کھجور کھانا سنت ہے
اس سلسلے میں ایک نیا محاورہ بنایا جاسکتا ہے کہ’’ کھجور تو کھجور، گٹھلیوں میں بھی نور‘‘یہ محاورہ ہم نے ’’آم کے آم، گٹھلیوں کے دام ‘‘کے مقابلے میں حصولِ ثواب کی غرض سے بنایا ہے۔
ہمارے ہاں مشہور ہے کہ کھجور کھانا سنت ہے۔ اس بات کو ایک مسلّمہ کی حیثیت حاصل ہے۔ کھجوریں بیچنے والے ریڑھی بانوں نے بھی اپنی ریڑھیوں پر لکھ کر لگایا ہوتا ہے کہ کھجورکھانا سنت ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا یہی سنا ہے۔ لہٰذا ہم ثواب کی نیت سے خدا جانے کتنی کھجوریں کھا چکے ہیں۔ ایک بہت بڑے اور نامور بزرگ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ لکھتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ بے دھیانی میں کھجوریں کھاتے جاتے تھے، یہاں تک کہ ان کا پیٹ خراب ہو گیا اور آخر اس بیمارئ شکم نے ان کا کام تمام کیا اور ہمیں ان کے مزید علمی جواہر پاروں سے محروم کردیا۔
ہمیں کچھ ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ بعض کھجوروں کو بعض کھجوروں پر فضیلت حاصل ہے۔ پھر ہم زیادہ فضیلت والی کھجوروں میں زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ بعد میں یہ راز بھی کھلا کہ کھجوروں میں تو بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے کیونکہ حکیموں اور طبیبوں نے ان سے طرح طرح کی دوائیاں بنانا شروع کردیں۔ بعض نے فضیلت والی کھجوروں کی گٹھلیوں سے بھی کام لینا شروع کردیا۔
اس سلسلے میں ایک نیا محاورہ بنایا جاسکتا ہے کہ’’ کھجور تو کھجور، گٹھلیوں میں بھی نور‘‘یہ محاورہ ہم نے ’’آم کے آم، گٹھلیوں کے دام ‘‘کے مقابلے میں حصولِ ثواب کی غرض سے بنایا ہے۔
ان دنوں ایک پیسٹ کے اشتہار چل رہے ہیں جس کی فضیلتیں بیان کرنے کے لیے حکیم، طبیب، علماء اور مبلغین سب شریک ہیں۔ ویسے تو کھجور اور اس کی گٹھلیوں سے تیار کردہ یہ پیسٹ بہت سی بیماریوں کے علاج کے لیے مفید بتایا جاتا ہے البتہ ہوش ربا موٹاپے کو ختم کرنے کے لیے اس کی تاثیر حیران کن محسوس ہوتی ہے۔ ’’طب نبوی‘‘ کے نام پر ہزاروں روپے کا یہ پیسٹ کہا جاتا ہے کہ کسی دوکان پر نہیں بلکہ خود حکیم صاحب کے مکان پر دستیاب ہے۔
اس سے ہمیں یاد آیا کہ ہمارے ایک دوست جو ڈاکٹر تھے، کہنے لگے، کہ ایک روز ایک بہت موٹی خاتون ہمارے کلینک میں تشریف لائیں، انھوں نے مشکل سے اپنی مشکل بیان کرتے ہوئے کہا : ڈاکٹر صاحب! میں کیا کھاؤں کہ پتلی ہوجاؤں؟
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں نے محترمہ سے کہا : بی بی! آپ پہلے ہی کھا کھا کر موٹی ہو گئی ہیں اور اب پوچھ رہی ہیں کہ کیا کھاؤں کہ پتلی ہو جاؤں؟
البتہ ہم امید کرتے ہیں کہ کھجوروں سے تیار کی گئی تمام ادویات موٹاپے سمیت ہر بیماری کے لیے تیر بہ ہدف ثابت ہوں گی۔
آج کل روزوں کی بہار ہے اور روزے کھولنے اور کھلوانے کے لیے کھجور کے سنت ہونے پر روزے داروں کے علاوہ روزہ خوروں کا بھی اتفاق ہے۔ جن ذخیرہ اندروزوں نے روزوں سے پہلے رنگا رنگ کھجوروں کے ڈھیر لگا رکھے تھے، ان سے زیادہ، ان کے فضائل سے کون آگاہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کی کھجوریں اس مبارک مہینے میں کم سے کم پانچ گنا قیمت پر بک رہی ہیں۔ کھجور کی فضیلت اتنی زیادہ ہے کہ پھلوں کے بائیکاٹ کی تین روزہ مہم کے دوران میں اسے استثناء حاصل رہا۔ بائیکاٹ مہم کے بعض دھواں دھار سپاہیوں نے بھی یہ اعلان کیا کہ کھجوروں کو ان تین دنوں میں پھلوں میں شمار نہ کیا جائے کیونکہ سنت کی برکت سے اسے خصوصی استثناء حاصل ہے۔
آپ بھی سوچتے تو ہوں گے کہ ایک مسلّمہ مسئلے پر ہم کیا طبع آزمائی کرنے لگے ہیں۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ تو ایک سنجیدہ آدمی تھے، کھجور جیسی شیریں نعمت کے بارے میں یہ تلخ نوائی آپ کے لیے مناسب نہ تھی لیکن عزیزانِ من! تلخ نوائی سنت اور کھجور کے خلاف نہیں، ان تصورات کے بارے میں ہے جو ہمارے ہاں سنت کے نام پر رائج ہو گئے ہیں۔
کھجور اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس کی خوبیوں اور کمالات سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ہر پھل، سبزی اور اناج میں خاص کمالات اور خصوصیات رکھی ہیں، اسی طرح مختلف علاقوں میں مختلف موسموں اورضرورتوں کے اعتبار سے چیزیں پیدا ہوتی ہیں لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا سنت کے نام پر لوگوں کا استیصال روا ہے؟ کیاذخیرہ اندوزی سنت کے نام پر نعوذباللہ جائزہوجاتی ہے؟ کیا مذہب کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنانا بھی جائز ہے؟ اسی طرح یہ بھی سوال بڑا اہم ہے کہ کیا سنت کا وہ تصورجو کھجور کھانے کے نام سے رائج ہے ،وہ درست ہے؟
