قائداعظم کی رحلت اور کچھ تلخ حقائق

2,610

قائداعظم محمد علی جناح کے آخری ایام بھی خاصے متنازعہ حقائق سے دوچار رہے ہیں۔ یہ حقائق اتنے تلخ ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ کے دو صفحے کتاب سے اس لیے حذف کردیئے گئے کہ اس سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق تھا۔ یہ صفحے حذف کرنے والے کوئی اور نہیں قائد اعظم اکیڈمی کے سابق سربراہ شریف المجاہد صاحب تھے۔ سرِ دست قائداعظم کے زیارت ریزیڈنسی میں گذارے ہوئے آخری ایام اور پھر وہاں سے کراچی واپسی کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے 15 ستمبر 2017 کو اپنے کالم میں قائداعظم کی کراچی آمد اور وہاں پر پیش آنے والی صورتحال کے بارے میں ایک کالم کے جواب میں  لکھا ہے کہ: قائداعظم کی آمد کو مادر ملت کے حکم پر خفیہ رکھا گیا تھا لیکن اس کے باوجود جب لیاقت علی خان کو تاخیر سے اطلاع ملی تو وہ فوراً ہوائی اڈے پر پہنچے۔ راستے میں ایمبولینس کے آنے تک وہیں موجود رہے۔ اس تاریخی سچ کی تصدیق قائداعظم کے ساتھ آنے والے اے ڈی سی کیپٹن (بعد ازاں برگیڈیئر) نور حسین بھی کرچکے ہیں اور سکیورٹی افسر بھی کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے بریگیڈیئر نور حسین کا ’’دی نیوز‘‘ میں 23 مارچ 1995 کو مضمون بھی چھپا تھا۔

ڈاکٹر صفدر محمود کی بات اگردرست ہےتو یہ ساری بات اُس صورتحال کے بلکل برعکس ہے جو قائداعظم کے آخری معالج لیفٹنٹ کرنل الٰہی بخش نے اپنی کتاب ’’قائداعظم کے آخری ایام ‘‘ میں بیان کی ہے۔ کرنل الٰہی بخش نے جو 22جولائی 1948 سے لے کر تادمِ مرگ قائداعظم کے ہمراہ رہے۔ کتاب کے صفحہ نمب79,80اور81 پر کراچی کی صورتحال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’چار بج کر پندرہ منٹ پر ہم ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر پہنچے اور ایک بڑا مشکل بار سر سے اترا۔ جہاز سے نکلا تو گورنر جنرل کے ملٹری سکریٹری کرنل نولز نظر آئے۔ وہ ایمبولینس کے قریب کھڑے تھے لیکن کوئی نرس موجود نہ تھی، کراچی میں کسی قدر گرمی تھی لیکن کچھ ایسی ناقابل برداشت بھی نہ تھی، کیوں کہ ہوا خوب چل رہی تھی مگر جہاز کے اندر کافی حبس تھا، اس لئے ہم قائد اعظم کو جلدی سے ایمبولینس میں لے آئے۔ مس جناح اور کوئٹہ والی نرس ایمبولینس میں بیٹھ گئیں۔ ملٹری سیکریٹری، ڈاکٹر مستری اور میں گورنر جنرل کی کار میں سوار ہوئے۔ ملازم سامان کے ساتھ پیچھے ایک ٹرک میں بیٹھ گئے۔ ہوائی اڈے سے گورنر جنرل کی قیام گاہ نو دس میل ہوگی۔ ہم اس طرف بہت کم رفتار سے روانہ ہوئے۔ بمشکل چار میل گئے ہوں گے کہ ایمبولینس یکایک رک گئی۔ ہم حیران تھے کہ آخر یہ کیا ہوا۔ میں نے باہر نکل کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ گاڑی کا انجن خراب ہو گیا ہے۔ ڈرائیور نے کہا کہ ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں۔ وہ کوئی بیس منٹ تک مصروف رہا لیکن گاڑی پھر بھی نہ چلی۔ مس فاطمہ جناح نے ملٹری سکریٹری کو ایک اور ایمبولینس لانے کے لیے بھیجا۔ ڈاکٹر مستری بھی اس کے ساتھ ہولئے۔ ایمبولینس میں ہوا بلکل بند تھی۔ نرس اور نوکر قائد اعظم کو پنکھا جھل رہے تھے، پھر بھی قائد اعظم کو پسینے پر پسینہ آرہا تھا۔ ہمیں خیال آیا کہ انہیں بڑی کار میں منتقل کردیں لیکن اسٹریچر اس کے دروازے سے بڑا تھا۔ وہ خود بھی اتنے کمزور تھے کہ پچھلی سیٹ پر نہیں لیٹ سکتے تھے، اس کے علاوہ ان کے کپڑے پسینہ سے شرابور تھے اور باہر انھیں ہوا لگ جانے کا خطرہ تھا۔ میں ان کی نبض دیکھ کر کچھ سہم سا گیا کیوں کہ وہ بڑی کمزور معلوم ہو رہی تھی۔ میں گھبرایا ہوا ٹرک سے فلاسک نکال کر لایا جس میں گرم چائے تیار تھی۔ مس فاطمہ جناح نے انھیں چائے دیتے وقت بتایا کہ قائداعظم نے صبح سے سوائے پھلوں کے رس کے اور کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ انھیں چائے رغبت سے پیتا دیکھ کر ہمیں کچھ ڈھارس ہوئی۔ ایمبولینس کے بے وقت خراب ہوجانے کے علاوہ ہر چیز مریض کے حق میں دکھائی دیتی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ اگر خدا نخواستہ قائداعظم نے ہوائی سفر بخیر و خوبی طے کرنے کے بعد سڑک کے کنارے جان دے دی تو یہ کتنا بڑا سانحہ ہوگا۔ بڑے تردد اور تشویش کے عالم میں، میں نے ان کی نبض پھر دیکھی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ باقاعدہ مضبوطی سے چل رہی تھی۔ چائے کی پیالی سے ان کی طبیعت کچھ بحال ہوگئی تھی۔ میں گھڑی گھڑی شہر کی طرف نظریں دوڑاتا تھا لیکن ایمبولینس کے کوئی آثار نہ تھے۔ ٹرک اور بسیں ادھر ادھر سے گذر رہی تھیں لیکن کوئی بھی اس قابل نہ تھی کہ وہ استعمال میں لائی جاسکے۔ میں بہت ہراساں و پریشان بیٹھا تھا۔ بڑے صبر آزما انتظار کے بعد خدا خدا کرکے ایمبولینس نمودار ہوئی۔ ہم نے فوراً قائداعظم کو اس میں منتقل کیا اور پھر روانہ ہوئے۔ ایمبولینس پر گورنر جنرل کا نشان نہ تھا، اس لیے کسی کو بھی پتہ نہ چلا کہ قائداعظم اس نازک حالت میں کراچی کے بازاروں سے گذر رہے ہیں۔‘‘

