تاریخِ جور و جفا

صفیہ آفتاب

1,139

عیسائیوں کے خلاف پر تشدد ہنگاموں ، انکی  آبادیوں  میں آتش زنی،   احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی اور  فرقہ وارانہ قتل و غارت  پر مبنی مذہبی شدت پسندی کے باعث  ذرائع ابلاغ میں پاکستان کا بہت چرچا رہتا ہے۔گزشتہ کچھ عشروں سے اقلیتوں ( غیر مسلم یا غیر سنی) کے خلاف  پر تشدد اور مسلسل ہنگامہ آرائی ملکی نظام کا خاصہ بن چکی ہے ، جس میں نرمی کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔اس صورتِحال کی ذمہ دار قوتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ان رجحانات کی تدوین و تشہیر پہلا قدم ہونا چاہئے  اور  ایسی کسی بھی کاوش کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔

فرح ناز اصفہانی کی کتاب ” پاکستان کاتطہیری عمل : مذہبی اقلیتوں   کی تاریخ ” اپنے عنوان کی مناسبت سےمحض ایک دستاویزی   شہادت کی بجائے ایک جامع اور مفصل   تصنیف ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے ۔  کوئی بھی فرد پہلے پہل اس کتاب سے بلند توقعات وابستہ کر لیتا ہے مگر جلد ہی اسے یہ احساس ہو جاتا ہے کہ یہ محض قیامِ پاکستان کے اوائل سے لیکر اب تک کے واقعات کی تالیف  ہے۔فرح ناز اصفہانی ابتداء میں متحدہ   ہندوستان کے حالات پر مختصر تبصرہ کرتے ہوئےرائے دہندگی کے عمل   میں   مذہبی تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات کی شروعات کا حوالہ دیتی ہیں۔وہ بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات کہتی ہیں کہ مسلم لیگ اور کانگریس کی قیادت نے اتنے بڑے پیمانے پر ہجرت کی توقع نہیں کی تھی اور یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ دونوں ممالک ایک قابلِ ذکر اقلیتی تناسب کے ساتھ معرضِ  وجود میں آئیں گے ۔ ایسا نہ ہونا اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بینٹن  نے تقسیم کا فیصلہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے عجلت میں کیا تھا۔فرح ناز یہ دلیل دیتی ہیں کہ اس وقت ہونے والی قتل و غارت نے پاکستان میں یورش   کی بنیاد مذہبی تفرقہ بازی میں رکھ چھوڑی تھی۔وہ قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے پر  ہندو قانون سازوں کے ردِ عمل  اور کچھ لیگی رہنماؤں ، بالخصوص حسین شہید سہروردی ، جنہوں نے اس عمل کو اقلیتوں کے کردار  کو محدود کرنے  کا موجب قرار دیا، کی ناراضگی کا حوالہ نکال لا ئی ہیں۔ وہ 1953 میں احمدیوں کے خلاف برپا فسادات کی سرگزشت ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئےاس تحریک کے محرکات کا کھوج لگانے کیلئے تیار کی گئی۔ منیر کیانی رپورٹ کی  کارروائی پر بھی بات کرتی ہیں اور انہوں نے صحیح طور پر نشاندہی کی ہے کہ یہ رپورٹ نہ  صرف ان ہنگاموں کی وضاحت کرتی ہے بلکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی تنگ نظری میں پنہاں خطرات سے بھی آگاہی فراہم کرتی ہے۔

کتاب اسی نکتہِ نظر کے ساتھ پاکستانی تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی کہ کس طرح 50کی دہائی میں ریاست ایک واضح  سماجی بیانیہ  دینے میں ناکام رہی حتٰی کہ 70اور 80 کی دہائی میں خود عدمِ برداشت  کی پرچارک بن گئی۔  چونکہ مصنفہ خود ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھتی ہیں سو ان کی یہ وابستگی پاکستانی تاریخ کے مخصوص ادوار پر بے لاگ تبصرہ کرنے سے انہیں باز رکھتی ہے۔مصنفہ کا  60 کی دہائی کو  انتہا پسندانہ رجحانات کی افزائش اور منتشر قومی شناخت کے فروغ کی دہائی قرار دینا بالکل درست ہے مگر وہ 70 کی دہائی میں  “معتدل آئین” کا حوالہ دیتے ہوئے رقم طراز ہیں  کہ اس دوران  حکومت نے  بغیر کسی بڑے نقصان کے    انتہاپسندانہ مذہبی  نظریات کو کچلنے کیلئےایک نظام العمل وضع کیا ۔وہ لکھتی ہیں کہ1974 میں احمدیوں کے خلاف چلائی گئی تحریک زیادہ پر تشدد نہیں تھی اور حکومت نے آسانی سے اسے ناکام بنا دیاتھا ۔ مزید یہ کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے  احمدیوں کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کی بحث کو خارج کر دیا مگروزیر اعظم  ذوالفقار علی بھٹو نے اسپیکر اسمبلی کی رائے کے برعکس یہ اعلان کردیا کہ وہ اس مسئلے پر ایوان میں بحث کرائیں گے اور اس پر رائے شماری عمل میں لائی جائے گی۔

