افغان امن مذاکرات ، کیوں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے ؟
حکومت افغانستان نے پچھلے15 سالوں سے جاری افغان جنگ کو صحیح معنوں میں ختم کرنے کی کوشش تب محسوس کی جب یہ جنگ اپنی10 سالہ مدت پوری کرنے والی تھی۔تب سے یعنی2010 سے مذاکرات برائے مذاکرات ہوتے چلتے آرہے ہیں مگراب تک کوئی معنی خیز نتیجہ اخذ نہیں ہوسکا۔
مغرب کی افغانستان میں جنگ خصوصاً افغان طالبان کے خلاف تھی جو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد قصہ پارینہ بن گئی ۔ بظاہر تو طالبان حکومت ختم ہو گئی مگر اس کے بعد سے افغانستان ابھی تک خانہ جنگی جیسی صورتحال سے دوچار ہے ۔
سال2011ءمیں کونسل کے ایک نمائندہ ارسلان رحمان کو کابل میں قتل کردیا گیا اور حکومت نے اس کی ذمہ داری طالبان پر ڈال دی۔اسی سال ماہ ستمبر میں کونسل کے مرکزی رہنما برہان الدین ربانی کو خود کش حملے میں مار ڈالا گیا
جون2010 میں اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے ایک قومی مفاہمتی منصوبہ”افغانستان امن اور مفاہمتی پروگرام(APRP)“ کے نام سے پیش کیا۔ اس منصوبہ سے پہلے بھی اس سلسلے میں کاوشیں کی گئی تھی مگر یہ باضابطہ طور پر ایک کوشش تھی مثال کے طور پر2006 میں پاکستان اور افغان صدور نے امن کی بحالی کےلئے امید کا اظہار تب کیا تھا جب دونوں ملکوں کے سربراہان کی امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں ملاقات ہوئی تھی۔
اشرف غنی نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تو اس سے امن کے کوششوں کو ایک نئی زندگی مل گئی
2007 اگست میں ایک جرگہ افغانستان میں منعقد ہوا جو کہ2006 میں ملاقات کی ہی ایک کڑی تھی۔اس جرگہ میں دونوں ممالک سے700نمائندوں نے شمولیت کی جن میں اکثریت قبائلی مشیران جو کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف رہائش پذیر تھے کی تھی ۔ اس جرگہ نے متفقہ طور پر ایک نمائندہ جرگہ جس میں25 لوگ شامل ہوں گے کی تجویز پیش کی جو کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اہل ہوں گے۔ اسی سال یعنی ستمبر 2007ءمیں حامد کرزئی نے بھی طالبان کو مذاکرات کی ایک بار پھر دعوت دی جو کہ انہوں نے مسترد کردی اور مؤقف اختیار کیا کہ امریکی فورسز کی افغان سرزمین پر موجودگی کےدوران مذاکرات نہیں ہو سکتے ۔
یہ نمائندہ جرگہ جس کو پشتو میں”جرگاگٹے“ کہتے ہیں2008 میں اسلام آباد میں ہوا ۔نومبر2008 میں حامد کرزئی نے ملا عمر کو مذاکرات کی دعوت دی اور کہا کر افغان حکومت ان کی حفاظت کی ذمہ دار ہوں گی مگر طالبان نے اس کو بھی مسترد کیا اور عذر پیش کیا کہ امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاءتک کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔
سال2010ءمیں حامد کرزئی نےAPRP کا منصوبہ لندن میں ایک اجلاس میں پیش کیا جس کو تمام بین الاقوامی نمائندگان نے سراہا۔افغان صدر نے اس بات کی ضرورت کو محسوس کیاکہ جب تک تمام افغان باشندوں کے نمائندے اس جرگہ میں شامل نہیں ہوں گے،افغانستان میں دیرپا امن کی کوششیں رنگ نہیں لائیں گی۔
اس مفاہمتی پروگرام کے تحت ملک بھر سے1600 نمائندگان شامل کئے جانے تھے جس میں سیاستدان،بیوروکریٹس،جہادی کمانڈر(سابقہ)علامہ،خواتین،سول سوسائٹی،حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں شامل ہوں گے ۔اس سلسلے کا پہلا اکٹھ اگست2010میں کیا گیا دسمبر2015 تک اس عمل کو جاری رکھا گیا ۔یہ پروگرام اپنی مقررہ معیاد پورا کرنے کے بعد ختم تو ہوگیا مگر کوئی نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے سے قاصر رہا۔
