افغانستان بدل رہا ہے
پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جن کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے ۔ایک پائیدار افغانستان کے بغیر ایک مظبوط پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان بد گمانیوں کا بسیرا رہا مگر اُدھر اور اِدھر کی موجودہ قیادت نے اس تاثر کی نفی کی ہے اور اب دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ہمیں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنا ہے کیونکہ ہم ایک جیسے حالات سے گزر رہے ہیں۔ہمیں حکومتوں کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی رابطے بڑھانے ہوں گے ۔پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا اور اس دوران اپنے مشاہدات کو قارئینِ ’’تجزیات‘‘ کے لئے رقم کیا ۔اس کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل کے پہاڑ کے باوجود افغان قوم میں یکجہتی فروغ پزیر ہے اور سیاسی سطح پر بھی وسیع تر مفاہمت کا آغاز ہو چکا ہے ۔ماضی میں ہتھیار اٹھانے والے کئی گروپوں کے نمایاں لیڈر اب باقائدہ طور پر سیاسی عمل کا حصہ بن رہے ہیں ۔ یہ ایک مثبت عمل ہے جس اپنے بے پایاں اثرات لائے گا ۔ مزید یہ کہ مضمون نگار نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے تجاویز بھی دی ہیں جس سے اس مطالعے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔(مدیر)
میں نے پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ کے ایک وفد کے ہمراہ افغانستان کی دوسری بڑی اور قدیم یونیورسٹی یعنی ننگرہاریونیورسٹی، جلال آباد کی دعوت پر 18 مارچ سے 25 مارچ 2015 ء تک افغانستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا. اس دورے کے دوران وہاں مختلف طبقہ ہائے فکر کے سنجیدہ اور فہمیدہ افراد کے ساتھ بہت مفید تبادلہ خیال کا موقع ملا، جس سے افغانستان کی موجودہ اور متوقع صورت حال کا کسی حد تک اندازہ ہوا۔ یہ دورہ ننگرہار یونیورسٹی کی خصوصی دعوت پر تھا۔ ننگرہار یونیورسٹی 19 مارچ کو اپنی 50 سالہ گولڈن جوبلی منا رہی تھی، جس کے لئے افغانستان کے مختلف اطراف سے علماء کرام اور جامعات کے اساتذہ کرام اور وائس چانسلرز کو دعوت دی گئی تھی۔
ننگرہار یونیورسٹی کی یہ پروقار تقریب ننگرہار ولایت کے گورنر ہاؤس میں منعقد کی گئی۔ گورنر ہاؤس ایک وسیع و عریض اور شاندار محل ہے، جسے افغانستان کے امیر عبدالرحمن نے تعمیرکرایا تھا جو مشرقی ولایات کے دورے کے دوران یہاں مقیم رہتے تھے۔ پاکستانی وفد کو گورنر ہاؤس کے مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا تھا۔ اس سے اندازہ لگتا ہے کہ انہوں نے ہمیں خصوصی افراد (وی آئی پی) کا درجہ دیا تھا۔
جلال آباد کے علاوہ ہم نے دو دِن کابل میں گزارے۔ علاوہ ازیں ننگرہار کے ساتھ متصل ولایات (صوبے) لغمان اور کونڑ کی جامعات کے وائس چانسلر صاحبان کی دعوت پر ان کے ہاں بھی گئے اور وہاں کی ابھرتی ہوئی جامعات کا دورہ کیا۔
اس ہفت روزہ دورے کے دوران ہم نے جو مشاہدات کئے اور ہمارے جو تأثرات قائم ہوئے، وہ ذیل کی سطور میں درج کئے جاتے ہیں۔
1۔ افغانستان میں اس وقت طالبان، گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے ایک دھڑے اور مولوی یونس خالص کے فرزند کے دھڑے کے علاوہ باقی تقریباً تمام قابل ذکر مجاہدین تنظیمیں کسی نہ کسی طرح حکومت کا حصہ ہیں اور موجودہ سیاسی حیئت سے بھرپور استفادہ کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں سے منسلک مالدار افراد نے کابل اور دوسرے بڑے شہروں میں بڑی بڑی جائیدادیں خریدی ہیں۔
