مسلم شمیم کا قصۂ چہاردرویش

935

کلکتہ میں ۱۹۴۸ کی کانفرنس میں پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا جو سراسر غلط اقدام تھا۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا فیصلہ پاکستان کے بعد پاکستان کے کسی شہر میں یہاں کے پارٹی ممبروں کی کانفرنس میں ہونا چاہیے تھا۔

سید مظہر جمیل اور مسلم شمیم دو ایسے نئے سندھی ہیں جنہوں نے پرانے سندھیوں سے کہیں بڑھ کر سندھ کی تہذیبی اور سیاسی شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے کا فر یضہ عاشقانہ جذب و جنوں کے ساتھ ادا کیا ہے۔ سید مظہر جمیل کی آشوبِ سندھ کی تفہیم و تفسیر اپنی مثال آپ ہے۔سو بھوگیان چندانی اور ابراہیم جوئیوکی زندگی اور کارناموں کی تحسین پران کی کتابیں سندھ کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کی معتبرترین دستاویزات بن گئی ہیں۔ مسلم شمیم اپنے نئے سندھی ہونے پر نازاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ: ’’لاڑکانہ کو اپنی پریم بھومی اور گیان بھومی ‘‘ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے یہ اعتراف اپنی کتاب’’ لاڑکانہ کے چہاردرویش‘‘میں ’کامریڈ شانتا بخاری‘کو خراج تحسین پیش کرتے وقت کیا ہے۔اس کتاب میں لفظ کامریڈ کے استعمال پر مجھے برصغیر کی خلافت تحریک یاد آئی ہے۔ اس زمانے میں عوام نے اس تحریک کے رہنماؤں کے اسمائے گرامی کے ساتھ از راہِ عقیدت مولانا کا لاحقہ چپکا دیا تھا اور یوں مسٹر محمد علی جوہر کے سے رہنما مولانا محمد علی جوہر بن گئے تھے۔مسلم شمیم کی زیرِ نظر کتاب میں بھی ہر اس شخص کے نام کے ساتھ کامریڈ کا اسمِ صفت چسپاں کر دیا گیا ہے جوہمیشہ انسانی اخوت و مساوات کے اصولوں پر ایمانِ محکم کے ساتھ عمل پیرا رہااور جس نے زیردست اور بے کس خلقِ خدا کی بے لوث خدمت کو عبادت کا درجہ دے رکھا تھا۔ باقی رہی برصغیر کی کمیونسٹ تحریک ، تو برصغیر میں اس کا خیرمقدم سب سے پہلے مسلمان دانشوروں نے ہی کیا تھا۔
لندن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام سے دس بارہ برس پیشتر مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے دارالعلوم دیوبند میں اپنے خطبۂ صدارت میں روس کی اشتراکی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کیا تھا۔اسلامی شعائر کی پابندی میں راسخ شاعر اور سیاستدان مولانا حسرت موہانی نے اعلان کیا تھا
دریشی و انقلاب مسلک ہے مرا
صوفی مومن ہوں ، اشتراکی مسلم
*
لازم ہے یہاں غلبۂ آئینِ سوویت
وہ ایک برس میں ہو کہ دو چار برس میں
*
گاندھی کی طرح بیٹھ کے کاتیں گے نہ چرخہ
لینن کی طرح دیں گے نہ دنیا کو ہلا ہم
اب دیکھیے اقبال کا جوش و خروش:
آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا
آسماں ، ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک؟
اسلام کے انقلابی معاشی نظریات کو عہدِ حاضر کی اصطلاحات میں سمجھنے اور بروئے کار لانے میں منہمک لاڑکانہ کے یہ درویش عوامی سیاسی جدوجہد میں کچھ یوں منہمک رہے کہ انھوں نے علمی موشگافیوں پر اکتفا کرنے کی بجائے عملی زندگی کو انقلاب آشنا کرنے کی جدوجہد کو ترجیح دی۔اس قصۂ چہاردرویش کا آغازسید جمال الدین بخاری سے ہوتا ہے:
