پاکستان کے نئے مخمصے

1,238

 

پاکستان مخمصہ پسند ملک ہے۔ ہمیں ہر روز نیا مخمصہ چاہیے۔ اور نیا نہ ملے تو پچھلے کو ہی اتنا گھسیٹتے ہیں کہ صیقل ہوکر نیا لگنے لگتا ہے۔ اب پانامہ کو ہی لیجئے اس میں کیا نیا تھا۔ رشوت کب نہیں لی جاتی تھی اور کون نہیں لیتا تھا۔ منی لانڈری بھی کوئی عجوبہ نہیں رہا۔اقربا نوازی بھی صدیوں پرانی ہے۔  ہم نے ان کو مذہب اور اخلاق کا مسئلہ بنا کر اور صادق اور امین سے جوڑ کر اچھا خاصہ مخمصہ بنا لیا۔ سب جانتے ہیں کہ اصل مسئلہ رشوت اور اقربا پروری نہیں جمہوریت ہے جو کسی کو ہضم نہیں ہوتی۔ بلکہ  یوں کہئے کہ حقیقی مخمصہ ہی جمہوریت ہے۔  کچھ لوگ سمجھتے ہیں  کہ جمہوریت اسلام کے لئے خطرہ ہے۔ اور باقی اسلام کو جمہوریت کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم لوگ جمہوریت کے سوال پر اسلئے بٹے ہوے ہیں کہ کچھ لوگ سیاست کے  معاملے میں صداقت اور امانت کو لا یعنی سمجھتے ہیں اور کچھ رشوت اور اقربا نوازی کو۔ یہ اتنا پرانا مخمصہ ہے کہ جتنا چاہیں گھس لیں یہ نیا نہیں ہو سکتا ۔

بعض بہی خواہوں کا کہنا ہے کہ اس کام کے لئے ایک نیا عمرانی معاہدہ درکار ہے۔ ہمیں اس مطالبے میں بھی انصاف پسندوں کی سازش نظر آ رہی ہے۔ عمرانی معاہدے میں عمران کا نام جان بوجھ کر استعمال کیا جارہا ہے۔ تا کہ مفاہمت کی بجائے توجہ عدل و انصاف کی طرف مبذول رہے۔ ہمارے خیال میں عمرانی معاہدہ کی بجائے اسے “نیا مخمصہ” کہنا بہتر ہوگا۔اس طرح نیا مخمصہ بھی مل جائے گا اور”بے نامی ” بھی رہے گی۔

شاید آپ کو اعتراض ہو کہ “مخمصہ” تو ایسے مسئلے کو کہا جاتا ہے جو لا ینحل ہو، معمہ ہو۔ بالکل بجا فرمایا۔ اکثر لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ پاکستانی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سارے تھنک ٹینک  سمجھتے ہیں کہ انہیں مسائل کے حل تلاش کرنے کے لئے قائم کیا  گیا ہے۔ لیکن جب مسائل حل ہونے کے قریب ہوتے ہیں تو نئے تھنک ٹینک اور نئے کمیشن مقرر کردئے دئے جاتے ہیں اور پچھلی رپورٹیں فائل کردی جاتی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ کھلی آنکھوں دیکھتے آپ غلط فہمی میں مبتلا رہیں تو یہ آپ کا مخمصہ ہے کسی اور کو اس میں نہ گھسیٹیں۔ اگر مسئلے حل ہوتے رہیں تو مخمصہ کیسے رہیں گے۔