ننگرہار کے والی (گورنر) مولوی عطاء اﷲ لودین کا تعلق گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے ساتھ رہا ہے۔
افغانستان کے مشرانو جرگے (سینٹ) کے رئیس (چیئرمین) الحاج فضل ہادی مسلم یار کا تعلق عبدالرب رسول سیاف کی تنظیم کے ساتھ رہا ہے، جو سلفی فکر کا نقیب ہے۔ خود عبد الرب رسول موجودہ سیاسی قیادت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، لیکن زیادہ نمایاں طورپر سامنے نہیں آرہے اور اپنے قلعے میں مقیم ہیں۔ اولسی جرگے (قومی اسمبلی) کے مرستیال (صدر) الحاج عبد الظاہر قدیر کا تعلق مولوی یونس خالص کے قریب ترین معاونین کے خاندان سے ہے۔ عبدالظاہر مشہور کمانڈر عبدالحق (مرحوم) کے بھتیجے ہیں جو 9/11 کے بعد طالبان کے حملے میں جان بحق ہوئے تھے۔ اگر وہ زندہ رہتے تو یقین تھا کہ حامد کرزئی کی جگہ وہ افغانستان کے صدر بنتے۔ (یہ تینوں زعماء ننگرہار یونیورسٹی کی اس تقریب میں شریک تھے اور انہوں نے خطاب بھی گیا)۔ جمیعت اسلامی کے استاد برہان الدین ربانی (افغانستان کے سابق صدر) کے فرزند صلاح الدین ربانی اس وقت ملک کے صلح کونسل کے چیئرمین اور وزیر خارجہ ہیں۔
2۔ افغانستان میں اس وقت معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں بھرپور طریقے سے جاری ہیں۔ شہروں اور چھوٹے
چھوٹے قصبوں میں اشیائے صرف اور خوراک وافر مقدار میں موجود ہیں اور قیمتی گاڑیوں کی ریل پیل ہے۔ جلال آباد اور کابل میں تو عوام کا رش راولپنڈی کے راجہ بازار، لاہور کے انار کلی اور پشاور کے قصّہ خوانی کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ طالبان کا خوف بہرحال موجود ہے، بھتہ خوری کے واقعات بھی ہورہے ہیں۔ لیکن اس سے معاشی اور کاروباری سرگرمیوں میں کوئی خاص تعطل پیدا نہیں ہورہا۔
3۔ تعلیمی سرگرمیاں قابل رشک ہیں۔ صبح کے وقت چھوٹے چھوٹے بچّے اور بچیّاں ہزاروں کی تعداد میں اپنے
اپنے سکولوں کا رُخ کرتے ہیں۔ بعد از ظہر سکولوں سے طلباء اور طالبات کی واپسی کے نظارے قابل دید ہوتے ہیں۔ ننگرہار یونیورسٹی میں ہم نے طالبات کے لباس میں خاصا تنّوع دیکھا۔ چادروں میں ملبوس طالبات بھی نظر آئیں، جبکہ خالص دیہاتی ماحول کے برقعوں میں ملبوس خواتین طالبات کی بھی بڑی تعداد دیکھنے میں آئی (میں نے 1978 ء کا کابل بھی دیکھا تھا، جہاں بہت سی خواتین سکرٹ پہنتی تھیں اور ایسی خواتین بھی نظر آتی تھیں جو سکرٹ کے اوپر برقعے میں ملبوس ہوتی تھیں)۔
4۔ جو افغان مہاجر بن کر پاکستان میں رہے ہیں، ان کے تأثرات پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں بہت اچھے ہیں، لیکن نئی نسل کے افراد کو پاکستانی مقتدرہ سے شکایات کرتے ہوئے پایا. ان کا خیال ہے کہ پاکستان
ان کے ملک میں غیرضروری مداخلت کر رہا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں بھی مقتدر اور بارسوخ شخصیات نے یہ کہا کہ اب پاکستان اور افغانستان کی سرحدات کا تعیّن ہوگیا ہے اور افغانوں کے ماضی کے سرحدی حدود کے دعوے غیر ضروری ہیں۔
5۔ پاکستانی کرنسی میں خرید و فروخت عام ہے بلکہ ہم نے تو کونڑ کے دکانداروں کو پاکستانی کرنسی کو ترجیح دیتے ہوئے پایا۔ اگرچہ اس وقت افغان کرنسی پاکستانی کرنسی سے زیادہ مضبوط ہے (170 پاکستانی روپے 100 افغانی روپوں کے برابر ہیں)۔ کونڑ کی سرحدیں چترال اور باجوڑ سے ملتی ہیں۔
6۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ افغانیوں کے مقتدر اور بارسوخ افراد کی ایک بڑی تعداد اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ملک میں امن کی بحالی کو یقینی بنانا چاہیئے۔ وہ اب جنگ کی کیفیت سے ملک کو نکالنے کے لئے بے تاب دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمارے ساتھ انگریزوں سے برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں دینی طبقے کے مؤقف پر تبادلہ خیال کیا۔ موجودہ خیبر پختونخوا کے ساتھ متصل قبائلی علاقے (یاغستان) جس کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں، کی مسلح تحریک کے بارے میں ان کو معلومات حاصل تھیں۔ لیکن انہیں یہ پوری طرح معلوم نہیں تھا کہ بعد میں دیوبند کے عظیم علماءِ دین اور ان مسلح تحریکات کے حامی بالخصوص شیخ الہند مولانا محمود حسن اور مولانا عبیداﷲ سندھی مسلّح جدوجہد کی بجائے پرامن، آئینی اور دستوی تحریکات کا حصہ بنے اور جمیعتہ العلماء ہند کے نام سے سیاسی جماعت بنائی جس نے بعد میں کانگرس کے ساتھ الحاق کے ذریعے انگریزوں سے استخلاص وطن کی جدوجہد کو کامیاب بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے انگریزی حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھا، جو بالآخر برصغیر کی آزادی پر منتج ہوا۔
اس تجربے سے افغان علماء اور طالبان کے لئے استفادہ کی گنجائش موجود ہے۔ جمیعت العلماء افغانستان کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی جاسکتی ہے جو مذاکراتی عمل کے ذریعے امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا راستہ دکھا سکتی ہیں۔ کچھ افغان سکالرز کو ہم نے یہ کہتے ہوئے پایا کہ اگر آج امریکہ مکمل طورپر افغانستان سے ہاتھ کھینچ لے تو افغان حکومت تو ملازمین کی تنخواہیں تک دینے سے قاصر ہوجائے گی، کیونکہ افغان بجٹ کا زیادہ تر انحصار امریکہ اور بیرونی مدد پر ہے۔ علاوہ ازیں اس صورت میں باہمی تنازعات اور خانہ جنگی کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
7۔ گلبدین حکمت یار کے ایک دھڑے نے جمیعتہ الاصلاح کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ہے، جس کے سربراہ استاد صفت اﷲ قانت ہیں۔ یہ تنظیم مسلح سرگرمیوں سے لاتعلق رہ کر فکری اور علمی سرگرمیوں میں مصروف ہے اور سید مودودی کی کتابوں کے پشتو اور فارسی ترجموں کی مدد سے ان کے تصّورات اور تعبیراتِ دین کو فروغ دے رہی ہے۔ دینی طبقے اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس نئی تنظیم کے ساتھ منسلک ہورہی ہے۔ ان کے طلبہ شاخ کا نام ، نہاد نوجواناں مسلمان (نجم) ہے جو پاکستان کے اسلامی جمیعت طلبہ کے برادر تنظیم کا درجہ رکھتی ہے۔
8۔ کچھ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی پایا گیا کہ شاید طالبان کے سربراہ ملا عمر اب بقیدحیات نہیں رہے، کیونکہ کافی عرصے سے ان کے اتے پتے کے بارے میں افواہیں اور معلومات مفقود ہیں۔ لیکن اس تأثر کے بارے میں کوئی بھی یقینی بات سامنے نہیں آئی۔
