پیرس کے واقعات اور اہل اسلام

768

گیارہ ستمبر کے واقعات کے نتیجے میں مغرب میں رہائش پزیر مسلمانوں کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا اس کے اثرات ہنوز جاری ہیں اور یہ اس وقت مزید ہو جاتے ہیں جب اسی نوع کا کوئی اور واقعہ رونما ہو جاتا ہے ۔پیرس کے حالیہ واقعات کوبھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور بالخصوص اس حوالے سے بھی کہ یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد فرانس میں ہی رہائش پزیر ہے ۔خورشید احمد ندیم نے ’’تجزیات ‘‘کے لئے لکھے گئے کالم میں اسی مسئلے کا جائزہ لیا ہے اورمغرب میں رہائش پزیر مسلمانوں کو رہنما اصول دیئے ہیں کہ کس طرح وہ وہاں کی معاشرتی زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں۔(مدیر)

پیرس کے دھماکوں نے اہل اسلام کو اُسی طرح کے ایک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے، جس طرح کے چیلنج کا سامنا انہیں 11/9 کے بعد کرنا پڑا۔ ایک چیلنج اُن مسلمانوں کے لیے ہے جو مغرب میں رہ رہے ہیں۔ دوسرے وہ جو عالم اسلام میں آباد ہیں۔ یہ نیا چیلنج اپنے جوہر میں پچھلے چیلنج سے مختلف نہیں ہے لیکن اس کی نوعیت میں فرق ہے۔ اس وجہ سے ممکن ہے کہ مغرب کا رد عمل اس بار ایسا نہ ہو جو 11/9 کے بعد تھا۔

11/9 کے بعد امریکا نے القاعدہ کو ان واقعات کا ذمہ دار قرار دیا۔ القاعدہ نے بھی واقعات میں ملوث افراد کو ’’کواکب من کواکب الاسلام‘‘(اسلام کے ستاروں میں سے ستارے) قرار دے کر ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی۔ ان دنوں القاعدہ کا مرکز افغانستان تھا، جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ امریکا نے ساری دنیا کو جمع کیا اور اقوام متحدہ کی تائید سے افغانستان کو ہدف بنایا۔القاعدہ کا مرکز ختم ہو گیا۔ القاعدہ سے وابستہ لوگ پاکستان اور مسلم دنیا کے بعض ممالک میں پھیل گئے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں انہیں ایک نیا مرکز ملا لیکن ظاہر ہے کہ یہاں ریاست کی وہ تائید حاصل نہ تھی جو افغانستان میں انہیں میسر رہی۔ یوں دھیرے دھیرے ان کا زور ٹوٹنے لگا۔ یمن وغیرہ میں انہوں نے نیا مرکز تلاش کرنا چاہا لیکن انہیں زیادہ کامیابی نہ ہوئی۔11/9 کے بعد امریکا نے خود کو محفوظ کر لیا۔ یورپ میں7/7 جیسے چند واقعات ہوئے لیکن القاعدہ مغرب کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہ بن سکی۔

عراق میں جب امریکا نے، ایران کی تائید کے ساتھ، معاملات نوری المالکی کے حوالے کیے تو اس کا خیال تھا کہ القاعدہ کے مو جود41 میں سے34 راہنماؤں کو مار دیاگیا ہے۔ یوں اسے اطمینان ہو گیا کہ اس نے القاعدہ کے چیلنج کو ختم کر دیا ہے۔ یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی۔ تاہم ابو مصعب الزرقاوی نے شیعہ مخالفت کی بنیاد پرالقاعدہ کے ایک دھڑے کی بنیاد رکھی۔ اسے مالکی کی شیعہ نوازی کے باعث پنپنے کا موقع مل گیا۔ وہ سنی قبائلی راہنما جنہیں امریکا نے المالکی کا اتحادی بنایا تھا، وہ مایوس ہو کر الگ ہونے لگے اور یوں عراق میں ایک نئی مزاحمتی تحریک اٹھنے لگی۔ جون 2006ء میں جب زرقاوی کو قتل کیا گیا تو چند ماہ بعد داعش کی بنیاد رکھ دی گئی۔

داعش کا چیلنج اسی وجہ سے مختلف ہے کہ اس نے ایک طرف ایک خطۂ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور دوسری طرف خود یورپ کے بہت سے شہری اس سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ امریکا میں داعش اور مشرقِ وسطیٰ کے تناظر میں جنم لینے والے مسائل سے نمٹنے کے حوالے سے اختلاف ہے۔صد اوباما داعش کے خلاف زمینی جنگ کے لیے آمادہ نہیں۔ صدر اوباما عراق میں فوجی مداخلت کو غلط کہتے ہیں اور اب شام اور داعش کے چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لیے زمینی فوج بھیجنے کے مخالف ہیں۔امریکہ کے سیکریٹری خارجہ جان کیری کے مطابق پندرہ ماہ میں امریکا نے شام اور داعش کے علاقوں پر 8000 فضائی حملے کیے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ ایک مسئلہ شام کے پناہ گزینوں کا بھی ہے۔امریکہ اور یورپ میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ ان میں دہشت گرد بھی آ سکتے ہیں۔یوں ان کو روکنے کے لیے ایک مہم کا آ غاز کر دیا گیا ہے۔اس رائے کی مخالفت کرنے والے بھی مو جود ہیں۔وہ اس خدشے کودرست نہیں سمجھتے اور اپنی تائید میں Migration Policy Institute Washington کی ایک رپورٹ پیش کرتے ہیں جس کے مطابق 9/11 کے بعد78500 پناہ گزین آئے ۔ان میں سے صرف تین ایسے تھے جنہیں اس نوعیت کے کسی الزام میں گرفتار کیا گیا۔

یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ موصل پر قبضے کے بعد داعش کو یہ موقع ملا کہ وہ عالمی مارکیٹ میں تیل فروخت کرے۔ یوں بلیک منی کے ذریعے اسے وسائل بھی حاصل ہو گئے ہیں۔ ایسے خطرے سے نمٹنا عالمی برادری کے لیے آسان نہیں۔فرانس دنیا کو مجتمع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔سلامتی کونسل میں اس کی قرارداد منظور ہو گئی ہے۔اب اگلا مر حلہ اقدام کا ہے۔قراردادداعش کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے،اقوامِ عالم سے برسرِپیکار ہونے کامطالبہ کرتی ہے۔تاہم بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ طاقت کے استعمال کے لیے قانونی اساس فراہم نہیں کرتی جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب سات کے تحت ضروری ہے۔ اس کے باوجود ایک رائے یہ مو جود ہے کہ نیٹوکے پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے۔مستقبل میں فرانس کے صدارتی امیدوارمارکو روبیو کا کہنا ہے کہ یہ ’ تہذیبوں کا تصادم ‘ہے اور اسے ایک کلی جنگ) (Total War)میں بدل دینا چاہیے..

امکان یہی ہے کہ عالمی ردِ عمل دو امور پر مرتکز رہے گا۔ ایک تو یہ کہ خود یورپ کے اندر ان نرسریوں یا مراکز کو ختم کیا جائے جو داعش سے وابستہ افراد کو پناہ دے رہے ہیں یا انہیں پیدا کرنے کا سبب ہیں۔ اس میں یہ امکان موجود ہے کہ بے گناہ لوگ بھی اس کی زد میں آئیں جو مسلمان کی شناخت رکھتے ہیں۔ دوسرایہ کہ امریکا اور یورپ عالم اسلام میں داعش کے حامی عناصر کو ختم کرنے کے لیے مسلمان حکومتوں پر اپنے دباؤ میں اضافہ کرے۔ اس پس منظرمیں مسلمانوں کو اب دیکھنا ہے کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔

مغرب میں مقیم مسلمانوں میں دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ایک وہ جو اپنے اسلامی تشخص پر اصرار کرتے ہیں اور مغربی طاقتوں کی اس پالیسی کے شدید ناقد ہیں جو ان کے خیال میں، مسلمانوں کے حوالے سے امتیازی ہیں۔ عرب سے تعلق رکھنے والوں کو فلسطین کی وجہ سے اور جنوبی ایشیا کا پس منظر رکھنے والوں کو مسئلہ کشمیر کے باعث، مغربی حکومتوں سے شکایت ہے اور اس کی حکمت عملی کو منافقانہ قرار دیتے ہیں۔دوسرا طبقہ وہ ہے جس کا خیال ہے کہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کو مغرب کی کثیرالمدنیت ( Multiculturalism) کا احترام کرتے ہوئے، اپنے گروہی تشخص پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف مغرب میں بھی مسلمانوں کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی خاص تہذیبی شناخت کے باعث وہ مغربی کلچر کا حصہ بننے کی اہلیت نہیں رکھتے، اس لیے مغرب میں مسلمانوں کی آمد اور یہاں ان کی موجودگی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مغرب اپنی کثیرالمدنیت کا دائرہ مسلمانوں کے لیے بطور خاص وسیع کرے۔ ان کو یہ احساس نہ ہونے دے کہ وہ مغرب میں اجنبی ہیں۔ معروف فرانسیسی سکالر اولیوئر رائے(Olivier Roy) کے مطابق مسلمانوں کو domesticate کیا جائے یعنی انہیں بھی گھر ہی کا ایک فرد سمجھا جائے۔ انہیں مغربی معاشرے میں ثقافتی طور پر اجنبیت کا احساس نہ ہو ۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ کون سا ہے؟

