چوہدری نثار نوازشریف کے جانثار رہیں گے یا ؟

7,094

 

نثار کے اختلافات اور زاتی زندگی کے بارے چشم کشا حقائق

 

موجودہ حکومت کے طاقتور وزیر چوہدری نثار علی خان ایک بار پھر اپنی ہی حکومت کی پالیسیوں اور طرز سیاست سے ناراض ہیں ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا رواں حکومت کے دورمیں کم و بیش دو سال قبل بھی چوہدری نثار حکومت سے ناراض تھے تاہم انہوں نے پارٹی چھوڑی نہ حکومت ۔ چوہدری نثآر ایک بار پھر طاقت کے ایوانوں میں اپنے اختلافات کے باعث سرگوشیوں اور سیاسی بحثوں کا مرکز ہیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپور ٹ کے بعد جب سے ہاؤس آف شریف یا شریف خاندان کی سیاست بدری  کےامکانات پیدا ہوئے ہیں تب سے سیاسی پنڈتوں کی نظریں چوہدری نثار علی خان پر مرکوز ہیں۔

اس سارے منظر نامے میں چوہدری نثار علی خان کا وفاقی کابینہ میں ایک متنازع خطاب ، حکومتی وزیروں کی اس پر وضاحت اور اس پر چوہدری نثا ر کے ترجمان کا رد عمل سارے معاملے کو مزید پیچیدہ کیے ہوئے ہے ۔ دراصل یہ سب ان کے لیے بہت پیچیدہ ہے جو چوہدری نثار علی خان کی شخصیت سے ناواقف ہیں کیونکہ ان کی شخصیت تہہ در تہہ رازوں میں پنہاں ہے ۔ نثار علی خان کو کابینہ کا خفیہ آدمی یا  The secret man of Nawaz Sharif cabinet کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ذرائع کہتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان وزیراعظم سے ایک الگ ملاقات میں واضع طورپر بتا چکے ہیں کہ وہ وزارت عظمی ٰ سمیت کسی عہدے کے خواہشمند یا امیدوار نہیں ہیں اور یہ کہ وزیراعظم کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔  اس سارے عمل میں چوہدری نثار کے اختلافات وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے ساتھ بھی ہیں جو بظاہر چاپلوس حواریوں کے جھرمٹ میں ہی گھری رہتی ہیں۔  وزیراعظم کو بیٹی سے پیار ہے اور نثار سے محبت اور وفاداری پر یقین بھی ۔ اسی لیے نثار علی خان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

واقفان حال کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے جب 20اپریل کے حکمنامے میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل کرنے کا کہا گیا تو نثار علی خان نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ اسحاق ڈار وغیرہ سے مل کر آرمی چیف سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کو خط لکھیں کہ اس تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو شامل نہ کیا جائے کیونکہ اس سے فوج کی سیاست میں مداخلت کا تاثر ملتاہے۔ اگر ٹیم نے حکومت کے حق میں رپورٹ دی تو بھی لوگ فوج پر سوال کریں گے اور اگر مخالفت میں  رپورٹ آئی تو بھی سوال فوج  پر ہی اٹھے گا۔ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو یہ بات اچھی نہ لگی ۔۔۔ خیر۔ معاملہ آگے بڑھا تو وزیراعظم کی طلبی پر بھی نثار چاہتے تھے کہ معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جائے مگر ایسا نہ کیا گیا۔۔۔ جب وزیراعظم نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا تو نثار بھی وہاں موجود تھے ۔ نثار نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ ان کی گاڑی ڈرائیو کریں گے ۔ نثار ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے تو مریم نواز نے مبینہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو گاڑی کی فرنٹ سیٹ سے اتارا اور باقی لیڈروں کے ساتھ روانگی کی تصاویر بنوائیں جو میڈیا کو وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کے ذریعے جاری کی گئیں۔

