جماعتہ الدعوۃ کی ثالثی عدالتیں

1,048

مذہبی ذہن اپنی قوت اور اتھارٹی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مسلسل متبادل امکانات کی تلاش میں ہے

جماعۃ الدعوۃ کی قائم کردہ ثالثی عدالتیں ان دنوں اخباری خبروں اور تبصروں کا موضوع ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ ایک غیر رسمی ثالثی کا فورم ہے جس میں فریقین کی رضامندی سے باہمی تنازعات کا تصفیہ کیا جاتا ہے اور فیصلے کی ذمہ داری جماعۃ الدعوۃ کی طرف سے مقرر کیے گئے قاضی انجام دیتے ہیں۔ اس سے پہلے ستر کی دہائی میں جمعیۃ علمائے اسلام نے بھی اس نوعیت کی ایک مہم شروع کی تھی اور اس مقصد کے لیے مختلف شہروں میں قاضیوں کا تقرر کیا گیا تھا۔ ہمارے استاذ حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان مرحوم اور قلعہ دیدار سنگھ کے معروف عالم مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب مرحوم کو اسی نسبت سے قاضی کا لقب ملا۔ لیکن یہ سلسلہ بوجوہ عوام کی زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکا۔

جہاں تک غیر رسمی ثالثی اور تحکیم کے ادارے کا تعلق ہے تو اصولاً‌ یہ ایک بہت اچھا اور مفید کام ہے اور معاشرے میں اس کی ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی، بلکہ تنازعات کو عدالت میں لے جانے سے معاشرتی سطح پر جو رنجشیں اور شکایتیں جڑ پکڑتی ہیں، ان کا بھی مداوا ہو سکے گا۔ اسلامی قانونی روایت میں اسی لیے ہمیشہ غیر رسمی ثالثی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور حضرت عمر نے تو باقاعدہ اپنے قاضیوں کو یہ ہدایت دی تھی کہ وہ خود کسی مقدمے کا فیصلہ کرنے سے پہلے فریقین کو باہم صلح صفائی کر لینے کی ترغیب دیں، کیونکہ عدالتی فیصلے سے یقیناً‌ ایک فریق ناخوش ہوگا اور اس کے معاشرتی تعلقات دوسرے فریق کے ساتھ مستقل طور پر کشیدہ ہو جائیں گے۔ مزید برآں اگر اس سلسلے میں علما اور اہل مذہب کردار ادا کریں تو ان کے اخلاق وکردار پر اعتماد کی بدولت نہ صرف ایسے تصفیوں کو عوام میں  بہ نظر احترام دیکھا جائے گا بلکہ اہل مذہب بھی اپنی معاشرتی حیثیت اور اعتماد واحترام کو معاشرے کی خدمت اور تعمیر کے لیے استعمال کر سکیں گے۔

ماضی قریب میں جہادی تنظیموں کو کردار سونپتے ہوئے بھی اس کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا اور انھیں خود مختار اور آزاد ڈھانچے بنانے کی آزادی دے دی گئی جس کے نتائج اب ہم بھگت رہے ہیں

تاہم اس مقصد کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے، اس پر ظاہر کیے جانے والے بعض تحفظات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً‌ یہ نکتہ بہت قابل توجہ ہے کہ اگر یہ نجی ثالثی کا ایک فورم ہے تو اس کے لیے اصطلاحات بھی وہی استعمال کرنی چاہییں جو اس کی عرفی وقانونی حیثیت سے مطابقت رکھتی ہوں۔ عدالت، قاضی، قاضی القضاۃ کی اصطلاحات نیز سمن وغیرہ جاری کرنے کے طریقے سے ایک متوازی عدالتی نظام کا تاثر پیدا ہوتا ہے جو فی نفسہ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ آگے چل کر بہت سے مسائل بھی پیدا کرسکتا ہے۔

ثالثی اور تحکیم کے غیر رسمی اداروں کی قانونی طور پر بھی پوری گنجائش ہے اور شرعی وفقہی طور پر بھی، لیکن بہتر ہوگا کہ اس عمل کو ایک قانونی شکل دے کر اس کے کردار کو ریاستی عدالتی نظام کے ساتھ وابستہ اور اس کے تابع بنایا جائے۔ ماضی قریب میں جہادی تنظیموں کو کردار سونپتے ہوئے بھی اس کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا اور انھیں خود مختار اور آزاد ڈھانچے بنانے کی آزادی دے دی گئی جس کے نتائج اب ہم بھگت رہے ہیں۔ متوازی یا نیم متوازی عدالتی نظام کے مستحکم ہونے سے اسی قسم کے نتائج پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اس سے بھی پہلے ریاست، خطبے کے جمعے اور مسجد کے ادارے کو مستقلاً‌ نجی انتظام کے سپرد کر کے اسی طرح کی غلطیوں کا ارتکاب کر چکی ہے۔