میرا احساس ہے کہ ڈاکٹر طارق رمضان اور اولیوئر رائے جیسے سکالر جس domestication کی بات کر رہے ہیں، اس میں وزن ہے۔ یورپ میں آباد مسلمانوں کو اس بات کی شعوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مغرب میں اجنبی دکھائی نہ دیں۔ سیکولر ازم کی وجہ سے مغرب میں شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ 11/9 سے پہلے ایسے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے جو مسلمانوں کے خلاف کسی امتیازی سوچ کا اظہار ہوں۔ یہ مسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ جس ملک کی شہریت لے رہے ہیں اور بطور شہری سہولتوں سے استفادہ کر رہے ہیں، وہ اس ملک کے وفادار رہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی جیسے سکالر یہ فتویٰ دے چکے ہیں کہ جو مسلمان امریکی فوج کا حصہ ہیں، انہیں اگر حکم ملتا ہے کہ وہ امریکا کے لیے لڑیں تو یہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ لڑیں۔ میرے نزدیک یورپ میں آباد مسلمانوں کے لیے اس وقت درست رویہ یہی ہے کہ وہ مغرب کی تہذیبی روایات اور وہاں کے ممالک کے قوانین کا احترام کریں۔ اگر ان کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں اور انہیں مذہبی آزادیاں میسر ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ تصادم کی راہ اپنائیں۔ کسی ہنگامی صورت حال میں اگر انہیں بعض امور پر مفاہت کرنی پڑتی ہے تو انہیں اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح وہ خود کو ہر ایسی تحریک اور فکر سے الگ رکھیں جو مسلمانوں کو تصادم پر ابھارتی اور انہیں تشدد کا راستہ دکھاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں خود ان کے لیے اور عالم اسلام کے لیے جو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے۔ 11/9 کے بعد وہ محدود ہوتے گئے اور انہیں علمی اور معاشی طور پر کیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

عالم اسلام میں بھی حکومتوں اور عوام کے مابین یہ یک سوئی ہونی چاہیے کہ انتہا پسندانہ سوچ اور افکار مسلمانوں کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اگر انہیں امریکا اور مغرب سے کچھ شکایتیں ہیں تو ان کا ازالہ دو طرح سے ممکن ہے۔ ایک اپنی تعمیر سے اور دوسرا سفارتی کوششوں سے۔ اپنی تعمیر کے ذریعے وہ خود کو ایسی پوزیشن پر لا سکتے ہیں جہاں مغرب کے مفادات ان سے وابستہ ہونے لگیں۔ تب وہ مغرب کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ ان کی شکایات کو دور کرے۔ اسی طرح سفارتی کوششوں سے بھی وہ ترقی یافتہ ممالک پر اپنا دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔ خود تعمیری کے لیے مسلمان معاشروں میں استحکام ضروری ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب امن ہو گا۔ اس حوالے سے پاکستان پورے عالم اسلام کے لیے مثال بن سکتا ہے۔ یہ ملک برسوں سے اضطراب اور انتہا پسندی کا شکار تھا۔ اس کے باعث اس کی اقتصادی صلاحیت سمٹ کر رہ گئی تھی۔ اب دہشت گرد دم توڑنے لگے ہیں تو ساتھ ساتھ معیشت میں بھی بہتری کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔

ایک اور کام جو عالم اسلام کے لیے نا گزیر ہو چکا ہے، وہ جمہوریت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں اضطراب کی بڑی وجہ امریکا یا مغرب نہیں، عوام کی آزادی رائے پر پابندی ہے۔ اگر مسلمان معاشروں میں جمہوریت ہو اور عوام کو یہ احساس ہو کہ ریاستی فیصلوں میں ان کی مرضی شامل ہے تو اس سے یقیناً استحکام آئے گا۔ مصر کواس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جہاں منتخب جمہوری صدر کا راستہ روکا گیا تو پورا ملک فساد کا گھر بن گیا۔ ہزاروں افراد مار دیے گئے۔ فوج اور عوام کے ایک بڑے طبقے کے مابین نفرت کی ایک دیوار کھڑی ہو گئی ہے جو کسی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ جمہوری قدروں سے بے پروائی نے پورے مشرق وسطیٰ میں فساد برپا کر رکھا ہے۔ صرف شام میں2011ء کے بعد ساڑھے تین لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایک اقلیتی گروہ نسل در نسل حکمران ہے اور عوام کو رہائی کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔

پیرس کے دھماکوں کے بعد، امکان یہی ہے کہ مغرب کوئی بڑا قدم اٹھائے۔ مسلمانوں کو اس کے مضر اثرات سے خود کو محفوظ رکھنا ہے۔ اہل اسلام کا دہشت گردی کے خلاف مغرب سے اظہار یک جہتی ہی اس وقت واحد رد عمل ہونا چاہیے۔ اس سے ان کے لیے امکانات کے دروازے کھلیں گے۔اگر انہوں نے خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہا یا مغرب کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار کیا تو یہ دونوں راستے ان کے لیے درست نہیں ہوں گے۔ مغرب میں مقیم مسلمانوں کا ہم وطنوں سے اظہار یک جہتی اور عالم اسلام کا اپنی تعمیر پر اصرار ہی اس مثبت سوچ کو جنم دے گا جس سے مسابقت کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے تصادم سے بچا جا سکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...