وزیراعظم کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کے لیے روانگی کے موقع پر کسی ٹی وی کوریج میں وزیرداخلہ کو نہ دکھایا گیا اور نہ ہی سرکاری طور پر جاری خبروں میں ان کا ذکر کیا گیا۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار کو اسی بات کا رنج ہے کہ وہ وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ان کی نیک نیتی کی قدر نہیں کی جاتی ۔ اسی تناظر میں وزیرداخلہ نے کابینہ اجلاس میں بھی تنقید کی اور کہا کہ وزیراعظم جونئیر اور خوشامد پسند لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں۔

چوہدری نثآرفو ج کے قریب سمجھے جاتے ہیں بلکہ وہ ماضی میں خود بھی فخر سے کہتے رہے کہ ، مجھے فوج سے تعلقات کے لئے وزارت دفاع کی ضرورت نہیں، ۔ لیکن کیا چوہدری نثار فوج کی قربت کو اپنی سیاسی وابستگی پر قربان کرسکتے ہیں ، شائد وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے

 سال 2014میں جب دھرنا عروج پر تھا تو ہماری معلومات کے مطابق اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل ظہیر الاسلام نے دو اہم افراد کو اپنی وابستگیاں تبدیل کرنے کی براہ راست اور بلواسطہ پیشکش کی تھی ۔

ان میں سے پہلے نمبر پر چوہدری نثار علی خان تھے جنہیں بالواسطہ طورپر وزارت عظمی ٰ کا لالچ بھی دینے کی کوشش کی گئی جو نہ صرف چوہدری نثار نے مسترد کی بلکہ اس نا ز ک مرحلے پر پارٹی وفاداری کا بھر پورمظاہرہ کیا۔ اسی دورانیے میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ نے انٹیلی جینس بیورو کے موجودہ سربراہ ( جو اس وقت بھی آئی بی کے سربراہ تھے ) آفتاب سلطان کو بھی حکومت سے وفاداری تبدیل کرنے کی براہ راست  پیشکش بھی کی تھی  جو انہوں نے بھی مسترد کردی تھی  اور یہی وہ دو شخصیات تھیں جنہوں نے دھرنے کے پیچھے چھپی اسٹبلشمنٹ کی انگلی کو نہ صرف نیچے کرایا بلکہ نواز حکومت کی ڈوبتی ناؤکو سہارا بھی دیا۔

چو ھدری نثار علی خان کے بارے ا س نمائندے نے بطوربیٹ رپورٹر وزارت داخلہ و قومی سلامتی امور متعدد قیمتی معلومات اکٹھی کیں جو چوہدری نثار علی خان کی پراسرار شخصیت کو سمجھنے میں کسی حد تک مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں۔  جو قارئین کی پیش خدمت ہیں۔

 

سال دو ہزار تیرہ مئی میں انتخابات جیتنے کے کچھ دن بعد نامزد وزیراعظم نوازشریف نے اپنی جماعت کے ایک سینئر سیاستدان کو پیغام بھجوایا کہ وہ انہیں وزارت خارجہ کا قلمدان دینے کے خواہشمند ہیں۔ ’’میں اس وزارت کا خواہشمند نہیں کیونکہ میرے بھارت کے بارے میں خیالات وزیراعظم کے خیالات سے ہم آہنگ نہیں ‘‘۔یہ کہتے ہوئے  مذکورہ سیاستدان نے وزارت خارجہ کی یہ پیشکش مسترد کردی تاہم وہ وزارت داخلہ کے قلمدان میں ضرور دلچسپی کا اظہار کیا۔  ۔ اپنی جماعت کے سربراہ اور نامزد وزیراعظم سے اقتدار کے ایوانوں میں ایسی گستاخی کرنے والا شخص چوہدری نثار علی خان تھا جسے بعد میں وزارت داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا۔