9۔ ماضی میں افغانستان میں دینی مدرسوں کے قیام کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اس وجہ سے اکثرافغان طلبہ پاکستانی مدارس کا رُخ کرتے تھے۔ لیکن اب جگہ جگہ دینی مدارس اور دینی ادارے قائم کئے جارہے ہیں۔ ان اداروں کو افغانستان کی مرکزی وزارت معارف کے ساتھ رجسٹرڈ کرایا جاتاہے۔ ان میں افغانستان کا مرکزی نصاب لازماً پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ دینی کتابوں کا اضافہ کرلیا جاتاہے۔ ہم نے دیکھا کہ یہ تجربہ دینی علوم میں بھرپور مہارت پیدا نہیں کرتا۔
10۔ افغانستان کی آبادی میں اضافے کا رجحان مشاہدے میں آیا۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آبادی میں شامل ہوری ہے۔ لیکن ان نوجوانوں کی کھپت اور ان کو ہنرمند بنانے کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ افغان قوم کو اﷲتعالیٰ نے ذہانت اور محنت کی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اگر حکومت ان نوجوانوں کے مستقبل کے لئے کوئی پالیسی بنانے میں ناکام رہی تو آئندہ کے لئے افغان معاشرے کو متعدد سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
11۔ جلال آباد میں اسلامی کانفرنس ایک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بنا رہی ہے۔ اس کے لئے وسیع و عریض جگہ فراہم کرلی گئی ہے۔ کچھ افغان اساتذہ نے خیال ظاہر کیا کہ اسلامی یونیورسٹیاں دیگر اسلامی ممالک میں موجود ہیں۔ اسلامی کانفرنس کو چاہئے کہ ہمیں اچھے ہسپتال فراہم کرے اور ہماری جامعات کی موجودہ شریعت فیکلٹیوں کو مضبوط بنائے۔
سفارشات
1۔ پاکستانی حدود میں پشاورسے طورخم تک کی سڑک حد درجہ خراب ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اب تک کی پاکستانی حکومتوں نے اس طرف توجہ کیوں نہیں دی جبکہ افغانستان کا تجارتی انحصار بڑی حدتک پاکستان پر ہے۔ بارش کی صورت میں تو اس سڑک میں متعدد ندی نالوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ہزاروں گاڑیوں کی طویل قطاریں گھنٹوں انتظار پر مجبور ہوتی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان رابطہ تقریباً منقطع ہوجاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے بعض پاکستان مخالف پالیسی ساز اب افغانستان کی تجارت کا رُخ ایران کی طرف کرنا چاہتے ہیں اور چاہ بہار (ہرات) کے روٹ کو ترقی دینے کے خواہاں ہیں۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس پہلو کا عمیق جائزہ لینا چاہیئے۔ افغانستان اور پاکستان کی غیر دستاویزی تجارت کو دستاویزی تجارت کی طرف لانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
2۔ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد کے بعد یہ شاید دنیا کی دوسری بڑی سرحد ہے جسے روزانہ ہزاروں لوگ پار کرتے ہیں، لیکن پاکستانی سرحد کے اندر انتظامات اطمینان بخش نہیں۔ سہولیات کا حد درجہ فقدان ہے۔ دخول اور خروج کے لئے افرادی قوّت کی کمی ہے۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے اور انتظامات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانے میں تھوڑی سی محنت سے بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
