پاکستان اور لبرل ازم
جب بھی پاکستان کسی بحران کی زد میں آتا ہے تو اس سے قطع نظر کہ لبرل طبقہ کا اس بحران کے پنپنے یا خاتمے میں کوئی کردار ہے یا نہیں لبرل ازم معتوب ضرور ٹھہرتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت ملکی طاقت کی جدلیات میں ان کا عمل دخل انتہائی محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ملکی سلامتی کے ادارے، سیاسی اشرافیہ اور ذرائع ابلاغ عموماً اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے لبرل یا لبرل ازم کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں زبان دانی کا شعور نہیں یا پھر وہ پاکستانی اکثریت کی طرف سے لبرلز کو حقیر سمجھنے کی حسیات کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی ، سماجی اور نظریاتی طور پر اکثریتی عوام سے مختلف نکتہِ نگاہ رکھنے والے ہر فرد کیلئےہمارے ہاں لبرل کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ممکن ہے حقیقی لبرلز عام سماج سے مختلف رائے رکھتے ہوں مگروہ شرق و غرب کے علمی و منطقی مباحث میں نمایاں طور پر شریک ِ کار رہتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں اس اصطلاح کے استعمال کے پیشِ نظر اس کی تشریح و تطبیق مختلف جہات میں مختلف رہتی ہے۔پاکستان میں یہ لفظ سیاسی و انتظامی اشرافیہ پر مشتمل نام نہاد آزاد خیال طبقات کیلئے بھی عموماًبولا جاتا ہے ۔
1960 کی دہائی میں محدود سیاسی پیرائے میں اسٹیٹس کو کی مخالفت کرنے والے بااثر اور مالدار لبرل طبقات کیلئے “لیموزین لبرلز ” کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی۔ پاکستان میں یہ اصطلاح “پجارو لبرلز” سے بدلی جاسکتی ہے کیونکہ یہاں پجارو طاقت و ثروت کی علامت ہے۔تاہم متذکرہ بالا دونوں طبقات میں فرق یہ ہے کہ پجارو لبرلز اپنے لئے تو سماجی آزادی کے خواہش مند ہیں مگر وہ اپنے سماجی و سیاسی اقتدار کی دائمیت کیلئے غریب طبقات کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف نام نہاد دیسی لبرلز ہیں جو ہیں تو دیسی مگر اپنے آپ کو لبرل ظاہر کرتے ہیں اور اسی واسطے مخصوص سیاسی گروہ کی طرف سے ہدفِ تنقید بھی رہتے ہیں۔ مگراس اصطلاح کا سب سے خطرناک استعمال حب الوطنی کے حوالے سے ہوتا ہےجہاں لبرل ازم کے معانی و مفاہیم کلیتاً بدل جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حب الوطنی اور لبرل ازم کو باہم متضادسمجھ لیا گیا ہے، سو یہاں لبرلزکو اکثرو پیشتر ریاست مخالف، غیر ملکی آلہِ کار اور غدار ہونے کی افتراء پردازی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کے بہتان و افتراء کے نتائج کا اندازہ کوئی بھی فرد بخوبی لگا سکتا ہے۔
دراصل یہ تصور بنا لیا گیا ہے کہ لبرلزغیر ملکی ایماء پر مغرب کے مفادات کیلئے کام کررہے ہیں یا وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ہماری مقتدر اشرافیہ نہیں چاہتی کہ مغرب ہمارے طرزِ سیاست، سماجی روایات اورثقافتی تمدن پر اثر انداز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مقتدر طبقات چین سے اقتصادی سرمایہ کاری اور علاقائی تجارت و سیاست میں تعاون تو چاہتے ہیں مگر اس کی سماجی و ثقافتی روایات ان کیلئے قابلِ قبول نہیں ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خلیجی ممالک کے سیاسی و فرقہ وارانہ عزائم کی تکمیل کیلئے ان کی مالی معاونت سے ملک میں برسر پیکار مذہبی طبقات کیلئے بیرونی آلہِ کار کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی۔ اس منظر نامے میں جو فرد ملک کی روایتی مذہبی و سماجی اقدار پر یقین رکھتا ہووہ محبِ وطن کہلاتا ہے اور جو ان روایات کو قابلِ عمل نہیں سمجھتا اسے غدار کہہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تنقیدی فکر رکھنے والوں کو بھی لبرل کہا جاتاہے اور عقلیت پسند مذہبی اذہان پر بھی فوراً “لبرل مُلّا” کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ یہ صورتِ حال آزادانہ فکری روش کے تیزی سے رو بہ زوال ہونے کی نشاندہی کرتی ہے جو کہ ہمارے تعلیمی اداروں کی طرف سے پیش کردہ سماجی و سیاسی علوم کے شعبہ جات میں دانشمندانہ مباحث کی گرانی کا ثبوت ہے۔ دریں اثنا ہمارے تعلیمی ادارے داخلی سیاست اور لبرلز کو راہِ راست پر لانے کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ رواں سال مردان یونیورسٹی میں مشال خان کا سفاکانہ قتل ہمارے تعلیمی اداروں کی تباہ حالی کا عکاس ہے۔ کراچی سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث گرفتار افراد کی ملکی جامعات سے وابستگی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نہجِ فکر کی غماز ہے۔لیکن ریاست اس خوف کے سبب حقائق سے چشم پوشی کر رہی ہے کہ تھیلے سے بلی کی برآمدگی پرجامعات میں سرگرمِ عمل مذہبی تنظیموں کے دباؤکا سامنا کیسے کر پائے گی۔
اگر کوئی فرد آزادی اظہارِ رائے کا بنیادی حق استعمال کرتا ہے تو اسے لبرل یا پھر لبرل فاشسٹ کا طعنہ دیا جاتا ہے اور آخر کار اسے غدار یا پاکستان مخالف بنا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری ریاست واقعتاً جمہوریت کو اپنی تمام تر جزئیات و اقدار کے ساتھ مانتی ہے یا پھر جمہوری حکومت اور آزادی اظہارِ رائے کے آئینی عہدو پیماں محض داخلی و خارجی مفادات کے حصول کیلئے ہیں؟ عموماً اس صورتِ حال کیلئے ایک ذو معنی جملہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت اپنے ارتقائی مراحل میں ہے۔ معلوم نہیں عشروں پر محیط یہ ارتقائی عمل کب تک جاری و ساری رہے؟ ان حالات میں کوئی شخص امید ہی کر سکتا ہے کہ یہ طویل ارتقائی سفر جمہوری اقدار پر مبنی ایک ہمہ جہت جمہوری سماج کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ہاں مگر یہ تبھی ممکن ہے کہ ہم من حیث القوم جمہوریت کومصلحتاً نہیں فطرتاً قبول کرنے پر آمادہ ہوں۔
انتشار و بد نظمی میں لبرل ازم قابلِ توجہ موضوع کیوں بن جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے ہم بحث کو ایک اور رخ سے دیکھتے ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان میں طاقت کااہم عامل مانا جاتا ہے۔عوام کیلئے مؤخر الذکر نجات دہندہ کی حیثیت رکھتا ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی استحکام اس کی اولین ترجیح ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے علاوہ سبھی سیاستدان بدعنوانی اور لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ تیسرا بڑا عامل ملکی و سماجی ذرائع ابلاغ ہیں۔متنوع سماجی، سیاسی و نظریاتی نکتہ ہائے نظر کے باوجود روایتی و غیرروایتی ذرائع ابلاغ متذکرہ بالا و دیگر عوامل سے متعلق سوالات اٹھاتے رہتےہیں۔ مگر حالیہ عرصہ میں چند ملکی ذرائع ابلاغ اس تصور کو پروان چڑھا رہے ہیں کہ عسکری قیادت سے ہم آہنگی نہ رکھنے والے افراد کی حب الوطنی مشکوک ہے اور انہیں لوگوں کو لبرل کہا جاتا ہے ۔ چونکہ لبرل افراد عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا پرچار کرتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں سو وہ ملکی انتشار میں بڑھاوے کا سبب ہیں۔سیاسی حقوق کا مطالبہ اور “بدعنوان “سیاسی جماعتوں کی حمایت ایسے گناہ ہیں جو قابل گردن زدنی ہیں۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو سماجی ابلاغیات میں تنقیدی آوازوں کو خاموش کرانے اور صحافیوں پر تشدد اور ان کے قتل کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ تصورات بہت سے لوگوں کیلئے پریشان کن ہوں مگر پاکستان کی تمام تر نظریاتی و سیاسی ماہیئت ایسے ہی تصورات پر مبنی ہے جو پلک جھپکنے میں نہیں بدل سکتی ۔ سو لبرل افراد کیلئے ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
(ترجمہ: حذیفہ مسعود، بشکریہ ڈان)
فیس بک پر تبصرے