مرے کو مارے شاہ مدار

1,841

’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کہنے سے بظاہر کفر لازم آتا ہے۔ لیکن بچت اس لئے ہوجاتی ہے کہ یہ جملہ اکثر و بیشتر طنزیہ مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ بولنے والا عموماً یہ وضاحت پیش کرتا ہے کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا.

’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کہنے سے بظاہر کفر لازم آتا ہے۔   لیکن بچت اس لئے ہوجاتی ہے کہ یہ جملہ اکثر و بیشتر طنزیہ مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ بولنے والا عموماً یہ  وضاحت پیش کرتا ہے کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آج کل تو روزہ لگنے کا عذر بھی قابل قبول ہو تا جارہا ہے۔  ہمیں بھی یہ جملہ اسی وقت یاد آیا  جب ایک صاحب نے اپنے بچوں کو لُو سے بچانے کے لئے کسی کو دھمکی دی کہ ریٹایر ہو لو تمہارے بچوں سے بدلہ لیں گے۔ افسوس وا۔ در حقیقت یہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ ہم صوفیا اور ان کی دنیا سے بہت دور جا چکے ہیں۔

ظاہر پرست’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘  کو ضرب المثل بتاتے ہیں اور اس کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے شخص کو مار کرجو پہلے ہی مر چکا ہے  یا مارنے کی دھمکی دے کر شاہ مدار  بننا چاہتے ہیں۔  پاکستان میں بہت سے لفظ پرستوں نے اسے طبقاتی معانی  بھی پہنائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عوام  میں پہلے ہی جان نہیں ہیں طاقتور طبقے اپنے وی آئی پی رویوں سے ان کو ہر روز موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ کچھ کم علم اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ غنڈے بدمعاش کمزور لوگوں پر ہاتھ اٹھا کر خود کو پہلوان سمجھنے لگے ہیں۔ بعض مطلب پرست اس کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ  پاکستان میں ریٹائرڈ تو پہلے ہی نیم مردہ ہوتے ہیں کچھ  شرفا انہیں ریٹایرمنٹ کی موت نما زندگی کی بے بسی یاد دلا کے نہال ہوتے ہیں۔ ہم ان  تمام ظاہر پرست تشریحات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور ریٹایرمنٹ اور خصوصاً شاہ مدار  کے بارے میں اس جاہلانہ پراپا گنڈے کی مذمت کرتے ہیں۔

مرے کو مارے شاہ مدار در اصل  شاہ مدار کا روحانی تربیت کا خاص طریقہ تھا۔ ہم اس کی تفصیل تو بعد میں بیان کریں گے۔ پہلے ریٹایرمنٹ  کے بارے میں پائی جانے والی اس بنیادی غلط فہمی کو دور کردیں کہ ریٹایرمنٹ کا نارمل انسانی زندگی سے کوئی تعلق ہے۔ تصوف کی اصطلاح موت سے پہلے موت ریٹایرمنٹ پر ہی صادق آتی ہے۔ صوفیا کی زبان میں مرید اور پیر کا تعلق مردہ بدست زندہ کا ہوتا ہے۔ یعنی مرید اپنے تمام اختیارات کو ترک کر کے  خود کو مرشد کے حوالے کرتا ہے۔ ظاہری معنوں میں یوں سمجھئے کہ ریٹایرڈ ملازمین مکمل طور پر اس حکومت  کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں جو ریٹایر منٹ سے پہلے ان کے رحم و کرم پر تھی۔  موت اور زندگی میں یہی فرق ہے۔ جو اس فرق کو سمجھ لیتے ہیں وہ اسے فراموش کر کے ہر فکر  سے بےنیاز ہو جاتے ہیں۔ ہر دھمکی اور خوف سے آزاد۔

موت اور ریٹایرمنٹ میں فرق سمجھنے کے لئے اس بات پر غور کریں کہ بعض ناموں کے ساتھ ’’رح‘‘ اور بعض کے ساتھ صرف ’’ر‘‘کیوں لکھا جاتا ہے۔ یہ حروف مختصر لفظ یعنی مخفف ہیں۔ ’’رح‘‘ اور ’’ر‘‘ میں بظاہر فرق ہے لیکن بباطن دونوں  ’’ر‘‘کے رشتہ میں بندھے  ہیں۔

