مسئلہ فلسطین: اتحاد یا پھر اپنی باری کا انتظار

984

ایک صدی پہلے تک دنیا میں صہیونی ریاست کا نام و نشان تک نہیں تھا،2 نومبر1917 کو اعلان بالفور کے ذریعہ فلسطین ارض مقدس کو یہودیوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا، اور سو سال بعد  جبکہ  عالم عرب میں اعلان بالفور کی مذمت میں صد سالہ کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کیے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے7 دسمبر2017  کو القدس الشریف بھی اسرائیل کے حوالے کرنے کا فیصلہ آ گیاہے۔برطانیہ کی طرف سے اعلان بالفور کے نام سے کیے گئے معاہدے میں  یہودیوں کی مدد،فلسطین میں ان کے قومی وطن بنانے کی حمایت،یہودیوں کی ہجرت کے لیے آسانیاں پیدا  کرنےاورسر زمین فلسطین پر ان کے تسلط  کی حمایت  کا منصوبہ شامل تھا۔ یہ معاہدہ مبہم عبارت کا  ایک شاہکار تھا جس کے الفاظ یہ ہیں:

“برطانوی  حکومت  فلسطین میں یہودی قوم کے لیے ایک  قومی وطن کےقیام کو حمایت کی نظر سےدیکھتی ہے اور وہ اس مقصد کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اپنی بہترین جدوجہد صرف کرے گی۔یہ واضح طور پر سمجھ لیا گیا ہے کہ  ایسی کوئی بات نہیں کی جائے گی جو فلسطین کی موجودہ غیر یہودی اقوام کے شہری اور مذہبی حقوق کو نقصان پہنچا سکے یا ان  کے حقوق اور سیاسی موقف کو جن سے یہودی  کسی اور ملک میں  بہرہ اندوز ہیں  نقصان پہنچائے۔”

یہ وہ اعلان تھا جو فلسطین کے لیے المیے  اور نکبت  کی بنیاد بنا اور دیکھتے ہی دیکھتے  فلسطین کی80  فیصد سرزمین پر  غاصب اسرائیل قابض ہو گیا۔اس غاصبانہ قبضے اور نہتے مسلمانوں کی قتل و غارت میں  صیہو نیوں کو انسانی حقوق کی علمبردار طاقتوں  کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔اس باب میں  اقوام متحدہ کا کردار بھی مایوس کن رہا اور  یو این نے بھی عالم عرب کی طرح  مذمتی قراردادوں پر ہی اکتفا کیا۔گزشتہ ہفتے  صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی سفارت خانے کو القدس منتقل کرنے کے اعلان کے بعد سے پوری دنیا میں اس فیصلے کے خلاف  احتجاج ہو رہا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ امریکہ نے یہ اعلان یکایک نہیں کیا، بلکہ1995 سے یہ اس کی پالیسی میں شامل ہے، جس کے لیے فضا ہموار کرنے کا کام بھی برسوں سے جاری  تھا۔جولائی 2016 میں  عالمی سرچ انجن “گوگل”  کی جانب سے بھی  گوگل میپ ایپلی کیشن میں فلسطین کی جگہ اسرائیل کا نقشہ  شامل کیا  گیا تھا،جس  پر  صرف فلسطین کے ہی عوامی اور سماجی حلقوں کی طرف سے  رد عمل سامنے آیا تھا۔ دیگر ملکوں کے عوام اور مفکرین اس موقع پر خاموش رہے۔ بلکہ بعض بہی خواہوں  نے تو فلسطینیوں کو یہاں تک مشورہ دیا  تھا  کہ انہیں جو بھی قانون کے مطابق مل رہا ہے ،اسکی پرامن تعمیر کا آغاز کریں اور مزاحمت ختم کر دیں ۔حالانکہ یہ بات عیاں ہے کہ  یہودیوں کا منصوبہ پورے فلسطین پر قابض ہونے کا ہے اور وہ خود متعین کردہ حدود سے روز بروز تجاوز کر رہے ہیں۔یہودی اہل  فلسطین سےوہ  سب کچھ بھی  چھین رہے ہیں جو کچھ انہیں عالمی قانون کے مطابق مل رہا ہے اوربین الاقوامی  قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔

عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے اسرائیل  گزشتہ ستر سالوں سے ہر لمحہ اپنی حدود کو پھیلائے جا رہا ہے اور اپنی چادر و چاردیواری کے تحفظ کے لیے مزاحمت کرنے  والے فلسطینیوں کو  کچل رہا ہے ، عالمی قوانین  کو اس حد تک پامال  کر رہا ہے کہ القدس جو کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق  قطعاً اسرائیل کا شہر نہیں ہے، اسے وہ  اپنا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔

صدر ٹرمپ  کی جانب سے  القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے  کا فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے  جب اسلامی ممالک بری طرح  تقسیم کا شکار ہیں۔ عرب  ریاستوں سمیت  پوری اسلامی دنیا اس وقت  سیاسی،لسانی  و مسلکی اختلافات اور معاشی عدم استحکام  کی صورتحال سے گزر رہی ہے۔عراق، شام اور لیبیا  ملیامیٹ ہو چکے ہیں ،سعودی عرب اور مصر داخلی مسائل  سے دوچار ہیں۔ایران شام ،یمن اور دیگر مسلم ممالک میں مسلسل مداخلت کی وجہ سے الجھا ہوا ہے۔ خلیجی ممالک آپس میں دست  وگریباں ہیں جبکہ پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ایسے میں  کوئی ملک بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے جو اس فیصلے کے خلاف کھڑا ہوسکے۔  آج  بعینہ وہی صورتحال  ہے جس سے عالم اسلام گیارہویں صدی میں دوچار تھا  اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل یورپ نےبیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا جو کہ دو صدیوں  تک مسلط رہیں۔

جب تک  مسلم ممالک میں تقسیم در تقسیم کی یہ صورتحال برقرار رہے گی، اس وقت تک ایک ایک کر کے مسلم ریاستیں غیروں کےلیے  تر نوالہ بنتی رہیں گی۔اگر  امت مسلمہ واقعی  اعلان ٹرمپ پر غم و غصے کا شکار ہے تو صرف ایک ہی صورت میں صدر ٹرمپ کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے اتحاد و یگانگت۔اگر ہم آپس کی شیعہ سنی لڑائیوں اور قومی و لسانی جھگڑوں سے اوپر اٹھ کر  اور تمام اختلافات کو بھلا کر  ایک ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ عالم اسلام کے کسی ایک ٹکڑے کی طرف بھی  کوئی میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔اگر  قبلہ  اول پر حملہ  بھی ہمیں متحد نہ کرسکا تو پھر شاید ہم کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے  کہ اتحاد یا پھر اپنی باری کا انتظار۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...