چوہدری نثار علی خان ، میاں نواز شریف کے سابق دو ادوار حکومت میں وزیر پیٹرولیم رہے اب وہ داخلہ امور کے وزیر ہیں ۔ یہ قلمدان حاصل کرنے میں انہیں مبینہ طورپر سا بق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مشورہ دیا تھا جو سمجھتے تھے کہ موجودہ حالات میں وزیراعظم کے بعد اگر حکومت میں کوئی موثر وزیر ہوتا ہے وہ وزیر دفاع نہیں بلکہ داخلہ ہی ہوتا ہے ۔ چوہدری نثار علی خان  سے اس نمائندے نے ایک روز غیر رسمی گفتگو کے دوران یہ سوال کیا تھا کہ کیا انہیں یہ عہدہ لینے کے بارے جنرل کیانی نے مشورہ دیا تھا تو انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔  چوہدری نثار علی خان کے جنرل کیانی سے قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ یہ چوہدری نثار ہی تھے جنہوں نے نوازشریف کی جلاوطنی کے دوران فوجی قیادت کو نوازشریف کے حق میں قائل کیا ۔ یہی وجہ بنی کہ نوازشریف پرویز مشرف کے دور میں سال دوہزار ایک میں اپنی مرضی سے جیل سے جلاوطن ہوئے تو انہوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہی جب دس ستمبر دو ہزار سات کو وطن وآپس انے کی کوشش کی تو انہیں واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا مگر نئے آرمی چیف جنرل کیانی کے عہدہ سنبھالتے ہی اسی نوازشریف کو دو ماہ بعد وطن واپس آنے پر استقبال کیا گیا ۔یہ سب  ایسے ہی نہیں ہوا دراصل چوہدری نثار علی خان کی پس چلمن فوجی حکام سے ملاقاتوں کے بعد ہی ممکن ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب اس وقت کی منتخب حکومت اور فوج کے درمیان نشیب و فراز آئے تو چوہدری نثار نے ہی شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتوں کا اہتمام کیا جو بعد میں اتنی خفیہ نہ رہیں اسی دورانیے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے ایک موقعہ پر براہ راست میاں نوازشریف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ایک پیغامبر کے ذریعے پیغام بھی بھجوایا مگر نوازشریف نےملاقات سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ صرف ایک ہی صورت میں ان سے ملاقات کرسکتے ہیں اگر وہ اپنے وزیراعظم سے تحریری اجازت نامہ لے آئیں۔  چوہدری نثار علی خان جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں نہ بھولے اور دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ہمراہ کیانی کے گھر گئے اور انہیں قومی سلامتی کے مشیر سمیت اہم عہدوں کی پیشکش کی مگر کیانی نہ مانے۔                                                                                                                                                                دراصل چوہدری نثار علی خان کی فوج سے قربت کی وجہ ان کے والد اور دادا کی پیشہ سپہ گری سے وابستگی ہے ۔ راولپنڈی کے نواحی علاقے چکری سے تعلق رکھنے والے چوہدری نثار علی کے دادا  چوہدری سلطان برٹش فوج کی طرف سے ہٹلر کے خلاف لڑنے گئے اور راستے میں عراق میں تکریت (وہی علاقہ جہاں سے صدام حسین پکڑے گئے تھے ) کے مقام پر جاں بحق ہوئے اور ان کا جسد خاکی تک وآپس نہ آیا ۔ نثار کے دادا کے دو بیٹے تھے چوہدری تاج محمد خان اور چوہدری فتح خان (نثار کے والد) ۔ تاج محمد خان چکری میں ڈیرہ سنبھالتے اور سیاسی جوڑ توڑ بھی جبکہ فتح خان فوج میں بریگیڈئیر کے عہدے تک گئے اور ریٹائر ہوگئے وہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل  فوج میں کمیشن لے کر آئے تھے ۔ بریگیڈئیر فتح کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایوب خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے اسی لیے وہ ایوب کے دور میں ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئے اور صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب کیے گئے۔ ۔۔۔ یعنی ایک بھائی ڈیرہ داری کی سیاست میں تو دوسرا فوج  کے راستے سیاست میں ، گھر میں سول ملٹری کا یہ امتزاج ہی چوہدری نثار کی شخصیت کا ایک ایسا حصہ بنا جو آج تک ان کے ساتھ چلا آرہا ہے ۔ سیاست کی ابتدا میں وہ اپنے چچا سے متاثر تھے اور فوج میں اپنے والد سے۔   خود والد کے ساتھ کنٹونمنٹ کے ماحول کا حصہ اور چچا کے باعث سیاسی جوڑ توڑ اور دھڑے بازی  سے بھی آشنا۔

