حکومت و ریاستی اداروں میں تقسیم اور مذہب کے نام پر سیاست

1,178

تحریک لبیک یارسول اللہ کے خادم حسین رضوی اوراس کے دھرنے، نے ناصرف اسلام آباد، پنجاب اورکراچی کومتاثرکیا بلکہ اس نے سیاسی ہل چل بھی مچادی ہے۔ حکومت ایک بہت ہی مشکل صورتحال سے دوچارہوئی اورکوئی قدم اٹھانے اورنہ اٹھانے کے درمیان پھنس کررہ گئی۔ جب سپریم کورٹ کے حکم پروزارت داخلہ نے قدم اٹھایا توسخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ بالآخر حکومت اورمظاہرین کے درمیان معاہدہ طے پاگیااور  وفاقی وزیرقانون زاہدحامد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

تحریک لبیک یارسول اللہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں بہت تیزی کے  ساتھ شہرت حاصل کی ہے۔ اس کےرہنما خادم حسین رضوی نے لاہورکے حلقہ این اے 120 سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حیران کن طورپر پیپلزپارٹی کوپیچھے چھوڑتے ہوئے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے امیدوار ڈاکٹرمحمد شفیق امینی نے پشاورشہرسے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 4سے جماعت اسلامی کے امیدوارسے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔

بریلوی مکتبہ فکرمیں ہل چل کا احساس سب کوہے۔ موجودہ دھرناتحریک سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف کے داماد اوررکن قومی اسمبلی کیپٹن صفدرنے فوج اورعدلیہ میں احمدی عناصرکی موجودگی اوران کی صفائی کا مطالبہ کیاتھا۔ ان کاکہناتھاکہ تمام ججزاورجرنیلوں کوختم نبوت کا حلف اٹھاناچاہیئے۔ اس کامطالبہ یہ بھی تھاکہ ان اداروں کواحمدیوں سے پاک کیاجائے۔ اب اسٹیبلشمنٹ نے موقع پاکروہی چال واپس کردی ہے۔جب سے طالبان ، سپاہ صحابہ اوردیگرشدت پسند دیوبندی تنظیموں کے خلاف ملک کے طول وعرض میں چارسال سے شدیدترین آپریشن ہواہے اوران کودھکیلاگیاہے تواب شدت پسندی کی نئی لہربریلوی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والوں میں نظرآرہی ہے۔ فی الحال یہ تحریک شہروں میں منظم ہورہی ہے۔ لیکن فیض آباد پربیس روز سے زائد سے احتجاجی دھرنے پورے ملک کے بریلوی مکتبہ فکرکوایک طرح چارج کردیاہے۔کراچی میں بھی بریلوی مکتبہ فکرنے سراٹھانے کی کوشش کی۔ ایم کیوایم کے خلاف فوجی آپریشن نے یہاں بھی خلاء پیدا کیاہے اوراب بریلوی مکتبہ فکرکے لئے موقع پیدا ہواہے کہ وہ اپنی قوت کا مظاہرہ کرے۔ ایم کیوایم کے قیام سے قبل نورانی میاں کی قیادت میں جمعیت العلمائے اسلام سندھ کے شہری علاقوں خاص کرکراچی اورحیدرآبادمیں اثرورسوخ کی حامل سیاسی جماعت تھی۔ بعدازاں الطاف حسین کی قیادت میں 1980کی دہائی میں ایم کیوایم کے ابھارسے یہ بھی خاطرخواہ متاثرہوئی۔ اس کے بعد سنی تحریک نے کراچی اورپنجاب کے کچھ علاقوں  میں قوت حاصل کرنے کی کوشش کی اورخاطرخواہ کامیابی بھی حاصل کی لیکن ایم کیوایم اس کوکراچی میں دبانے میں کامیاب ہوئی توبریلوی مکتبہ فکر صرف دعوت وتبلیغ تک محدود ہوکررہ گیا۔

عالمی سطح پرشدت پسندوہابی اسلام اوراس کے زیراثرپاکستان میں دیوبندی مکتبہ فکرکوپیچھے دھکیلنے کے لئے بریلوی مکتبہ فکرکی تحریک کوتشدد سے پاک”روایتی اسلام”کے نام پرآگے لانے کی کوشش کی گئی۔ محققین کے نزدیک صوفیائے کرام کی  تعلیمات میں موجود عدم تشدد کافائدہ اٹھاکراسے مسلم متشدد گروہوں کے خلاف استعمال کیاجاسکتاہے۔ محفل سماع اورقوالی کی حوصلہ افزائی کی گئی اور مزارات کے عرس کوریاستی سطح پرمنانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔میوزک پروگراموں جیسے کوک اسٹوڈیومیں قوالی کوسامنے لایاگیا۔ اس نے ایک طریقے سے بریلوی مکتبہ فکرکی ویسے ہی حوصلہ افزائی کی جیسے امریکہ اورپاکستان سمیت دیگرممالک نے 1980کی دہائی میں افغان جہاد کی خاطر وہابی نظریات کی حوصلہ افزائی کی تھی۔

ریاستی اداروں کے درمیان تقسیم اورجنگ ریاست کوخطرات سے دوچارکررہی ہے۔ سول،ملٹری تناؤ میں مذہب کا استعمال پاکستان میں موجود اقلیتوں کو غیر محفوظ کررہا ہے۔ کیپٹن صفدر کی تقریر کے جواب میں ملک میں پیدا ہونے والا بحران کسی خوفناک حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ حکومت،اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو ان بحرانوں کے خاتمے میں کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان میں موجود ہر اقلیت کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...