مذہب، سیاست اورروحانیت

1,494

عمران خان بحران سے دوچار کیفیت میں رات کی تاریکی میں پاک پتن میں بابافرید گنج شکرکے مزارپرگئے۔ وہ اس سے پہلے بھی اسی علاقہ میں پنکی کے نام سے موسوم ایک خاتون کے پاس اظہارعقیدت کے طورپرجاتے رہے ہیں۔   وسعت اللہ خان نے عمران خان کے پیرکی خدمت اورمزاروں پرجانے پرایک طویل مضمون  میں بے نظیربھٹو، آصف علی زرداری اورنوازشریف کے مختلف پیرصاحبان اورمزارات سے اظہارعقیدت اورحاضری کااحوال لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ “جنھیں کروڑوں عوام مرکزِ امید سمجھتے ہیں ،ان کا اپنا مرکزِ امید کہیں اور ہوتا ہے۔یعنی عوام، سیاسی رہنماوں سے اوروہ کسی اورسے امید لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔

معاصر جریدے نے اس موضوع  پرباقاعدہ اداریہ شائع کیا۔جس  کاعنوان “روحانی ہدایت” تھا۔ اداریہ نویس کا کہنا ہے  کہ ملک کے سیاسی رہنما اپنے اندرخود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے اس طرف متوجہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ فیصلہ کرنے اورطاقت کاسرچشمہ کہیں اورہے۔ سماج کااوپرسے لیکرنیچے تک سبھی شہری روحانی ہدایت کے حصول کے لئے سرگرداں نظرآتے ہیں۔ یہ ان افراد کی تلاش میں رہتے ہیں جوکرامات اور ستارہ شناسی جیسے امورکے لئے مشہورہوتے ہیں۔ حدتویہ ہے کہ نوازشریف جیسا بزنس مین بھی اس راہ ورسم کو عقیدہ  سمجھتا ہے۔ عام طورپرسمجھاجاتا ہے کہ اگرجاگیردار پیری مریدی سے وابستہ ہوں تو یہ بات شائد  باعث حیرت نہ ہومگرجدید سرمایہ دارانہ شعبوں جیسے بزنس اورٹیکنالوجی سے وابستہ افراد لازمی طورپرجدید خیالات سے وابستہ ہوں گے۔

پیراورمزارات پرحاضری اس قدراہمیت کی حامل ہے کہ عمران خان نے قومی اسمبلی کے اس سیشن سے زیادہ بابافریدکے مزارپرحاضری کوضروری سمجھا جس میں وزیراعظم کاچناوتھا۔ اخبارات میں خبریں آرہی تھِیں کہ عمران خان نے اپنے نامزد کردہ وریزاعظم شیخ رشید کوووٹ نہیں دیا اورپاک پتن چلے گئے، جہاں وہ اپنی پیر بشری بی بی عرف پنکی کے ہاں حاضری کے بعد بابافرید کے مزارپرگئے۔ یہ بات خالی ازدلچسپی نہیں کہ پنکی صاحبہ ایک بہت بڑے بیوروکریٹ کی بیوی اورسا بق وزیرکی بہن ہے۔ معاصر جریدے  نے سیاستدانوں کومشورہ دیاہے کہ وہ مثال بنیں اورحقیقی دنیا میں رہیں اس کااثرعام عوام پرپڑے گاجوناخواندگی کی وجہ سے کمزوراعتقاد کاشکاربنتے ہیں۔ اس امرپر بھی تشویش کااظہارکیاگیاہے کہ اگراعلی طبقہ کے رہنمااس طرح ضعیف الاعتقادی کا مظاہرہ کریں گے توغریب اورغیرتعلیم یافتہ سے کیاگلہ کیاجاسکتاہے۔