والد اور چچا کی طرح چوہدری نثار کی زندگی بھی ایسی ہی رہی ۔ نثار علی خان کا ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ بھائی افتخار علی خان لیفٹنینٹ جنرل کے عہدے تک گئے اور ریٹائر ہوئے اور بعد میں بائیس اگست دوہزار نو کو وفات پاگئے ۔ والد کی طرح بھائی بھی چوہدری نثار کی کامیابیوں کی ہموار راہ کی ایک بڑی وجہ تھے۔ دراصل چوہدری نثار علی خان کی شخصیت میں فوجی انداز ان کے مرحوم والد اور مرحوم بھائی کا ہی ورثہ ہیں۔

نثارعلی خان کی شخصیت میں سترکی د ہائی اور اسی کے اوائل میں ایف ۔ سی کالج کی تعلیم بھی ایک اہم حصہ ہے جہاں نہ صرف وہ عمران خان ، پرویز خٹک ، ایاز صادق اور اسی قبیل کے دیگر سیاستدانوں سے آشنا ہوئے بلکہ فوج اور بیوروکریسی کی اہم شخصیات کے ہم عصر بھی رہے ۔ ایف سی کالج کے اس وقت کے طلبہ جانتے ہیں کہ نثار  ہاکی کے کھلاڑی اور کپتان کے ساتھ ساتھ کرکٹ اور فٹبال ٹیموں کا حصہ بھی رہے۔

نثار کے والد  بریگیڈئیر فتح نے بیٹے چوہدری نثار علی خان کو سیاست میں متعارف کروایا ۔ چکری میں چوہدری نثار کے والد سے یہ بات بھی منسوب کی جاتی ہے کہ مرحوم کہتے تھے کہ انہیں جس بیٹے کو سیاست میں بھیجنا تھا اسے فوج میں بھیجا اور جسے فوج میں بھیجنا تھا وہ اسے سیاست میں لے آئے