اب یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کرنل الٰہی بخش کے بیان کا اعتبار کیا جائے یا اے ڈی سی کیپٹن نور حسین کا۔ کرنل الٰہی بخش کی کتاب پہلی بار 1949 میں شائع ہوئی ہمارے پاس اس کا دوسرا ایڈیشن ہے جو 1978 میں قائداعظم اکادمی نے 52 پاکستان سیکریٹریٹ پوسٹ بکس نمبر 894، کراچی-1 سے شائع کیا تھا۔اس کتاب کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ڈاکٹر صفدر محمود روزنامہ دی نیوز میں چھپنے والے جس مضمون کا حوالہ دے رہے ہیں وہ 23مارچ 1995کو شائع ہوا۔ آخر نور حسین صاحب کو 46 برس بعد  یہ بات کیوں یاد آئی کہ قائداعظم کی کراچی آمد پر لیاقت علی خان ماڑی پور ایئربیس پر موجود تھے۔ یہ ایک بہت بڑا تحقیقی موضوع ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں آنے والے محققین اس پر طبع آزمائی کریں گے۔

تحقیق ایک ایسا عمل ہے جو کبھی بھی رک نہیں سکتا اور نہ ہی محدود ہوسکتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ کچھ ایسے سوالات اٹھائے جائیں جس کے ذریعے نئے سوالات پیدا ہوسکیں اور تحقیق کے طالب علم اس سلسلے میں اپنے تحقیقی کام کو وسعت دے سکیں۔