’’رح‘‘ رحمة اللہ علیہ  (اس پر اللہ کی رحمت ہو) کا مخفف ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص وفات پا چکا ہے ۔ اللہ اسے اپنی رحمت سے نوازے۔ اچھا شخص تھا۔ انگریزی میں اس سے ملتا جلتا  لفظ ’’آئی آر پی‘‘  ہے جو ’ریسٹ ان پیس‘   کا مخفف ہے۔ یعنی  دعا ہے کہ’ اطمینان اور سکون تمہارا نصیب ہو‘ ۔ اس کے برعکس اگرچہ ’’ر‘‘کا تعلق موت سے براہ راست نہیں لیکن یہ بالواسطہ رشتہ براہ راست سے زیادہ اہم ہے۔’’ر‘‘ اردو میں ریٹایرڈ کا مخفف ہے۔  لغوی طور پر تو  ان ریٹایرڈ لوگوں کے لئے لکھا جاتا ہے جو حیات ہیں۔ لیکن  اس کا روحانی مفہوم یہ ہے کہ بندہ ابھی اللہ کو پیارا نہیں ہوا، اللہ اور سرکار کے درمیان  کی برزخ میں شفٹ ہو گیا ہے۔  دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ ریٹایرڈ ہوتے ہی  واقعی  محسوس کرتے ہیں کہ موت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ان کے ماتحت بھی انہیں نہیں پہچانتے۔ لوگ بھی کتراتے ہیں کہ ان کے لطیفے پھیکے، کہانیاں لمبی اور بیماریوں کا ذکر ترجیح بن گیا ہے۔ لوگ دور سے ہی خیریت پوچھتے ہیں اور وہ بھی اشاروں میں۔ گھر والے بھی بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ زندہ تو ہوتے ہیں لیکن ان کا شمار جانداروں میں نہیں رہتا۔ جہاں دیدہ بھی انہیں اللہ اللہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔  ریٹائرڈ لوگ ذہنی طور پر بہت جلد عرفان کے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جسے موت سے پہلے موت کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو  ریٹایرمنٹ کے بعد روحانی طور پرشاہ مدار کے حوالے کئے جاسکتے ہیں۔ تاہم یہ مقام ہر ریٹائرڈ کو حاصل نہیں ہوتا ۔

ان میں سے بعض  ریٹایرڈ اشخاص کا برزخ کا زمانہ میڈیا پر ظہور اور غیوب میں گذرتا ہے۔ یہ زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہوتے ہیں جن کے عہدے کی برکت اور انرجی  اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ  ریٹایر ہو کر بھی ظاہری معنوں میں فوت نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کے نام میں عہدے  کےساتھ (ر) کا اضافہ ان کے دنیوی تصرفات میں اضافے کی علامت ہوتا ہے۔ ان کو یا ان کے بچوں کو دھمکیاں بھی نہیں دی جا سکتیں۔ بلکہ شرفا ان کے نام سے دوسرے شرفا کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ تصوف میں بھی ان کا مقام فتوّت بہت مضبوط ہوتا ہے۔ موت وحیات میں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔ جیتے ہیں تو بہشت میں۔ مرتے ہیں تو جنت منتظر ہوتی ہے۔ ہم اب اس بات پر بھی روشنی  ڈالتے ہیں کہ شاہ مدار سے ان کا گہرا روحانی رشتہ بھی بنتا ہے۔

شاہ مدار لقب ہے سید بدیع الدین کا جو عوام میں زندہ شاہ مدار کہلاتے ہیں۔ یہ لقب ان کے روحانی مقام قطب مدار کی جانب اشارا ہے۔ ۸۳۸ ھ (غالباً ۱۴۳۴) میں  وفات پائی۔ مزار یو پی کے ضلع کانپور میں مکن (مکھن) پورمیں ہے۔ شاہ مدار سلسلہ مداریہ کے بانی ہیں۔ شاہ مدار ان صوفیا میں سے ہیں جو لوک ورثہ کا حصہ ہیں۔ زیادہ تر کہانیاں  اور کرامات زبانی قصوں اور نظموں کی شکل میں بیان ہوتی ہیں۔ شاہ مدار کے بارے میں مشہور ہے کہ چھ سو برس عمر پائی۔ تصوف کی تربیت میں اویسی ہیں یعنی ان کی روحانی تربیت براہ راست نبی کریم ﷺ نے کی۔ حضرت بایزید بسطامی سے بیعت بھی زمانی فاصلوں کی پابندی سے آزاد تھی۔  اسی تعلق سے ان کی روحانی نسبت طیفوریہ بھی ہے۔ تمام بڑے صوفیا سے روحانی دنیا میں ملاقاتیں رہیں۔  ان کے ماننے والے مداری کہلاتے ہیں۔ سلسلہ مداریہ  کے بزرگوں نے یو پی میں میوات  اور بنگال اور بہار میں کام کیا۔ ان کے مزارات بھی انہی علاقوں میں ہیں۔ عوام بلا تفریق مذہب ان مزارات پر اب بھی آتے ہیں۔