3۔ افغانستان میں پاکستان کو تزویراتی اتحاد کے لئے کسی بڑی حکمت عملی کی ضرورت نہیں۔ افغانستان اور پاکستان کسی طرح بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں رہ سکتے۔ یہ ان دونوں کی مجبوری ہے۔ اگر پاکستانی حکومت مدنی سفارت کاری (Citizen Diplomacy) کے تقاضوں اور اصولوں پر عمل کرے تو افغانستان میں پاکستان کیلئے زبردست موافق جذبات کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً پاکستانی جامعات میں افغان طالب علموں اور اساتذہ کے لئے داخلوں کا خصوصی نظام مرتب کیا جائے۔ ان سے پاکستانی معیار کے مطابق فیس لی جائے۔ ان کے داخلے میں اِن سے میٹرک تک کے سرٹیفیکیٹ طلب نہ کئے جائیں، کیونکہ افغانستان کا نظام تعلیم پاکستان سے مختلف ہے۔ وہاں میٹرک سکولوں کا نظام موجود نہیں بلکہ لیسہ کا نظام ہے۔ یہ نظام بارہ سال سکول پر مشتمل ہے، جس میں پاکستانی انٹر کالج کی مدت بھی شامل ہے۔
بھارت میں افغان طالب علموں اور اساتذہ کے لئے یونیورسٹی تعلیم اور پی ایچ ڈی کے داخلوں میں خصوصی مراعات دی جاتی ہیں اور ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا ہے۔ افغانستان کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز صاحبان اور اساتذہ نے ہمیں بتایا کہ وہ بھارت کی بجائے پاکستان کو ترجیح دیتے ہیں۔
4۔ افغانستان میں اس وقت 90 سے زیادہ غیرسرکاری (پرائیویٹ) یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ کابل شہر میں ہر جگہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے کیمپس نظرآتے ہیں، مثلاً خراسان یونیورسٹی، کاردان یونیورسٹی، تقویٰ یونیورسٹی، دعوت یونیورسٹی اور رنڑا (رنا) یونیورسٹی۔ ان یونیورسٹیوں میں پاکستانی اساتذہ بہت کامیاب ہیں۔ ان کی بڑی قدرکی جاتی ہے۔ ان کو معقول تنخواہیں دی جاتی ہیں. منظم حکمت عملی سے پاکستانی جامعات اور افغان جامعات کے درمیان مفاہمت کی یاد داشتوں کے ذریعے خیرسگالی کے جذبات کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔
تعلیم اور تحقیق میں تعاون تزویراتی عمق کا سب سے بڑا وسیلہ بن سکتا ہے اور پاکستان کے لئے مثبت جذبات کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے اقدامات کا جائزہ لینا چاہیئے۔
5۔ افغانستان کے امراء اور عوام کی ایک بڑی تعداد علاج معالجے کیلئے پاکستانی پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں کا رُخ کرتی ہے۔ ان مریضوں کے ساتھ عام طورپر بہتر سلوک نہیں کیا جاتا۔ یہ میدان بھی مدنی سفارت کاری (Citizen Diplomacy)کا ہے۔ اگر پاکستانی ڈاکٹروں، نرسوں اور صحت کے اداروں کے ساتھ منسلک افراد کی تربیت کی جائے یا افغان مریضوں کی رہنمائی کے لئے الگ ڈیسک بنائے جائیں تو افغانستان میں پاکستان کیلئے ہمدردی کے جذبات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور بھارت کی رقیبانہ سفارت کاری کا سدّباب کیا جاسکتا ہے۔
6۔ جلال آباد میں پاکستانی قونصلیٹ میں افرادی قوت کی شدید کمی ہے، حالانکہ یہ قونصلیٹ خوست سے لیکر گردیز تک کی افغان آبادی کو ویزہ کی سہولت فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ سینکڑوں درخواست گزاروں کی قطاریں رات گئے تک ویزے کا انتظار کرتی ہیں، ان میں بوڑھے افراد، خواتین اور مریضوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہوتی ہے۔ معزز ملاقاتیوں کے لئے انتظار گاہ تک کا انتظام موجود نہیں۔ وزارت خارجہ کو چاہیے کہ وہ افغانیوں کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جلال آباد قونصلیٹ اور کابل کے سفارت خانے کو خصوصی درجہ دے۔ ہمیں بتایا گیا کہ برازیل میں پاکستانی سفارت خانے اور افغانستان میں پاکستانی سفارت خانے کو یکساں درجے میں رکھا گیا ہے۔ یہ بہت افسوس ناک صورت حال ہے۔
فیس بک پر تبصرے