بیرون ملک دولت منتقلی کی وجوہات اور اثرات و نتائج

افشاں صبوحی

804

پانامہ مقدمہ    کی سماعت میں عوامی دلچسپی اور  مقتدر حلقوں کی عدالت  میں  دھینگا مشتی  سے کاروباری اشرافیہ یہ خطرہ محسوس کررہی ہے کہ پانامہ یا پیراڈائز لیکس   سماج میں طبقاتی تفاوت کو ابھار کر   کاروباری فضا کومنتشرا ور   آلودہ   کر سکتی ہیں۔  کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ  الزام تراشی  کی برانگیختہ روایت  کے آگے بند باندھنا ہی ان حالات میں صحیح قدم ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ باہم  دشنام طرازی و طعنہ زنی کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ بیرون ملک اثاثے رکھنے والے افراد کی دولت کو وطن واپس لانے کی راہ ہموار کی جائے  اور ایسا ماحول مہیا کیا جانا چاہئے   جوان کیلئے  معاشی طور پر سود مند ہو۔ان کا ماننا ہے کہ آف شور اثاثے رکھنے والےتمام  افراد  بدعنوان نہیں ہیں اور وہ اچھے ، برے افراد کے مابین امتیاز روا رکھنے کے  طریقِ کار کی تشکیل لازمی سمجھتے ہیں  ۔ نجی شعبہ اور اس کے  ہمدرداس صورتِ حال پر  ملکی حالات کو دوش دیتے ہیں جن کے باعث  کاروباری افراد اپنی دولت بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوئے۔ابتدائی تخمینہ کے مطابق مجموعی طور پر پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثہ جات کی مالیت  300 بلین ڈالر سے 500 بلین ڈالر ہے جن میں سے 200 بلین ڈالر سوئٹزرلینڈ میں موجود  ہیں جبکہ ورلڈ بینک کی جانب سے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جی ڈی پی کی حالیہ شرح 300 بلین ڈالر ہے۔ فری مارکیٹ کے نمائندگان   دولت کے حیرت انگیز حجم کی بیرون ملک منتقلی  اور محصولات میں بڑھتے ہوئے عدمِ توازن کا ذمہ دار غیر مستحکم حکومتی پالیسیوں ، ٹیکس محصولات میں بد عنوانی و بد انتظامی  اور امن کی ابتر صورتِ حال کو ٹھہراتے ہیں۔  لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کارپوریٹ وکیل نے کہاکہ   مجموعی طور پر بہت سے عوامل قانون کو مقدم جاننے والی  اشرافیہ کو بیرون ملک دولت منتقلی پر مجبور کرتے ہیں۔ایک ایسے ملک میں کوئی اپنے آپ کو کیسے محفوظ سمجھ سکتا ہے جہاں وزیرِ اعطم ، گورنر اور جرنیلوں کے بچوں کو اغوا کر لیا جاتا ہو۔  پھر صنعتوں کو  قومیانے کی تلخ یادیں یہاں ابھی تک تازہ ہیں۔  ہم اپنے رہنماؤں پر کیوں اعتماد کریں؟  وفاقی ادارہ محصولات (FBR) ایک سست رو اور بد عنوان ادارہ ہے اور اس کی نا لائقی کی قیمت ہم کیوں ادا کریں؟  یہ حالات پاکستان کے مالدار طبقہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی دولت کو گمنام کھاتوں کی صورت ایسے علاقوں میں  محفوظ رکھیں جہاں شرح محصولات کم سے کم ہو۔