کرنل الٰہی بخش اپنی کتاب میں صرف یہیں  تک محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے کچھ اور انکشافات بھی کیے ہیں۔ ان کے مطابق جب وہ کوئٹہ سے روانہ ہوئے تو قائداعظم کے کیبن سے مس فاطمہ جناح باہر آئیں اور انھوں نے مجھے کہا  ’’کہ نرس کو چکر آرہے ہیں اور وہ بھائی کو آکسیجن پہنچانے سے معذور ہے۔ میں اندر گیا، قائداعظم کی نبض دیکھی۔ وہ مسلسل تھی اور مناسب رفتار سے چل رہی تھی۔ پھر میں نے ان کے ناخن دیکھے کہ آکسیجن کی کمی کے باعث نیلے تو نہیں پڑگئے۔ اچھی طرح دیکھ بھال کے بعد میں نے آکسیجن دینی شروع کردی۔ جب میں ماسک ان کے منہ کے قریب لایا تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ لیکن جب میں نے نرمی سے سمجھایا کہ آپ کے نظام جسمانی کے تحفظ کے لیے آکسیجن نہایت ضروری ہے تو انھوں نے مجھے دیکھا، مسکرائے اور اجازت دیدی۔‘‘ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئٹہ سے کراچی جانے کے لیے ایک ایسی نرس کا انتخاب جسے فضائی سفر کے دوران چکر آرہے تھے کس نے کیا؟

 کیا سفر سے پہلے اس نرس سے اس بات کی تسلی کرلی گئی تھی کہ وہ اس قابل بھی ہے کہ نہ صرف فضائی سفر کرسکے گی، بلکہ حسبِ ضرورت مریض کا دھیان بھی رکھ سکے گی۔ آخر اِس نرس کا انتخاب کس نے کب اور کیوں کیا تھا۔ اس نرس نے بانیِ پاکستان گورنر جنرل محمد علی جناح کی دوران سفر تیمارداری کرنی تھی جبکہ خود اسے چکر آرہے تھے

کرنل الٰہی بخش مزید لکھتے ہیں کہ چوں کہ جناح صاحب کے کیبن میں بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی اس لیے وہ کیبن کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھ گئے اور اس موقع پر مس جناح نے ان کی بے آرامی کو دیکھ لیا اور ان سے کہا کہ وہ کچھ دیر آرام کریں جب تک مادر ملت بذات خود جناح صاحب کو آکسیجن دیتی رہیں گی۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس لیے میں بلا تامل اپنے کیبن میں واپس چلا آیا۔ سب لوگ گہری نیند میں خراٹے بھر رہے تھے۔ صرف لیفٹننٹ مظہر جاگ رہے تھے۔ ان کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کا سر چکرا رہا ہے۔‘‘

اس منظر کے بارے میں کیا بیان کیا جائے کہ قریب المرگ جناح صاحب کے ساتھ سفر کرنے والا عملہ ان کی علالت سے بے نیاز خراٹے لے کر گہری نیند سورہا تھا۔ کچھ سیاسی عمائدین ایسے بھی تھے جن کو جناح صاحب کی صحت کے بارے میں بہت ’تشویش‘ لاحق تھی اور وہ جناح صاحب سے روبرو ملنا چاہتے تھے۔ انہی میں سے ایک کے بارے میں کتاب کے صفحہ نمبر 69 پر کرنل الٰہی بخش رقم طراز ہیں کہ ’’ایک دن مسٹر امین نے آکر ایک بہت اہم شخص کے قائداعظم سے ملنے کی اجازت مانگی جو اسی وقت خاص ہوائی جہاز سے پہنچے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ میرے نزدیک قائداعظم کی جان سے زیادہ کوئی بات اہم نہیں اور میں کسی کو ان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ مسٹر امین ایک بار پھر یہی درخواست لے کر آئے اور کہنے لگے کہ اس ملاقاتی کو ایک بہت بڑے معاملے میں قائداعظم سے گفتگو کرنی ہے۔ میں نے نام پوچھا تو امین صاحب نے کہا کہ یہ راز کی بات ہے اور میں اسے افشاں نہیں کرسکتا۔ میں نے اس دفعہ بھی انکار کردیا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد جب مجھے ان صاحب کا نام معلوم ہوا تو میں نے بڑا شکر ادا کیا کہ ملاقات نہ ہونے دی ورنہ اس گفتگو سے قائداعظم کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑتا اور وہ شاید اس کے صدمے سے جانبر نہ ہوتے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس ملاقات سے سیاسی حالات کی رفتار پر کیا اثر پڑتا کیوں کہ کسی کو معلوم نہیں کہ قائداعظم اس ملاقاتی کو کیا مشورہ دیتے۔ میرا تو اس واقعے سے صرف ڈاکٹر کی حیثیت سے سروکار تھا اور میں نے وہی کیا جو اپنے مریض کے حق میں مناسب سمجھا۔‘‘

