدا کرنے کے قابل ہوگایہ قابل غورہے۔

جرمی کوربن اورعمران خان نے نوجوانوں کوعالمی پیمانے پرچھڑی جنگوں، امریکی مداخلتوں اورعوام دوست پالیسیوں کے لئے متحرک کیا۔ جرمی کوربن ہمیشہ سے امریکی اور اس کے اپنے ملک کاافغانستان اورعراق پرحملوں اورقبضوں کے بارے موقف میں  بہت واضح اوردوٹوک رہاہے۔ وہ جنگ مخالف تحریک کاسرگرم رکن ہے۔ اورنیولبرل ازم مخالف اور برطانیہ کا یوروزون سے نکلنے کابھی حامی رہاہے، جس کے داعی برطانوی سرمایہ داروں کاایک حصہ ہے۔ عمران خان نے بھی وکلاء تحریک میں سرگرم کرداراداکیا، ڈرونزحملوں کے خلاف ٹانک تک ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت کی اورنیٹوکی سپلائی کے خلاف دھرنے دئے۔ تب ہی نوجوانوں کواپنے گرداکھٹاکرنےمیں کامیاب ہوگیا۔ وکلاءتحریک اورپی ٹی آئی کرپشن کوپاکستان کاسب سے بڑامسئلہ بنانے میں کامیاب بھی رہی۔

لیکن جنگ مخالفت، نیولبرل ازم اورکرپشن پرپی پی پی کاموقف بالکل واضح رہاہے۔ یہ جنگوں اورنیولبرل ازم کی حامی ہے۔ اورسندھ گزشتہ دس سال سے کرپشن میں شائد سب سے آگے رہاہے

پاکستان میں جنگ مخالف رحجان پایاجاتاہے۔ البتہ پاکستان سرمایہ داروں کی بڑی اکثریت امریکی جنگ اورفوجی آپریشنوں پراس طرح تحفظات کے ساتھ موجودنہیں کہ پیپلزپارٹی اس کودوٹوک اندازمیں رد کرنے پرتیارہوجائے۔

پیپلزپارٹی کی روایتی جڑیں مزدوراورکسانوں میں رہی ہیں۔ غیرمتحرک اورصرف ووٹ کی حدتک محدود یہ دونوں پسے ہوئے طبقات پی پی پی کے ووٹرزتھے۔ لیکن متحرک اورریڈیکل عناصرہمیشہ پیپلزپارٹی کی سرمایہ دارپرست پالیسی کی وجہ سے اس سے فاصلے پر رہے ہیں۔ بہرحال یہ ایک روایتی سوشل ڈیموکریٹ پارٹی ضروررہی جس کے دوراقتدارمیں مزدوراورکسانوں کے دباؤکے تحت اصلاحات بھی ہوئیں۔ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اس کی مفاہمت کی بھی تاریخ ہے۔ جنرل ضیاء اورجنرل مشرف کی باقیات کوخلوص دل کے ساتھ خوش آمدیدکہاگیا۔ یوں یہ ایک متضاد قسم کی پارٹی رہی، جواطالوی مارکسی دانشورگرامچی کے متضاد شعور اوریوں اصلاح پسندی کی تصویرہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری اوربلاول دونوں مزدوروں اورکسانوں کی باتیں کرتے بھی نظرآتے ہیں مگراب یہ نعرہ بازی بہت کھوکھلی  لگتی ہیں۔

پی پی پی کی محدودیت

اول؛ توسندھ کے تمام بڑے سرمایہ دارا وراراضی مالکان اب پیپلزپارٹی میں ہیں۔ پیپلزپارٹی کم ازکم 1988کے بعد کچھ ریڈیکل رہی جب ضیاء دورکا ورثہ اس کے چلتارہاجس میں ایم آرڈی کی تحریک سے وابستگی ایک فخریہ بات ہواکرتی تھی۔ یہ دورکسی نہ کسی طرح 2010تک چلتارہا۔ اس میں بڑے اراضی مالکان (جاگیردار) پیپلزپارٹی سے زیادہ مسلم لیگ کے نام پربننے والی اسٹبلشمنٹ سے زیادہ قریب رہے۔ یہ حال  فریال تالپورسے منسوب کیاجاتاہے کہ اس نے تمام ہی بڑے جاگیرداروں کوکھنیچ ڈالا۔ مگرمعاملہ اس کے برعکس اورالٹ ہے۔ درست یہ ہے کہ جیساکہ تجزیہ کارسباوون بنگش کہتاہے، بڑے جاگیرداراپنے مفادات کاتحفظ اب پیپلزپارٹی میں دیکھتے ہیں۔ ریاض احمد اورعامرحسینی کہتے ہیں کہ ان کوجاگیردارنہیں بلکہ سرمایہ دارکہناچاہئے کیونکہ ان کی دولت کابڑاحصہ اب سرمایہ کاری سے آتاہے اوران کے کھیتوں میں اب کھیت مزدوراورٹھیکیداری نظام نافذہے اوریہ جدید فارمنگ کا ایک حصہ ہے اوریہ کمرشل باغبانی اورکھیتی باڑی ہے۔