تاریخ کی کتا بوں میں مداریہ  کا ذکر ہے۔ یہ جنگجو غازیوں کا گروہ تھا جس نے اٹھارہویں صدی میں بنگال اور بہار کے علاقے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت کی۔ تاریخ میں یہ فقیر وار کے نام سے معروف ہے جو ۱۸۰۲ میں جاکر ختم ہوئی۔ اس جنگ کے بعد یہ پھر عوام کا حصہ بن گئےان کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ ان کے بہت سے خیالات اور رسومات پر ہندو جوگیوں کا اثر ہے۔ بعض اوقات ان بزرگوں کے ناموں کی ہندو ناموں سے اور مزارات کی بعض رسوم  کی ہندو رسوم سے مماثلت  کی وجہ سے بھی یہ خیال عام ہوا کہ ان کے مزار پہلے ہندو عبادت گاہیں ہوتی ہوں گی۔ ایک  مشہورمحقق نے تو مداریہ کو ہندو فرقہ  ہی بتا دیا ہے۔ بعض مصنفین کا خیال ہے کہ مداری جو بندر اور بکری کے ساتھ گلی گلی پھرتے ہیں ان کا بھی سلسلہ مداریہ سے تعلق ہے۔ مداری صوفیا اس کی تردید کرتے ہیں کہ ان فقیروں کا مداریہ سلسلے سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم  میوات اور بہار میں یہ مداری گتکے بنوٹ وغیرہ کے کھیل دکھاتے تھے۔ انہی میں سے ایک کرتب بھاری جھنڈے کا ہے جو ہوا میں اچھال کر زمین میں گاڑا جاتا تھا۔ ان مختلف معلومات سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ یہ غازیوں کا گروہ تھا جو اپنی جنگی مہارتوں کا مظاہرہ سڑکوں، گلیوں اور میلوں میں کرتا تھا۔  اور اپنے تنظیمی روابط کو زندہ رکھتا تھا۔ سلطنت دہلی اور مغل بادشاہوں کی نظروں سے دور یہ اپنی زندگی اپنے ڈھب سے گزار تے تھے۔

اس کی وجہ غالباً یہی تھی کہ اسلام کا اور علما کا اثر دارا لحکومت یا شہروں تک محدود تھا۔ صوفیا عوام میں گھلے ملے تھے۔ اس لئے ان کے نام بھی عوام کی زبان میں بدل گئے تھے۔ مثلاً غفور کپور میں بدل گیا اور رحیم رام میں۔ ان کی تاریخ لوک ثقافت میں اپنی الگ پہچان کھو بیٹھی۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں تبلیغ، احیا اور اصلاح کی تحریکوں نے بھی ان کو مسلمان مانا تو برائے نام۔ جدید دور کی مردم شماری، الیکشن اور سیاسیات میں تعداد کی اکثریت  کے لئے ان کی الگ پہچان کی ضرورت پڑی تو ان کی اسلام واپسی کی بات ہونے لگی۔  یہ ساری کہانی اس لئے بیان کی کہ قوموں کی زندگی میں بھی ریٹائرمنٹ کا دور آتا ہے۔

ریٹایرمنٹ اگر موت سے پہلے موت کا زمانہ ہے تو اسے شاہ مدار کی ضرورت پڑتی ہے۔ مداریہ سلسلے میں مرے کو مارنا عوامی زبان میں تصوف کی اس رمز کو سمجھانے کی کوشش ہے کہ صوفی کی روحانی زندگی میں ایک مقام فنا کا ہے جو دنیوی مفہوم میں موت کے مترادف ہے۔ فنا کی حالت میں صوفی تمام دنیوی رشتوں کو ترک کرکے تمام لالچوں اورخواہشات سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اب وہ ہر دھمکی، خطرے، اور خوف سے نجات پاتا ہے۔ دنیا کی زندگی میں یہی خواہشات اور خطرات اسے جبر کی زندگی گذارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اہل دنیا انہی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر دھمکیاں دیتے ہیں۔ جسے شاہ مدار جیسا مرشد مل جائے وہ اس فنا کے مقام سے اگلے مقام یعنی فناء الفنا تک لے جاتا ہے جہاں فنا کو بھی فنا نصیب ہوتی ہے اور سالک صرف اللہ کا بندہ بن جاتا ہے۔ یوں شاہ مدار مرے کو مار کر امر کر دیتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...