متاثرکن پاکستانی: قائدِاعظم کے بعد ایدھی سب سے مقبول

مومنہ منظور خان (ترجمہ:شوذب عسکری)

947

پاکستانی سماج کے مختلف شعبوں میں مختلف شخصیات اپنی انفرادیت اور نمایاں کامیابیوں کی وجہ سے پاکستانیوں کے دلوں پر اپنا دائمی تاثر بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان میں سیاستدان، فوجی جرنیل، شاعر، سماجی کارکن، فنکار، کھلاڑی اور دیگر شامل ہیں۔ زیرنظر فیچر رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے قائداعظم کے بعد عبدالستار ایدھی کی شخصیت سب سے زیادہ متاثر کن رہی ہے۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی انفرادی کوشش اور جدوجہد سے سماجی خدمات کے میدان میں نہ صرف پاکستان میں یادگار مقام حاصل کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی کوششوں کی خاطرخواہ پذیرائی ہوئی۔ رپورٹ اس ضمن میں مزید کئی دلچسپ حقائق بھی سامنے لاتی ہے۔ (مدیر)

عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے وقف کردی۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کی والدہ بہت بیمار پڑ گئیں اور انھیں ریاست کی جانب سے کوئی مدد نہ مل سکی۔ پہلے پہل وہ۱۹۵۱ء میں کراچی کی گلیوں میں نکل پڑے اور لوگوں سے سادہ سے بنیادی کلینکس اور ایمبولینسز کی خریداری کے لیے چندہ مانگنے لگے۔ تاہم جب۲۰۱۶ء کے موسم گرما میں ان کا انتقال ہوا تو ان کاکام ۳۳۵؍ ایدھی سنٹرز تک پھیل چکا تھا جہاں ہنگامی امداد پورا سال دستیاب ہوتی ہے۔ ان کے ادارے کے پاس ملک بھر میں۱۸۰۰۰؍ایمبولینسز ہیں اور ان کے امدادی مراکز میں سماجی امداد کے مراکز، زچہ گاہیں، صحت کے مراکز ، بوڑھے اور معذور افراد کے لیے گھر ، یتیم خانے ، گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کی پناہ گاہیں ، سکولز اور چھوٹے ہسپتال شامل ہیں جہاں تقریباً سات ہزار رضاکار عملہ ہر وقت خدمت کے لیے موجود ہوتا ہے۔ ایدھی صاحب نے ۲۰؍ہزار بے سہارا بچوں کی پرورش کی ہے ، ۴۰؍ ہزار نرسوں کو تربیت دی ہے ،۵۰؍ ہزار یتیم بچوں کی امداد کی ہے اور۱۰؍ لاکھ عورتوں کے لیے زچگی کے وقت کی طبی سہولیات فراہم کی ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ بلاتخصیص رنگ ، نسل ، مذہب اور زبان تمام انسانیت کے لیے ہے جس کی وجہ سے انھیں مذہبی حلقوں کی طرف سے تنقید کا بھی سامنا رہا۔
انھوں نے پاکستان کے علاوہ افغانستان ، نیپال، مشرق وسطیٰ ، بنگلہ دیش، کینیڈا اور امریکا میں بھی امدادی مراکز قائم کیے ہیں۔ سال۲۰۰۵ء میں جب قطرینہ نامی سمندری طوفان امریکی شہر نیو آریلنز سے ٹکرایا تو ان کے ادارے نے ایک لاکھ ڈالر کی خطیر رقم امدادی سرگرمیوں کے لیے مہیا کی۔ انھوں نے خود کو ہزاروں بے سہارا ،لاوارث اور بے شناخت میتوں کا وارث ٹھہرایا اور ان کے لیے باقاعدہ اور باعزت تدفین کا انتظام کیا۔ ’’میں مسخ شدہ ڈوبی ہوئی لاشیں سمندر سے لے آتاہوں ، بدبودار ، سیاہ رنگ میں تبدیل شدہ جنھیں چھوا جائے تو گوشت گل کر گر جائے، کنویں سے نکلی ہوئی، دریا سے نکلی ہوئی، گٹر سے نکلی ہوئی ، سڑکوں پر پڑی ہوئی ، حادثوں سے ملی ہوئی اور ہسپتالوں میں لاوارث پڑی ہوئی لاشیں ، ان کے گھر والے انھیں فراموش کرچکے ہوتے ہیں اور حکام انھیں پھینک دیتے ہیں، میں انہیں اٹھا لاتا ہوں اور انھیں دفن کرواتا ہوں۔‘‘ ایدھی صاحب اپنی سوانح حیات’’اے مررٹو دی بلائنڈ‘‘میں بتاتے ہیں۔ قبرستان جوکراچی کے مضافات میں ہے اور جس کا انتظام ان کا ادارہ کرتا ہے اس میں قریب ۸۰؍ ہزار قبریں ہیں جن میں سے بیشتر بے نام ہیں ان پہ صرف نمبرز درج ہیں۔
ایدھی صاحب خود کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے شناخت کروانا چاہتے ہیں۔ یہ تو ہم ہیں جو انھیں ایک بنیاد، ایک ستون سمجھتے ہیں۔ ’’میں ایک عام آدمی ہوں، مجھے تلاش کرنا چاہوتو میری کہانی ایک عام آدمی کی ہے‘‘۔ یہ الفاظ انھوں نے اپنی ذات پہ بننے والی دستاویزی فلم ’’ دیز برڈز والک‘‘ میں کہے جس میں ہم انھیں ایک نوزائیدہ بچے کو نہلاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی وفات کے بعد بھی ہم نے انھیں ان جیسے انسانیت کی خدمت کے پیکر کو ’سٹار‘ بنانے کی کوشش کی۔ ان کی تصویریں اشتہاری بورڈز پہ لگائی گئیں ، ان کے لیے اعزازی سِکّے جاری ہوئے، تعزیتی محافل ہوئیں، دفاتر کی دیواروں پہ ان کی تصاویر ٹانگی گئیں، لوگوں نے اپنی فیس بک پروفائل پہ ان کی تصاویر لگائیں۔ گذشتہ سال جب ہیرالڈ نے اپنی مہم ’’سالِ رواں کی شخصیت‘‘کا اعلان کیا تو ہمارے بہت سے قارئین نے اس پہ غم و غصے کا اظہار کیا کہ ہم نے انھیں اس کے لیے منتخب کیوں نہیں کیا۔ حالانکہ یہ سب اس حقیقت کے برعکس ہے جس کا اظہار ان کے ادارے کے سربراہ ان کے بیٹے فیصل ایدھی نے کیا ہے۔ ’’ ایدھی صاحب کی وفات کے بعد ہمارے ادارے کو ملنے والی امدادی رقوم میں کمی ہوئی ہے جس کے سبب ہمیں اپنے ایسے بہت سے امدادی کام چلانے میں دشواری ہورہی ہے جو براہ راست جانیں بچانے کے لیے کیے جارہے ہیں‘‘۔ ایدھی صاحب کبھی ایسی عزت کو پسند نہ کرتے جس کے حصول کے دوران یا اس کے باعث ان کے کام کا حرج ہوتا۔ انہیں یہ کبھی پسند نہ آتا کہ وہ اس کام کو نہ کر سکیں جسے وہ ہمیشہ کرتے ہوئے آئے ہیں۔ سال۲۰۰۸ء میں امیگریشن کے عملے نے انھیں نیویارک میں جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پہ روک لیا اور ان کا پاسپورٹ قبضے میں لے لیا۔’’ میں ہنگامی حالات کا آدمی ہوں ، مجھے وہاں جانے دیا جائے جہاں کوئی مشکل میں ہے، میرا راستہ نہ روکا جائے لیکن یہاں مجھے بیس روز ہوگئے ہیں بت بنا کے بٹھا دیا گیا ہے۔‘‘ اس موقع پر انھوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
