بلوچستان رپورٹ کارڈ

955

بلوچستان نصف پاکستان ہے اور پاکستان کے مستقبل کا انحصار بھی اسی خطے پر ہے مگر گزشتہ ایک دہائی سے جاری یورشوں نے اس صوبے کے حالات کو بری طرح متاثر کیا ہے،نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان میں آپریشن اور مفاہمتی عمل ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔بلوچستان کا اصل مسئلہ کیا ہے اور وہاں جاری آپریشنز اور مفامتی عمل کا مسقبل کیا ہے ۔ان سارے سوالات کا جواب آپ کو شہزادہ ذوالفقار کے اس مضمون میں ملے گا ۔شہزادہ ذوالفقار کوئٹہ کے معروف صحافی ہیں (مدیر)

بلوچوں کے زخموں پر مرحم رکھنے کے لئے بلوچستان میں ایک وسیع تر مفاہمت کا آغاز ہو چکا ہے ۔تاہم کئی دوسرے مسائل بھی ہیں جن سے یہ صوبہ دوچار ہے جن میں مدارس کی رجسٹریشن اور پرائیویٹ ملیشیا بھی شامل ہیں ۔دوسرے صوبوں کی طرح نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کی رفتار کا جائزہ ایک اپیکس کمیٹی لیتی ہے جو سول اور ملٹری قیادت کا بھر پور اعتماد حاصل ہے ۔کمیٹی کے اب تک تین اجلاس ہو چکے ہیں ۔ایک وزیر اعظم اور دو وزیر اعلٰی ڈاکٹر مالک بلوچ کی صدارت میں ہوا ۔ابھی تک چھ افراد کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے ۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان میں ایک فوجی عدالت بھی کام کر رہی ہے ۔بلوچستان کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے 53کیسز وزارت داخلہ کو بھیجے جنھوں نے دو درجن کے قریب کیس فوجی عدالتوں کو بھجوا دیئے۔

فروری2014ء کو اپیکس کمیٹی کا اجلاس وزیر اعظم کی صدارت میں ہوا جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی جس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لئے طریقہ کار طے کیا گیا ۔میٹنگ میں اعلی ٰ ٰ فوجی قیادت کی رائے حاوی رہی اور یہ بات مان لی گئی کہ عسکریت پسندوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف تادیبی ایکشن ہو گا اور صرف انہی کے ساتھ مزاکرات ہوں گے جو دہشت گردی اور تخریب کاری میں ملوث نہیں ہوں گے ۔

بھر پور کارروائی کا آغاز

تادیبی کارروائی کئی حصوں پر مشتمل تھی جن میں مفاہمتی عمل کے ساتھ آپریشن بھی شامل تھا۔ عسکریت پسندوں کے خلاف فوج کارروائی ،مغربی ممالک میں خود ساختہ جلا وطن رہنماؤں کی واپسی ، جو تنظیمیں کالعدم ہیں ان کے رہنماؤں کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی ضبطی تاکہ وہ اپنے دھڑوں کی مالی مدد کرنے کے قابل نہ رہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وفاقی اداروں جیسا کہ ایف آئی اے ، نیب اور پولیس کو ہدایت کی گئی کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کی کھوج لگائیں ۔منی ایکسچینج کی چھتری تلے حوالہ کا کاروبار کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے ۔ان کی جائیدادوں اور کاروباروں پر نظر رکھی جائے ۔ انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والی ایسی ویب سائٹس جو کالعدم تنظیمیں چلا رہی تھیں ان تک رابطہ بلاک کر دیا گیا ۔اس نوعیت کے بلاگز اور فیس بک اکاؤنٹس بھی بند کر دیئے گئے ۔وہ اضلاع جہاں بغاوت ہو رہی تھی پاک فوج بھی ایف سی کے ساتھ مل کر ان کے خلاف ایکشن میں شامل ہو گئی ۔ایف سی پہلے ہی خفیہ معلومات پر آپریشن کر رہی تھی اور جہاں بھی اسے کوئی اطلاع ملتی تھی وہ کارروائی کرتی تھی ۔ ایف سی دعوی ٰ کرتی ہے کہ اس نے کالعدم تنظیموں کے سینکڑوں کارکنوں اور ان کے درجنوں کمانڈرز کو ہلاک کیا ہے اور کئی گرفتار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک بلوچستان لبریشن فرنت کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بھی ہیں ۔ ڈاکٹر نظر وہ واحد کمانڈر ہیں جو اپنے گروپ کے ساتھ میدان میں برسر پکار ہیں جبکہ دوسرے تمام رہنما بیرون ملک بیٹھے ہوئے ہیں ۔ دوسرے باغی گروپوں کے مقابلے پر بی ایل ایف کو متوسط طبقے کی بھی حمایت حاصل رہی ہے ۔ اللہ نظر بذات خود ڈاکٹر ہیں ۔ حکومت اور فوجی قیادت کا خیال ہے کہ پانچویں فوجی بغاوت اختتام پزیر ہے اور اگر ڈاکٹر نظر مارے گئے تو کسی اور میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ زیادہ دیر تک کھڑا رہ سکے ۔

