کراچی ۔۔۔اچھے، برے خوابوں کے درمیان
جواد شنواری وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کی خیبر ایجنسی لنڈی کوتل کے علاقے میں پیدا ہوئے ہیں مگر معاشی حالات کے سبب کراچی میں ہجرت کر آئے ہیں ۔ جواد کا قبیلہ “شنواری” پاک افغان سرحد کے دونوں جانب آباد ہے ۔تاریخی طور پردرہ خیبر سے طورخم راہداری تک کا یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ فاٹا کی حد تک یہ امر واضح ہے کہ پاکستانی کے پالیسی سازوں کی تزوایزاتی گہرائی پر مبنی سمجھ بوجھ کبھی بھی معاشی گہرائی کے نظریے سے تبدیل نہیں ہوئی۔1998 کی مردم شماری کے مطابق فاٹا کی آبادی ساڑھے چارملین افراد سے زیادہ نہیں تھی ۔ قوم پرست پشتون سیاسی جماعتیں اس مردم شماری کو فراڈ اور متعصب سمجھتی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس علاقے سے انتہاءپسندی کے خاتمے کی فوجی مہموں خاص طور پر آپریشن ضرب عضب کے دوران شمالی وزیرستان اور ملحقہ سات ایجنسیوں سے 80 فیصد علاقہ بازیاب کروایا جا سکا ہے اور اس کے دوران ایک ملین کے لگ بھگ افراد اندورن ملک آئی ڈی پیز ہوئے ہیں ۔ بعض ماہرین کے مطابق فاٹا کی آبادی دس ملین کے لگ بھگ ہوچکی ہے ۔
آبادی کی چاہے کوئی بھی مصدقہ تعداد ہو لیکن اس علاقے میں ترقیاتی فقدان کا اندازہ چند امور سے ہی لگایا جا سکتا ہے ۔ علاقے میں ایسی کوئی یونیورسٹی نہیں ہے جس نے گذشتہ سال سے اب تک کوئی طالبعلم داخل کیا ہو اور نہ ہی کوئی صنعتی زون بنایا جا سکا ہے۔
ڈاکٹر اشرف علی اسلام آباد میں واقع فاٹا ریسرچ سنٹر کے سربراہ ہیں اور وہ فاٹا کے مسائل پر سیمینار اور گفتگو کراوتے ہیں ۔ ان کے تحریر کردہ فاٹا کے موضوع پر تحقیقی مضامین تیگاہ نامی مجلے میں شائع ہوتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر فاٹا کے لئے تیار کردہ دس سالہ ترقیاتی پروگرام اپنی اصل روح اور منصوبے کے مطابق عمل میں لایا جاتاتو یہاں کے رہائشیوں کے لئے ملازمت کے کثیر مواقع پیدا کئے جاسکتے تھے ۔ کے پی اور فاٹا کے باصلاحیت نوجوان یا تو اپنی قسمت آزمانے لاہور یا کراچی جیسے بڑے شہروں کو نقل مکانی کرجاتے ہیں یا وہ جرائم کا راستہ اختیار کرکے جلد امیر ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جواد شنواری ان میں سے ایک ہے جنہوں نے بڑے شہر میں نقل مکانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وہ 1997 میں کراچی اس لئے چلے آئے تھے کہ انہیں اپنے خاندان کا معاشی سہارا بننا تھا ۔ اپنے اس سفر کے لئے انہیں اپنے گاؤں میں رقم قرض لینا پڑی۔ پہلے پہل تو انہوں نے ٹرانسپورٹ کے آڑھتی کی حثییت میں مختلف شپنگ کمپنیوں کے ساتھ کام کیا ۔ انہیں اس شہر کی بودوباش سمجھنے میں تین سے چار سال تک کا عرصہ لگ گیا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنا کاروبار شروع کرلیا ۔ اب قریب بیس سال بعد وہ15 ملین روپے کی مالیت کے ایک پلازے کے مالک ہیں جس میں چالیس دکانیں ہیں اس کے علاوہ ان کی ملکیت میں ہوی وہیکلز بھی شامل ہیں۔منکسر اور سادہ مزاج قبائلی تاجر پاکستان کےمعاشی دارلحکومت میں اپنی کہانی سناتا ہے ۔