دوئم:اب بہت بڑی طبقاتی تبدیلیاں واقع ہوچکی ہیں۔ 1980کی دہائی سے نیولبرل حملوں کے باعث مزدورطبقہ، ٹریڈ یونین اورلبرل لیفٹ پرحملے ہوچکے ہیں۔ ان کی تحریکوں کوبری طرح پیٹا گیا۔ کسان کی حالت اوردگرگوں ہے۔ البتہ انجمن مزارعین اورپی آئی اے جیسی تحریکیں اب بھی موجودہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی خود بھی مزدوراورکسان دشمن  پالیسیوں پرعمل پیراء رہی ہے۔ یہاں تک کہ کراچی میں واقع اسٹیل ملزکی نجکاری کے خلاف سب سے متحرک پی ٹی آئی کے اسد عمررہے اوراسی وجہ سے یہ پارٹی نجکاری مخالف اورمزدوروں کے شانہ بشانہ جدوجہد میں موجودرہی توپیپلزپارٹی کی مزدوریونین کوزبردست شکست سے دوچارکیا۔ عمران خان نے پی آئی اے کی تحریک پرہیڈآفس کے قریب جلسہ کیا۔ بلاول نے نہ ہی اسٹیل اورنہ ہی پی آئی اے تک جانےکی زحمت گواراکی۔ حالانکہ بلاول ہاوس کراچی میں ہے۔

سوئم : پیپلزپارٹی نے کم ازکم پنجاب کی حدتک ریڈیکل عناصرکھودئے۔ زرداری کی کوشش رہی ہے کہ ان لوگوں کوپارٹی میں کھنچاجائے جوسیٹ جیتنے والے ہوسکتے ہیں۔ یعنی گھوڑوں اورلوٹوں پرسرمایہ کاری کی جائے۔ یہ عوام متحرک ریڈیکل عناصرسے مایوسی کے بعد کیاگیا۔ پیپلزپارٹی لاہورکے جن پاکٹ یعنی مزدورحلقوں سے ووٹ لیتی تھی، وہاں تحریک انصاف کی کارکردگی اچھی رہی۔ اب یہ زبان  زدعام ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف، پی پی پی کی قیمت پرآگے بڑھی ہے۔ یعنی پی ٹی آئی نے اس خلاء کوپرکیاجوپی پی پی سے ناامیدی کی وجہ سے پیداہوایاپھرباالفاظ دیگراس نے ان ووٹرز کواپنی طرف کھنیچ لیا۔

یہی نہیں بلکہ سندھ میں بھی پیپلزپارٹی عوام کے بجائے بڑی اشرافیہ پرہی توجہ مرکوزکئے ہوئے اورہرپارٹی کے بڑے رہنمااوربااثرفرد کوراضی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ بڑی اشرافیہ سندھ میں اپنے تحفظات کی ضامن اب پیپلزپارٹی کوسمجھتی ہے۔ وہ چیلنج جو شہروں کی سطح پرابھررہاہے وہ ایک وبال بن سکتاہے۔ یہ خطرہ کہ اس خطے میں بھی مشرقی وسطی کی طرح کوئی عرب بہارکی کوئی تحریک کھڑی ہوسکتی ہے، سرمایہ داروں کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے جس سے شہبازشریف اورزرداری خبردارکرتے رہتےہیں۔ لیکن پی پی پی اوریوں سندھ میں سرمایہ کوسب سے بڑاخطرہ مزدوراورپروفیشنل ومڈل کلاس کی تحریکوں سےہے۔ اوریہی دیہات پراثرڈال سکتاہے۔ اوران کے نزدیک پی پی پی ہی قوت ہوسکتی ہے جواس کے آگے بند باندھ سکتی ہے۔ یوں پیپلزپارٹی کے لئے ان حالات میں بہت مشکل ہوگیاہے کہ وہ کوئی بہت زیادہ ریڈیکل بن کرسامنے بھی آئے،خاص کران حالات میں جب اس پرنیچے سےکوئی دباؤبھی نہ ہو۔