۔ تاہم چوہدری نثار علی خان سیاست میں کامیاب ہوا اوراپنے چکری گروپ کی وجہ سے انیس و پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کا رکن بن گیا اور جنرل ضیا کی نذر میں بھی آگیا ۔ یہ وہی زمانہ تھا جب نوازشریف پنجاب میں عروج حاصل کررہے تھے دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ نوازشریف کو پنڈی میں جی ایچ کیوکی سوچ سے آشنا ایک قابل اعتماد دست راست کی ضرورت تھی اور نثا ر کو نوازشریف کے ساتھ کی۔ نثار علی خان کےایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ  ابتدائی دنوں میں شہباز شریف نثار علی خان کے دوست نہیں تھے بلکہ نثار علی خان نے ان کی نوازشریف کےپہلے دور حکومت میں حکومتی امور میں مداخلت پر تنقید بھی کی۔ ابتدا میں دونوں ایک معمولی تلخی کے بعد ایک دوسرے کے ایسے دوست بنے کہ ساتھ اب تک برقرار ہے ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نوازشریف اور چوہدری نثار کے درمیان تعلقات فطری طور پر اتنے گہرے نہیں کیونکہ نوازشریف  کا ستارہ جدی اور نثار علی خان کا جوزا ہےجو فطری طور پر ایک دوسرے کےحامی نہیں جبکہ نثار علی خان ثور اورسنبلہ کے فطری طور پر گہرے دوست ہیں۔  شائد اسی لیے نثار ، شہباز کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ وہ سنبلہ ہیں۔ نثار اور شہباز کی قربت صرف سیاسی میدان میں ہی نہیں بلکہ رومانوی میدان میں بھی رہی ہے۔  نثار علی خان کو پارٹی کے اندر بھی شدید چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ انہوں نے بطور وزیرداخلہ اسلحہ لائسنسز کے اجرا پر پابندی عائد کررکھی ہے اور حکومتی اراکین اس کے کھولنے کے حامی ہیں۔ نثار اپنی وزارت کے بنائے ہوئے اصولوں پر وزیراعظم نوازشریف کے قریبی عزیزوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ حال ہی میں وزیراعظم کے داماد نے پارلیمینٹ ہاؤس کی گیلری میں وزیرداخلہ سے متعدد ارکان کے سامنے درخواست کی کہ وہ قتل کے سزا یافتہ ایک مجرم کی پھانسی میں کچھ تاخیر کردیں تاکہ اس کے اہل خانہ  مقتولین کے اہل خانہ کورقم کی ادائیگی کےلیے رقم کا بندوبست کرسکیں۔ ملک بھر کی جیلوں میں پھانسی پانے والے قیدیوں کی پھانسی کے حتمی احکامات وزارت داخلہ ہی جاری کرتی ہے۔ وزیرداخلہ نے مسکراتے ہوئے اس درخواست کو رد کردیااورکہا کہ وہ مقتول کے لواحقین کے ساتھ معاملات طے کرلیں تو ہی دروازے کھلیں گے ۔ وزیرداخلہ کا یہی رویہ وزیراعظم کے بعض قریبی عزیزوٕں اور شائد ان کے اہل خانہ کو بھی اچھا نہیں لگتا ۔ نثار کو پارٹی کے اندر شدید تنہائی کا سامنا بھی ہے حال ہی میں ان کے بہنوئی  کو سینٹ کے لیے ٹکٹ نہ ملا مگر ان کے شدید مخالف راولپنڈی کے چوہدری تنویر کو گھر سے بلا کر ٹکٹ دے دیا گیا دراصل  واقفان حال کہتے ہیں کہ یہ ٹکٹ بیگم کلثوم نواز کی براہ راست مداخلت پر دیا گیا ۔ کلثوم نواز ، نثار علی خان کو پسند نہیں کرتیں اور دونوں کے درمیان دوری بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کے واقعات کےبعد کی ہے ۔   دراصل انیس سواٹھانوے میں جنرل جہانگیر کرامت کی برطرفی کے بعد یہ چوہدری نثارعلی خان اور ان کے بھائی اس وقت کے سیکرٹری دفاع لیفٹینیٹ جنرل افتخار علی خان ہی تھے جنہوں نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سینئر ترین جرنیل علی قلی خان کو نظرانداز کرکے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف تعینات کرنے کی راہ ہموار کی تھی ۔ نثار علی اور پرویز مشرف کے درمیان سالوں پر محیط دوستی تھی۔ اقتدارکے ایوانوں میں طاقت کے کھیل کی بے رحمی دیکھئے کہ اس وقت فوج میں سب سے سینئر جرنیل لیفٹینٹ جنرل علی قلی خان تھے جن کے والد جنرل حبیب اللہ نثارعلی خان کے والد کے قریبی دوست تھے ۔ مگر دیگر بہت سی وجوہات کی بنا پر انہیں آرمی چیف کے عہدے کے لیے نظر انداز کرکے نثار علی خان کے سالوں پرانے دوست جنرل پرویز مشرف کو اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف نے آرمی چیف تعینات کیا۔

’’مجھے آرمی چیف نہ بنائے جانے کی شائدایک وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیرکرامت سے ملے تھے ، دونوں نثار کے بھائی چوہدری افتخار علی خان کو ایک سال کی توسیع دینے کے خواہشمند تھے تاکہ بعد میں وہ سینیارٹی فہرست میں آکر آرمی چیف بنیں ،گر جہانگیر کرامت نے ایسا کرنے سے انکا ر کردیا شائد وہ اس کا ذمہ دار بھی مجھے سمجھتے تھے،ٴ‘‘لیفٹیننٹ جنرل رئٹائرڈ علی قلی خان نے اس نمائندے کو بتایا۔

 