مقامی سطح کے گرین شنواری ہوٹل کے مالک سے بھتہ مانگا گیا ۔ اس نے مزاحمت کی تو اسے درجنوں افراد کی موجودگی میں اس کے ہوٹل کے سامنے قتل کردیا گیا۔میں نے اپنا پیارا، اس ساحلی شہر کے لئے بہت مشکل اور غیریقینی میں چھوڑا تھا ۔ہمارے بزرگوں کی استطاعت نہیں تھی کہ وہ ہمارے لئے روزی روٹی پوری کرسکیں۔ جاوید یاد کرتے ہیں کہ انہیں 2011 سے 2013 تک کا زمانہ بھی یاد ہے جسے شہر کی سماجی اور معاشی زندگی غارتگری کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ جاوید ساحل کے قریب ایسے علاقے میں رہتے ہیں جو ٹرکوں کے اڈوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ یہ علاقہ لیاری کی گینگ وار کی وجہ سے مختلف حصوں میں بٹ گیا تھا اور یہاں پہ کاروبار کو جرائم پیشہ افراد نے آپس میں بانٹ رکھا تھا ۔ اس علاقے کی دیواروں پہ ابھی بھی جرائم پیشہ گروہوں کی تحریر کی ہوئی نعرے بازی اور بنائے گئے نقش و نگار دکھائی دیتے ہیں ۔ گینگز کی زبان میں اس علاقے کا نام نمبر 55 تھا ۔ ایک دیوار پر شکیل اور بلال کے نام درج ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس علاقے نمبر 55کا انتظام ان کے ہاتھ میں تھا ۔ملازمت پیشہ لوگوں اور رہائشی افراد کے دلوں میں خوف گہرائی تک جا چکا ہے ۔مقامی مجرموں اور دہشتگردوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسا کہ رینجرز کی قابل دید کوششوں اور کامیابیوں کے باوجود ماڑی پور اور ملحقہ علاقوں کے رہائشی گینگ وار کے دور کی بربریت جیسا کہ بھتہ خوری ، اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت، کا ذکر کرتے ہوئے خوفزدہ ہو جاتے ہیں ۔ نثار خان ، مقامی رہائشی ہیں انہوں نے تشدد اور دھمکیوں کے سبب یہ علاقہ چھوڑ دیا تھااور یہ دوسال تک روپوش رہے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں ۔ ”میرے پاس کچھ اپارٹمنٹس ہیں او ر میں برقی آلات کا کاروبار کرتا ہوں لیکن مسلسل دھمکیوں اور مختلف گروہوں کی جانب سے بھتہ مانگنے پر مجھے اپنا کاروبار بند کرنا پڑا”۔ان کے بقول گذشتہ تین سال ان کی تیس سالہ کراچی میں گزری زندگی کا بدترین دور تھے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کاروباری حلقوں اور رہائشیوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ جوں جوں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے کراچی میں آپسی اختلافات عروج پہ گئے لیاری کی گینگ وار بدتر ہوتی چلی گئی۔
تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے متشدد گروپس سیاسی مفادات کے لئے جڑتے چلے گئے ۔ ایم کیو ایم ، اے این پی ، پی پی پی ، اہل سنت والجماعت اور سنی تحریک سبھی جماعتوں کے پاس اسلحہ بردار لوگ موجود ہیں جو زمینوں پہ قبضے، قتل و غارت اور بھتہ خوری میں ملوث رہے ہیں ۔ ایک غیر تحریری معاہدہ تھا کہ کوئی کسی کی علاقائی حد پار نہیں کرے گا ۔ اگر کبھی بھی کسی گروہ کے فرد نے اپنی حد پار کی تو اگلے روز اس کی لاش ایدھی یا چھیپا کی ایمبولینس میں جاتی ہوئی ملی ۔
