ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے کیوں ناخوش ہے ؟

1,048

امریکہ کوپاکستان کی طرف سے افغان طالبان کومذاکرات کی میزپرلانے میں کردارادا کرنے پربھی سراہاگیاہے۔ جس کامقصد افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات کے ذریعے امن کی راہیں تلاش کرناہیں۔

امریکی کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جائزہ رپورٹ برائے سال 2016کے سامنے آنے کے بعد ابتدائی اقدام کے طورپرپاکستان کوامریکی جنگ کاساتھ دینے کے صلہ میں ملنے والی امداد کے پانچ کروڑڈالرزکی امداد روکنے کافیصلہ کیاگیاہے۔ اس کی اہم وجہ امریکی وزیردفاع جیمزمیٹس نے پاکستان کے حقانی نیٹ ورک کے خلاف ناکافی اقدامات کوٹھہرایاہے۔ ہرسال وزیردفاع کوکانگریس کوبتاناپڑتاہےکہ پاکستان نے دہشت کے خلاف جنگ میں امریکہ کوکس حدتک سپورٹ کیاہے ۔ اگرچہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پینٹاگون نے پاکستان کے لئے فوجی امدادی رقم روکی مگریہ غالباً گزشتہ 16سال میں پہلی مرتبہ کسی امریکی وزیردفاع نے پاکستانی کوششوں پراس قدرکھل کرعدم اعتماد کااظہارکیاہے۔ اوریہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ حکومت کے تحت پہلی رپورٹ کے بعداٹھایاگیا ہے۔ وزیردفاع نے کہاکہ وہ اس امرکی تصدیق کرنے سے قاصرہے کہ پاکستان اس معیارپرپورااتراجس کی توقع امریکی حکومت کرتی ہے۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ موجودہ امریکی حکومت کارویہ ماضی کی  نسبت سخت ترہوتاجارہاہے۔ اس اقدام کے پیچھے وہ رپورٹ ہے جوانسداد دہشت گردی اورمتشدد شدت پسندی کے بیوروکی طرف سے 2016کے جائزہ میں پیش کیاگیاہے۔

افغانستان اورپاکستان سے متعلق رپورٹ اس کے ’’باب دوم، جنوبی اوروسطی ایشیاء‘‘ میں ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اگرچہ القاعدہ کی پاکستان اورافغانستان میں سخت زوال پذیری دیکھنے میں آئی، پھربھی اس کی عالمی سطح کی باقیات پرمنبی لیڈرشپ خطے میں کاروائیوں کو دورسے کنٹرول کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں افغان طالبان کے جارحانہ حملے جاری ہیں۔ جس میں خاص کرحقانی نیٹ ورک اوردیگردہشت گرد گروپ شامل ہیں۔ حقانی نیٹ کیلئے پاکستان کی حمایت  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہاگیاہے کہ کئی ایک حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوتی ہے  بلکہ یہ پاکستان سے کئے جاتے ہیں جہاں اس کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔

پاکستان کے اندردہشت گردی کی حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے متعلق تشدد میں دوسرے سال بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود غیرمحفوظ سویلین اورحکومت اب بھی دہشت گردوں کے نشانے پرہیں، اوروہ ان سے متاثربھی ہیں۔ پاکستانی فوج اورسیکورٹی فورسزنے ملک کے اندر سرگرم گروپوں جیسے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کئے۔ لیکن پاکستان نے افغان طالبان یا حقانی نیٹ ورک کے خلاف خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ ملک کے اندرطالبان کے خلاف پاکستانی فوج اورحکومت کے اقدامات سے توخاصی حدتک مطمئن ہے مگراس کواعتراض افغانستان کے اندرمتحرک گروپوں کے پاکستان سے ملحقہ سرحدی پٹی فاٹا میں محفوظ ٹھکانوں اوروہاں سے کاروائیوں پر ہے۔ رپورٹ کےمطابق پاکستان، افغانستان میں امریکہ مفادات کودرپیش خطرات کاتدارک نہ کرسکایا نہیں کرناچاہتا۔ دوسری طرف امریکہ تسلیم کرتاہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کی خاطرہونے والی کوششوں میں ہاتھ بٹایاہے۔ امریکہ کوشکوہ ہے کہ پاکستان نے لشکرطیبہ اورجیش محمد جیسی تنظیموں کے خلاف 2016میں کچھ نہیں کیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ تنظیمیں نہ صرف اس دوران متحرک رہیں بلکہ یہ تربیت اورچندہ جمع کرنے جیسے کھلے عام امورمیں بھی آزادی کے ساتھ مصروف رہیں۔