یہی نہیں کہ یہ رہنما محض پیروں کے پاس اورمزارات پرجاتے ہیں بلکہ یہ تبلیغی جماعت اوراس کے رہنمامولانا طارق جمیل کے ساتھ نشست وبرخاست کرتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کے ساتھ عمران خان اورریحام خان کے ساتھ تصاویرموجود ہیں۔ محترمہ بے نظیربھٹو جب 18اکتوبر2007 کوجب پاکستان واپس لوٹیں توجہازسے قران مجید کے سائے میں اتری اوراس کے بازوپر امام ضامن بندھاہواتھا۔ کراچی یونیورسٹی کے ایک استاد نے مجھے بتایاکہ اہم وجہ یہ نہیں کہ برطانیہ اورامریکہ کی اعلی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بے نظیربھٹو اس پرپکا اعتقاد رکھتی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت اس بات پریقین رکھتی ہے۔ اسی شب جب کارسازکراچی میں بے نظیر بھٹو کے قافلہ پر  حملہ ہواتووہ اس میں محفوظ رہیں۔ فرقہ پرست اورمخصوص مذہبی ناموں پرقائم تنظیموں کے علاوہ پاپولرسیاسی رہنما متضاد مذہبی عقائد رکھنے والے گروہوں کومائل کرنے کے لئے ان کے مذہبی پروگراموں اورتہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ نوازشریف ذہنی طور پر بریلوی مکتب فکر سے قربت رکھتے ہیں مگر وہ اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیےدیوبندیوں کی  تبلیغی جماعت اور ان کے امیر حاجی عبدالوہاب سے بھی ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں ۔

لبرل لیفٹ، ترقی پسند، روشن خیال اورقوم پرست ایک عرصہ سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ملک کوسیکولراصولوں پرچلایاجائے۔ ایک عرصہ سے کوشش کی جارہی ہے کہ شدت پسند اسلامی عناصر کامقابلہ روایتی اسلام سے کیاجائے جس کی بنیاد صوفیاِئے کرام کی تعلیمات میں ملتی ہیں۔ یہ بریلوی مکتبہ فکرکے نزدیک ترہے جس میں مزارات کومرکزی مقام حاصل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری  جنگ میں اس کوبھی اہم گرداناگیااوراس پرکافی رقم بھی خرچ کی گئی کہ اس کوآگے لاکرطالبان طرزاسلام کا متبادل پیش کیا جاسکے۔ یوںمحفل سماع اورقوالیوں کوباقاعدہ پروجیکٹ بھی کیاگیا۔ اب عمران خان اوردیگررہنماجوپیروں کے پاس اور مزارات پرجاتے ہیں ،ان پربھی اعتراضات شروع ہوگئے کیونکہ  لبرل بھی پیروں اورفقیروں کے قائل نہیں اور یہ بھی مذہب اورروحانیت میں فرق نہیں کرپاتے،یہ دونوں کوایک کردیتے ہیں اوریہیں پرسارامسئلہ پیدا ہوتاہے۔  روحانیت اورمذہب کوجہاں ایک سمجھاجاتاہے،وہاں اس میں فرق بھی کیاجاتاہے۔ کہاجاتاہے کہ مذہب، روحانیت کے حصول کاایک ذریعہ ہے۔ یوں روحانیت کی ضرورت ماقبل تاریخ بھی پائی جاتی ہے۔ اکثرکہاجاتاہے کہ غیرمذہبی معاشروں میں بھی روحانیت کی ضرورت باقی رہے گی۔ عام طورپرروحانیت کوموضوعی گرداناگیاہے جو وجدان سے حاصل ہوتاہے۔ دراصل روحانیت، فطرت یا قدرت (نیچر) سے قربت کاذریعہ ہے۔ انسان جوں جوں سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہوتاہے یہ ثقافتی ہوجاتاہے اورفطرت سے سے دوری اختیارکرتاجاتاہے، تواس سے بےگانگی جنم لیتی ہے۔ روحانیت دراصل فطرت (نیچر) سے قربت کے حصول کاذریعہ ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...