اس مفاہمتی پروگرام کا مرکزی کردار”ہائی پیس کونسل(HPC)“ کے پاس تھا۔ہائی پیس کونسل کا کردار بھی واضح نہیں تھا کہ یہ کس نوعیت کے کام کرے گی۔کیا اس کا کام صرف مذاکراتی گروپوں کو مذاکرات کے میز پر لانا تھا یا پھر جب مذاکرات شروع ہو جائیں گے تو بطورسہولت کار کردار ادا کرے گی ۔ بہرحال ابھی تک یہ کونسل متحرک ہے ۔ اس ہائی پیس کونسل کا بنیادی کردار طالبان کمانڈرز تک رسائی تھی اور ان کو باور کرانا تھا کہ دہشت گردی چھوڑ کر امن کی کوششوں میں شامل ہو جائیں ۔ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان کو بھی اس امر پر باور کرانا تھا کہ وہ اپنی سرزمین سے افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے ۔اس کے ساتھ ہی پاکستانی جیلوں میں قید افغان طالبان کمانڈرز کی رہائی کےلئے کوششیں بھی کی جانی تھی۔جب یہ کونسل مذاکرات کےلئے موزوں ماحول بنانے میں مصروف تھی تب کچھ واقعات ایسے رونما ہوئے جو کہ کونسل کے راستے میں کاوٹ ثابت ہوئے۔
سال2011ءمیں کونسل کے ایک نمائندہ ارسلان رحمان کو کابل میں قتل کردیا گیا اور حکومت نے اس کی ذمہ داری طالبان پر ڈال دی۔اسی سال ماہ ستمبر میں کونسل کے مرکزی رہنما برہان الدین ربانی کو خود کش حملے میں مار ڈالا گیا ۔ خود کش حملہ آور اپنے آپ کو طالبان کا نمائندہ پیش کررہا تھا جو کہ مذاکرات کے سلسلے میں برہان الدین سے ملنے آیا تھا۔
اگلے سال2012 میں ہائی پیس کونسل نے ایک منصوبہ پیش کیا جو کہ پانچ مراحل پر مشتمل تھا۔
افغان مزاکراتی عمل میں ایک اور رکاوٹ بھارت بھی ہے ۔افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر رسوخ کی وجہ سے پاکستان شدید تحفظات کا شکار ہے ۔حال ہی میں پاکستان میں “را” کے بعد افغان انٹیلی جنس افسر کی گرفتاری سے سہ فریقی مذاکرات کو مزید جھٹکا لگے گا
پہلے مرحلے میں کونسل کے نئے چیئرمین صلاح الدین ربانی نے نومبر2012 کے دوسرے ہفتہ میں پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔جس کا مقصد پاکستان سے اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے حمایت کا حصول تھا اور ساتھ حکومت پاکستان سے ان افغان گروپوں کے بارے میں بات کرنی تھی جو مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین استعمال کر رہے تھے ۔
دوسرے مرحلے میں جو کہ2013 کے پہلے چھ ماہ پر مشتمل تھا، دونوں ملکوں کے مابین اعتماد سازی کے اقدامات کئے جانے تھےاور یہ کہ تینوں ممالک افغانستان،امریکہ اور پاکستان امن کی بحالی کے مشن میں نمایاں کردار ادا کریں گے۔
پاکستان کو خصوصاً کہا گیا تھا کہ وہ افغان طالبان نمائندوںکو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کےلئے راضی کرے گا۔
پاکستان نے2015 جولائی میں مری میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ملاقات کرواکر اہم پیش رفت دکھائی ۔افغان حکومت کی نمائندگی حکمت کرزئی نائب وزیر خارجہ ،رشید دوستم نائب صدر ،محمد محقق،ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اورسرور دانش نائب صدر کررہے تھے جبکہ طالبان کی طرف سے ملا عبدالجلیل، سابق نائب وزیر خارجہ اور ملا یحییٰ جو کہ حقانی نیٹ ورک کے نمائندے تھے وہ اس ملاقات میں اپنے اپنے گروپوں کی نمائندگی کر رہے تھے
تیسرا مرحلہ،جون سے دستمبر2013 تک تھا جس میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات باقاعدہ طور پر شروع ہونے تھے ۔اس دوران دونوں فریقین کے مابین جنگ بندی ہوگی۔