ایدھی صاحب کو ۱۷؍ بین الاقومی اعزازات سے نوازا گیا جن میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا یہ اعزاز بھی تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی نجی ایمبولینس سروس چلاتے ہیں تاہم ان کا کام کسی اعزاز یا انعام کے لیے نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے اعزاز کے لیے ہمیشہ یہ جملہ کہا۔’’ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مجھے انعام ملے تو اس کام کوکبھی مت روکیے گا جسے میں عمر بھر سے کر رہا ہوں۔‘‘
ان تمام اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر عبدالستار ایدھی، محمد علی جناح کے بعد سب سے زیادہ متاثرکن پاکستانیوں کی ہیرالڈ کی اس فہرست میں پہلے نمبر پہ ہیں جس میں ان کے علاوہ ۳؍ مقتول وزرائے اعظم، ۲؍ فوجی آمر ، ایک شاعر، ایک فنکار، حقوقِ انسانی کا ایک کارکن اور کھیلوں کا ایک ستارا جو بعد میں فلاحی ادارے کو چلانے کے بعد سیاستدان بنا ، شامل ہیں۔
عمران خان کے ٹوئٹر پر چھ ملین فالوورز موجود ہیں۔ کسی بھی دوسرے پاکستانی سے زیادہ، سنگاپور کی کل آبادی سے زیادہ اور ان کی سیاسی جماعت نے۲۰۱۳ء کے عام انتخابات میں دوسرے نمبر پہ رہتے ہوئے آٹھ ملین ووٹ لیے ہیں۔ تاہم ۷۵؍فیصد پاکستانیوں نے ان کی جماعت کے حق میں ووٹ نہیں دیے اور اگر ہم اب وقت میں جھانک کر دیکھیں تو ان کی انتخابی حمایت میں کمی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ حالیہ تاریخ کے سب سے زیادہ متاثر کن پاکستانی ہوسکتے تھے لیکن پاکستان کی تاریخ ۷۰؍ سال پرانی ہے۔
ایم آئی ٹی کی ایک میڈیا تحقیق نے جناح صاحب کو انٹرنیٹ پہ تلاش کیے جانے کے حساب پر سب سے زیادہ متاثر کن پاکستانی گردانا ہے۔ عمران خان اس اندازے میں اعلیٰ پوزیشنوں میں کہیں نہیں تھے۔ اس حساب میں دوسرے نمبر پہ علامہ محمد اقبال آتے ہیں اگرچہ وہ قیام پاکستان سے ۹؍ سال پہلے ہی وفات پا گئے تھے ، اسی وجہ سے ہیرالڈ نے ان کا نام اپنی اس فہرست میں شامل نہیں کیا۔ جناح صاحب نے چونکہ۱۹۴۸ء میں قیام پاکستان کے بعد رحلت فرمائی ہے لہٰذا وہ اس فہرست کا نقطۂ آغاز بنے ہیں۔ اقبال کی بطور شاعر اور مفکر خدمات کا اعتراف ضرور ہے لیکن اس فہرست کے حوالے سے جناح صاحب کے بعد دوسرے نمبر پر بھی نہیں آتے۔ لیکن ان کی شخصیت کا مقام جناح صاحب کے برابرہے۔
جو شخصیت ایم آئی ٹی کی مرتب کردہ فہرست میں چوتھے نمبر پہ ہیں وہ سائنس میں نوبل انعام جیتنے والے اوّلین پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام ہیں جو ایک ایسے ملک کے لیے ایک نایاب اعزاز ہے جس کے پاس سائنس اور تعلیم کے شعبے میں فخر کے لیے ان کے علاوہ اور کوئی اعزاز نہیں ہے۔ لیکن کیوں وہ بھی ہیرالڈ کی فہر ست میں شامل نہیں ہیں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی ان کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ احمدی ہیں، لہٰذا ان سے متاثر ہونا تو درکنار انھیں خود میں شمار ہی نہیں کرتے۔
لیکن متاثرکن ہونے کا معیار کیا ہے ؟