آپ نے کبھی غور کیا کہ  ہم مخمصہ پسند کیوں ہیں؟  اس کا راز مخمصہ کے لفظ میں پنہاں ہے۔ مخمصہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ عربی زبان میں اس کا معنی انتہا کی بھوک ہے۔ ایسی بھوک جس میں حرام بھی حلال ہو جائے۔ مخمصہ خالی پیٹ کیفیت کا نام ہے۔ اردو میں مخمصہ کے معنی بدل دئے گئے۔ ایک تو یہ مان کر کہ بھوک لا ینحل مسئلہ ہے مخمصہ کا مطلب لا ینحل مسئلہ ٹھہرا۔ دوسرے خالی پیٹ کے لئے حلال اور حرام بے معنی ہوتے ہیں مخمصہ اردو میں  ٹو ان ون ہوگیا۔  یہ لا ینحل بھی ہے اور مسئلے کا  حل بھی اس میں موجود ہے۔ اس کے لئے کسی نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت نہیں یہ خود ہی ایک مکمل معاہدہ ہے۔

مخمصہ مسائل کا حل ہی نہیں مسائل کا فلسفہ بھی ہے۔ اردو زبان میں بہت سے مسائل اسی فلسفے سے حل ہوے ہیں۔ غربت کے مسئلے کو ہی لیں۔  غریب بھی عربی لفظ ہے جو اجنبی کے لئے بولا جاتا ہے۔  اردو میں بے حیثیت، بے چارے اور کنگلے کو غریب کہا جاتا ہے۔ایسا شخص جو ہم میں سے نہیں بے حیثیت، بے چارا اور کنگلا ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں صاحب حیثیت  امیر اور شریف کہلاتا ہے جو امر اور حکم کا اختیار رکھتا ہے۔ غور فرما ئیے یہاں بھی دہرا فائدہ اٹھایا گیا۔ ایک تو غریب باہر والا ہو جاتا ہے ۔ باہر والا عزیز اور شریف صرف اس صورت میں ہو تا ہے  جب اس کے پاس باہر کا پیسہ ہو یا اقامہ اور باہر کی شہریت ہو۔  دوسرا فائدہ یہ ہے  کہ اس طرح غربت مخمصہ قرار پاتا ہے۔ لا ینحل مسئلہ۔ جس کا حل تلاش کرنا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔

غربت پیسے کا مسئلہ اس لئے ہے کہ کسی زمانے میں پیسہ تانبے کا اور روپیہ چاندی کا ہوتا تھا۔ اب پیسہ ایلومینم کا اور روپیہ کاغذ کا ہے۔ اسلئے پیسہ اور کرنسی خود ایک بڑا مخمصہ ہے۔ پرانے زمانے میں زیادہ قیمت کا سکہ سونے کا اور چھوٹا چاندی کا ہوتا تھا۔ ان سکوں میں چاندی اور سونا  ان کی قیمت کے برابر ہوتا تھا۔ جب کرنسی کاغذ کی چلی تو اس کی قیمت سونے حساب سے مقرر کی گئی۔ امریکہ نے یہ قیمت سونے میں متعین کردی اور ساری دنیا کو آمادہ کیا کہ لین دین ڈالر میں ہو۔ چنانچہ مشرق وسطی میں تیل ڈالر میں خریدا جاتا اور امریکی بنکوں میں رکھا جاتا۔ لیکن بہت جلد  اس کاروبار میں سونا مخمصہ بن گیا۔ ہوا یوں کہ ڈالر میں کاروبار کی وجہ سے ڈالر کی گنتی بڑھتی گئی اور سونا کم پڑنے لگا۔

بعض ملکوں کے پاس ڈالر زیادہ ہوگئے تو انہوں نے امریکا میں کمپنیاں خریدنی شروع کردیں۔  یوں امریکہ کے لئے سونا مخمصہ بن گیا۔  سونے کے اس  مسئلے کو ٹریفن مخمصہ کا نام دیا گیا۔ ٹریفن امریکہ کا  ماہر معاشیات اسحق ڈار تھا۔ اس نے مسئلے کا حل یہ بتایا کہ سونے کی قیمت مقرر نہ رکھی جائے۔ جو مارکیٹ میں سونے کی قیمت ہو ڈالر کی قیمت اس کے حساب سے ہو۔ ایک نئی  خیالی کرنسی متعارف کرائی جائے جو ساری دنیا میں چلے لیکن اس کے کاروبار کی نگرانی  عام بنکوں کی بجائے آئی ایم ایف کے ذمے ہو۔ اس سے ایک نئی عالمی معیشت وجود میں آئی ۔ امیروں اور امیر ملکوں کے لئے نئی کمپنیاں بنیں جو آف شور یا بر سر ساحل تھیں جن پر ملکی قوانین نہیں لگتے تھے۔ یہ نئی معیشت پانامہ معیشت کہلاتی ہے۔ اس میں کاروبار، رشوت، معاہدے، جائداد، ٹیکس، ضمانت  غرض ہر چیز کے معنی بدل گئے۔  یوں پاکستان کو پاناما کا  نیا مخمصہ مل گیا۔

