زندگی ہم تیرے داغوں سے رہے شرمندہ

905

ڈیرہ اسمٰعیل خان کے  مضافاتی گاؤں گرہ مٹ میں لگ بھگ  دس مسلح افراد کی طرف  ذاتی دشمنی کی بنیاد پر 16 سالہ دوشیزہ کو برہنہ کر کے گاؤں کی گلیوں میں گھمایا گیا مگر  اس دوران مجبور و بے کس لڑکی کی مدد کو پولیس اور عوام میں سے کوئی نہیں پہنچا۔ اس سفاکانہ  بربریت پر خاموشی  ہمارے سماج کی اجتماعی  بے حسی کی عکاس ہے ۔تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں تحصیل داربن کے تھانہ چودہوان کی حدود میں واقع گرہ مٹ کی کومب برادری  نے ساجد سیال نامی بائیس سالہ نوجوان پر اپنے خاندان کی کسی لڑکی سے خفیہ محبت کا الزام لگایاجس کے بعد دونوں خاندانوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ بعدازاں تحصیل ناظم ہمایوں خان کی ثالثی میں فریقین کے مابین معاملات طے پانے کے بعد  بظاہر صلح  تو ہوگئی مگر  دِلوں کی کدورتیں کم نہ ہوئیں۔ چنانچہ اپنی مبینہ بے عزتی کا بدلہ چکانے کی خاطر کومب خاندان کے دس مسلح افراد نے جمعہ کی صبح ساجد سیال کی سولہ سالہ بہن شریفاں بی بی کو اس وقت پکڑ کر بے لباس کر دیا جب وہ بارشی جوہڑ سے پانی بھر کے گھر واپس لوٹ رہی تھی۔  عینی شایدین کے مطابق کم و بیش ایک گھنٹے تک گاؤں کی گلیوں میں کلاشنکوفوں کی تڑتڑاہٹ میں ایک معصوم بچی کو ہراساں اور بے آبرو کیاگیا لیکن اس بے یار ومدد گار بچی کی فریاد کسی نے نہ سنی۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ مظلومہ کے ورثاء جب متاثرہ لڑکی کو ساتھ لیکر مقدمہ درج کرانے تھانہ پہنچے تو ایس ایچ او  نے  ستم رسیدہ لڑکی کی داد رسی کی بجائے پہلے شریفاں بی بی کے بھائی کے خلاف جھوٹی ایف آر نمبر 209درج کی۔  بعد میں شریفاں کی اصل رپوٹ لکھنے کی بجائے ایف آئی آر نمبر210 میں اپنی طرف سے  من گھڑت کہانی لکھ کر ملزمان کو بچانے کی غیر منصفانہ کوشش کی۔

