پشتونوں میں پاکستانیت کا بڑھتا رجحان

1,193

اس دفعہ 14اگست کو پشتونوں نے جس جوش وخروش سے منایااس کی مثال نہیں ملتی۔ کوئی ایک ماہ سے ہی یوم پاکستان کے لئے نوجوانوں اوربچوں نے یوم آزادی کے ملبوسات خریدنے شروع کردیے تھے  اورہرگزرتےدن کےساتھ یہ عمل تیزترہوتاگیا۔ یہ سب ماضی کے برعکس ہے۔ ماضی میں  پشتونوں کی اکثریت دیگرمظلوم اقوام کی طرح قوم پرست تحریک سے جڑی نظرآتی تھی اورکچھ توشدت کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کومٹاکرایک متحدہ پشتون وطن یا عظیم ترافغانستان کی تحریک کی جدوجہد کوعملی صورت دینے میں لگے ہوئے تھے مگر اس دفعہ ماحول بالکل عیدجیسا تھا۔ اگرچہ عید قریب ہے لیکن پھربھی پشتونوں نے بڑی تعدادمیں یوم پاکستان کے لئے شاپنگ کی۔ پشاورمیں میری جاننے والی 4بچوں کی ان پڑھ ماں نے بھی اس موقع کے لئے پشاورکینٹ جاکربچوں کے لئے خصوصی خریداری کرنے کے ساتھ ساتھ  اپنے لئے بھی نیاجوڑاخریدا۔ پشتون لڑکوں اور لڑکیوں نے بھی پاکستانی پرچم جیسے کپڑے خریدےیہاں تک کہ سابقہ قوم پرست طلبہ اورسیاسی کارکنوں کی نئی نسل نے بھی پاکستانی پرچم کے لباس تن کئے ہوئے تھے۔ کراچی میں ایک قوم پرست رہنمانے 13اگست کوہی دوایسے خوبصورت چھوٹے بچوں کی تصاویر شئیرکیں جوپاکستانی جھنڈے کے بیجزلگائے اورگالوں پرپاکستانی پرچم بنائے ہوئے تھے۔ ایک بچہ”جشن آزادی مبارک”والا کیپ پہنے ہوئے تھا۔ کئی سابقہ سرگرم پشتون قوم پرست اوران کی اولادیں پورے جوش وجذبہ سے جشن آزادی مناتے نظرآئے۔

پشتونوں میں بڑھتی ہوئی پاکستانیت کی سب سے آسان وضاحت کے لئے میڈیا کے اثرکاسہارالیاجاتاہےیعنی پاکستانی ریاست کاپروپگنڈہ جوالیکٹرانک میڈیا کرتاہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہاجاتاہے کہ تعلیمی نظام اورنصاب کے زیراثرایساہورہاہے۔ موٹروے پولیس کے اہلکارکےمطابق لوگ بہت برے حالات سے گزرے ہیں، اب یہ جشن مناناچاہتےہیں۔ سیاسی کارکن اورپی پی پی کےسابقہ عہدیدارولی اللہ کاخیال ہے کہ پشتون قوم پرست تحریک پیچھے چلی گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستانیت اوپرآگئی ہے۔ تجزیہ کارصباون بنگش قوم پرست تحریک کے پیچھے جانے کےساتھ یہ بھی کہتاہےکہ یہ سب اسکولوں کی وجہ سے ہورہاہے۔

“باچا خان پاکستان بننے کے نہیں مسلمانوں کی تقسیم کے مخالف تھے، پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ جناح صاحب ملک بننے کے ایک سال کے اندر وفات پاگئے، اگر قائداعظم دس پندرہ سال زندہ رہتے تو پاکستان میں اداروں کی تعمیر کرتے”

ماضی میں تعلیمی اداروں میں موجود نوجوان  پختون ایس ایف اورپی ایس او جیسی   ریڈیکل نظریات اورعلیحدگی پسند تنظیموں سے متاثرتھے مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ یہ تنظیمیں اب پسماندگی کی شکارہیں۔ ان کے نظریاتی دیوالیہ پن نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خود یہ اے این پی اورپختون خواہ میپ  بھی پاکستان کی مین اسٹریم انتخابی سیاست کی طرف زیادہ راغب نظراتی ہیں  اور اپنے بنیادی نعروں سے عملاً دستبردار ہوچکی ہیں۔ اس وقت پشتون  نوجوانوں کا زیادہ رجحان عمران خان کی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی جانب ہے۔ خاص  کرعمران کے پیچھے پشتون پروفیشنل ومڈل کلاس کےنوجوانوں کی بڑی تعداد متحرک ہے۔ سابقہ قوم پرستوں کے نظریات پر موجود بعض پشتون ابھی بھی صحافت،تعلیم، سماجی تنظیموں اور دیگر اداروں میں پائے جاتے ہیں تاہم انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

پاکستان کی طرف اس بدلتے رحجان کی وضاحت وہ طبقاتی وسماجی تبدیلیاں ہیں جوحالیہ دورمیں رونماہوئی ہیں۔ اب پشتون  قوم پاکستانی ریاست میں پنجاب کے بعد سب سے بڑی حصہ دارہے۔ اس نے مہاجر،جوقیام پاکستان کے وقت اوپرتھے کوپیچھے دھکیل کر ان کی جگہ لے لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ 1990کی دہائی سے پوری طرح پاکستان میں ضم ہوتی نظرآتی ہے۔ اس انضمام کی وجہ سے اب وہ لوگ بھی جوکبھی پاکستان کے خلاف برسرپیکارتھےاب پاکستانیت ہی میں بقا ڈھونڈتے ہیں۔ اس کااظہارہمیں حال ہی میں جمعہ خان صوفی کی لکھی ہوئی تصانیف سے ملتاہے، جس میں انہوں نے سابقہ ترقی پسند پشتون قوم پرست تحریک کو بے نقاب کیاہے۔

پشتون قوم  کی نمائندگی کرتے ہوئے اے این پی کے سینٹرالیاس بلورنے14اگست کےموقع پرجیوکے پروگرام” کیپٹل ٹاک “میں کہا کہ “باچا خان پاکستان بننے کے نہیں مسلمانوں کی تقسیم کے مخالف تھے، پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ جناح صاحب ملک بننے کے ایک سال کے اندر وفات پاگئے، اگر قائداعظم دس پندرہ سال زندہ رہتے تو پاکستان میں اداروں کی تعمیر کرتے”

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...