پاکستان میں توحید پرست معاشرے کا خواب

1,129

پاکستان کے نامور مفکر پروفیسر فتح محمد ملک کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔آپ کم و بیش نصف صدی سے تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں ۔قائد اعظم یونیورسٹی ،کولمبیا یونیورسٹی نیویارک،یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ اور ہمبولٹ یونیورسٹی برلن جرمنی اور سینٹ پیٹرز برگ یونیورسٹی روس سے وابستہ رہ چکے ہیں ۔آپ مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اوربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر بھی رہے ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔آپ کی خدمات پر حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا ہے ۔(مدیر)

جس معاشرے میں کوٹ رادھا کرشن کے عیسائی جوڑے کو زندہ جلادینے کے سے واقعات روز کا معمول بن کر رہ جائیں وہ توحید پرست معاشرہ ہر گز نہیں کہلا سکتا- مفکرِ اسلام اور مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے حقیقی معنوں میں توحید پرست معاشرے کی پہچان یوں کرائی ہے:
“The essence of Tauhid, as a working idea, is equality, solidarity, and freedom. The state, from the Islamic standpoint, is an endeavour to transform these ideal principles into space-time forces, an aspiration to realize them in a definite human organization.” (Reconstruction, p.122-123)
گویا معاشرے میں توحید پرستی کے عملی مظاہر اخوت و مساوات اور آزادی و انصاف کے اصول و اقدار کی ترویج و اشاعت سے عبارت ہیں-جس معاشرے پر دیہہ خُدا (جاگیردار) مسلط ہوں وہ خدا پرست معاشرہ کیونکر کہلا سکتا ہے؟ اسی طرح سرمایہ پرستی کے جنون میں مبتلا معاشرہ قارونی معاشرہ تو کہلا سکتا ہے قرآنی معاشرہ ہر گز نہیں کہلا سکتا- یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا تصور پیش کرنے اور پاکستانی معاشرے کے خدوخال کو مسلسل روشن سے روشن تر کرنے والے علامہ اقبال نے اور پھر اِس تصورِ پاکستان کو تحریکِ پاکستان کا متحرک قالب عطا کرنے والے قائداعظم محمد علی جناح نے نہایت قطعیت اور وضاحت کے ساتھ بتا دیا تھا کہ پاکستان میں نہ جاگیرداری باقی رہے گی اور نہ سرمایہ پرستی کا جنون پروان چڑھنے دیا جائے گا، بلکہ حقیقی اسلام کی روح کی بازیافت کر کے اسے روحِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کیا جائے گا – ہمارے تمام تر مصائب کا سبب یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے فقط چند برس بعد ہماری سیاسی قیادت نے بانیانِ پاکستان کے اِس حقیقی اسلامی خواب کو فراموش کر دیا- یہ خواب فراموشی کے اسی چلن کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے ہاں کوٹ رادھا کرشن کے سے انتہائی شرمناک سانحات وقوع پذیر ہو رہے ہیں-
علامہ اقبال ۱۹۳۰ء کے خطبۂ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کرتے وقت جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کے مخالفین کی یہ دلیل بھی زیرِ بحث لائے تھے کہ اگر روئے زمین کے دیگر خطوں میں مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ رہ سکتے ہیں تو ہندوستان میں کیوں نہیں رہ سکتے؟ اقبال نے اِس کا جواب یہ دیا تھا کہ:
Because the Muslims of India are differently situated.
اقبال کا کہنا ہے کہ دُنیا کے دیگر خطوں میں مسلمان اور دیگر اہلِ کتاب ایک ساتھ رہتے ہیں-یہ سب لوگ ، عیسائی، یہودی، زرتشتی توحید پرست ہیں -مسلمانوں اور اِن سب مذاہب کے ماننے والوں کا خُدا ایک ہے- اِن میں کسی ذات پات یا چھوت چھات کا کوئی الہامی تصور موجود نہیں ہے- اِس لیے یہ سب مل کر ایک ساتھ امن و امان کی فضا میں زندگی بسر کر سکتے ہیں- اِس کے برعکس ہندوستان میں خدا پرست اقلیت میں اور بت پرست اکثریت میں ہیں-یہاں انسانوں میں دیوتاؤں کی پیدا کی ہوئی اونچ نیچ ختم نہیں کی جا سکتی- جن معاشروں میں مسلمان دیگر توحید پرست مذاہب کے لوگوں کے ساتھ آباد ہیں وہاں توحید پرستی کی بنیاد پر ایک انسان دوست عادلانہ معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے-اپنے استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:
“There are no social barriers between Muslims and the “people of the Book”. A Jew or a Christian or a Zoroastrian does not pollute the food of a Muslim by touching it, and the law of Islam allows inter-marriage with the “people of the Book”. Indeed the first practical step that Islam took towards the realisation of a final combination of humanity was to call upon peoples possessing practically the same ethical ideal to come forward and combine.”