ماڑی پور میں ، مجھے بتایا گیا کہ ”بلال گینگ” کے ایک مسلح دیہاڑی دار کی روزانہ دیہاڑی 500 روپے ہے ۔ یہ لڑکے 15 سے 25 سال تک کی عمر کے ہوتے ہیں، ایک مقامی عینی شاہد نے مجھے بتایا۔ ہر دکان والا ہفتہ وار 1500 روپے بھتے میں دیتا ہے ۔ کسی میں بھی اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ ہفتہ وار بھتہ نہ دے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ بلال گینگ کا سرغنہ باقاعدگی سے مسجد میں نماز پڑھنے آتا ہے ۔ نثار خان ، جو میرے سوالات کے جواب دے رہے تھے ، انہوں نے ایک بار ہمت کی اور اس سے پوچھا کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ وہ باقاعدہ نمازی بھی ہو اور اس طرح کی مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ درشت لہجے میں بولا ۔ ” میں ایک مسلمان ہوں کافر نہیں ہوں”۔
مزاحمت کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے ۔ مقامی گرین شنواری ہوٹل کے مالک سے بھتہ مانگا گیا ۔اس نے مزاحمت کی اور بلال کے گینگ کے مقابلے کے لئے دوسرے گروہوں کی مدد مانگی ۔ پہلے پہل تو اسے کامیابی ہوئی ۔ مگر جلد ہی اسے درجنوں لوگوں کی موجودگی میں اپنے ہوٹل کے اندر گولیاں مار کے قتل کردیا گیا ۔ مقامی افراد بھرتی کے قاتلوں کی خوفناک کہانیاں سناتے ہیں ۔ ان کرائے کے لڑاکوں کا پسندیدہ کھیل بندوق چلانا ہے اور یہ ہلکے سے اشارے پہ کسی کو بھی قتل کردیتے ہیں ۔ لیاری کے گینگ اور دیگر جماعتیں ان کرائے کے قاتلوں کا بے رحمی سے استعمال کرتی ہیں ۔
مصنف ضیاءالرحمن اپنی کتاب ”کراچی ان ٹرمائیل ” میں لکھتے ہیں کہ اس ساحلی شہر کے مشرقی اور مغربی جانب پشتون آبادیاں موجود ہیں ۔1998 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق 1.3 ملین پشتون یہاں آباد تھے جو کہ شہر کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد تھے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ فوجی آمر صدر ایوب کے دور میں جب صنعتوں کو فروغ ملا تو پشتونوں کی آبادیوں کا بڑا گروہ یہاں منتقل ہوا۔22 سالہ عثمان خان یہیں کراچی میں پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی خیبر پختونخوا میں اپنے آبائی علاقے کو نہیں دیکھا۔ اب وہ اپنے والد کا بنایا تکوں کا کاروبار چلاتے ہیں جنہیں قتل کردیا گیا تھا ۔ ان کے ہاں 20 ملازمین ہیں اور وہ روزانہ 19 بھیڑیں ذبح کرتے ہیں ۔ اپنے ہوٹل کی شہرت کے لئے وہ اپنے باپ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ میرا باپ ، انہوں نے اپنے کندھوں سے اوپر لگی ہوئی اپنے باپ کی تصوریر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا ”اس لئے قتل ہوا کہ اس نے جرائم پیشہ گروہوں کو بھتہ دینے سے انکار کیا تھا”۔ وہ میری شادی کا دوسرا روز تھا ۔ اس سانحے نے ہمارے خاندان کو تباہ کردیا۔ میں صدمے میں چور تھا اور میری ماں کا بھی یہی حال تھا۔ تین سال تک کے لئے ہم نے اپنا ہوٹل کرائے پہ دے دیاا ور ہمارا کاروبار اور ہمارے مستقل گاہکوں کا ہم پہ اعتبار بہت متاثر ہوا۔ وہ قریب ہی رکھے کچرادان میں پان کی پیک تھوکنے کے لئے ایک لمحہ خاموش ہوگئے۔ ”ہمیں لگا کہ بدبختی پہاڑوں سے سمندر تک ہمارا تعاقب کررہی ہے ”۔ بہادر کاکا نے حسرت سے کہا ۔
