سیاسی خلفشار کا خمیازہ

عثمان حیات

956

پاکستانی عوام کو ملک پر اثر انداز ہوتی غیر یقینی سیاسی صورتِ حال کی کیا قیمت ادا کرنا پڑ ررہی ہے؟ اقتصادیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سیاسی خلفشارقوم و ملک پر بہت گراں گزرتا ہے۔ پالیسی سازی کا عمل ابہام کا شکار ہو جاتا ہے۔   فیصلہ سازی، سرمایہ کاری،اور بنیادی تقرریوں کا عمل التوا میں پڑ جاتا ہے۔  کارِ حکومت آگے نہیں بڑھ پاتااور پریشر گروپوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ 1960 سے 2014 تک 169 ممالک کے حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد آئی ایم ایف کے محققین کی رائے ہے کہ “کابینہ میں تبدیلی  (وزیرِ اعظم کی تبدیلی  یا 50 فیصدنئے  وزراءکے تقرر)   سے ملک کی حقیقی جی ڈی پی کی فی کس سالانہ شرح نمو 2.39 فیصد   تک گر جاتی ہے۔”دیگر تحقیقات بھی اسی طرح کے نتائج اخذ کرتی ہیں۔ہارورڈ ، ییل ، سٹینفورڈ اور فیڈرل ریزرو سے تعلق رکھنے والے 4 ماہرینِ اقتصادیات کی طرف سے  1950 سے 1982 تک 113 ممالک میں سیاسی  انتشار اور جی ڈی پی کی شرح نمو میں تناسب پر کی گئی تحقیق ہمیں بتاتی ہے  کہ “ان ایام میں ، جب  کوئی ملک غیر مستحکم سیاسی صورتِ حال  سے دوچار ہوتا ہے ،معمول کے ایام کی نسبت شرح نمو کم ہو جاتی ہے ۔  ” یہ نتائج بالکل واضح ہیں اور ہم انہیں بھگت بھی چکے ہیں۔ہر سیاسی بحران  کے بعد پاکستان نے اقتصادی  نمو میں تیزی سےکمی کا سامنا کیا ہے ۔ مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے وقت پاکستان تاریخ کے سب سے بڑے  بحران کاشکار ہوا جب یکا یک جی ڈی پی کی شرح 1971 میں  0.47فیصد تک گر گئی جبکہ صرف ایک سال قبل 1970 میں یہ شرح 11.35 فیصد تھی۔کچھ دیگر  ادوار میں بھی ہمیں ان حالات سے دوچار ہونا پڑا۔  1992 میں جی ڈی پی کی شرح 7.7 فیصد تھی جبکہ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ جانے کے بعد 1993 میں یہ شرح صرف1.93 فیصد تک رہ گئی۔1996 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا تو جی ڈی پی کی شرح 4.85 فیصد سے1.01 فیصد تگ گر گئی۔ اب جبکہ  حالیہ عشرے میں جب   اقتصادی نمو  سب سے زیادہ ہے،ہم اسے سیاسی انتشار کی نذر کرنےکا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ایک محتاط تخمینے کے مطابق اگر 2016 میں حالیہ جی ڈی پی 283.7 بلین روپے کی شرح نمورواں مالی سال میں حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہدف جو کہ  6 فیصدہے، کی بجائےحالیہ منتشر سیاسی صورتِ حال کے سبب  5 فیصد ہو جائے تو صرف ایک سال میں اس سیاسی غیر یقینیت کی وجہ سے ملکی معیشت کو800 2 بلین روپے  کانقصان اٹھانا پڑسکتا ہے ۔ یہ رقم رواں مالی سال  کیلئے وفاقی ادارہ محصولات (FBR) کی طرف سے متعین کردہ ہدف8.09 241 بلین روپے کی رقم سے کہیں زیادہ بنتی ہےاور یہ فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 2017 کیلئے مختص 1001 بلین روپے کی رقم کے دوگنا سے بھی زائد ہے۔کیا جی ڈی پی کی شرح نمو میں اس  کمی کا مطلب یہ ہے  کہ مستقبل میں ہمارے لئے اقتصادی مواقع نوکری کیلئے تعلیم حاصل کرنے تک ہی  محدود رہ جائیں گےاور ہمیں اس کا خمیازہ افراطِ زر اور بالواسطہ محصولات میں اضافے کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی غیریقینیت ہمیں ورثے میں ملی ہے ، سو معاشی نمو پر اس کے اثرات کوئی انہونی بات  نہیں۔یہ ٹھیک ہے مگرہم  ان دنوں جس سیاسی خلفشار کا شکار ہیں، وہ وراثتی نہیں  بلکہ اس کا سبب  اداروں کے مابین بے جا تصادم ہے، جس سے احتراز برتنا چاہیے۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ابتر معاشی صورتِ حال کومحض سیاسی انتشار کے ساتھ نتھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اور بھی ایسے عوامل ہیں،  جن کے باعث اقتصادی نمو تنزلی کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ بات بھی درست ہے مگر اس حقیقت  سےانکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی عدمِ استحکام ایک اہم عامل ہے اورملکی معیشت پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صورتِ حال غیرمطمئن  معاشی کارکردگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی  بلکہ یہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