پاکستان سے متعلق رپورٹ کی ابتداء مثبت اندازمیں کرتے ہوئے اسے 2016میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم پارٹنرکے طورپرپیش کرنے سے کی گئی ہے۔ پاکستان کی اندرونی صورتحال سے ابتداء کرتے ہوئے بتایاگیاہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں نےسویلین، سرکاری اہلکاراور مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنایا۔ بڑے دہشت گردوں گروپوں میں تحریک طالبان پاکستان، جماعت الااحرار اورفرقہ پرست لشکرجھنگوی، اورداعش گردانے گئے۔رپورٹ میں پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان کے نتائج کوملاجلاقراردیاگیاہے۔ مدارس کوقابوکرنے، دہشت گردوں کی فنڈنگ اورنیکٹا کوبااخیتاربنانے جیسے اقدامات کوسست روی کاشکاربتایاگیاہے۔

امریکہ کوپاکستان کی طرف سے افغان طالبان کومذاکرات کی میزپرلانے میں کردارادا کرنے پربھی سراہاگیاہے۔ جس کامقصد افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات کے ذریعے امن کی راہیں تلاش کرناہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ہی اس امرپرناامیدی اورناپسندیدگی ظاہرکی گئی ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان اورحقانی نیٹ ورک کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ عام طورپرکہاجاتاہے کہ حقانی نیٹ ورک فاٹاکےایک سے زائد علاقوں میں متحرک ہوکر کام کرتاہے۔ جبکہ افغان طالبان کاہیڈکوارٹرکوئٹہ کے قریب کچلاک میں بتایاجاتاہے، جہاں سے اس کے اعلانات برملاسامنے آتے ہیں اوران میں اختلافات اورجھگڑوں کی خبریں بھی آتی ہیں۔

ایک اہم نکتہ جوا س رپورٹ میں اٹھاگیاہے وہ یہ ہے کہ پاکستان داعش (آئی ایس آئی ایس) کے خلاف گلوبل کولیشن کاحصہ نہ بنا، اگرچہ پاکستان نے 2015میں اس تنظیم کودہشت گرد قراردے دیاتھااوراس کےخلاف خاطرخواہ کارروائیاں بھی کی گئیں۔

امریکہ انتظامیہ نے البتہ اس امرکی تصدیق کی ہے کہ یہ ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان سے متعلق مستقل پالیسی کاحصہ نہیں ہے۔ یہ محض سال 2016میں پاکستان کے اقدامات کے جائزہ رپورٹ کے پس منظرمیں اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔ البتہ اخباری بیانات اورماہرین کی رائے سے ظاہرہوتاہے کہ مستقبل قریب میں بھی پاکستان کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کاسخت موقف برقراررہنے کی توقع ہے۔

رپورٹ کے منظرعام آنے کے بعد پاکستان کی فوجی امدادمیں بندش اورالزامات کی توقع کی جارہی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ مسلسل پاکستان پرسرحد پارپڑوسی ممالک جیسے انڈیا اورافغانستان میں دہشت گردی کوسپورٹ کرنے کاالزام دیتے رہے ہیں۔ یہ پاکستانی فوج پردباوبڑھانےکے سلسلہ میں اٹھائے گئے اقدامات کاحصہ ہے۔ کیونکہ عام طورپرکہاجاتاہے کہ افغان ،انڈیا اورجغرافیائی حوالے  سے  فیصلے فوج کرتی ہے ۔ اگرچہ امریکی انتظامیہ کی 2016کی رپورٹ  میں کوئی نیا انکشاف نہیں کیاگیاجوچیزنئی ہے وہ نتیجہ کے طورپر پاکستان پرکھلے عدم اعتماد کااظہارکرتے ہوئے  امدادکی بندش کااعلان ہے۔

مضمون نگارکراچی میں مقیم محقق ہے۔

Sartaj2000@yahoo.com

Tweet: @sartajku

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...