نواز شریف کا نظریہ

1,037

پاکستان کے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے خوش نصیب شخص نواز شریف آج کل اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔ ان کا لہجہ دن بدن تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی تاریخ کے 16 سابق وزرائے اعظم کی طرح وہ بھی کبھی اپنی مدت مکمل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حالات کی ستم ظریفی ہے یا مکافات عمل ،وہ خود عمران خان کی طرح وزرائے اعظم کے خلاف برسر پیکار رہے اور پھر بالکل تحریک انصاف کی طرح اپنے مشن میں کسی نہ کسی صورت کامیاب بھی رہے۔ لیکن اب اس سب کا ذمہ دار وہ اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے خیال میں ضد اور ہٹ دھرمی ہر دفعہ نواز شریف  کی اداروں سے ٹکراؤ کی وجہ بنتی رہی ہے۔ اس تنقید کا جواب وہ ایک سوال کی صورت میں دیتے ہیں کہ کیا 70 برسوں میں کوئی بھی وزیر اعظم ٹھیک نہیں تھا؟ پھر خود ہی خبردار بھی کرتے ہیں کہ اب یہ کھیل بند ہو جانا چاہیے۔

دو دہائیوں سے زائد ملک پر حکمرانی کرنے والے نواز شریف نے پہلے یہ نعرہ بلند کیا کہ اب وہ نظریاتی ہوگئے ہیں اور پھر کہا کہ نواز شریف خود ایک نظریے کا نام ہے۔ گویا انھوں نے اپنی ناکامیوں کی تمام تر ذمہ داری ایک معصوم مگرغیر نظریاتی نواز شریف کے کندھوں پررکھ دی ہو۔ نواز شریف ملک کی سیاست میں بھٹو مخالف نظریے کے تحت شامل ہوئے اور پھر آگے کی منازل طے کرتے گئے۔ یہ نظریہ کیا تھا اور اس کا بانی کون تھا، اس پر انھوں نے کبھی روشنی ڈالنا پسند نہیں کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کی سیاست دو دہائیوں سے زائد عرصہ بھٹو اور بھٹو مخالف نظریے کے گرد ہی گھومتی رہی۔ نواز شریف کو اس نظریے کی صرف ایک شق کا علم تھا کہ وہ اقتدار میں اسی رستےسے آ سکتے تھے۔ اس نظریے پر چل کر انھوں نے خاندان کی کھوئی ہوئی دولت اور اثاثے سود سمیت وصول کر لیے۔ پھر ان کے اثاثوں نے بڑھوتری کرتے کرتے آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔  یوں اسلام آباد سے شروع ہونے والا سفر پانامہ   پر جا کے ختم ہوا۔

بذریعہ جی ٹی روڈ 4 دن کی مسافت طے کر کے وہ اسلام آباد سے واپس اپنے گھر لاہور پہنچے۔ داتا دربار پر اپنے سفر کے اختتامی خطاب میں انھوں نے اپنے اور اپنے محسنوں کے خلاف ایف آئی آر  درج کراتے ہوئے کہا کہ  یہ کیسا ملک ہے؟ یہاں کسی کو اپنی مدت نہیں پوری کرنے دی جاتی۔ پھر بلاتوقف چارج شیٹ پڑھی کہ ملک میں عدالتی انصاف ہے اور نہ ہی معاشی مساوات۔ غریب تعلیم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی بہتر علاج کی سہولت میسر ہے۔ پھر اس عزم کا اظہار بھی کر ڈالا کہ اب وہ ضرور نیا لائحہ عمل تشکیل دیں گے اور ملک کو حقیقی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ اس لائحہ عمل کو انھوں نے دو حصوں یعنی مختصر اور طویل دورانیہ پر تقسیم کر دیا۔

نواز شریف کے سیاسی سفر کا اتار چڑھاؤ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ملک کی سیاست میں فوجی آمر جنرل ضیاء کے متعارف کردہ نواز شریف کس کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں؟ وہ فوجی آمروں کے خلاف کیسے ہو گئے؟ کیا یہ سب کچھ وہ ماضی کی طرح پھر کسی گٹھ جوڑ کے لیے کر رہے ہیں؟ لیکن اس دفعہ تو ملک میں مارشل لاء بھی نہیں ہے۔ پھر ان کے لہجے میں تلخی کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ وہ تمام حقائق اور رپورٹس منظر عام پر کیوں نہ لے کر آسکے؟

نواز شریف نے جس نظریے کے تحت سیاست میں قدم رکھا تھا اس کے خدوخال کا جائزہ لینا بھی از حد ضروری ہے۔ اگر اس نظریے کی تمام شقوں کو وہ خود پڑھ لیتے تو شائد آج ان کی اتنی سخت دل آزاری نہ ہوتی۔ جس دستاویز پر یہ عبارت کندہ تھی کہ یہ نظریہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کا مختصر ترین وظیفہ ہے اگلے صفحے پر یہ بھی درج تھا  کہ یہی نظریہ ان کے زوال کا بھی شاخسانہ ہوسکتا ہے۔ اس نظریے کے تحت ایک فرد اقتدار تک تو ضرور پہنچتا ہے لیکن وہ مقتدر نہیں ہوتا۔ جب وہ اپنے آپ کو حکمران سمجھنے لگتا ہے تو پھر اس نظریے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ اس نظریے کے تحت کوئی بھی شخص مختصر یا طویل دورانیے کے لیے بلا خوف و خطر اثاثے بنا سکتا ہے۔ ملک کے اندر یا باہرخوب عیاشی سے زندگی گزار سکتا ہے لیکن ان کو اپنی مرضی سے کسی نئے ازم یا نظریے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا۔ ورنہ نظریہ ضرورت جاگ جاتا ہے ۔ پھر قانون، قاضی اور عدالتیں سب منہ موڑلیتے ہیں۔ باقی رہا معاملہ عوام کا تو یہ تو تب سیسہ پلائی دیواربنے گی جب ان کے درمیان کسی نے کبھی سیسہ یعنی دکھ درد بانٹا بھی ہو۔ ورنہ لوہے کی فیکٹریاں اور مضبوط روسی یا امریکی ساخت کے ٹینک بھی دفاع کے لیے کافی نہیں ہوتے اور شکست مقدر بن کر سر پر منڈلا رہی ہوتی ہے۔

اگر نواز شریف نظریاتی ہوگئے ہیں تو پھر پہلے انھیں پرانے نظریے کے تحت حاصل کی گئیں تمام مراعات واپس کرنا ہونگی۔ اپنے نئے نظریے کے صاف صاف خدوخال بیان کرنا ہونگے ۔پھر ہی یقین سے کچھ کہا جاسکتا ہے کہ اب وہ کس سمت سفر کررہے ہیں۔ شاید صرف نظریاتی ہونے یا خود کو نظریہ کہنے سے بات آگے نہ بڑھ سکے اور پھر اقتدار کی یہ لوڈشیڈنگ کبھی ختم نہ ہوسکے۔ البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ شہباز شریف نے جالب اور نواز شریف نے غالب کو پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ اگر اب بھی روش نہ بدلی تو پھر بہادر شاہ ظفر کی شاعری بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...