تاہم وفاقی ادارہ محصولات کے سابق سربراہ نے کاروباری طبقے کی ان توجیہات کو بے بنیاد اور قانون سے عذرِ فرار قرار دیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ” یہ کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے کہ کوئی  ہوسِ مال و زر اوراپنے کردار کی کمزوری سے پہلو تہی کرتے ہوئے اس صورتِ حال کیلئے کسی اور شے کو مجرم گردانے؟ بیرون ملک اثاثے رکھنے والے افراد کے پاس اس قدردولت ہے کہ ان کی نسلوں تک کیلئے کم نہیں پڑے گی مگر وہ اس سے بھی زیادہ کے خواہش مند ہیں اور یہ بالکل غیرمنطقی ہے۔ حرص و ہوس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔”ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر ندیم جاوید کا کہنا ہے کہ اگر شفافیت کو یقینی بنایا جائے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں ” ہم بہتر معاوضے کے حصول کیلئے وسائل کے آزادانہ انتقال کی حمایت کرتے ہیں۔سرمایہ کاری کیلئے اگر لوگوں کو نسبتاً سود مند مواقع میسر ہوں تو فطری طور پر ان کا رجحان انہیں کی  جانب رہتا ہے  اور یقیناً یہ حقِ انتخاب  قانون سے گریزکے زمرے میں  نہیں آتا۔قانونی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی امیر یا غریب شخص کو انتخاب کا حق دیا جانا چاہئے۔” سندھ سرمایہ کاری بورڈ  کی سربراہ ناہید میمن نے ایک طویل پیچیدہ  مراسلے میں لکھا کہ ” بیشتر  لوگوں کو اس سے غرض نہیں تھی  کیونکہ وہ معلومات نہیں رکھتے تھے  اور اس قدر امیر بھی نہیں تھے۔ بیرون ملک دولت منتقلی کی وجہ دراصل مختلف تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام، ابھرتی ہوئی عدمِ مساوات اور شفافیت کی مانگ نے ٹیکس سے چھوٹ کے اس طریقے کو اہمیت کا حامل بنا دیا، اسی لئے اب عوام  اس میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ یہ  یقین رکھتے ہیں  کہ یہ دولت ان سے یا ملک سے لوٹ کر باہر لے جائی گئی ہے۔” وہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ “یہ غیر قانونی نہیں ہے مگر قواعد و ضوابط، اطلاعاتی قوانین تک رسائی اور ٹیکنالوجی سے ان معاملات پر جمی گرد اتر رہی ہے۔اگر آپ کا خیال ہے کہ بیرون ملک دولت منتقلی سے عالمی مالیاتی وسائل میں اضافہ ہوگا اور عوام کی فلاح وبہبود کیلئے بہتر کاروبار میں  سرمایہ کاری کی جائیگی تو آپ سمجھتے ہوں گے کہ حالیہ پکڑ دھکڑ صرف سیاسی مفادات  اور ذاتی پذیرائی کیلئے کی جا رہی ہے  ۔میں اقتصادی ترقی اور معاشی پیداوار کی حمایت کرتی ہوں مگر میرے نزدیک ملکی خزانے سے چوری کرنا اور گمنام کاروبار چلانا نا انصافی پر مبنی ہے۔”

آف شور اثاثہ جات کی نئی فہرست میں شامل ایک بڑی  کاروباری شخصیت کا کہنا ہےکہ ” ہمیں بغلیں بجانے کی بجائے عملی طور پر کچھ کرنا چاہئے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ وسیع تر شفافیت کیلئے اس عالمی دباؤ سے کچھ اچھا حاصل کر پائیں تو  آپ کو  اس کیلئے با مقصد  کوشش کرنی چاہئے۔ ان حالات میں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔”نجی شعبہ جس قدر بھی نظر انداز کرے مگر اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ پاکستان کو امیر ترین اشرافیہ والا غریب ملک سمجھا جاتا  ہے۔  پاکستانی افراد اور کمپنیز کے آف شور کھاتوں کی راز افشائی نے نہ صرف  اس بے ضابطگی کا پردہ چاک کیا بلکہ قانون ساز اور مالیاتی  اداروں کے پر اسرار خفیہ گٹھ جوڑ کو بھی طشت ازبام کر دیا ہے۔ ایک اور ماہرِ اقتصادیات نے پاکستان میں اقتصادی جہالت کو آشکار کرتی کج بحثی پر بات کرتے ہوئے  کہا کہ” مشہور اور دولت مند افراد کی ریشہ دوانیوں کے قابل گرفت ثبوتوں کی فراہمی کی حد تک تو صحافتی حلقے کا کام قابلِ تحسین ہے مگر اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟ بینک صرف رقم  محفوظ کرنے کیلئے  نہیں ہیں بلکہ آج کی دنیا میں یہ اسے  پوشیدہ رکھنے میں تکنیکی مددبھی  فراہم کرتے ہیں ۔ دراصل ٹیکس سے چھٹکارا حاصل کرنا  امراء کی نئی عیاشی   ہے۔ ”

