یوم ولادتِ رسولﷺ۔۔۔ایک پُر مسرت دن

912

خوشی کا اظہار انسانی فطرت کاخاصہ ہے۔ اظہار ہمیشہ انسان کی ثقافت اورکلچر کے آئینہ دار ہوتا ہے۔ صدیوں سے مسلمان رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے موقع پر اپنے اپنے انداز اور طریقے سے خوشی کا اظہار کرتے آ رہے ہیں ۔ اس روز گلیوں،گھروں اور بازاروں کو سجایا جاتا ہے ، اپنے ہمسایوں کے ساتھ مختلف اور لذیز کھانوں کا تبادلہ ہوتاہے ۔ محافل ومجالس منعقد کی جاتی ہیں ۔ سیرت النبی کی کانفرنسز اور جلسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

کسی خاص یوم کا اہتمام دراصل “یاددہانی” کے مقصد سے کیا جاتا ہے تاکہ ہم اپنا احتساب و حساب کر سکیں۔ رسول اللہ ﷺ کےیومِ ولادت کا منانابھی تذکیر کے لئے ہے کہ اللہ سبحان وتعالیٰ نے عظیم ترین ہستی کوخاتم النبیین بنا کر ہم میں بھیجا۔ ایک پہلو ہماری خوش نصیبی کا ہے ،دوسرا پہلو ہماری ذمہ داری کا ہے کہ ہم رسول اللہ کی سنت و سیرت کو اختیار کریں اور دنیا کے سامنے اپنے کردار کو بطور اعلیٰ نمونہ کے پیش کریں ۔ہمارے اسلاف ولادت النبی کا اہتمام محبت،شوق اور جذبہ سے کرتے تھے ۔اس اہتمام میں خود نمائی،رزق کے ضیاع سے اجتناب اورمخلوق خدا کی تکلیف کا خیال کیا جاتا تھا۔ اُن کے لئے سب سے اہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رسول اللہ سے محبت کا اظہار تھا۔ اس حوالے سے، ان کی خصوصی احتیاط اپنے اس مال کے حوالے سے ہوتی تھی جو انہوں نے اس نیک کام پہ خرچ کرنا ہوتا تھا ۔ وہ اپنی کمائی میں رزقِ حرام کی آمیزش نہیں ہونے دیتے تھے۔ جس سال اُن کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا وہ خوشی میں سادہ اور معمولی شئی سے بھی شرکت کرنے والوں کی مہمان نوازی کرتے تھے۔ اگر وسعت ہوتی تو اس کے مطابق بہترین دعوت کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ مسلمان کے عقیدے کے مطابق، مقبولیت و پسندیدگی کامعیار یہ سب کچھ نہیں ہے بلکہ مقبولیت و پسندیدگی انسان کا اخلاص ، محبت اور تقویٰ ہے۔ گزشتہ اقوام میں سے ایک قوم بنی اسرائیل ہے جس کی طرف انبیاءکی ایک بڑی تعداد مبعوث ہوئی۔ یہ قوم خود بھی اولادِ انبیاءسے تھی ۔ رسول اللہ نے ہمیں اس قوم کی پیروی سے منع ہی اس لئے کیا تھا کہ اس قوم نے ظاہر کا اہتمام کیا لیکن دین کی روح کو اختیار نہ کیا۔ دین سے تعلق فقط اتنا رکھا جس سے ان کی شان و شوکت اور ذاتی جاہ و جلال کا اظہار ہو اورغلوفی الدین ہی معیارِ محبتِ دین قرار پایا۔ ولادت رسول منانے کی خوشی میں ہماری توجہ اس طرف رہے کہ ہم جو کچھ خرچ کر رہے ہیں کیا وہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے مطابق حلال ہے یا نہیں۔؟ ہم آپ کے نام پہ رزق ِخدا کو ضائع تو نہیں کر ہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم دوسروں کے لئے تکلیف واذیت بن رہے ہوں۔ ولادتِ رسول کی خوشی دوچند ہو جاتی ہے اور اس میں مزید روحانیت کا ورودہوتا ہے جب اس کا اہتمام دین کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ حقیقی خوشی اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بارگاہِ رسالت میں اطاعت واتباع کے سانچے میں ڈھل کر پیش ہوتا ہے۔

ولادتِ رسول پہ خوشی کا اظہار مبادیات دین سے نہیں ہے لیکن مبادیاتِ دین پہ یقین و ایمان کا مضبوط ذریعہ ضرور بن سکتا ہے کیونکہ یہ خوشی اس ہستی کی ولادت پہ منائی جا رہی ہے جس سے محبت وتعلق اُخروی نجات کی ضمانت ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...