۔ علی قلی کی جگہ مشرف آرمی چیف بنے  اوردوسرے سال ہی نوازشریف کو چلتا کیا اوراپنے جرنیلوں کے ہمراہ اقتدار پر قابض ہوئے تاہم انہوں نے پرانی دوستی کے پیش نظر نثار علی خان کو گھر پر بند کیا تاہم نثار نےمشرف کی پرانی دوستی کو شریف برادران کے ساتھ اپنی سیاسی رفاقت پر قربان کردیا۔

 

– اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کی طرف سے ٴنثار علی خان کو رائے ونڈ میں گیس کا غیرقانونی کنکشن دینے کی فائل پر پرانی تاریخوں میں دستخط کرنے کا کہا گیا تھا مگر نثار نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا ،ا س واقعے سے براہ راست جڑے ایک رئٹائرڈ جنرل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس نمائندےکو بتایا۔

 

اس رئٹائرڈ جنرل نے مزید بتایا کہ نثارعلی خان حراست کے دوران نوازشریف سے مختلف امور پر اختلاف رکھتے تھے مگر انہیں دھوکہ دینے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ قید کے دوران مشرف چوہدری نثار سے براہ راست ملنے کے لیے مرحوم جنرل احتشام ضمیر کو بھی استعمال کرتے رہے مگر نثار علی خان مشرف سےنہ ملے ۔ ، رہائی کے بعد جب پارٹی کی طرف سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا تو مشرف نے بھی انہیں اسمبلی کا سپیکر اور مسلم لیگ (ق) کا سربراہ بنانے کا پیغام دے بھیجا ،  نثار علی خان کے ایک سابق رازدان نے اس نمائندے کو بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے مشورے کے بعد نثار علی خان نے ایک بارپھر نوازشریف کو دھوکہ نہ دینے کا فیصلہ کیا لہذا مشرف کے پیغامبر کو سفید  جواب میں سرخ جھنڈی دکھا دی گئی ۔ نثار علی خان فطری طور پر انتہائی خفیہ ہیں ، ان کا ٹیلی فون نمبر بھی کا بینہ میں موجود کسی وزیر کے پاس نہیں ہے اور وہ ایاز صادق سپیکر قومی اسمبلی کے علاوہ پارٹی کی کسی دوسری شخصیت سے ان کے دفتر میں نہیں جاتے دیکھے گئے ۔  ان کے فیض آباد والے گھر پر آنے والے افراد کی تعداد انتہائی مختصر ہے ۔

ایک ذریعے نے بتایا کہ نثار علی خان کےفیض آباد والے گھر کی خریداری بھی کسی قصے سے کم نہیں۔ دراصل نثار کے سسرالی جو ایک معروف اشاعتی ادارے کے مالک ہیں اس گھر کے اصل مالک تھے اور انہوں نے اپنی وجوہات کی بنا پر یہ گھر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تو نثار نے ایک تیسرے فرد کے ذریعے گھر خرید لیا، رقم کی ادائیگی کے بعد جب کاغذات میں نام کے اندراج کا وقت آیا تو اس وقت نثار کے سسرال کو پتہ چلا کہ دراصل یہ گھر ان سے نثار علی خان نے خریدا ہے ۔  گھر میں ہوں یا دفتر میں نثار کسی غیر متعلقہ شخص سے وقت دئیے بغیر ملنے سے گریزاں ہوتے ہیں اورملاقات کےدوران اگر کوئی ایسا شخص سامنے آجائے جسے وہ نہیں جانتے وہ اس کے سامنے بات کرنے سے گریزاں ہوجاتے ہیں۔

