سہولت کار اندر قاتل باہر ؟

1,713

ذرائع نے کمیشن کو بتایا سی پی او سعود عزیز نے جائے وقوعہ کو دھونے کا فیصلہ از خود نہیں کیا تھا۔ایک ذریعہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسے سعود عزیز نے خود بتایا کہ اسے آرمی ہیڈ کوارٹر  سے کال آئی تھی  جس میں کہا گیا تھا کہ جائے وقوعہ کو دھو دیا جائے ۔ایک اور ذریعہ نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ کال دراصل اس وقت کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز کی تھی ۔

انسداد دہشتگردی عدالت نے 9 سال بعد بینظیر بھٹو قتل کا فیصلہ سنا دیا ہے ۔جس کے تحت سابق سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم اشفاق کو سترہ سترہ سال قید کی سزا دی گئی ہے ۔عدالت نے پرویز مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے سابق صدرکو اشتہاری قرار  دیاہے۔پرویز مشرف کا مقدمہ ان کی غیر حاضری پر داخل دفتر کر دیا گیا جو ملک واپسی پر ری اوپن اور ٹرائل ہوگا۔

بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولیس افسران کو یہ سزا کیوں سنائی گئی ہے ؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ان افسران کے ذمہ بینظیر بھٹو کی حفاظت تھی مگر انہوں نے نہ صرف یہ ذمہ داری پوری نہیں کی بلکہ موقع پر موجود شواہد کو بھی مٹا دیا ۔اس حوالے سے بینظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش کے لئے اقوام ِ متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے صفحہ نمبر 33کے پیراگراف 133میں یوں درج ہے :

’’ذرائع نے کمیشن کو بتایا سی پی او سعود عزیز نے جائے وقوعہ کو دھونے کا فیصلہ از خود نہیں کیا تھا۔ایک ذریعہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسے سعود عزیز نے خود بتایا کہ اسے آرمی ہیڈ کوارٹر  سے کال آئی تھی  جس میں کہا گیا تھا کہ جائے وقوعہ کو دھو دیا جائے ۔ایک اور ذریعہ نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ کال دراصل اس وقت کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز کی تھی ۔کئی دیگر لوگ جن میں تین پولیس افسران بھی شامل ہیں انہوں نے کمیشن کو بتایا کہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ جائے وقوعہ دھونے کا حکم کہا ں سے آیا تھا مگرکوئی بھی یہ بتانے کو تیار نہیں ہے ۔کمیشن کی تحقیقات کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جہاں عام  لوگوں اورحکومتی افسران  نے آزادانہ طور پر بات کرنے میں خوف محسوس کیا ‘‘۔

یہ سعود عزیز ہی تھے جنہوں نے بینظیر بھٹو کی لاش کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا ۔اقوام ِ متحدہ کے کمیشن کو اس بات پر بھی حیرانی ہوئی کہ اتنے ہائی پروفائل کیس میں سعود عزیز کیوں منتظر رہے کہ آصف زرداری دوبئی سے آمد کے بعد اجازت دیں گے تو پوسٹ مارٹم کیا جائے گا حالانکہ پولیس کے قوانین کے تحت وہ آزادانہ طور پر لاش کا پوسٹ مارٹم کروا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔

یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر ان دونوں پولیس افسران کو سزائیں دی گئی ہیں ۔اس سے قبل بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضی ٰ کوبھی ایک مبینہ پولیس مقابلے میں  مار دیا گیا تھا اس میں بھی 18پولیس افسران  کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا مگر ان افسران کو بعد ازاں دسمبر2009میں سیشن کورٹ نے بری کر دیا تھا ۔ان افسران میں اس وقت کے سندھ پولیس کے ڈی آئی جی شعیب سڈل ، سابق سربراہ آئی بی مسعود شریف ،ایس ایس پی واجد درانی ،اے ایس پی شاہد حیات اور دیگر شامل تھے ۔

اب بھی ممکن ہے کہ بینظیر بھٹو کیس میں سزا پانے والے پولیس افسران بھی بری ہو جائیں ۔کیونکہ لیاقت علی خان سے بینظیر بھٹو تک ہر سیاسی قتل کے پیچھے سیاسی اور عالمی محرکات  اور کردارتھے ۔جنہیں جانتے پہچانتے سب ہیں مگر انہیں عدالتوں میں لایا جا سکتا ہے نہ ہی ان پر جرح کی جا سکتی ہے ۔22نومبر 1963کو جب امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا توان کی جگہ پر نائب صدر لنڈن بی جانسن صدر بن گئے ۔امریکی تجزیہ کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر جان ایف کینیڈی کو قتل نہ کیا جاتا تو   امریکہ کی ویت نام جنگ میں شمولیت کی تاریخ قطعی مختلف ہوتی اور اتنی بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کو اس جنگ میں نہ جھونکا جاتا ۔

سیاسی قتل جہاں بھی ہوتے ہیں ان کے محرکات بڑے گہرے ہوتے ہیں اور عالمی حالات پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ سہولت کار پکڑے جاتے ہیں مگر قاتل آزاد پھرتے ہیں ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...