(Thoughts & Reflections of Iqbal, p.190)
علامہ اقبال اپنے درج بالا استدلال کو مؤثر بناتے ہوئے قرآن حکیم کی اُس آیۂ کریمہ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں تمام توحید پرست مذاہب کے پیروکاروں کو کلمۂ توحید پر متحد ہو جانے کی دعوت دی گئی ہے- اقبال اس دعوت کو وحدتِ آدم کی جانب پہلا قدم قرار دیتے ہیں- جہاں تک برطانوی ہند کا تعلق ہے اقبال نے سکھ برادری کو بھی توحید پرست قرار دیا ہے- اپنی نظم ’’نانک‘‘ میں کہتے ہیں:
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
اقبال اور قائداعظم ، ہر دو بانیانِ پاکستان بابا نانک کو مردِ کامل اور توحید پرست مانتے تھے- یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم ، قائداعظم محمد علی جناح جون سن سنتالیس تک پنجاب کی سکھ قیادت کو پنجاب کی تقسیم پر اصرار کرنے کی بجائے پاکستان میں شمولیت کی دعوت دیتے رہے تھے-اِس لیے کہ اُن کے پیشِ نظر پاکستان میں ایک توحید پرست معاشرے کا قیام تھا-
ہماری قومی زندگی کی المناک ترین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے اِس تصور کو آج تک حقیقت کا روپ دھارنے کی اجازت نہیں دی گئی- پاکستانی زندگی کے حقائق کی روشنی میں پاکستان کے تصور کوتلاش کرنے نکلیں تو ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آسکے گا- وجہ یہ کہ بانیانِ پاکستان کا پاکستان کے اندر ایک سچا توحید پرست معاشرہ قائم کرنے کا خواب اُس وقت تک حقیقت نہیں بن سکتا جس وقت تک ہمارے ہاں برطانوی سامراج کا بخشا ہوا جاگیرداری اور سرداری نظام قائم و دائم ہے- پاکستان کے تصور کو حقیقت کے ٹھوس اور متحرک قالب میں ڈھالنے کے عمل کی جانب پہلا قدم معاشی عدل و مساوات کا قیام ہے- اُن کی نظم بعنوان ’’پنجاب کے دہقان سے‘‘ قوم کی اجتماعی زندگی میں تصورِ توحید کی کارفرمائی پر یوں روشنی ڈالتی ہے:

بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز
اسی خاک میں دب گئی تیری آگ
سحر کی اذاں ہو گئی، اب تو جاگ
زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات
نہیں اس اندھیرے میں آب حیات
زمانے میں جھوٹا ہے اُس کا نگیں
جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں
بتانِ شعوب و قبائل کو توڑ
رسومِ کہن کے سلاسل کو توڑ
یہی دینِ محکم، یہی فتح یاب
کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب
بخاکِ بدن دانہء دل فشاں
کہ ایں دانہ دارد ز حال نشاں
اگر معاشی انصاف اور معاشرتی مساوات کے تصورات ہمارے ہاں حقیقت بن چکے ہوتے تو کوٹ رادھا کرشن کے سے سانحات ہر گز وقوع پذیر نہ ہوسکتے، تھر میں بھوک اور پیاس سے سِسک سِسک کر مرتے ہوئے پاکستانیوں کے لیے بھیجی گئی گندم کی بوریوں میں سے مٹی کے ڈھیلے برآمد نہ ہوتے او ر سب سے بڑھ کر بانیانِ پاکستان کی اسلام کی تعبیر و تفسیر کی بجائے مُلّائیت کی فی سبیل اللہ فساد کی ’’تعلیمات ‘‘معاشرے کو تہ در تہ اندھیروں میں نہ دھکیل پاتی-اِن اندھیروں سے روشنیوں کی جانب پیش رفت فقط بانیانِ پاکستان کے تصور کو اپناکر ایک سچا توحید پرست معاشرہ قائم کرنے میں پنہاں ہے-علامہ اقبال اس حقیقت پر بہت بے چین رہتے تھے کہ :
زندہ قوت تھی زمانے میں یہ توحید کبھی
آج کیا ہے، فقط اِک مسئلۂ علمِ کلام
روشن اس ضو سے اگر ظُلمتِ کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
میں نے اے میر سِپہ! تیری سِپہ دیکھی ہے
’’قل ھواللہ‘‘ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ مُلّا، نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام!