چوتھا مرحلہ جو کہ جنوری سے جون2014 پر محیط ہوگا، اس میں پچھلے مرحلے میں حاصل شدہ اہداف مزید پیش رفت کرنی ہوگی اور خصوصاً پاکستان اور افغانستان کےلئے لازم ہوگا کہ وہ کسی ایسے کرداروں یا عنا صر پر کڑی نظر رکھیں جو کہ اس عمل کے تسلسل میں رکاوٹ یا خلل بن سکتے ہیں ۔
آخری مرحلے میں یعنی سال2015 میں خطے کے امن اور سلامتی کےلئے کوششیں کی جائیں گی جو براہ راست افغانستان کے امن اور سلامتی سے منسلک ہوں گی۔پاکستان اور افغانستان نے عہد کیا کہ وہ مل کر القاعدہ یا ان سے منسلک تخریب کار گروپوں کے خلاف کام کریں گے جو کہ دونوں یا دونوں میں کسی ایک ملک کی سلامتی کےلئے خطرہ بن سکتے ہیں ۔
جب افغانستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں اشرف غنی نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تو اس سے امن کے کوششوں کو ایک نئی زندگی مل گئی۔افغان طالبان نے حکومتی نمائندوں سے کئی مرتبہ غیر جانبدار ملکوں چین،قطر،ناروے اور پاکستان میں خفیہ اور غیر خفیہ ملاقاتیں بھی کیں۔
افغان طالبان نے جون2013 میں قطر کے دارالحکومت”دوحہ “ میں اپنا سیاسی دفتر کھول دیا اور پہلی مرتبہ طالبان نے کہا کہ وہ”افغان عوام “ سے مذاکرات کےلئے تیار ہیں۔طالبان نے نہ ہی حامد کرزئی کی حکومت کو اپنے پیغام میں تسلیم کیا اور نہ ہی کرزئی حکومت نے طالبان کے اس دفتر کو مستند سمجھا۔
2014 میں دبئی میں ایک اور ملاقات دونوں فریقین کے مابین طے پائی جو کہ امن کی کوششوں میں ایک اہم کڑی تصور کی جاتی ہے۔
پاکستان نے2015 جولائی میں مری میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ملاقات کرواکر اہم پیش رفت دکھائی ۔افغان حکومت کی نمائندگی حکمت کرزئی نائب وزیر خارجہ ،رشید دوستم نائب صدر ،محمد محقق،ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اورسرور دانش نائب صدر کررہے تھے جبکہ طالبان کی طرف سے ملا عبدالجلیل، سابق نائب وزیر خارجہ اور ملا یحییٰ جو کہ حقانی نیٹ ورک کے نمائندے تھے وہ اس ملاقات میں اپنے اپنے گروپوں کی نمائندگی کر رہے تھے ۔محققین اور تمام حکومتی نمائندے اس ملاقات سے کافی خوش نظر آرہے تھے اور سمجھا جارہا تھا کہ شاید یہ عمل برقرار رہے گا۔
اگلی ملاقات کےلئے طے پایا کہ یہ عیدالفطر کے بعد ہوگی جس کے لئے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں ۔ملاقات سے صرف2دن قبل افغان طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر کی وفات کی خبریں منظر عام پر آنے سے یہ ملاقات موخر ہوگئی۔
7جولائی2015ءکی ملاقات میں چین اور امریکہ بطور مبصر شامل تھے ،جس کا مقصد مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرانا تھا ۔یہ مذاکرات چار گھنٹے تک جاری رہے ۔افغان حکومتی نمائندوں نے امید ظاہر کی کہ افغان طالبان کے جو مطالبات ہیں ان پر غور کیا جاسکتا ہے اور ساتھ یہ یقین دہانی بھی درکار تھی کہ طالبان مسلح مزاحمت ترک کر دیں گے ۔دوسری طرف طالبان نے اس ملاقات کو کامیاب قرار دیا اورعیدالفطر کے موقع پر ملا عمر کے نام سے جاری شدہ اپنے پیغام میں مذاکراتی عمل کو سراہا ۔جب ملا عمر کی وفات کی خبریں منظر عام پر آئیں تو ملاقاتوں کا جو سلسلہ چل پڑا تھارک گیا۔ملا عمر کے بعد طالبان مختلف گروپوں میں تقسیم ہو گئے ۔کئی طالبان گروپ منظر عام پر آئے ۔یکم اگست کو نئے طالبان کمانڈر ملا محمد منصور نے اپنے بیان میں پاکستان میں ہونے والی ملاقاتوں کو نہ صرف رد کیا بلکہ ان کو بے معنی بھی قرار دیا۔تب سے اب تک امن کی کوششوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