ویسے تو ہماری عادت ہے کہ ہم مزاح بھی غیر سنجیدہ نہیں کرتے لیکن بات سنجیدگی کی چلی ہے توآئیے کچھ گفتگو سنجیدگی سے بھی کیے لیتے ہیں۔ کھجوروں کے بارے میں چند صحیح روایات آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر کرتے ہیں:
امام بخاری اپنی صحیح کی کتاب الزکاۃ میں ایک باب قائم کرتے ہیں کہ جہنم کی آگ سے بچو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقے کے ذریعے ہو۔ چنانچہ حضرت عدیؓ بن ثابت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی کیوں نہ ہو۔
(صحیح بخاری، کتاب الزکاۃ، باب ۱۰، حدیث ۱۴۱۷)
حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نماز(مغرب) سے پہلے چند تَر کھجوروں سے افطار کرتے تھے اور اگر تر کھجوریں نہ ملتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ امام ترمذی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپؐ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے جب کہ گرمیوں میں پانی سے۔
(سنن ترمذی، کتاب الصیام، باب ۱۰، حدیث ۶۹۶)، یہی حدیث دیگر کتابوں میں بھی آئی ہے۔
اسی طرح روزہ کھلوانے کے ضمن میں منقول ہے کہ جب آپ ؐنے روزہ کھلوانے کی فضیلت بیان کی تو جو صحابہ کرامؓ مالی لحاظ سے کمزور تھے انھیں بھی اس فضیلت کے حصول کے لیے مطمئن کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ روزہ کھلوائیں چاہے ایک کھجور سے ہی کیوں نہ ہو۔
ایسی تمام روایات سے جو امور واضح ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ بعض مقامات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقے کی اہمیت کو بیان کیا اور تمام لوگوں کو اشتیاق دلانے کے لیے کھجور کو بطور مثال ذکر کیا تاکہ غریب لوگ بھی صدقے کے عمل میں شریک ہوسکیں اور غریب پروری کا شوق ہمہ گیر ہو جائے۔ یعنی ان روایات میں اصل موضوع صدقہ ہے کھجور نہیں۔
۲۔ بعض روایات میں افطار کروانے کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ یہ روایات بھی مندرجہ بالا روایات سے ہم آہنگ ہیں۔ یہاں بھی سب لوگوں کو اس کار خیر میں شریک کرنے کی رغبت دلانے کے لیے کھجور کو مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
۳۔ ایک روایت جو سطور بالا میں ذکر کی گئی ہے کے مطابق آپؐ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے تھے جب کہ گرمیوں میں پانی سے۔ ظاہر ہے کہ کھجوروں کی تاثیر گرم ہوتی ہے آپ گرمیوں کے روزوں کی افطاری کے لیے ان سے استفادہ نہیں کرتے تھے۔ گویا کھجوروں سے افطاری بھی موضوعیت نہیں رکھتی۔ روزے کو کسی بھی مناسب غذا سے افطار کیا جاسکتا ہے اور آپؐ ایسا ہی کرتے تھے۔ pjk
کھجور گرم علاقوں کی پیداوار ہے ۔ دنیا کے بہت سے سرد ممالک میں یہ پھل پیدا نہیں ہوتا۔ سرد علاقوں کے اپنے پھل اور سبزیاں ہوتی ہیں۔ساری انسانیت کے لیے مبعوث ہونے والا پیشوا ایسی چیزوں کو مذہبی تقاضا قرار دینے کے لیے نہیں آیا کہ جسے ہمہ گیریت حاصل نہ ہو سکتی ہو۔
آپؐ کی سنت دراصل آپؐ کے اخلاق اور روش حیات میں مضمر ہے۔ ہمیں آپؐ کی زندگی سے اصولِ حیات تلاش کرنے کی ضرور ت ہے۔ ہمیں رائج تصور سنت پر ایک مرتبہ پھر غوروفکر کرنا چاہیے۔ انبیاء انسانوں کو خدا سے ملانے اور ان کے باہمی روابط کو عدل و انصاف کے تصور پر استوار کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا کام ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے مہر و محبت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ نبی مستضعف اور محروم انسانوں کو ظلم اور استیصال سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ انبیاء اعلیٰ اخلاقی روایات کا نمونہ ہوتے ہیں۔ وہ سچائی اور پرہیزگاری کے نقیب بن کر آتے ہیں۔افسوس بعثت انبیاء کے اصل مقاصد سے صرف نظر کرنے سے وہی ہوا جس کی طرف علامہ اقبال نے اپنے اس معروف شعرمیں اشارہ کیا ہے:
یہ اُمت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی
فیس بک پر تبصرے