پاکستان اسلامی ملک ہے اس لئے یہاں پانامہ  مذہب کا مسئلہ بن گیا۔ مذہب عربی زبان کا لفظ ہے جس میں ذھب کے معنی سونا ہیں۔ مذہب کے معنی تو راستہ یا آنا جانا ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کے لئے  مذھب میں مرکز توجہ ذھب یعنی سونا ہے۔ یہ لوگ  اسی وجہ سے دین سے زیادہ مذہب کو قیمتی سمجھتے ہیں ۔ اب اس میں مخمصہ یہ ہے کہ سونے کی قیمت مقرر نہیں اور ڈالر کی حیثیت ہتھیار کی نہیں رہی۔ امریکہ کی یہ شہرت کہ وہ اپنی مالی حیثیت مستحکم رکھنے کے لئے دوسرے ملکوں کی معیشت اور سیاست میں دخل اندازی کرتا ہےمخدوش ہو گئی ہے۔ اب یہ کام ہر حکومت کو خود کرنا پڑتا ہے۔ پہلے جب بھی حکومت بدلی جاتی تو انگلی امریکہ کی طرف اٹھتی۔ اب انگلی تو اٹھتی ہے لیکن سازش کرنے والے کی  نشاندہی کے لئے نہیں۔ یہ سوال تو کیا جاتا ہے کہ میرا کیا قصور ہےَ؟ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ حکومت کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ لیکن سازش کرنے والے کی نشاندہی  نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ ایک انگلی کسی کی طرف تو باقی انگلیاں کسی اور طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔ سازش ریاست کی ہے  یا حکومت کی؟  حکومت کس کی تھی اور اب کس کی ہے؟ کئی سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

عربی میں چونکہ  ریاست کودولت کہتے ہیں۔ اس لئے اکثر عرب پسند دولت اور اقتدار سے سدا بہار رشتہ رکھنے کے قائل ہیں۔ یہ رشتہ نہ رہے تو ان کے لئے مخمصہ کھڑا ہو جا تا ہے۔ رشتہ دار عربی میں اقربا کہلاتے ہیں۔ اقربا پروری کا مطلب دولت کا رشتہ نبھانا بھی ہے۔اقربا قریب ہوتے ہیں۔ ساتھ چلتےہیں۔  ساتھ چلنے والوں پر اعتبار کیا جا سکتا ہے عربی میں ساتھ چلنے کو تماشا کہا جاتا ہے۔ اردو میں تماشا کھیل ہے۔ اسلئے پاکستان میں ساتھ چلنا ایک تماشا ہے دکھاوا اور کھیل۔ کھیل ہمیشہ نہیں کھیلا جاتا۔ ساتھ اسی وقت تک چلنا مطلوب ہے جب تک تماشا مطلوب ہے۔ الیکشن بھی تماشا سمجھ کر کھیلے جاتے ہیں۔ جن کا دورانیہ مختصر ہوتا جارہاہے تاکہ تماشا جاری رہے۔ البتہ اس تماشے میں وعدہ اب پنجابی کا وادھا لگنےلگا ہے۔ جمہوریت خود مخمصہ بنتی جارہی ہے۔ لبرل کے لئے بھی اور ٹوری کے لئے بھی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...