دسمبر2015 میں Heart of Asia Conference اسلام آباد میں منعقدہوئی جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مذاکرات کا عمل دوبارہ سے چلنا چاہیے۔
پاکستان نے مذاکرات کے بے جان عمل میں ایک بار پھر جان ڈال دی اور جنوری2016 میں باہمی تعاون کی خصوصی کمیٹی نے ملاقات کی۔اس کمیٹی میں افغانستان،پاکستان کے علاوہ چین اور امریکہ کے نمائندے بھی شامل تھے جبکہ افغان طالبان کا کوئی نمائندہ اس میں مدعو نہیں تھا۔
اس کمیٹی کی ملاقات کا مقصد ایسا طریق کار وضح کرنا تھا جس سے افغانستان میں امن لایا جاسکے جبکہ پہلے بیان ہو چکاہے کہ افغان طالبان کئی گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں تو اس سیاق و سباق میں جنوری میں ہونے والی میٹنگ میں پاکستان نے چند سفارشات پیش کیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
-1 ایسے حالات پیدا کئے جائیں جو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کےلئے مجبور کریں۔
-2 ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جو طالبان سے براہ راست ملاقات کےلئے موزوں ہوں۔
-3 طالبان کے ساتھ اعتماد سازی پیدا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔
-4 ایک جامع اور حقیقت پر مبنی لائحہ عمل تیار کیا جائے جس میں غیر عملی اقدامات کا ذکر نہ ہو۔ اب تک اس کمیٹی کے چار اجلاس منعقد ہو چکے ہیں مگر تاحال طالبان سے براہ راست مذاکرات شروع نہیں ہو سکے۔
ہر اندھیری رات کے بعد ایک روشن صبح ضرور ہوتی ہے ۔افغانستان پچھلے پندرہ سالوں سےحالت جنگ میں ہے۔امید کی جانی چاہئے کہ ایک دن یہ جنگ اپنے اختتام کو ضرور پہنچے گی مگرجو واقعات اور حالات نظر آرہے ہیں وہ کچھ اور ہی منظر کشی کررہے ہیں۔طالبان کئی گروپوں میں تقسیم ہیں۔اشرف غنی کے لئے مشکل کام اس بات کا تعین کرنا بھی ہے کہ کون سا طالبان گروپ افغان طالبان کا نمائندہ ہے۔اگر ایک طالبان گروپ سے معاہدہ طے پایا جاتا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ افغانستان میں مزید دہشت گردی نہیں ہوگی ۔افغان حکومت اس وقت اندرونی طور پر دباؤ کا بھی شکار ہے ۔اشرف غنی کی حکومت میں شامل وہ گروہ جو مذاکراتی عمل کی پیش رفت سے مطمئن نہیں ہیں وہ صرف طاقت کا استعمال چاہتے ہیں ۔مگر طالبان کی چھاپہ مار کارروائیاں بڑھ رہی ہیں اور کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں اب کابل کا اثرورسوخ مسلسل کم ہو رہا ہے ۔ اگر دونوں فریق اپنی اپنی طاقت کے گھمنڈ میں رہے تو افغانستان کی خانہ جنگی کبی ختم نہیں ہو گی بلکہ نجانے یہ کتنی اور زندگیوں کو ختم کر دے ۔ افغان مزاکراتی عمل میں ایک اور رکاوٹ بھارت بھی ہے ۔افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر رسوخ کی وجہ سے پاکستان شدید تحفظات کا شکار ہے ۔حال ہی میں پاکستان میں “را” کے بعد افغان انٹیلی جنس افسر کی گرفتاری سے سہ فریقی مذاکرات کو مزید جھٹکا لگے گا ۔ پاکستان اور افغانستان کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ ان کی سلامتی ایک دوسرے سے مشروط ہے مگر بھارت پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لئے اس کی مغربی سرحدوں کو گرم رکھنا چاہتا ہے ۔ جب بھی پاکستان اور افغانستان میں قربت پیدا ہوتی ہے ایک بدگمانی اس انتظار میں ہوتی ہے کہ وہ یہ عمل سبو تاژ کر دے ۔
فیس بک پر تبصرے