ایک بار پھر کرنل الٰہی بخش نے ایک اور سوال ہمارے سامنے رکھ دیا کہ آخر وہ شخصیت کون تھی جو ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی سے کوئٹہ اور زیارت پہنچی تھی۔ یقینا اس دور میں یہ تو ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اپنے ذاتی جہاز کے ذریعے کہیں بھی آتا جاتا یا اپنے کسی دوست، بھائی یا پارٹی عہدیدار کا جہاز استعمال کرتا تو اگر اس وقت تک کے فضائی ریکارڈ تک رسائی ہوجائے تو باآسانی معلوم ہوجائے گا کہ یہ موصوف کون تھے اورڈاکٹر صاحب کو اس بات کااندازہ کیوں تھا کہ ان سے ملاقات کے بعد جناح صاحب کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑتا اور وہ شاید اس صدمے سے جانبر نہ ہوپاتے۔ کرنل الٰہی بخش نے قائداعظم کی تشویشناک صورتحال کے باعث انھیں ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی کہ وہ کراچی چلیں لیکن قائداعظم کراچی کے بجائے سبی جانا چاہتے تھے۔ جس پر الٰہی بخش کو اعتراض تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں شدید گرمی ہوتی تھی اور لو کے جھکڑ بھی چلتے تھے۔ جب قائداعظم کو اس بارے میں بتایا گیا تو انھوں نے فرمایا ’’آپ تو مجھے عصا (چھڑی) کے سہارے کراچی لے جانا چاہتے ہیں لیکن میں اس وقت تک وہاں نہ جاؤں گا جب تک کار سے لے کر اپنے کمرے تک چل کر جانے کے قابل نہ ہوجاؤں۔ آپ جانتے ہیں کہ میرے کمرے تک پہنچنے کے لیے برآمدے سے بڑھ کر اے ڈی سی اور پھر ملٹری سیکریٹری کے کمرے سے گذرنا پڑتا ہے اور میں نہیں چاہتا آپ یہ راستہ مجھے اسٹریچر پر لٹا کر طے کریں۔‘‘

بالآخر بہت اصرار کے بعد جناح صاحب کراچی جانے پر اس لیے آمادہ ہوئے کہ انھیں گورنر ہاؤس کی بجائے ملیر میں ٹھہرایا جائے گا اور ملیر میں اس وقت ایک گھر اس قابل تھا جہاں جناح صاحب کو ٹہرایا جاسکتا تھا۔ یہ گھر نواب آف بہاولپورکا تھا مگر نواب آف بہاولپور کے ولی عہد نے جناح صاحب کو وہاں ٹہرانے کے لیے رضامندی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی شرط لگائی جو جناح صاحب کے مزاج کے بلکل برعکس تھی۔ کرنل الٰہی بخش کے مطابق ولی عہد تو بہاولپور ہاؤس کو خالی کرنے پر آمادہ تھے مگر وہ چاہتے تھےکہ نواب  آف بہاولپورکو لندن میں قائد اعظم کی طرف سے اطلاع دی جائے۔ جب قائد اعظم کے سامنے یہ بات بیان کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ پہلے زمانے میں جب کوئی وکیل ہائیکورٹ کا جج مقررہوجاتا تھا تو وہ وکلبوں اور محفلوں میں جانا بند کردیتا تھا بلکہ بعض اوقات تو مقامی اخبارات پرھنے سے بھی گریز کرتا تھا کہ کہیں ان سے اس کی غیرجانبداری میں خلل نہ پڑے۔ چنانچہ میں بھی سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے میرا ہزہائی نس نواب آف بہاولپور سے کچھ کہنا مناسب نہیں۔ یہ مجھ سے ہرگز نہ ہوگا۔