’’، نثار اپنے آزاد دماغ کے مطابق بات کرتے ہیں ، وہ اصول پر وزیراعظم سے بھی اختلاف کرجاتے ہیں جو کابینہ کے واحد ایسے وزیر ہیںٴ‘‘ مشاہد حسین سابق وفاقی وزیراطلاعات نے اس نمائندے کو ایک ملاقات میں بتایا ۔  مشاہد حسین سے پوچھا گیا کہ نثار ہمیشہ فوج اورفوجی اداروں کے حق میں ہی کیوں بولتے ہیں تو مشاہد حسین نے بتایا کہ دراصل ایسا کرنے کے لیے کوئی انہیں کہتا نہیں وہ ایسا خود کرتے ہیں کیونکہ وہ خود والد کی وجہ سے کنٹونمنٹ کا حصہ رہےہیں اس لیے وہ ان کی نمائندگی کرتے ہیں تاہم اپنی پارٹی وابستگی سے دستبردار نہیں ہوتے ۔ مشاہد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انیس سو بانوے میں کراچی میں جنرل آصف نواز نے فوجی آپریشن کیا تو نثار علی نے کابینہ میں ببانگ دھل اصولی طور پر اس کی مخالفت کی تھی ۔ یہ اصول تھا یا انکا سخت رویہ کہ سال دوہزارآٹھ میں ان کے اپنے چچازاد (چوہدری تاج محمد خان کے صاحبزادوں ) بھائیوں سے علیحدگی ہوگئی ۔

، نثار علی خان فطرت میں ڈکٹیٹر ہیں اور ان کا یہی رویہ ہماری ان سے سیاسی علیحدگی کا سبب بنا تاہم یہ بات واضع ہے کہ وہ انتہائی ایماندار اور صوم و صلو۱ت کی سختی سے پابندی کرنے والے شخص ہیں، چوہدری نثار کے کزن چوہدری وقار نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔

نثار علی خان کے سیاسی مخالفین ان پر انتظامیہ کو استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔

، وزیرداخلہ اپنے مخالفین کے لیے انتظامیہ ، پولیس اور پٹواریوں کو استعمال کرتے ہیں، نثار علی خان کے آبائی علاقے چکری سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری کامران نے اس نمائندے کے استفسار پر بتایا۔  چوہدری نثار چکری میں رہتے ہیں مگر وہ وہاں سے رکن اسمبلی نہیں بنتے بلکہ ہر بار این اے چون کلر سیداں کے حلقے سے ہمیشہ جیتتے ہیں۔  آج کے دور میں بھی  چوہدری نثار علی خان اپنے ووٹروں کے خطوں کا جواب دیتے اور اس پر احکامات جاری کرتے ہیں ۔ قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ واک ان کا معمول ہے جو کبھی کبھار چھوٹ بھی جاتا ہے تاہم اخبار پڑھنا ایک ایسا مشغلہ ہے جسے وہ کبھی نہیں بھولتے ۔    نثار علی خان ہرکسی کو دستیاب بھی نہیں ہوتے اور ان کا موبائل  نمبر بھی کابینہ کے شائد ہی کسی رکن کے پاس ہو۔ ۔ نثار علی خان کا ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں ، اہلیہ ایک سکو ل میں کچھ ہی عرصہ قبل تک پڑھاتی بھی رہی ہیں ، شائد وہ موجودہ کابینہ کے واحد وفاقی وزیر ہوں گے جن کی اہلیہ کسی سکول کی ٹیچر ہیں۔

چوہدری نثار علی خان کے  ساتھ رسمی ملاقاتوں اورمتعدد دیگر حکومتی ، غیر حکومتی ، سیاسی ، فوجی اور خاندانی شخصیات سے انٹرویوز کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ نثار علی خان مالی امور میں دیانتدار ، زبانی طور پر اکھڑ اور سیاسی طور پر انفرادی موقف رکھنے والے ایسے سیاستدان ہیں جو اپنے طرز سیاست کی بنا پر طاقت کے سول و ملٹری مراکز میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ فوجی قیادت کے کسی بھی بحران و عدم بحران کی صورت ایک ایسے پل کا کردار ادا کرتے ہیں جو اطراف کی بجائے خود اپنے وزن پر کھڑا ہے ۔

نثار علی خان کا سیاسی مستقبل ان کے نو جوان  اکلوتے بیٹے تیمورعلی خان سے وابستہ ہے جس کا رشتہ کچھ ہی عرصہ قبل میاں نوازشریف کے قریبی جانے جانے والے ایک وفاقی وزیر کے گھر طے پایا ہے ۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...