مکمل طور پر اس مسئلے کو سمجھنے کیلئے چند ایک اہم سوالوں کے بالترتیب جوابات درکار ہیں۔ سب سے اہم یہ جاننا ہے کہ  یہ دستاویزات  کہاں سے آئیں؟  یہ معلومات آف شور صنعتوں میں صفر یا انتہائی کم شرح ٹیکس پر سرمایہ کاری کرنے کیلئے سرمایہ داروں کو قانونی خدمات فراہم کرنے والے اداروں ( پانامہ میں  فعال موساک وونزیکا،برمودا سے  ایپل بائے، دی سیمن آئزلینڈ، دی برٹش ورجن  آئزلینڈ،دی ازلے آف مین، جرسی وغیرہ)   نے  ایک جرمن اخبار  کے توسط سے مہیا  کیں۔ایک معاہدے  کے تحت یہ  دستاویزات ایک امریکی تنظیم انٹرنیشنل کنزورٹیم آف انسویسٹی گیٹو جرنلسٹس (ICIJ) کے حوالے کر دی گئیں جنہوں نے مزید چھان بین کر کے آف شور اثاثہ جات کے حامل سرمایہ کاروں کی فہرست مرتب کی۔اس فہرست میں 643 پاکستانیوں کے نام ہیں جن میں سے 450 افرادکا نام پانامہ  اور 193 افراد کا نام پیراڈائز دستاویزات میں ہے۔ مجموعی طور پر  10 ٹریلین ڈالر مالیت کی پوشیدہ دولت میں سے 5 فیصد دولت پاکستانیوں کی ملکیت ہے۔

آف شور کھاتوں کی خاصیت کیا ہے؟ یہ بیرون ملک کھاتے ایسی جگہوں  پر ہیں  جہاں پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا اور کم شرح محصولات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارباری افراد یا ادارے  دولت ( نفع، اثاثہ جات )کی ترسیل ممکن بنا سکتے ہیں۔

اس میں ہماری دلچسپی کا سامان کیا ہے؟ اول یہ کہ  ایک ایسا ملک  جوانتہائی کم شرح جی ڈی پی کے ساتھ اقتصادی جنگ لڑ رہا ہو وہاں سرمائے کے اس قدر وسیع حجم کی بیرون ملک موجودگی سرمایہ کاری کیلئے درکار مالیاتی وسائل میں مزید کمی کا باعث ہے۔ دوم یہ کہ امراء  کی طرف سے ٹیکس سے بچاؤ کی کوششوں سے ملکی معیشت پر پڑنے والابوجھ  غریب اور متوسط تنخوا دار طبقے کواٹھانا پڑتا ہے۔ ایک ماہرِ اقتصادیا ت کا کہنا تھا کہ ” امراء اور بڑے مالیاتی و کاروباری اداروں سے  حکومت کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے  وہ کمزور اکثریت کا خون نچوڑ کر پورا کیا جاتا ہے۔” شفافیت تقریباً ہمیشہ فائدہ مند رہتی ہے  اور اس کی غیرموجودگی  نا انصافی کے ارتکاب اور اس کے  فروغ کو ممکن بناتی ہے۔

کون لوگ اپنی دولت چھپا رہے ہیں  ؟ پیراڈائزدستاویزات میں شامل تمام پاکستانیوں کے نام ابھی تک سامنے نہیں آئے جبکہ پانامہ اور دوسری فہرست میں سیاستدانوں، سرمایہ داروں، بینکروں، ڈاکٹروں، وکیلوں، انتظامی عہدیداروں ، مختلف کاروباری حضرات ، افسر شاہی اور فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام شا مل ہیں۔کچھ نام پہلے ہی ذرائع ابلاغ میں شائع ہو چکے ہیں۔

کیا اس عمل کا دفاع ممکن ہے؟  چھوٹے جزیروں پر مشتمل حکومتوں کا کہنا ہے کہ اپنے علاقائی مفادات کے علاوہ وہ اس بنا پر شرح ٹیکس کے اطلاق میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کیلئےمتعلقہ حکومتوں پر  دباؤ ڈالتے  ہیں۔ان کے مطابق  وہ دولت کو عالمی پیمانے پر گردش میں رکھنے کیلئے مالدار اکائیوں کو خدمات فراہم کر رہے ہیں۔تاہم جوزف سٹیگ لیٹز دولت کی غیر قانونی ترسیل، بد عنوانی اور بڑھتے ہوئے معاشی تفاوت کو  ایندھن فراہم کرنے کے سبب انہیں عالمی نظام کیلئے خطرہ قرار دیتے ہیں۔

ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...