یہ ایک نہ جھٹلا سکنے والا سچ ہے کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ پشتونوں کے علاقے میں لڑی جا رہی ہے جس کی وجہ سے روزی روٹی کے مواقع پاکستان کے اس خطے میں بہت تھوڑے رہ گئے ہیں ۔ طالبان اور فوج کے درمیان جنگ نے ہزاروں پشتونوں کو نچوڑ دینے والی گرمی اور جما دینے والی سردی اور بارشوں بھرے مون سون کے موسم میں خیموں کے اندر رہنے پہ مجبور کیے رکھا ہے ۔ ان خیموں سے لوگوں کو بہتر زندگی اور اچھے مواقع تلاش کرنے کے لئے نکلنا ہی تھا۔ کراچی ، باوجود دہشت اور تشدد کے ، یہی ایک منزل تھا۔
67 سالہ بہادر کاکا ، جنہوں نے قریب ماضی ہی میں سوات سے کراچی ہجرت کی ہے کیونکہ مالاکنڈ ڈویژن کے حالات امن وامان کی خرابی کے سبب رہنے کے قابل ہی نہیں تھے ۔ انہوں نے اپنی زرعی زمین پہ اپنے رہنے کے لئے گھر تو تعمیر کیا لیکن وہ ملا ریڈیو (فضل اللہ، امیر تحریک طالبان سوات) کی مہربانیوں سے وہاں کبھی بھی رہ نہیں سکے ۔ دیگر بہت سے پشتونوں کی مانند بہادر تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی خاص کام مہارت کے حامل ہیں ۔ لہذا وہ 8 ہزار روپے کی معمولی تنخواہ پہ سیکورٹی گارڈ کی ملازمت کرنے پہ مجبور ہیں ۔ ریاستی طاقت اور مذہبی انتہاء پسندوں کے درمیان جنگ سے بچنے کے لئے انہیں بھی کراچی ہی پرامن عافیت نظر آئی اور وہ یہاں چلے آئے ۔ ” ہمیں لگا کہ بدبختی پہاڑوں سے سمندر تک ہمارا تعاقب کررہی ہے۔” وہ حسرت سے کہتے ہیں ۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) جو کہ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے اپنے آپ کو عموماً اردو بولنے والی مہاجر اکثریت کا محافظ جانتی ہے جو 1947 کی تقسیم میں یہاں کراچی ہجرت کر آئے تھے ۔ نسلی تشدد کے زمانے میں جس کی شکل و صورت گینگ وار جیسی تھی اس دوران پشتون قوم پرست اے این پی اور ایم کیو ایم کے درمیان دشمنی عروج پہ رہی ہے۔ اے این پی کے رہنما شاہی سید اپنے سیاسی مخالفین پہ کھلم کھلا الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”ایم کیوایم کے اس رویے کے سبب کہ اس شہر پہ ان کی گرفت کمزور پڑ جائے گی ،نجی اور سرکاری اداروں میں اردو نہ بولنے والوں کے خلاف متعصب رویہ عمومی بات ہے۔ ” پشتونوں کو شناختی کارڈ کے حصول میں روایتی طور پہ مشکلات رہی ہیں اور جب کسی کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوتا تو اس کے لئے سکول کالجز میں داخلہ لینا یا ووٹ کے لئے رجسٹریشن کروانا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ قوم پرست سیاستدان کی حثیت سے شاہی سید کہتے ہیں کہ اس حربے سے کراچی کے پشتون کو اس کے حق رائے دہی سے محروم رکھا جا رہا تھا ۔ فضل عزیز کراچی کے صحافی ہیں جو وائس آف امریکہ کے لئے کراچی سے پشتونوں کی ثقافتی ، سیاسی ، سماجی اور معاشی پریشانیوں کو رپورٹ کرتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ساحلی شہر میں شناختی بحران اور انجانے خوف کے سبب یہاں کے پشتون اکٹھے ہوکر کچی آبادیوں میں رہتے ہیں ۔