چہارم:سندھ کے بڑے سرمایہ کاروں اوراراضی کے مالکان جس تحریک سے خاطرخواہ تنگ بھی تھے، مسلم لیگ اورپیپلزپارٹی نے کراچی آپریشن اورسندھ خاص کربالائی سندھ میں آپریشن سے اس پرقابوپانے کی کوشش کی۔ شہروں میں لوئرمڈل کلاس کے خلاف آپریشن، ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کے نام پرکیا۔ یوں ایک چیلنج سے کم ازکم پی پی پی نے وقتی ہی سہی نجات دلانے میں کرداراداکیا۔ چونکہ یہ فوجی آپریشن ریاست بڑے اورچینی سرمایہ کے مفاد کے پیش نظرکررہی ہے لہذاء اس کومسلم لیگ ن اورپی پی پی کی مشترکہ سپورٹ بھی حاصل ہے۔ اس طرح پی پی پی نے شہروں کی حدتک تولوئرمڈل کلاس کواپنےسے بیگانہ کردیاہے۔ اس کوپتہ بھی ہے کہ اسے مہاجرلوئر، پروفیشنل اورمڈل کلاس کے ووٹ نہیں ملنے۔ لیکن یہ فوجی آپریشن پراس حدتک معترض ضرورہے جب اس کادائرہ اندرون سندھ اوراس کے مفادات تک بڑھتے ہیں۔ پی پی پی کااستدلال ہے کہ آپریشن کےدائرہ اختیاراوردائرہ عمل کوہرحال میں شہری لوئرمڈل تک محدود رکھاجائے۔

چیلنج: لوئرمڈل کلاس اور پروفیشنل اورمڈل کلاس کی تحریک

پیپلزپارٹی کی کم ازکم سندھ کی سطح تک یہ کوشش ہے کہ یہاں جمود رہے۔ اس کادوسرامطلب یہ ہے کہ حالات جوں کےتوں رہیں اورکوئی تغیرپیدا نہ ہونے پائے۔ پی پی پی نے بڑے لوگوں پرسرمایہ کاری کی ہے۔ یہ وہ انتخابی گھوڑے ہیں جوعام حالات میں ہی ریس میں جیت سکتے ہیں۔ کسی وبال اورتغیرمیں ان کی اپنی جیت توایک طرف ان کے طبقاتی مفادات کوبھی خطرہ درپیش ہوسکتاہے، خاص کوئِی ایسی تحریک جونیچے سے ہو، شہروں سے ابھرے۔ ان کے امکانات کوابھی بھی پوری طرح مستردنہیں کیاجاسکتا۔ اس لئے بڑے سرمایہ داراوراراضی مالکان پیپلزپارٹی میں اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لئے شامل ہورہےہیں۔ کہ یہی کڑے وقت میں ان کوتحفظ دے سکتی ہے۔ یہ احساس بڑی تیزی سے سندھ میں بڑھ رہاہے۔ اس کوسندھی دانشور، صحافی اورطلبہ پروان چڑھارہے ہیں۔ سندھی قوم پرست تحریک اسی لئے زبوں حالی اورپسماندگی کاشکاربھی ہے کہ سندھی سرمایہ دارواراضی مالکان کے تحفظ کوپی پی پی کے شکل میں محفوظ سمجھتی ہے۔ اب پی پی پی کی شکل سندھ میں ایک قوم پرست پارٹی بنتی ہے۔ یہ سندھی قوم پرستی کی اصلاح پسندی بڑے قومی اوربین الاقوامی سرمایہ کے بڑھوتری، ترقی اورتحفظ کی ضامن دکھائی دیتی ہے۔ سندھ کی صوبائی حکومت، سیاسی اشرافیہ اوربیوروکریسی ملکر اس کوآگے بڑھاتے نظرآتے ہیں۔ اس طرح سندھ میں یہ آپس میں مدغم ویکجانظرآتےہیں۔

لیکن اس کوسب سے زیادہ خطرہ اربنائزیشن اورسرمایہ دارانہ ترقی سے پیداہونے والے  چیلنج کابھی ہے۔ اس کاوزن سندھ میں خطرناک حدتک بڑھ گیاہے۔ اورپی پی پی اس کودباناچاہتی ہے

اس طرح پی پی پی نے سندھی سرمایہ کاروں کے خلاف کھڑی ہوئی ایک قوت کوکچلنے میں اہم کرداراداکیا۔ فوجی آپریشن کاعمومی اثریہ ہے کہ اس نے چھوٹی بڑی ہرقسم کی تحریک کومعدوم کرتے ہوئے ان کا گلہ گھونٹ دیاہے۔ مزدورتحریک اورریڈیکل عناصرپربھی وارکیاگیا۔ اس طرح سے بڑے سرمایہ کویقین دلایاگیاکہ ان کے مفادات کاتحفظ محض مسلم لیگ ن ہی نہیں پی پی پی بھی کرتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...