معیارات کچھ یوں ہیں: کو ئی شخص جو کوئی نئی راہ دریافت کرے(مثال کے طور پر نو ر جہاں جو بچوں کی ماں بھی تھیں اور ۴۰ اور ۵۰ کی دہائیوں کی فلم انڈسٹری کی سٹار بھی تھیں)۔ کوئی ایسا شخص جو مستقبل کا راستہ واضح کرے جیسا کہ لیاقت علی خان نے پاکستان کو جدید مسلم جمہوریت بنا کر کیا۔ یا کوئی ایسا جو اس راہ کو بدل دے جیسا کہ ایوب خان نے ملک کا پہلا مارشل لاء لگا کے کیا۔ مختصر یہ کہ ایسا کوئی بھی شخص جس نے پاکستان کی تاریخ میں اَنمٹ تاثر چھوڑا جسے پلٹنا یا تبدیل کرنا ناممکن ہو یا ازحد مشکل ہو اور اس راہ میں اسے جانثار چاہنے والوں یا بدترین دشمنوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
حتیٰ کہ یہ معیار ایسا ہو جائے گا کہ ماننا پڑے گا کہ لوگ پوچھیں کہ اس فہرست کا بنانے کا والا کون ہے۔ مثال کے طور پر مذکورہ فہرست میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام نہیں ہے۔ آپ پاکستان کے نیوکلیائی سائنسدان ہیں ، بہت سے پاکستانی آپ کو پاکستان کے ایٹمی بم کا خالق سمجھتے ہیں لیکن ہماری نظر میں یہ اتنا ہی مشکوک ہے جتنا یہ کہ انھوں نے پاکستان کے ایٹمی راز چوری کیے ہیں اور انھیں بیچا ہے جبکہ اس کا اعتراف وہ قومی ٹیلی ویژن پہ خود کرچکے ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا جو کہ ہماری اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان کی اس کام میں بنیادی مدد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ منیر احمد خان نے کی تھی، جن کی خدمات کااختصاری اعتراف فوجی اجازت سے شائع ہونے والی تاریخی دستاویزات میں بھی شامل ہے۔
انتظار حسین بیسویں صدی کے نصف آخر میں اردو ادب کے اعلیٰ ترین لکھاریوں میں شامل ہیں۔ لیکن وہ بھی ہماری اس فہرست میں شامل نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اس طرز تحریر کو بام عروج پہ پہنچایا جس میں ان کے پیش رَو کام کرچکے تھے۔ باوجوداس کے ، ان کی کہانی کی بنت ، اپنے موضوع پہ ان کی جامع معلومات اور گنگا جمنی تہذیب سے ان کا حساس ثقافتی تعلق انہیں ممتاز کرتا ہے لیکن اردو قاری میں ان کی شہرت ایسی نہیں بن سکی جیسی اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ، قدرت اللہ شہاب یا منٹو اور فیض صاحب کو حاصل ہوئی۔
جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی بھی ہماری اس فہرست میں شامل نہیں ہیں کیونکہ ان کی سیاسی اور فکری بصیرت کا نفاذ اور لوگوں کے ذریعے خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے ذریعے ہوا۔ مذہبی شخصیات کا تاثر ان کے مسلکی اور سیاسی تعصب کی بناء پر محدود ہی رہا ہے۔ اس کی واضح مثال مولانا مودودی ہی ہیں۔ ہر چند کہ پاکستان کے متوسط طبقے کی پہلی دو نسلوں میں ان کی کتابوں کا بہت شہرہ رہا ہے لیکن پھر بھی انہیں وسیع سیاسی یا مذہبی حمایت نہیں مل سکی۔
تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کی اس فہرست میں شمولیت نہ ہونے کی وجہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ وہ کسی دوسرے کے تاثر اور فکر کے داعی رہے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی زندگی کے پہلے حصے میں اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑی اور ضیاء الحق اور جماعت اسلامی کے دائیں بازو کے سیاسی افکار کے وفادار رہے ہیں اور دوسرے حصے میں انھوں نے ہچکچاتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کا انٹی اسٹیبلشمنٹ والا سیاسی کردار نبھایا ہے۔ مشرف بھی اسی قطار میں کھڑے ہیں۔ ان کا سیاستدانوں کی جانب رویہ ان سے پہلے کے فوجی آمروں سے مختلف نہیں تھا اور بھارت، افغانستان اور امریکہ سے ان کے تعلقات کی جہتیں اور اندرون ملک مذہبی انتہاء پسندی سے متعلق ان کے معاملات میں گذشتہ آمریتوں کی روایت پرستی دکھائی دیتی ہے گو کہ ان کے اقدامات کے نتائج بہ نسبت ماضی کے بہت زیادہ خطرناک تھے۔
جی ایم سید جن کی تحریروں اور سیاسی کوششوں نے سندھی قوم پرستوں کی دو نسلوں کو متاثر کیا ہے وہ بھی اس فہرست میں شامل نہیں ہوسکے، اس لیے کہ ان کی سیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کے سامنے ماند پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بلوچ قوم پرست قائدین کی مثلث جس میں عطااللہ مینگل ، غوث بخش بزنجو اور خیر بخش مری شامل ہیں، وہ ابھی اپنی سیاسی معاملہ فہمی کے سبب اور ان کے وارثوں کی کارگزاریوں کی وجہ سے کہ وہ کبھی انٹی اسٹیبلشمنٹ ہو جاتے ہیں اور کبھی پرو پاکستانی ہوجاتے ہیں، اس فہرست میں شامل نہیں ہوسکے۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھی اگرچہ اتنی ہی محنت اور پیروی سے پاکستان توڑا جس محنت سے جناح صاحب نے اسے ہندوستان سے نکالا تھا، لیکن اسی بنا پر وہ اس فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش کا بانی ہونے کی وجہ سے وہ اس فہرست میں ہو ہی نہیں سکتے جو اپنی اصل میں پاکستانیت کی بنیاد پر تیار کی جارہی ہے۔
اختر حمید خان اس تسلسل کی ایک اور کڑی ہیں کراچی کی کچی آبادیوں میں ان کی سرگرم محنت سے بنیادی سطح پر ایکیٹوازم کی اہمیت واضح ہوتی ہے لیکن ان کی جانب سے کیا جانے والا کام اور اس کا اثر ایک محدود علاقے تک ہے۔
اس فہرست میں صرف دس نام شامل ہوسکتے تھے۔ اس کی تعداد سے ہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ کیوں بہت سے کارکن، فنکار، تاجر، ٹیکنوکریٹ، ماہرین تعلیم، جج ، وکلا ، منتظمین، اساتذہ، سیاستدان اور بہت سے نامور خواتین اس میں شامل نہیں ہیں۔ شامل نہ کیے جانے کی بھول کے ازالے کے طور پر ہم نے پانچ مزید فہرستیں ترتیب دی ہیں گو کہ ان کے لیے ہم نے رائے شماری نہیں کروائی۔
پھر بھی ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جناح صاحب کا نام سب سے پہلے اور بلامقابلہ سرِفہرست آتا ہے ۔ یہ اس لیے ہے کہ جو کچھ ایک پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے حاصل کیا وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آیا۔ جیسا کہ ان کی ذات پر کتاب لکھنے والے اسٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے کہ انھوں نے تن تنہا تاریخ کی کایا پلٹ دی، سیاسی جغرافیے کو بدلتے ہوئے ایک نئی قوم کی بنیاد رکھ دی۔ جناح صاحب کا تقابل ایسے افراد سے نہیں ہوسکتا جنھوں نے اس ملک کے اندر کوئی کارکردگی دکھائی ہو جو انھوں نے اپنی قیادت میں قائم کیا۔
