افغان قضیہ
اگست میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جنوبی ایشیا سے متعلق نئی حکمتِ عملی کے اعلان کے بعد افغان مسئلے کے حل کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔نئے امریکی لائحہ عمل اور خطے میں جغرافیائی لحاظ سے جنم لیتےسیاسی و معاشی مسائل کے پیشِ نظر علاقائی طاقتیں بھی صف بندی میں مصروف ہیں اور یقیناً یہ ایک صبر آزما مرحلہ ہے۔ اسلام آباد کی جانب سے مسترد شدہ وجوہات کی بنیاد پر ہی سہی مگر افغانستان سے متعلق حالیہ امریکی حکمتِ عملی میں پاکستان کی مرکزی حیثیت برقرار ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک طویل المدتی نظام العمل ترتیب دے چکی ہے کہ بزورِ طاقت افغان طالبان کو شکست سے دوچار کرنا ناممکن ہے۔ بظاہر امریکی انتظامیہ کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ افغان طالبان فتح یاب ہوں نہ ہی ان کی مزاحمت طول پکڑے ۔ امریکہ اپنے فوجیوں کی کم سے کم تعداد کے ساتھ ان اہداف کے حصول کی کوشش جاری رکھے گا۔ 2015 میں افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی مصالحتی مجلس کے قیام ، افغان طالبان سےخفیہ بات چیت اور انہیں حکومت میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی درپردہ کوششوں کو بھی اسی حکمتِ عملی کے ضمیمے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔حال ہی میں امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ نے افغان حکومت میں اعتدال پسند طالبان کی شمولیت کا عندیہ دیا، تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی وہ معتدل افراد کون ہوں گے؟ اور یہ بھی واضح نہیں کہ آیا افغان طالبان “اعتدال پسندی” کی اس امریکی تعریف کو تسلیم بھی کرتے ہیں یا نہیں۔
واشنگٹن اس منصوبے کی تکمیل میں علاقائی طاقتوں کے یقینی کردار کا خواہاں ہے اور وہ ان ممالک کو دو خانوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اول ،قریبی ہمسائے اوردوم ،شراکت دار۔مختصراً یہ کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان حقانیوں کے خلاف کارروائی کرے اور افغان طالبان پر سیاسی مصالحتی عمل میں شرکت کیلئے زور ڈالے۔امریکی دفاع کے توثیقی ایکٹ سے لشکرِ طیبہ کے نام کا اخراج یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی سیکرٹری دفاع نے ایوان(امریکی سینیٹ) میں اس بات کی تصدیق کی ہوگی کہ پاکستان نے لشکرِ طیبہ اور حقانی جنگجوؤں ، دونوں کے سدِ باب کیلئے “ٹھوس اقدامات ” کئے ہیں۔یہ بات واضح طور پر بدلتے ہوئے منظر نامے کی عکاسی کرتی ہے۔تاہم اس منظر نامے کی دو توضیحات کی جاسکتی ہیں ۔ اول یہ کہ امریکہ ہل من مزید کے مسلسل مطالبے سے پاکستان پر دباؤ بڑھاتا رہے گا،دوم یہ کہ یا پھر پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات پر قائل کر چکا ہے کہ وہ قومی دھارے میں واپس لانے کی صورت میں یا طاقت کےاستعمال کے ذریعے مقامی گروہوں سےخود نمٹ لے گا۔امریکی بل سے لشکرِ طیبہ کے نام کا اخراج ملی مسلم لیگ کے قیام کے منصوبے کی کامیابی کا غماز ہے ، جس کے سبب اسلام آباد پر امریکی دباؤ میں کمی آئی ہے، جو آج کل خطے میں امریکہ کے سیاسی مفادات، اپنی قومی سالمیت اور بھارت کے گرد گھومتی دفاعی ترجیحات کے مابین توازن قائم رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔
امریکہ ان مسائل کی حساسیت سے آگاہ ہے اور وہ ان کی بنا پر پاکستان کو تعاون کیلئے مجبور کرتا رہے گا۔ کیا پاکستان کیلئے ممکن ہو پائے گاکہ وہ حقانی محاذ پر کوئی قابلِ ذکرکردار ادا کر سکے ، جبکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ بدلے میں امریکہ کی توقعات کیا ہیں۔ بالخصوص یہ کہ امریکہ یا تو حقانی جنگجوؤں کو مذاکرت کی میز پر لانا چاہتا ہے یا پھر افغان میدانِ جنگ میں ان کا خاتمہ ۔صدر ٹرمپ نے امریکی حکمتِ عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ امریکہ افغان قومی تعمیری منصوبہ ختم کر سکتا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ پھر وہ افغانستان میں استحکام کیسے لائیں گے۔ بادی النظر میں امریکہ قومی تعمیری منصوبہ بھارت کے سپرد کرتے ہوئے چاہتا ہے کہ بھارت افغانستا ن کے اقتصادی معاملات اور صنعتی تعمیر میں اہم کردار ادا کرے۔واشنگٹن کے منصوبہ ساز یہ جانتےہیں کہ بھارت افغانستان میں اپنی فوجیں نہیں اتارے گا ۔ تاہم کم از کم معاشی و دفاعی قیمت پر افغانستان میں لگا بندھا اقتصادی، سیاسی اور تزویراتی کردار ادا کرنا بھارت کی اولین ترجیح ہوگی۔ افغانستان میں بپا شورش کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت نے اٹھایا اور وہ افغانستان کےتجارتی اور دفاعی معاملات میں پاکستان کی جگہ لینے کیلئے تگ و دو کرتا رہا ہے۔امریکہ افغانستان کی قومی تعمیر و ترقی میں بھارت کے کلیدی کردار کی حوصلہ افزائی جاری رکھے گا۔
امریکی پالیسی ساز چین کو افغانستان میں قیام امن کے عمل میں براہِ راست اہم محرک کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ علاقائی امن و استحکام “ایک خطہ ایک راہداری” منصوبہ کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تاہم چین علاقائی مسائل کے حل کیلئے کوئی قائدانہ کردار قبول کرنے کی بجائے پاکستان، ایران، روس اور امریکہ کے ساتھ ملکر کام کرنے کو ترجیح دے گا۔امریکی سیکرٹری دفاع جیمز واٹز نے ایران اور روس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک افغان طالبان کی معاشی اور عسکری معاونت کرر ہے ہیں ۔ ممکن ہے افغانستان میں روسی مداخلت سے امریکہ کو کوئی زیادہ سروکار نہ ہو مگر فعال ایرانی کردار اس کیلئے کسی طور قابلِ قبول نہیں ہوگا اور وہ اس کی بجائے اس اقتصادی، سیاسی اور تزویراتی کردار کیلئے وسط ایشیائی ہمسایوں کو فوقیت دینا چاہے گا۔ امریکہ کی افغانستان سے متعلق حکمتِ عملی جارحانہ ہے اور دیگر علاقائی شراکت داروں کے مفادات کو نا قابلِ اعتنا سمجھتے ہوئے نیم مشروط یا مکمل طور پر غیر مشروط حمایت کے مفروضے پر مبنی ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ اس قیاس کو بنیاد بناتے ہوئے عمل میں لائی گئی ہے کہ افغان طالبان کئی دھڑوں میں بٹ چکے ہیں۔دوسری طرف داعش کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور عسکری کارروائیوں کے باوجود کابل اس مسلح گروپ کو اپنے لئے کم خطرناک سمجھتا ہے۔روس اور چین داعش کے بارے میں زیادہ حساس نظر آتے ہیں جبکہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ معاملات طے پا جانے کے بعد داعش کو تنگ گلی میں دھکیل دے گا۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ داعش امریکی افواج کیلئے طالبا ن سے زیادہ سخت ثابت ہو رہی ہے۔افغان طالبان اور داعش کے درمیان مفاہمت کی خبروں کے باوجود ابھی تک خطرے کی شدت کا صحیح ادراک نہیں کیا گیا۔
باوجود اس کے کہ امریکہ افغان جنگ میں کامل فتح کی توقع نہیں رکھتا ، تاہم وہ اس جنگ میں سیاسی، عسکری اور سفارتی محاذوں پر اپنی برتری قائم رکھنے کیلئے مستعد ہے اور امریکہ کا یہ نکتہِ نظر علاقائی شراکت داروں اور اتحادیوں کے حوالےسے امریکی عزائم کو مشتبہ بناتا ہے۔ حال ہی میں سمرقند میں منعقدہ وزارتی سطح کے ایک اجتماع میں وزیرِ اعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ نے افغانستان میں جنگ بندی کی بات کی۔انہوں نے امریکہ کی گزشتہ پالیسیوں پر دیانت دارانہ جائزہ لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ ان کے ذاتی خیالات تھے یا انہیں ملکی اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل تھی اوریہ بھی غیر واضح ہے کہ افغانستان میں جنگ بندی کی جہات کیا ہوں گی۔بہرحال یہ امر قابلِ غور ہے۔
ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان
فیس بک پر تبصرے