علم کلام کے شعبے میں توحید پر مباحث ضرور جاری رہنے چاہئیں لیکن پاکستان میں توحیدکو ایک زندہ قوت بنانے کے لیے ’’اِس بیچارے دو رکعت کے امام‘‘ کی موشگافیوں کی بجائے اقبال کی تعلیمات پر عمل لازم ہے۔اِن تعلیمات کی روشنی میں الخلق عیال اللہ کے مصداق ساری مخلوق خدا کا کنبہ قرار پاتی ہے-علامہ اقبال کے نزدیک ایک سچامسلمان احترامِ آدمیت کے تمام تر تقاضوں کو ہر حال میں ملحوظِ خاطر رکھتا ہے- علامہ اقبال کو آدمیت کے احترام کا یہ مسلک اس لیے عزیز ہے کہ اُن کی نظر میں آدمی کا مقام آسمان سے بھی بلند ہے۔۔۔برتر از گردوں مقامِ آدم است- خود علامہ اقبا ل رنگ و نسل، عقیدہ و مسلک اور مُلک و ملت کی حد بندیوں سے بلند احترام آدمی کی اس روش پر عمر بھرگامزن رہے- اُن کی شاہکار تصنیف ’’جاوید نامہ‘‘ کا اختتامیہ نئی نسل کے نام اُن کے پیغام پر مشتمل ہے- اِس پیغام کا ایک مرکزی نکتہ اسلام میں آدمی کے مقام سے متعلق ہے- اقبال یہاں مسلمانوں کی نئی نسل کو تلقین فرماتے ہیں:
حرفِ بد را بر لب آوردن خطاست
کافر و مومن ہمہ خلقِ خدا است!
آدمیت احترامِ آدمی
باخبر شو از مقامِ آدمی!
آدمی از ربط و ضبط تن بہ تن
بر طریقِ دوستی گامے بزن!
بندہء عشق از خدا گیرد طریق
می شود بر کافر و مومن شفیق!
کافر اور مومن ہر دو خدا کی مخلوق ہیں- جس طرح اللہ میاں کافر اور مومن ہر دو پر شفیق ہیں اسی طرح بندگانِ خدا کو بھی عقیدہ و مسلک اور ملک و ملّت کے امتیازات سے ماورا ہو کر ہر آدمی پر شفقت ہی شفقت نچھاور کرتے رہنا چاہیے- خدا کا بندہ وہ ہے جو خدا کی صفات کو اپنی ذات میں جذب کرتا رہتا ہے- خدا کا سچا بندہ وہ ہے جو اپنے عقیدہ و مسلک پر تو ہر حال میں قائم رہتا ہے مگر اس کے باوجود اپنے سے مختلف عقیدہ و مسلک کے حامی افراد اور گروہوں سے بھی دوستی ہی کے راستے پر گامزن رہتا ہے- وہ اپنی زبان یا اپنے ہاتھ سے انھیں کسی صورت میں بھی آزار نہیں پہنچاتا- سچ ہے کہ:
بندہء عشق از خدا گیرد طریق
می شود بر کافر و مومن شفیق!
اپنی وفات سے فقط تین ماہ پہلے آل انڈیا ریڈیو سے سالِ نو کا پیغام نشر کرتے وقت اقبال نے دُنیائے انسانیت کو رنگ و نسل اور قوم و ملت کی حد بندیوں سے اُوپر اُٹھ کر وحدتِ انسانی کی خاطر عمل پیرا ہونے کا درس دیا تھا- اقبال نے کہا تھا کہ ایک ہی وحدت معتبر ہے اور وہ ہے وحدتِ انسانی- یہ خیال انھوں نے اپنی شاعری میں بار بار پیش کیا ہے کہ:
تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...