’’نوجوان کامریڈ بخاری نے مولانا حسرت موہانی کے اتباع میں انقلابِ اکتوبر کو عالمی استحصال اور سرمایہ دارانہ جبر و ظلم کے خاتمے کا نقیب گردانا اور سرزمینِ انقلابِ اکتوبر کے حالات کا ذاتی مشاہدہ کرنے کی غرض سے چند نوجوانوں کا قافلہ پاپیادہ کابل اور مزار شریف کے راستے سمرقند، تاشقند اور بخارا ہوتے ہوئے ماسکو پہنچا۔ اس قافلے کے پرجوش ترین مسافر کامریڈ سید جمال الدین تھے۔ اس سفر میں دو سال کا عرصہ صرف ہوا اور وہ ۱۹۲۰ میں واپس آ گئے۔۱‘‘
سید جمال الدین بخاری ایک ایسے مسلم لیگی تھے جو بیک وقت جمعیت العلمائے سندھ اور بزمِ صوفیائے سندھ میں بھی سرگرمِ عمل تھے اور ساتھ ہی ساتھ سندھی ادبی کانفرنس کے مہتمم بھی ۔ ’’وہ ساری عمر برطانوی سامراج سے نبردآزما رہے اور آزادی کے بعد سامراج کی جانشین استحصالی طاقتوں سے برسرِپیکار رہے۔…. بخاری صاحب نے اپنے موروثی اثاثوں سے خود کو شعوری طور پر محروم کیا اور Have کے طبقے سے نکل کر Have nots کے طبقے میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے بڑی دیانت اور سچائی کے ساتھ خود کو مظلوموں اور استحصال کے شکار عوام کے ساتھ اپنی عملی یکجہتی کی راہ اپنائی۔۲ ‘‘ مولانا حسرت موہانی ہی کی مانند وہ اپنی بات ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ کہتے تھے:
’’ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی قیادت کی ایک بڑی غلطی کا بڑے پرزور لہجے اور پراعتماد انداز میں بارہا ذکر کرتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کلکتہ میں ۱۹۴۸ کی کانفرنس میں پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا جو سراسر غلط اقدام تھا۔ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کا فیصلہ پاکستان کے بعد پاکستان کے کسی شہر میں یہاں کے پارٹی ممبروں کی کانفرنس میں ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان میں اس وقت سینکڑوں کمیونسٹ کارکن اور قائدین موجود تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح پاکستان میں گویا کامریڈ سجاد ظہیر کو گورنر جنرل یعنی سیکریٹری جنرل بنا کر بھیج دیا۔ یہ خود کامریڈ سجاد ظہیر کے ساتھ بڑی زیادتی تھی۔ وہ بنیادی طور پر ادب و دانش کے قبیلے کے آدمی تھے، لیکن ان کو پاکستان جیسے ملک کی سیاسی زندگی کی رہ نمائی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ وہ اس خطے کی ثقافت اور روایات سے یکسر ناواقف اور نابلد تھے۔ چنانچہ ان کی قیادت میں پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کا پودا کیونکر بار آور ہو سکتا تھا؟ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا جنم پاکستان کی سرزمین پر ہونا چاہیے تھا اور یہاں کے فرزندانِ زمین کی وابستگی اور سرگرم عملی شرکت کی حکمت عملی اختیار کی جانے چاہیے تھی۔ سو ایسا نہیں ہوا، چنانچہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی ہیئتِ کذائی کسی سے مخفی نہیں ہے۔۳ ‘‘