29جون 2015 ء کو بلوچستان لبریشن فرنٹ کے قائد ڈاکٹر اللہ نظر کی موجودگی کی اطلاع ملی جس پر فوج نے آواران ضلع میں ایک آپریشن کیا جس میں اس کا ایک بھائی دو بھتیجے اور چھ دوسرے دیہاتی مارے گئے ۔تاہم بی ایل ایف کے رہنما کی موجودگی کی اطلاع غلط ثابت ہوئی ۔ سیاسی مبصرین یہ مطالبہ کرتے رہے کہ حکومت کو صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے علیحدگی پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنی چاہئے تاکہ صوبے میں جاری میگا پراجیکٹس پر توجہ مرکوز کی جا سکے جن میں گوادر کی بندگاہ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے شامل ہیں ۔

مفاہمتی عمل کا آغاز

نواز شریف جب سے بر سر اقتدار آئے ہیں ان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ مفاہمتی عمل کو ایک موقع ضرور دیا جائے ۔ نواز شریف کی خواہش ہے کہ تما م ناراض بلوچوں کو ایک بار مزاکرات کی میز پر لایا جائے ۔چاہے وہ ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں یا نہیں وہ ملک سے باہر ہیں یا ملک کے اندر ہیں ۔ حتٰی کہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی صوبائی حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ بلوچستان میں ایک مفاہمتی عمل کا آغاز کریں ۔ لیکن فروری 2015ء کو ہونے والی اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں یہ طے پایا کہ مزاکرات صرف انہی کے ساتھ ہوں گے جنھوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے ۔ مگر پھر جون میں اپیکس کمیٹی نے جس کی سربراہی وزیر اعلٰی ڈاکٹر مالک بلوچ کر رہے تھے نے ان تمام کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیاجو ریاست کے خلاف ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہوں ۔اس پالیسی کے تحت ایک عام جنگجو کو بھی روز مرہ زندگی میں واپسی کے لئے دس لاکھ رروپے ،کمانڈر کو پندرہ لاکھ اور ایریا کمانڈر کے لئے بیس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا ۔مزید جو لوگ واپس آئیں گے ان کو ان کے رتبے کے لحاظ سے رقوم دی جائیں گی ۔ ان افراد کو سرکاری نوکریاں دی جائیں گی ، ان کو اور ان کے گھر والوں کو تحفظ بھی فراہم کیا جائے گا ۔ مزید براں حکومت کے حلیف قبائلی سردار جیسے کہ نواب ثنا ء اللہ زہری ،علیحدگی پسند مرحوم رہنما نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے نواب چنگیز مری اور نواب اکبر بگٹی کے پوتے سردار سرفراز ڈومکی نے باغیوں کو راغب کیا کہ وہ ہتھیار پھینک دیں ۔آواران ،، لہڑی اور کوہلو کے اضلاع میں ایک سو سے زائد جنگجوؤں اور چھ کمانڈروں نے سر عام ہتھیار پھینک کر حوالے کر دیئے ۔ان میں سے ایک کمانڈر بی ایل ایف کے آواران میں کمانڈر عبید اللہ علی ببرک بھی تھا وہ ہتھیار پھینک کر کوئٹہ منتقل ہو گیا ۔لیکن چند ہی ہفتوں بعد اس نے جولائی میں ایک پریس کانفرنس کر ڈالی کہ حکومت اپنے وہ وعدے پورے نہیں کر رہی جو اس نے عام معافی کا اعلان کرتے وقت کئے تھے ۔حکومت کا کہنا تھا کہ انھیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے ۔ حکومت دعوی ٰ کررہی تھی کہ یہ ہتھیار پھینکنے کی مہم بازی پلٹ دے گی مگر دوسری طرف بلوچ قوم پرست رہنماؤں کا پہلے سے آزمائے گئے ان طریقوں پر اعتماد متزلزل تھا ۔ وہ اس کے لئے ماضی کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ ان اقدامات کا مقصد مسلح کارکنوں کی ہمدردیاں خریدنا ہے ان کے حقیقی مسائل کا ازالہ کرنا نہیں ۔ علیحدگی پسندوں نے حکومت کی جانب سے عام معافی کی پیشکش رد کر دی اور کہا کہ وہ آزادی کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

بلوچ قوم پرستوں نے حکومت پر دوہری حکمت عملی کا الزام عائد کرتے ہو ئے کہا کہ ایک جانب فورسز بلوچ نوجوانوں کو ’’مارو اور مٹی پاؤ‘‘ کے تحت مار رہی ہیں تو دوسری جانب حکومت مفاہتی عمل کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے ۔ اس طرح کی دورخی حکمت عملی کی وجہ سے صوبائی حکومت کے مفاہمتی عمل کو دھچکا لگا ہے ۔

