میراث میں برابری کی نئی بحث

1,385

تیونسی صدر الباجی قائد السبسی کے گزشتہ اتوار کو خطاب نے عرب اور اسلامی دنیا میں میراث میں مساوات کی ایک بحث چھیڑ دی ہے جو کہ اس اعتبار سے نئی ہے کہ پہلی مرتبہ کسی اسلامی ملک کے صدر کی جانب سے اس کا آغاز ہوا ہے۔تیونسی صدر نے اپنے خطاب میں سابق صدر حبیب بورقیبہ کے عہد میں منظور ہونے والے اس قانون کو بھی تبدیل کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں تیونسی خواتین کو کسی غیر ملکی سے شادی کرنے سے روکا گیا ہے تاوقتیکہ وہ مسلمان نہ ہو جائے۔تیونسی صدر نے اپنے خطاب میں کئی دفعہ عوام کو دین سے جڑے رہنے پر زور دیا اور کہا کہ انہیں یقین ہے کہ تیونس کے مصلح اور مومن قانون ساز ضرور کوئی ایسی صورت نکالیں گے جو نہ دین اسلام کے منافی ہو اور نہ ہی تیونس کے دستور سے ٹکراتی ہو۔ باجی السبسی کے اس بیان کا تیونس کے دارالافتاء سمیت عورتوں کے حقوق کی تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں نے خیرمقدم کیا ہے جبکہ تیونس سمیت متعدد عرب ممالک سے عوام اور مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے تاہم تیونس کی سب سے بڑی مذہبی وسیاسی جماعت النھضہ(جو کہ اب صرف سیاسی جماعت ہی کہلوانا پسند کرتی ہے) کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔گزشتہ برس النھضہ کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی کی جانب سے پارٹی پالیسی میں تبدیلی اور مسلم جمہوریت کے فلسفہ کو متعارف کروانے کے بعد ممکن ہے کہ اس موقع پر کسی بھی قسم کی بیان بازی کو وہ پارٹی کی نئی پالیسی سے انحراف سمجھتے ہوں۔تیونس کی ائمہ مساجد آرگنائزیشن نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے ائمہ و خطبا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمعہ کے خطبات میں اس موضوع پر روشنی ڈالیں اور عوام کو مطلع کریں کہ یہ امر کس طرح شریعت سے متصادم ہے۔ائمہ مساجد کی اس تنظیم کے علاوہ دیگر آٹھ عرب تنظیموں نے بھی میراث میں مرد اور عورت کی برابری اور مسلمان عورت کی غیر مسلم سے شادی کے قانون کے غیر شرعی اور قرآن و اسلامی احکام کے ساتھ کھلواڑ قرار دیا۔
عورت اور مرد کی حق میراث میں برابری کی بحث کوئی نئی نہیں ہے،تقریبا ہر عشرے میں کسی نہ کسی خطے میں ایک مرتبہ اس بحث کا اعادہ ضرور ہوتا ہے اور ہر مرتبہ پرانی شراب کے لیے نئی بوتل تیار کی جاتی ہے۔حالیہ بحث میں نئی بات یہ ہے کہ اس موضوع کو اب کی بار کسی دانشور،مستشرق یا عام سیاستدان نے نے نہیں چھیڑا بلکہ پہلی مرتبہ کسی اسلامی ملک کے سربراہ کی جانب سے اس بحث کا آغاز ہوا ہے۔ قبل ازیں گولڈ زیہر جیسے مستشرقین اور نصر حامد و حسن حنفی جیسے ان کے پیروکاروں نے اپنی تصنیفات و مقالات میں چند فقہی مسائل پر اپنے تئیں تنقید کی اور ان کی بنا پر اسلام کو نشانہ بنایا۔معترضین کی جانب سےمیراث میں برابری کے مطالبہ کی بنیاد تاریخی ہے،ان کا کہنا ہے کہ اسلامی احکام کو سمجھنے کے لیے اس وقت کے معاشرے کو سمجھنا ضروری ہے جو ان احکامات کے اولیں مخاطب تھے۔چونکہ اس معاشرے میں مرد کو فوقیت حاصل تھی اور عورت بالکل بھی میراث کی حقدار نہیں سمجھی جاتی تھی اس لیے اس زمانے کی روح کے مطابق مرد کی فوقیت کو برقرار رکھتے ہوئے عورت کو بھی ابتدا میں نصف میراث کا مستحق قرار دیا گیا جو کہ اس معاشرے کے لیے قابل قبول تھا۔اب زمانے کے بدلنے سے صورت حال کافی مختلف ہے،عورتیں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں،جنگیں لڑتی ہیں اور پہلے معاشرے میں عورت کی مساویانہ حیثیت قبول کرنے کی جو صلاحیت نہیں تھی ،اب وہ پیدا ہو چکی ہے اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ میراث میں بھی عورت کو مرد کے مساوی حق دیا جائے۔ ان کا استدلال حضرت عمر کا وقت بدلنے کی وجہ سے مولفۃ القلوب کی عطایا روکنا ہےحالانکہ یہ استدلال درست نہیں،حضرت عمر نے صرف ان لوگوں کی عطایا کو روکا تھا جن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے تھے یہ وہ مولفۃ القلوب نہین رہے،ورنہ یہ حکم تو تمام فقہا کے نزدیک اب بھی موجود ہے۔رہی بات تاریخ کی تو یہ انتہائی خطرناک ہے،اس سے تو اسلام کے تمام احکام متاثر ہوں گے اور یہ آفاقی مذہب اپنی عالمگیریت سے سمٹ کر ایک خاص خطے اور معاشرے تک کے لیے محدود ہو کر رہ جائے گا اور جو شریعت ہر زمان و مکان کے لیے آئی ہے اس کی بالادستی کی بجائے زمانہ و معاشرہ کی شرعی نصوص پر بالادستی قائم ہو جائے گی کہ یہ شریعت ایک خاص زمانے کے لیے تھی،آج زمانہ تبدیل ہوا تو ہمیں اب شریعت کو بھی تبدیل کر کے اپنے زمانے کے موافق بنانا ہو گا۔ شاید کسی ایسے ہی موقع کے لیے ااقبال نے کہا تھا ،خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔

آج بھی اگر میراث کی تقسیم کے مکمل قانون کا دیگر مذاہب و اقوام کے قوانین سے موازنہ کیا جائے تو اسلامی قانون میراث ہی عورتوں کے حق میں سب سے موزوں نظر آئے گا

عورت کو نصف حق دینے کو تدریجی عمل قرار دینا بھی درست نہیں کیونکہ جب میراث کے احکام سے متعلق آیات نازل ہوئیں تو کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہماری خواتین اور چھوٹے بچےجنگ میں شریک نہیں ہوتے لہذا انہیں ہم کچھ حصہ بھی نہیں دیں گے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ عورت کو نصف حصہ دینا کوئی کلی قاعدہ نہیں ہے بلکہ ایسا صرف دو صورتوں میں ہے،ایک بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان میراث کی تقسیم کے موقع پر اور دوسرا بہنوں اور بھائیوں میں تقسیم کے وقت، ان دو صورتوں کے علاوہ بہت سی ایسی صورتیں ہیں جن میں مرد اور عورت کا حصہ مساوی ہے بلکہ شرعی قوانین کی رو سے بعض صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں صرف عورت ہی میراث کی مستحق ہوتی ہے مرد نہیں۔اگر مرد کے شانہ بہ شانہ کام کرنے اور جنگیں لڑنے کو ہی میراث میں مساوی حق کا معیار قرار دیا جائے تو ایسی صورت میں چھوٹے بچے اور ایسے معذور افراد جو کسی جسمانی نقص کی وجہ سے کام کاج کرنے سے عاجز ہیں وہ بھی میراث سے محروم قرار پائیں گے جو کہ صریح زیادتی ہو گی۔
بہت سی غیرمسلم خواتین بھی مسئلہ میراث کے تقابلی مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچیں کہ وہ اپنے لیے اسلامی طریقہ میراث کو پسند کرتی ہیں،آج بھی اگر میراث کی تقسیم کے مکمل قانون کا دیگر مذاہب و اقوام کے قوانین سے موازنہ کیا جائے تو اسلامی قانون میراث ہی عورتوں کے حق میں سب سے موزوں نظر آئے گا۔ تفصیل کے لیے ادارہ تحقیقات اسلامی کے عربی ریسرچ جرنل الدراسات الاسلامیہ میں اس موضوع پر شائع ہونے والے تحقیقی و تقابلی مقالہ ـمسئالۃ الارث:دراسۃ تقابلیۃ ۔ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...