فرح اصفہانی نہ تو اس پر روشنی ڈالتی ہیں  کہ  بھٹو کی سوچ میں یہ تبدیلی کیسے آئی اور نہ ہی ان کے  اس فیصلے کے محرکات کی وضاحت  کرتی ہیں۔وہ اس بات پر تو اصرار کرتی ہیں کہ آئین میں دوسری ترمیم کے بعد  بھی بھٹو غیر مسلموں سمیت تمام پاکستانیوں کیلئے  مذہبی حقوق  کی آزادی پر زور دیتے رہے مگر وہ اس بات پر کوئی رائے قائم نہیں کرتیں کہ بھٹو جیسا دور اندیش سیاست دان  یہ کیوں نہیں دیکھ پایا کہ وہ ایک  طبقے کیلئے ظلم و ستم کی انتہائی راہیں کھول کر جا رہے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق اور ان  کے بعد کے ادوار پرمشتمل ابواب  میں  پاکستانی  اقلیتوں پر جبر کی تاریخ  پوری شدو مد کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ وہ مکمل وضاحت کے ساتھ اقلیتوں ، بالخصوص احمدی اور شیعہ  کے خلاف  قانون سازی اور  اقلیتوں کے عقائد کو غلط بتانے اور  اکثریت کے مذہبی اعتقادات کو فروغ دینے کیلئے کی گئی نصابی ترامیم کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ اگلے ابواب میں وہ جمہوری حکومتوں کی ناکامیوں کا تذکرہ کرتی ہیں کہ کس طرح وہ اس صورتِ حال پر قابو پانے میں ناکام رہیں۔ آخری باب میں مشرف دور کا احاطہ کرتے ہوئےمصنفہ  توہینِ مذہب  کے الزامات اور گزشتہ عشرے کے دوران ان میں پھیلاؤکی وجوہات کو موضوع بناتی ہیں۔

فرح ناز اصفہانی کی یہ تالیف  اقلیتوں کے خلاف ہنگامہ آرائی اور تشدد کی پاکستانی  تاریخ  کاعمدہ جائزہ پیش کرتی ہے مگر یہ حالات کا تجزیہ نہیں کرتی۔ معلومات  سے بھر پور اور کچھ حد تک  سیاق وسباق سے بھی آگاہ کرتی ہے مگر بیشتر سرگرمِ عمل افراد کے  مقاصد اور محرکات کے بارے میں تحقیقی مواد فراہم نہیں کرتی۔ ان میں سے بہت سی معلومات اخبارات میں یا انٹرنیٹ پر موجود ہیں ہاں البتہ ایک جامع اور مدون صورت میں ان معلومات کا پیش کیا جانافائدہ مند ہے۔ کوئی بھی فرد یہ محسوس کر سکتا ہے کہ مصنفہ نے قاری کی تفہیم میں نمایاں اضافہ نہیں کیا۔مگر یہ ممکن ہے کہ فرح ناز کے بیرون ملک رہائش پذیر ہونے کے سبب انہیں بنیادی تحقیق کے مواقع میسر نہ رہے ہوں اور بنیادی طور پر شعبہ صحافت سےوابستگی  کی بنا پران کا اسلوب ِ تحریر  بیانیہ ہو۔

تاہم یہ  جائزہ کچھ امکاناتی پہلوؤں سے  سود مند ہو سکتا تھاجیسے کہ 70 کی دہائی پر مشتمل باب اور  دوسری ترمیم (جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا) کا عمل،   مگر در حقیقت  1974 کے اسمبلی اجلاسوں کی یہ تفاصیل دو سال قبل افشا کردی گئیں اور دلچسپ معلومات کے حصول کا ذریعہ بنیں جو پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ حکومت کے بارے میں مثبت تاثر نہیں دیتیں۔اسی طرح لگتا ہے کہ کتاب تمام اقلیتوں کے بارے میں ہے مگر اس میں عیسائیوں اور ہندوؤں کی حالتِ زار پر   مصنفہ نے بہت کم خامہ فرسائی کی ہے۔اول الذکر گزشتہ عشرے میں  توہینِ مذہب کے مقدمات کےتحت  تفصیل سے زیرِ بحث آئے اور عیسائی اقلیت نے پچھلی چند دہائیوں میں بہت برے حالات کا سامنا کیا۔جس کے نتیجے میں اینگلو انڈینز پر مشتمل عیسائی خاندان یہاں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر چکے ہیں۔

یہ کتاب پاکستان میں اقلیتوں کو درپیش مسائل کو عمدہ طور پر اجاگر کرتی ہے۔ ممکن ہے اس کتاب سے  کسی مصنف کو ترغیب ہو  کہ وہ  چند ایک واقعات ، یا کسی ایک اقلیت کو موضوع بناتے ہوئے مزیدتفصیل سے اس مسئلے کو زیرِ بحث لائے۔ ہم جانتے ہیں کہ اب کی طرح پاکستان میں ہمیشہ  اقلیتوں کو مسائل کا سامنا رہا ہے۔ایسے میں ہمیں یہ جاننا ہے  کہ کن لوگوں نے اقلیتوں کے خلاف مہم کو منظم کیا اورکون لوگ تھے جنہوں نے ایسے حالات سے مفادات حاصل کئے۔

 

ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...