رمضان المقدس میں وزیر اعلیٰ نے صوبائی وزرا اور حکمران پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ اور قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک وفد لندن بھیجا کہ وہ خود ساختہ جلا وطن رہنما خان آف قلات میر سلمان داؤد سے ملاقات کرے اور انھیں وطن واپسی پر راضی کرے تاکہ وہ خلا جو ان کی غیر موجودگی میں پیدا ہو گیا ہے اسے پر کیا جا سکے ۔ میر سلمان کا شمار بڑے قبائلی رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔ان کے دادا نے قائد اعظم کے ساتھ ریاست کے الحاق کا معادہ کیا تھا جس کے بعد بلوچستان کی پاکستان میں شامل ہونے کی راہ ہموار ہوئی تھی ۔اگرچہ میر سلمان کا علیحدگی پسندوں پر اثر و رسوخ بالکل بھی نہیں ہے تاہم وہ قبائلی معاشرے کی ایک علامت ضرور ہیں ۔ میر سلمان نے 2006میں اس وقت پاکستان چھوڑ دیا تھا جب نواب اکبر بگٹی کو ایک فوجی آپریشن میں ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ اس وقت انھوں نے قلات میں ایک قبائلی جرگے کا بھی انعقاد کیا تھا یہ گزشتہ صدی میں ہونے والا واحد گرینڈ جرگہ تھا جس میں 85 قبائلی سرداروں اور 300کے قریب عمائدین نے شرکت کی تھی انھوں نے خان کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جائیں کہ پاکستان الحاق کے اس معاہدے کی پاسداری میں ناکام ہو گیا ہے جو اس کے دادا نے پاکستان کے ساتھ کیا تھا ۔اس لئے اگر خان مان جاتے ہیں تو یہ علیحدگی پسندوں کے خلاف ایک بڑی اخلاقی فتح ہو گی ۔جب 2015ء میں پاکستان کی جانب سے وفد ان سے ملنے گیا تو انھوں نے اس سے پہلے کچھ شرائط عائد کی تھیں جن میں بلوچ مسنگ پرسنز کی حوالگی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کا خاتمہ،چادر اور چار دیواری کا تحفظ ’’مارو اور مٹی پاؤ‘‘ پالیسی کا خاتمہ بھی شامل تھا ۔ شنید ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبد المالک بلوچ ایک اور وفد لے کر لندن جانا چاہتے ہیں تاکہ خان آف قلات کے ساتھ مزاکرات کا ایک اور دور شروع کیا جا سکے ۔خان کے رویئے میں لچک پیدا کرنے کے لئے خان کیلئے کچھ خاص مراعات کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے ،اگر وہ واپسی پر رضا مند ہو جائیں ۔ اسی دوران سینئر وزیر اور بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواب ثنا ء اللہ زہری ایک الگ مفاہتی عمل لے کر چل رہے ہیں وہ ابھی اپنی بھر پور کوشش میں ہیں کہ کسی طرح خان آف قلات کو وطن واپسی پرقائل کیا جائے۔ غالب امکان ہے کہ نواب ثنا ء اللہ زہری صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ ہوں گے اس معاہدے کے تحت جو مری میں 2013ء کے انتخابات کے بعد ہوا تھا ۔

فوری نوعیت کے مسائل

بلوچستان میں کچھ مسائل ایسے ہیں جو نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوری توجہ کے متقاضی ہیں ۔

جب مسئلہ مذہبی بنیادوں پر ہونے والی عسکریت پسندی کا آتا ہے تو با وجود اس کے کئی بڑے رہنماؤں کو مار دیا گیا مگر پھر بھی ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔

نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کے تحت سیکورٹی فورسز نے فرقہ واریت میں ملوث اہم رہنماؤں کو ہلاک کیاہے جن میں عثمان سیف اللہ کرد المعروف وحید جو کہ کئی ہلاکت خیز خود کش حملوں سمیت سندھ اور بلوچستان میں شیعوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی شامل تھا ۔اسی طرح اگست 2015ء میں چاغی کے علاقے میں القائدہ کے اہم کمانڈر عمر لطیف اس علاقے میں مارا گیا جو افغانستان کی سرحد سے متصل ہے جبکہ اس کی بیوی طیبہ جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ خواتین ونگ کی سربراہ ہے اسے گرفتار کر لیا گیا ۔اسی دوران پنجاب میں لشکر جھنگوی کے سربراہ کو بھی ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیا جو ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے ۔ان ہلاکتوں کے بعد سیکورٹی ایجنسیوں سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ بلوچستان میں بھی ان وحشیانہ عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گی ۔یہ عوام کا بھی مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے خلاف جنہوں نے سیاسی لبادہ اوڑھ لیا ہے ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔ سیکورٹی فورسز نے کوئٹہ اور دوسرے اضلاع میں کتابوں کی کئی دوکانوں پر بھی چھاپے مارے ہیں اور ایسی درجنوں کتابیں ضبط کر لی ہیں جن میں منافرانہ مواد تھا ۔ تاہم دوسری جانب فرقہ واریت میں ملوث، مدارس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2,441مدارس کو رجسٹر کر دیا گیا ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ابھی بھی ایک ہزار کے قریب ایسے مدارس موجود ہیں جو رجسٹرڈ نہیں ہیں ۔ ایک ایسا ملک جس کی باگ ڈور سرکاری مشینری کے پاس ہے اور اس کی حمایت

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...