تاریخی طور پر تو یہ اکثریتی ایم کیو ایم اور کہیں کہیں پیپلز پارٹی کی حمایت والا شہر تھا جہاں سے نسلی تقسیم کی بناء پر انہی جماعتوں کے نمائندے صوبائی اسمبلی میں پہنچتے تھے ۔ ایم کیو ایم کے منحرف رہنما اور کراچی کے سابقہ میئر مصطفیٰ کمال جو کہ اب پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ ہیں، شہر میں انہیں ان کے ترقیاتی منصوبوں کے سبب یاد کیا جاتا ہے تاہم پشتون برادریوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ ان کی ترقیاتی دلچسپی کے علاقے اردو بولنے والی آبادیاں ہی تھیں، پشتون علاقے ان کے ترقیاتی منصوبوں میں بھی نظر انداز کئے گئے ہیں ۔ فضل عزیز مزید وضاحت کرتے ہیں کہ کراچی کے پشتون سیاسی رہنما بھی اسی طرح تقسیم ہیں جس طرح ان کے ووٹرز، یہی وجہ ہے کہ شہر کی سیاست میں وہ ابھی تک بھی کوئی سیاسی قوت نہیں بن سکے۔اسی اثنا میں ایک دوسری پشتون قوم پرست جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے پشتون حلقوں میں سیاسی شعور کے لئے بہت کام کیا ہے اور آئندہ آنے والی سندھ اسمبلی میں پشتونوں کو ان کی آبادی کے مطابق نمائندگی کا حق ملے گا ، ان کے مطابق کہ اس کی قیادت انہی کی جماعت کرے گی۔فضل عزیز کو ایسے دعوے مشکوک لگتے ہیں ۔ پہلے پہل اے این پی اپنے حمایت یافتہ علاقوں میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں جیت لیتی تھی مگر حالیہ انتخابات میں انہیں ان دونوں نشستوں پر شکست ہوئی ہے ۔ پٹھان کالونی کے رہائشی یہ گلہ کرتے ہیں کہ ان کی سیاسی قیادت ان تمام وعدوں پہ پوری نہیں اتری جن کا وہ دعویٰ کرتی رہی ہے۔
شہر کی پشتون آبادیوں میں انٹرویوز کے دوران میں نے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں ٹرانسپورٹرز ، ہوٹل مالکان ، اعلیٰ تعلیم یافتہ ، سیاسی قائدین اور نوجوان شامل تھے سے بات چیت کی، ان تمام طبقوں کے افراد نے بہت خوشی سے مجھے وقت دیا تاہم کسی بھی سطح سے مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ کراچی کے مجموعی سماج میں پشتون عورت کیا کردار ادا کرہی ہے۔
فضل عزیز جلد ہی اس رویےکی مذمت کرتے ہیں کہ پشتون عورت کے کردار کو مردوں نے گھر کی روایتی چاردیواری تک محدود کررکھا ہے ۔ خواتین کو شہر کی سماجی زندگی سے محروم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ پشتون آبادی نے اپنےطبقے کے نصف کو کسی بھی قسم کی روزمرہ سماجی سرگرمیوں میں موثر کردار ادا کرنے سے روک دیاہے۔ضیاء الرحمن اپنی کتاب ”کراچی ان ٹرمائیل ” میں پشتون آبادی کا اندازہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ موجودہ وقت میں کراچی کے اندر پشتون آبادی لگ بھگ 4 ملین سے 6 ملین کے درمیان ہے۔ اس کا مطلب کہ شہر کی 25 فیصد آبادی اور سندھ کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد پشتونوں پہ مشتمل ہے ۔مشکلات کے باوجود معاشی اور سیاسی محاذوں پر گذشتہ دہائیوں کی نسبت اب کے پشتونوں نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ بہت سے ایسے خاندان ہیں جو گذشتہ چند سالوں میں کچی آبادیوں اور غیرترقی یافتہ علاقوں سے نقل مکانی کرکے نئے آبادشدہ مہنگے رہائشی علاقوں میں منتقل ہوئے ہیں ۔ تاہم ابھی بھی شہر کی سماجی اور ادبی زندگی میں وسیع شمولیت کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ ابھی شہری ثقافت سے فاصلے پہ ہیں۔ بہت سی پشتون تنظیمیں کراچی میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کررہی ہیں ۔