ہر بار ایک منتخب حکومت کو اس کی مدت پوری ہونے سے پہلے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ہم امید لگا لیتے ہیں کہ آنے والی حکومت  بہتر نظم و نسق کے ذریعے ان نقصانات کا ازالہ کرے گی جو اس خلل انگیز تبدیلی کے سبب ملک کو اٹھانے پڑے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ یہ امید ہی رہتی ہے۔باربارحکومتیں بدل دینے کے باوجود بھی  حالت جوں کی توں ہی رہتی ہے۔ہم ہر بار سمجھتے ہیں کہ اب کچھ مختلف ہو گا مگر  دھاک کے وہی تین پات ۔

دراصل  ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ حکومت اپنی متعین  مدت پوری کرے  تاکہ اس کے اقتصادی پالیسی ساز وں کو معاشی  لائحہِ عمل مرتب کرنے اور اس پر عملدرآمد کامناسب موقع مل سکے۔  اس طرح کا تیقن  و استحکام  ہماری ضرورت ہے۔تمام تر اہمیت کے باوجود پاکستان کی اقتصادی صورتِ حال سے متعلق پیش کردہ روئدادوں  میں سیاسی خلفشار کے نقصانات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔پاکستانی ترقی کے حوالے سے  92 صفحات پر مشتملManaging Risks for Sustained Growth کے عنوان سے عالمی بینک کی مرتب کردہ روئداد کی مثال لیجئے ، جسے  اداروں کے مابین چپقلش کے سبب پیدا شدہ سیاسی عدمِ استحکام کے کسی حوالے  کی ہلکی سی بھی  بھنک نہیں پڑنے دی گئی ۔حالانکہ اسی  کے موجب ہماری معاشی نموغیر مستحکم  ہے  ۔ضرور ایک خودمختار  سیاسی حکومت کو فرض کرتے ہوئے عالمی بینک کی جانب سے یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ رواں مالی سال میں شرح نمو   5.5 فیصد رہے گی۔شاید سیاسی غیر یقینیت کے مضمرات  کے حوالے سے ہم بے حس ہو چکے ہیں، کیونکہ ہمیں ان سے بلاواسطہ پالا نہیں پڑتا۔ دوسری طرف  حال ہی میں ٹماٹروں کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں  ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔اگر ہر پاکستانی کو موبائل فون کے بل کی طرح سیاسی انتشارکے نقصانات کا بل بھی پکڑا دیا جائے تو یہ عمل سیاسی نظام میں استحکام کیلئے کارآمد ہو سکتا ہے۔ آئےدن ذرائع ابلاغ میں ہم مختلف اعدادوشمار پڑھتے یا سنتے رہتے ہیں کہ پاکستانیوں پر فی کس اب اتنا قرض ہے، اب اتنا ہے۔ان  اعدادو شمار کی صحت پر شک کیا جا سکتا ہے مگر ان کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ اس سے  یہ پیغام جاتا ہےکہ یہ مسئلہ ہم سب پر اثر انداز ہورہا ہے اور اس سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ یہاں بھی ہمیں یہی کرنا ہے۔ہمیں اداروں کے مابین تصادم کے سبب پیدا شدہ حالیہ سیاسی عدمِ استحکام  کے اثرات و نتائج کو جانچنا ،پرکھنا  اور عوام کو اس کے نقصانات اور مضر ات سے  آگاہ کرنا ہے۔

ترجمہ: حذیفہ مسعود،بشکریہ ڈیلی ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...