سید جمال الدین بخاری کی رفیقۂ حیات کامریڈ شانتا بخاری کو مسلم شمیم ’’وہی منصب دینے کے حق میں ہیں جو کامریڈ کال مارکس کی محبوبہ ،جیون ساتھی فینی کا تھا۔‘‘مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی شخصیت پر لکھا گیا مضمون سید جمال الدین بخاری پر زیرِنظر مضمون ہی کا تکمیلی جز ہے۔ جتوئی صاحب کی شخصیت پر روشنی ڈالتے وقت یوں دادِتحقیق دی گئی ہے:
’’کامریڈ حیدر بخش جتوئی کی عام شہرت ایک کمیونسٹ نظریہ رکھنے والے رہ نما کی رہی اور وہ اپنے ان نظریات کے ساتھ عوام کے سامنے گئے ہیں اور کبھی اپنے نظریات پر پردہ ڈالنے یا معذرت خواہانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ یوں باضابطہ طور پر کمیونسٹ پارٹی کے رکن نہیں رہے اور نہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے ان کی باضابطہ وابستگی رہی مگر کمیونسٹ پارٹی اور انجمنِ ترقی پسند مصنفین نے انھیں اپنا سرپرست اور اثاثہ جانا اور ان سے رہ نمائی حاصل کی۔۴‘‘
مسلم شمیم نے حیدر بخش جتوئی کی شاعری کا سیر حاصل مطالعہ بھی پیش کیا ہے اور ان کی اس جدوجہد کا مفصل تذکرہ بھی کیا ہے جو سندھ کے ہاری اور کسان کو جاگیردار کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کی تمنا میں عمر بھرجاری رہی۔ اس ضمن میں انھوں نے قائداعظم کی قائم کردہ سندھ ہاری انکوائری کمیٹی رپورٹ میں مسعود کھدر پوش کے طویل اختلافی نوٹ میں اٹھائے گئے نکات سے بھی خیال انگیز بحث کی ہے-سندھ کی جاگیردار سیاسی قیادت نے یہ اختلافی نوٹ شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ایک مدت بعد جب یہ اختلافی نوٹ شائع ہوا تو کھلا کہ پورا نوٹ نہ سہی اگر اس کا پہلا جملہ ہی شائع کر دینے کی اجازت مل جاتی تو پوری بات قارئین تک پہنچ سکتی تھی۔پہلا جملہ یہ ہے: ‘A hari is a domestic animal’ ۔ اس سدھائے ہوئے جانور پر جو ظلم و ستم اس وقت بیت رہا تھا آج بھی بیت رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم شمیم نے حیدر بخش جتوئی کی شخصیت اور شاعری کی تحسین سے کہیں بڑھ کر اُن کے سیاسی کارنامے پر روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’کامریڈ حیدر بخش جتوئی کا جیے سندھ کا نعرہ سندھ کی قومی شناخت کے ساتھ سندھ کے مظلوم عوام کے مفادات کے لیے جدوجہد کا نعرہ تھا، جبکہ جی ۔ ایم۔ سید کی جیے سندھ کی تحریک اور نعرہ سندھی قومیت کا وہ نعرہ ہے جس میں سندھ کے جاگیردار طبقے کے مفادات کو سندھ کے مظلوم عوام کے مفادات پر برتری حاصل ہے۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی کا جیے سندھ کا نعرہ سندھ کے مظلوم عوام کی جدوجہد کا نعرہ ہے، محض سندھی قومیت کا نعرہ نہیں۔ یہ نعرہ سندھ کے پرولتار یا کا نعرہ ہے، سندھ کے جاگیردار اور بورژوا طبقے کے مفادات کے تحفظ کا نعرہ نہیں ہے۔۵ ‘‘
لاڑکانہ کی ایک اور یادگارِ زمانہ شخصیت کو بیک وقت کامریڈ اور مولوی کے اسمائے صفت سے یاد کیا گیا ہے:
’’کامریڈ مولوی نذیر حسین جتوئی کی شخصیت ہر اعتبار سے متاثر کن تھی۔ وہ اپنی صورت اور سیرت، یعنی ظاہر و باطن کی خصوصیات کے باوصف ایک غیرمعمولی شخصیت تھے۔ ان کے حوالے سے جب بھی سوچ کا نگر آباد ہوا تو ہندوستان کی تین عظیم شخصیتوں کی تصویریں ذہن کے افق پر ابھریں: مولانا حسرت موہانی، مولانا آزاد سبحانی اور مولانا اسحق سنبھلی۔ مولانا حسرت کی شاعرانہ عظمت تو خیر تسلیم شدہ ہے مگر ان کی غیر معمولی شخصیت کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ ۱۹۲۵ میں کان پور یوپی میں جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا تو اس کی استقبالیہ کمیٹی کے وہ چیئرمین تھے اور مولانا آزاد سبحانی وائس چیئرمین۔ مولانا حسرت موہانی کی غیرمعمولی خدمات ترقی پسند تحریک کے حوالے سے بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ‘‘۶
نذیر حسین جتوئی کی شاعری کا تذکرہ درج ذیل سطور پر تمام ہوتا ہے:
’’کامریڈ مولوی نذیر حسین جتوئی کی شاعری میں کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کا پرچار، جاگیرداری، سرمایہ داری اور ملائیت کی بھرپور مذمت، انسانیت کے نعرے اور سوشلسٹ انقلاب کی نوید بھی موجود ہے۔ مولوی نذیر حسین جتوئی، مولانا عبیداللہ سندھی کے معتقد اور شاہ ولی اللہ کے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے کے باعث سوشلسٹ نقطۂ نظر اور عالمی سامراج دشمن تحریک و ترقی پسندی کے نقیب تھے۔…. اُن کی شخصیت کا روشن ترین پہلو ان کی صاف گوئی اور حق گوئی تھی۔ وہ توہم پرستی اور پیر پرستی کے سخت خلاف تھے اور مذہبی حلقوں میں ان کی دھاک ایسی تھی کہ ان کے سامنے لب کشائی کی کوئی جسارت نہین کرتا تھا، اس کا سبب ان کی علمی ثروت مندی تھی۔ ان کا قرآن و حدیث کا اتنا گہرا مطالعہ تھا کہ عام مولوی اور عالمِ دین ان سے مکالمے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔‘‘۷
اب تک جن تین درویشوں کا تذکرہ ہوا ہے وہ سب کے سب شاہ ولی اللہ دہلوی ، علامہ اقبال اور مولانا حسرت موہانی کی روایت میں حقیقی اسلام کی انقلابی تعبیر کے زیراثر جہد آزما رہے ہیں۔ درویشی و انقلاب کے اس حقیقی اسلامی مسلک سے خائف وڈیروں نے ان عوامی انقلابی رہنماؤں کو کامریڈ مشہور کر کے ان کی عوامی مقبولیت کی راہیں مسدود کرنے کی کوشش کی مگر خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔ وجہ یہ کہ جہاں تک معاشی انصاف کا تعلق ہے اشتراکیت اور اسلام میں نکتہ ہائے اشتراک نمایاں ہین۔ جبکہ اسلام اور ملائیت میں سراسر تضاد موجود ہے۔ کامریڈ نذیر حسین جتوئی کی حق گوئی و بیباکی
چوتھا درویش سوبھو گیان چندانی نانک پنتھی کامریڈ ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’نانک ‘‘میں مہاتما بدھ اور بابا نانک ہر دو کو توحید پرست قرار دیا ہے۔ انسانی اخوت و مساوات کا تصور توحید کے تصور ہی سے پھوٹا ہے۔ چنانچہ اس نانک پنتھی درویش کی زندگی بھی زیردستوں اور خاک نشینوں سے یگانگت اور محبت سے عبارت رہی ہے۔مسلم شمیم نے اپنی اس کتاب میں درویشی اور انقلاب کے اٹوٹ رشتے کو نمایاں کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ لاڑکانہ کے ان درویشوں سے مل کر مجھے تو اسی صداقت کا گوہرِ نایاب دستیاب ہوا ہے کہ جہاں درویشی نہیں وہاں انقلاب بھی نہیں!
***
حوالہ جات
۱۔ لاڑکانہ کے چہار درویش، مسلم شمیم، کراچی، ۲۰۱۷، صفحہ ۵۰
۲۔ ایضا!، صفحہ ۴۷
۳۔ ایضاً، صفحات ۶۴۔۶۵
۴۔ ایضاً، صفحہ ۷۲
۵۔ ایضاً، صفحہ ۹۴
۶۔ ایضاً، صفحہ ۱۰۲
۷۔ ایضاً، صفحات ۱۱۲۔۱۱۳

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...