ضیاءالرحمن کے مطابق ایک وقت تھا جب کراچی میں پشتو زبان کی فلمیں دکھانے والے 20 سینماگھر موجود تھے لیکن اب سستے انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات کی وجوہات سے بہت سے خاندان فلمیں اپنے گھرو ں پہ ہی دیکھ لیتے ہیں۔ ضیاء نے مزید کہا کہ نئی ٹیکنالوجی کے علاوہ جو ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کمرشلائزیشن کی وجہ سے جائیداد کے کاروبار سے وابستہ لوگ تفریحی تنصیبات کی بجائے کمرشل پلازوں اور شاپنگ سنٹرز کی تعمیر ات میں پیسہ لگا رہے ہیں ۔ جس سے اس ساحلی شہر کی خوبصورتی متاثر ہورہی ہے ۔”سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اسلحہ بردار گروہوں کا ڈربھی لوگوں کو بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پہ اکٹھا ہونے سے خوفزدہ رکھتا ہے۔ وہ ایسی جگہوں پہ اب نہیں جاتے۔ ”
محمد ارشد خان جو کہ اپنے قریبی دوستوں میں “میک” کے نام سے مشہور ہیں، کراچی میں رہنے والے ایک پیشہ ور فنکار ہیں جنہیں اس لاکھوں کی آبادی والے شہر سے بہت عقیدت ہے ۔ ان کے خاندان کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی سے ہے ۔ وہ اس کی صدیوں پرانی روایت سے جڑے ہوئے ہیں ۔ثقافتی دولت سے مالامال صوابی صدیوں تک گندھارا تہذیب کی موسیقی اور فن کی روایات کا محافظ رہا ہے ۔میک اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ کراچی میں پشتون ادبی اور ثقافتی زندگی زندہ رہے ۔ ”اگر ثقافت پھل پھول گئی تو سیاست خود بخود بہتر ہوجائے گی ”۔ میک پر عزم ہیں ۔ پرامن کراچی صرف کثیر قومی ثقافت اور جمہوریت ہی کے دم سے ممکن ہو سکتا ہے ۔
یاسر علی کنڈی اور ان کے دوستوں نے 23 جولائی کو ”پشتون ثقافتی دن” منایا۔ کراچی کے لئے یہ ایک نایاب چیز تھی ۔ سینکڑوں کی تعداد میں پشتون اپنے اپنے ثقافتی لبا س پہنے اس تقریب میں شریک تھے ۔ اس روز کا آغاز ایک بڑی سی پرامن ریلی سے ہوا جس کا آغاز کراچی پریس کلب سے ہوا اور اختتام سی ویو پوائنٹ پرہوا۔ ہر عمر کے پشتون اپنے روایتی اور پرجوش انداز سے اس میں شریک ہوئے ۔ میں حیران ہوں کہ اس اتنی بڑی آبادی کی سیاسی قیادت کس طرح عاقب خان جیسے نوجوان لوگوں کی توقعات اور ضروریات کو پورا کرسکے گی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے حال ہی میں دسویں جماعت کا امتحان اپنے آبائی علاقے خیبر ایجنسی (فاٹا) میں پاس کیا ہے اور اپنے خاندان کا معاشی سہارا بننے کے لئے گھر سے بہت دورکراچی چلے آئے ہیں ۔ عاقب کی طرح کے لاتعدادنوجوان ہرسال لاقانونیت اور بد امنی کے باوجود بہتر مستقبل اور مواقع کے لئے کراچی کا رخ کرتے ہیں ۔
ان کا مستقبل ایک کھلے سوال کی طرح باقی ہے ۔
(ترجمہ: شوذب عسکری، بشکریہ فرائیڈے ٹائمز)
فیس بک پر تبصرے