صدر اول کے کسی مجتہد کی جو رائے اپنے اصل محل میں اجتہادی بصیر ت کا شاہکار دکھائی دیتی ہے، آج کا مفتی جب اسے فقہ کی کتاب سے اٹھا کر کسی استفتا کے جواب میں درج کرتا ہے تو وہی رائے ایک تعبدی حکم کی صورت اختیار کر چکی ہوتی ہے۔

اس ضمن میں مذہبی ذہن کے تحت الشعور کو سمجھنا اور مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ماضی کی مسلم ریاستوں میں علما وفقہا کو ریاستی نظام کے ایک بنیادی کل پرزے کی حیثیت حاصل تھی اور قضا کا منصب انھی کے لیے خاص تھا۔ جدید ریاستی نظم میں جوہری تبدیلیوں کی وجہ سے علما اس privilege سےالگ کر دیے گئے ہیں اور یہ چیز ان کے ہاں ریاستی نظام کے حوالے سے منفی ذہنی رویے کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے۔ ریاستی نظام کو مضبوط ومستحکم کرنے کے بجائے کئی پہلووں  سے اس کے حریف کا کردار ادا کرنا اسی تحت الشعوری احساس کا نتیجہ ہے۔

اس احساس کے تحت مذہبی ذہن اپنی قوت اور اتھارٹی کو re-assert کرنے کے لیے مسلسل متبادل امکانات کی تلاش میں ہے۔ جہاد کے فیصلے کا اختیار ریاست کے بجائے علما اور اہل افتا کے لیے تسلیم کرنا اور اس کی انجام دہی کے لیے نجی جہادی گروہوں کی تشکیل کو اہم سمجھنا اسی کے مظاہر ہیں۔ قانون سازی کا اختیار اصولاً‌ منتخب پارلیمان اور اس کے معاون قانونی اداروں کے لیے تسلیم کرنے کے باوجود مذہبی طبقات نے اسلامی قانون سازی کے ضمن میں قانونی وآئینی حدود کے اندر اپنے موقف کا وزن منوانے کے بجائے ہمیشہ احتجاج اور سیاسی دباو کا طریقہ اختیار کیا ہےاور یہ واضح پیغام دیا ہے کہ قانون ساز ادارے بھی جب تک مذہبی طبقات کی تعبیر کے مطابق قانون سازی نہ کریں، بلکہ ان کی ڈکٹیشن  قبول نہ کریں، ان کے فیصلوں کا احترام یا پابندی نہیں کی جائے گی۔ ہمارے دار الافتا اسی وجہ سے بعض ریاستی قوانین کے ’’خلاف شریعت’’ ہونے کی بنیاد پر عدالتی فیصلوں کو غیر موثر قرار دینے کا عمومی رجحان رکھتے ہیں، حالانکہ ان میں سے بیشتر قوانین کا تعلق خالص اجتہادی امور سے ہے جن میں خود فقہا کی تصریحات کے مطابق ریاستی قانون سازی کی پیروی عملاً‌ ضروری ہے۔

یہ پہلو بھی انتہائی اہم ہے کہ روایتی مذہبی ذہن جدید معاشرے کی پیچیدگیوں سے کس قدر واقف ہے اور اپنے فتووں اور فیصلوں میں  کس قدر اجتہادی بصیرت کا ثبوت دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ عمومی طور پر مذہبی فتاویٰ میں مدون فقہی ذخیرے کی پابندی کی جاتی ہے جس میں ماضی کے علما وفقہا کی وہ اجتہادی آرا جمع ہیں جو انھوں نے اپنے اپنے دور کے سوالات اور عملی صورتوں کو سامنے رکھ کر کیے تھے۔ تاہم ہماری فقہی روایت میں ان اطلاقی اجتہادات اور پھر ان سے تخریج در تخریج اور تفریع در تفریع کے ذریعے سے وجود میں آنے والی فقہی جزئیات نے بجائے خود بے لچک شرعی احکام اور پابندیوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صدر اول کے کسی مجتہد کی جو رائے اپنے اصل محل میں اجتہادی بصیر ت کا شاہکار دکھائی دیتی ہے، آج کا مفتی جب اسے فقہ کی کتاب سے اٹھا کر کسی استفتا کے جواب میں درج کرتا ہے تو وہی رائے ایک تعبدی حکم کی صورت اختیار کر چکی ہوتی ہے۔

ان سب پہلووں کے پیش نظر بہتر ہوگا کہ غیر رسمی ثالثی کے ادارے کو سنجیدہ بحث ومباحثہ کا موضوع بنایا جائے، اس کے قانونی حدود اور اختیار کا واضح تعین کیا جائے اور اس ضمن میں دیگر ممالک میں کیے جانے والے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی ایسا میکنزم بنانے کی کوشش کی جائے جو ہماری معاشرتی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور آگے چل کر کسی قسم کی انتظامی پیچیدگیوں کا باعث نہ بننے پائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...