اندازہ کریں کہ ریاستی نواب اور وہ بھی بہاولپور کے نواب جن کی نوابی قیامِ پاکستان کے بعد بھی جناح صاحب کی مرہون منت تھی اور اسی لیے قائم رہی۔ اس کے ولی عہد بھی یہ سوچ رہے تھے کہ جب ابو کی اجازت مِل جائے تو جناح صاحب بہاولپور ہاؤس میں قیام کر سکیں گے۔ جناح صاحب کا نام تاریخ میں آج بھی زندہ ہے لیکن ملیر میں نواب بہاولپور کے جس گھر میں انھیں ٹھہرنا تھا وہ اب نہیں رہا۔ سُنا ہے اس گھر اور اس کے اطراف میں ایک کالونی سی آباد ہوگئی ہے۔ جناح صاحب کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ ان کے بے شمار قریبی ساتھی اور سیاسی لیڈر اس بات کے انتظار میں ہیں کہ ان کی موت کب واقع ہوگی اور اس سے وہ کیا کیا سیاسی فوائد حاصل کر سکیں گے۔ اس تمام بے چینی اور پریشانی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بقول ڈاکٹر صفدر محمود وہ رشوت ستانی، بدعنوانی اور اقربا پروری کے خلاف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سیاستدان جو پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کی موجودگی میں اپنے مقاصد مکمل ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے ان کی خواہش یہ تھی کہ جلد یا بدیر قائداعظم کی ذات سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ الٰہی بخش کے مطابق ’’29اگست کی صبح کو قائداعظم کا معائنہ کرنے کے بعد میں نے یہ امید ظاہر کی کہ جس ریاست کو آپ وجود میں لائے ہیں اسے پوری طرح مستحکم و استوار کرنے لے لیے ابھی دیر تک زندہ رہیں گے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ آیا تھا کہ میرے جذبات سے وہ اور محزون ہوں گے۔ ان کے یہ الفاظ اور ان کا افسردہ اور یاس انگیز لہجہ میں کبھی نہیں بھول سکتا ’’آپ کو معلوم ہے کہ جب آپ پہلی بار زیارت پہنچے تو میں زندہ رہنا چاہتا تھا لیکن اب میرا مرنا جینا برابر ہے۔‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں اس جواب سے میری الجھن اور بڑھ گئی اور خیال ہوا کہ وہ اصل بات کو پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں اور جو وجہ انھوں نے بیان کی ہے وہ یوں ہی ٹالنے کے لیے ہے۔ رہ رہ کر سوچتا تھا کہ کیا آج سے پانچ ہفتے پہلے ان کا کام نامکمل تھا اور یکایک پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ میں یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا کہ کوئی بات ضرور ہے جس نے ان کے جینے کی آرزو مٹا دی۔جب ان کے انتقال کے دو دن بعد اور اس واقعے کے 15 دن بعد میں نے مس جناح سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ مجھے پہلے کیوں نہ بتایا، میں نے جواب دیا کہ اُس وقت ذکر کرتا تو آپ کو زیادہ صدمہ ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ  آخر کیا وجہ تھی کہ اگست کے تیسرے ہفتے تک قائد اعظم اپنی زندگی کے حوالے سے پُرامید تھے اور چوتھے ہفتے میں اس قدر مایوس ہو گئے کہ وہ جینا ہی نہیں چاہتے تھے۔یہ ایک بہت بڑا سوال ہے، اگست کے تیسرے ہفتے میں جِن لوگوں نے اُن سے ملاقات کی اس کا ذکر کچھ یوں ہے” ملاقاتیوں کو ملنے کی اجازت نہ تھی لیکن خاص خاص مواقع پر خاص خاص حضرات مثلاً مسٹر اصفہانی، مسٹر لیاقت علی خان اور مسٹر غضنفر علی خان کو اجازت تھی کہ قائداعظم سے تھوڑی دیر کے لیے ملاقات کرسکیں۔ مسٹرمحمد علی انھیں دو مرتبہ ملے۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں دوسری ملاقات کے موقعہ پر مسٹرمحمد علی نے مجھے بتایا کہ قائداعظم کی حالت میں نمایاں اصلاح نظر آتی ہے۔ وہ جب زیارت میں تھے تو وہ ایک فقرہ بھی بولتے تو ان کا سانس پھول جاتا اور بڑے نحیف دکھائی دیتے لیکن اب وہ بے تکان گفتگو کرسکتے تھے اور اب چہرے پر پہلے کی نسبت کچھ تازگی تھی۔ دماغی طور پر پہلے کی طرح مستعد نظر آتے تھے۔ روزانہ دیکھ کر شاید ان کی صحت کی خوشگوار تبدیلی اتنی زیادہ نظر نہ آتی ہو۔ چند دن بعد مسٹر غلام محمد قائداعظم سے ملے، انھوں نے بھی یہی کہا کہ قائداعظم کی صحت کے متعلق جو خبریں سننے میں آتی ہیں ان کی حالت ان سے بدرجہا بہتر ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگست کے آخری ہفتے میں قائداعظم مرنے کے لیے تیار تھے لیکن اُس سے قبل وہ جینے کے لیے تیار تھے ۔ ان کے ملاقاتیوں میں دو لوگ نمایاں ہیں جن میں سے ایک چوہدری محمد علی اور ملک غلام محمد شامل تھے۔ آخر ان کے پاس ایسے کون سے پیغامات تھے جو انھوں نے جناح صاحب کو پہنچائے اور بدقسمتی سے اس کے ایک ہفتے بعد ہی جناح صاحب مرنے کے لیے تیار ہو گئے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...