پہلے پہل ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ دو گروپوں کے درمیان ایک معمولی تنازعے میں  ایک بچی کے کپڑے پھٹ گئے لیکن جب ٹی وی چینل پر خبریں چلیں تو چودہوان پولیس نے چار و ناچار وقوعہ کو تسلیم کر کے 9 ملزمان کے خلاف زیر دفعہ148۔149،354 کے تحت مقدمہ درج کر کے ضابطہ کی کاروائی مکمل کر لی۔میڈیا کے شور و غوغا  پر پولیس نے دو دن بعد صرف تین ملزمان کو گرفتار کیا،بعدازاں آئی جی پی کے حکم پر  چوتھے روز پولیس نے  آٹھ ملزمان پکڑ کر مقدمہ کی باقاعدہ تفتیش شروع کی لیکن مقامی پولیس اب بھی مرکزی ملزم سجاول کو پکڑنے سے گریز کر رہی ہے۔سوموار کے روز متاثرہ لڑکی کی والدہ نے صوبائی حکومت  سے اپیل کی کہ وہ ایس ایچ او چودہوان کی جانبداری اور ظلم سے نجات دلانے کی خاطر سانحہ گرہ مٹ کی جوڈیشل انکوائری یا پھر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے ذریعے تحقیقات کرائے لیکن اس اپیل کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔دریں اثنا انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین محسود نے ڈی آئی جی ڈیرہ اسماعیل خان رینج سید فدا حسین شاہ کو چودہوان تھانہ کی حدود میں لڑکی کو برہنہ کرنے کے کیس کی براہ راست نگرانی کا حکم دیا تو انہوں نے ایس پی انوسٹی گیشن ثناء اللہ مروت کو موقع پر بھیج کر گاؤں کے لوگوں کی شہادتیں ریکارڈ کرائیں۔  اس موقع  پر کھلی کچہری  میں لوگوں نے ایس ایچ او اور تفتشی عملہ کی جانبداری پہ سوال  اٹھائے تو ایس ایچ او نے مجمع عام میں اعتراف کیا کہ بچی کو برہنہ کر کے ظلم کیا گیاہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے متاثرہ لڑکی کے بھائی کے خلاف درج جھوٹی ایف آئی آر منسوخ کر کے ستم رسیدہ بچی کی ایف آئی آر میں دفعہ  354-A  شامل کر کے برہنہ پریڈ کرانے کی دفعات شامل کر دیں ہیں۔ تاہم پولیس نے ملزمان پر 7-ATA جیسی دفعات لگانے سے گریز کیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب یہ ثابت ہو  گیا کہ مظلوم لڑکی کے بھائی ساجد کے خلاف درج ایف آئی آر جھوٹی تھی تو پولیس افسران غلط مقدمہ درج کرنے والے ایس ایچ او کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کر رہی۔

 اس سانحے نے یہ واضح کردیا  کہ نئے پولیس ایکٹ کے بعد پولیس  عوام کو سروسز فراہم کرنے کی بجائے  آداب غلامی سکھانے میں مشغول ہے  تاکہ  روح کی رفعت مرجھا کے ذلت و خواری میں بدل جائے۔ غلامی خواہ کتنی ہی منصفانہ  کیوں نہ ہو وہ روح کے لئے پنجرے کی حیثیت رکھتی ہے۔ پولیس اہلکاروں کے ذہنی رویّے معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لئے پولیس فورس کو مادر پدر آزادی کی بجائے جوابدہی اور قانون کے فریم ورک میں لانا ازبس لازم ہے۔

روسی شاعر ترگنیف نے کہا تھا کہ فطرت کو ایک پسو کی ٹانگ میں اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ایک طباع کے عمل کو تخلیق میں ہوتی ہے۔ ہمارے نظم اجتماعی نے فانی و ناپائیدار دلچسپیوں کی لذتوں میں کھو کر لافانی قوتوں کی نشو ونما کو بالائے طاق رکھ دیا اس لئے وہ حق کی خاطر برضا و رغبت سوچنے کی صلاحیت سے عاری اور  ظلم و بربریت  سے لبریز ہوتاگیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ارباب بست و کشاد لاشعوری طور پہ زیست کی تفہیم کی بجائے ایک ایسے طبقاتی معاشرے کے قیام کیلئے کوشاں ہیں جو زندگی کے اعلی ترین مقاصد سے نا آشنا اور سوز آرزو سے خالی ہو۔ بلاشبہ یہی بے مقصدیت انہیں فطرت سے انحراف کی راہ دکھاتی ہے۔سرکاری ادارے عام شہریوں کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں  سیاستدانوں،وڈیروں اور اعلی افسران کی حفاظت پر مرتکز رکھتے ہیں۔ درحقیقت  جب تک معاشرہ پرامن نہیں ہو گا حیات اجتماعی توازن نہیں پا سکے گی۔ تفریق پہ مبنی یہ رویہ کبھی انہیں چین کی نیند سونے نہیں دے گا۔ اربابِ حل و عقد کو  تاریخ کے ماتھے پر لکھا یہ نوشتہ پڑھ لنا چاہئے کہ جو معاشرے انسانوں میں تفریق کرتے ہیں وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...