جناح صاحب کے بعد سب سے متاثرکن پاکستانی چننے کے عمل میں یکساں نمائندگی اور ہر طبقہ کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے ہم نے ملک گیر ایک سروے کا اہتمام کیا جس میں چار زمروں صوبہ، قومیت،زبان، علاقہ اور جنس کے تحت رائے دہندگان شامل ہوئے۔ ہم نے انھیں مزید ان کے پیشوں ، تعلیمی قابلیت اور عمر کے لحاظ سے چھانٹی کیا۔ اس سروے کے لیے ۱۳۹۸؍ کی تعداد پر مشتمل نمونہ اکٹھا کیا گیااور رائے دہندگان کا انتخاب ۱۹۹۸ء کی مردم شماری میں موجود معلومات سے کیا گیا تھا۔ ہمارا سروے جون۲۰۱۷ء میں مکمل ہوا۔ ایدھی صاحب اکتیس اعشاریہ چھہتر فیصد حمایت کے ساتھ اس فہرست میں اوّل نمبر پہ آئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور عمران خان نے مل کر ۵۲؍فیصد حمایت حاصل کی جو ان تینوں میں برابر تقسیم تھی۔ دو فوجی آمروں نے مل کر۹؍ فیصد کی حمایت پائی ہے۔ ایدھی صاحب کو اس فہرست سے نکال دیجیے تو آپ کے سامنے یہ ایک روایتی پاکستانی تقسیم شدہ نقطۂ نظر ہوگا۔ اس سروے کے نتیجے میں آنے والے اعدادوشمار سے ہمیں یہ مدد ملی کہ ہم آئندہ صفحوں پہ ان افراد کی ترتیب کس طرح لگائیں۔
۱۰؍مؤرخین کا ایک پینل وضاحت کرتا ہے کہ ماہرین اور عام افراد کے درمیان تاریخ کو جانچنے کا نہ صرف پیمانہ مختلف ہوتا ہے بلکہ ان کا نقطۂ نظر بھی مختلف ہوتا ہے۔ اگر عوام نے محروموں کی حمایت اور دستگیری کی بناپر حال کے ماضی قریب کے کسی سیاستدان کا انتخاب کیاہو تو ماہرین اس کے برعکس گہرے تاریخی تناظر میں جھانکیں گے اور یہ کھوج لگائیں گے کہ تجویزکردہ فرد کا تاثر قطع نظر منفی یا مثبت کس قدر بھرپور رہاہے۔ اس پر حیرانی نہیں کہ بعض نے ضیاء الحق کو بھی چنا ہے جنھوں نے بلاشبہ پاکستان کے تاریخی سفر کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ ابھی تک کوئی ان کی برابری نہیں کر سکا۔
تیسرا حصہ جو آن لائن رائے شماری پر مشتمل ہے وہ بھی ایک دلچسپ تضاد کا حامل ہے۔اس سال جولائی کے وسط تک موصول ہونے والے ۴۵۰۰؍جوابات میں سے عمران خان نے اپنی حمایت میں آدھے سے زیادہ رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کیا ۔ بہت فاصلے سے ایدھی دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کہیں زیادہ فاصلے سے تیسرے نمبر پہ ہیں۔ بقیہ ۷؍ امیدواروں نے مل کر صرف ۲۲؍ فیصد کا اعتماد حاصل کیا ہے۔ اگر یہ نتائج ہیرالڈ اور ڈان کے آن لائن قارئین کی پسند اور تعصب کی تصویر ہیں تو یہ کوئی زیادہ حیرت کا باعث نہیں ہے۔
(بشکریہ’’ ہیرلڈ‘‘اگست2017)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...