ڈی چوک –دائمی دھرنا نگر

887

آمریت اور جمہوریت کی میوزیکل چئیر کے کھیل میں اسلام آباد نصف صدی تک جو کچھ پیرا فری دور دراز علاقوں تک بھیجتا رہا،اب لگتا ہے کہ بمعہ سود واپس آ رہا ہے اور اسلام آباد میں اب سب کچھ سنبھالنے کی سکت محدود ہو چکی ہے ۔

پاکستانی سیاست کی ہمہ وقت ہنگامہ خیزی میں ڈی چوک ایک نیا استعارہ  بن چکا ہے۔اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے عین سامنے یہ مقام پہلی بار اس وقت با رونق ہوا جب 90 کی دہائی میں اسے 23 مارچ  کی پریڈ کے لئے خصوصی رنگ و روپ دیا گیا ۔لیکن آج اس کی نئی پہچان اس کا “دھرنا نگر” بن جانا ہے ۔60 کی دہائی میں اسلام آباد کو ایک غیر سیاسی دارالحکومت کے طور پرایوبی آمریت میں  کچھ اس انداز میں بسایا گیا تھا کہ یہ عوامی پاکستان سے 25 کلو میٹر دور ہو ۔ مارگلہ کے دامن میں اس خوبصورت شہر کی تین داخلی سڑ کیں بند کر دی جائیں تو یہ اقتدار کاقید خانہ بن کر زیروپوائنٹ کی بادشاہت میں سُکڑ جاتا ہے ۔تاریخی طور پر زبردستی کنٹرول کے قابل یہ شہر اس لئے بسایا گیا تھا کیونکہ اس وقت کا دارلحکومت کراچی اپنے جمہوری مزاج کو طلاق دینے پر آمادہ نہ تھا اور باوجود اس کے بنیادی جمہوریت کی چھتری تلے “ہینڈ پک” لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل تھااور انھوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے جاہ و جلال کی بجائے مادر ِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دینے کی بغاوت کی تھی ۔کچھ ایسا ہی معاملہ اس وقت کے پارلیمانی دارالخلافہ ڈھاکہ کا بھی تھا جہاں صوبائی خود مختاری کا ساز زور پکڑ رہا تھا ۔لہٰذا ایک غیر سیاسی دارالحکومت کا سوچا گیا ۔پھر کیا تھا آمریت اور جمہوریت کی میوزیکل چئیر کے کھیل میں اسلام آباد نصف صدی تک جو کچھ پیرا فری  دور دراز  علاقوں تک بھیجتا رہا،اب  لگتا ہے کہ بمعہ سود واپس آ رہا ہے اور اسلام آباد میں اب سب کچھ سنبھالنے کی سکت محدود ہو چکی ہے ۔

اگرچہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود بھی اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا افتتاحی اجلاس تک نہیں ہو سکا ۔پھر بھی اسلام آباد اور یہاں کے شہریوں کی بہتر زندگی بنانے میں میئر اور کونسلروں کا کردار ہے جو ابھی کہیں نظر نہیں آتا ۔  

دوسرا پہلو بھی ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد گمان ہو چلا تھا کہ شاید جمہوریت کا پودا واقعی ہی جڑیں پکڑ لے گا لہٰذا ڈی چوک کو جمہوریت کے گھر ،پارلیمنٹ ہاؤس کے عین سامنے جمہوریت کو ڈرانے اور دھمکانے کے لئے بھی استعمال کیا گیا ۔شاہراہِ دستور پر ایک صف میں کھڑے وزیر اعظم کے دفتر ،سپریم کورٹ آف پاکستان ، پارلیمنٹ ہاؤس آف پاکستان ، ایوانِ صدر اور پاکستان سیکرٹریٹ کے سامنے ججز بحالی تحریک کے لوگ آئے توفوجی حکمران  پرویز مشرف نے پارلیمنٹ ہاؤس کے مشترکہ اجلاس میں ارکان کو غیر مہذب کہا اور ڈی چوک پر اپنا  مُکہ لہرا کر اپنی طاقت کا اظہار کیا ۔جمہوری ارتقاء کے لمحوں میں یہاں ڈاکٹر طاہر القادری سیاست پر چھرا گھونپ کر ریاست بچانے کا ترانہ بھی ڈی چوک پر گاتے رہے ۔سفر تھوڑا اور آگے بڑھا تو طاہر القادری اور عمران خان سیاسی کزن بن کر دوبارہ یہاں آئے 126 دن تک ڈی چوک میں دھرنا نگر آباد کیا اور یہاں موجود اداروں بالخصوص پارلیمنٹ کی شان میں خوب قصیدے پڑھے ۔حملے کی زد میں آئی پارلیمنٹ اگرچہ سہمی سہمی تھی کیونکہ اکثر ایمپائر کی انگلی کی بات ہوتی تھی لیکن سیاسی قوتوں کا اتحاد اور آرمی پبلک سکول سانحہ کے بعد حالات اس دھرنا نگر کو نامراد رکھنے میں کامیاب ہوئے ۔

کیا اس مقام کو پاکستان کے ہائیڈ پارک کا درجہ دیا جائے اور یہاں پُر امن احتجاج کی حدود و قیود طے کر کے معاملہ ایسے ہی چلنے دیا جائے ۔یا پھر کوئی ایسی یاد گار اور جھیل بنا دی جائے کہ ہر کوئی جمہوری اداروں کی طرف پیراکی نہ کرتا پھرے

ان تجربات کے بعد ڈی چوک میٹرو بس کا زیر زمین راستہ بن گیا۔شہر بھر میں کلوز سرکٹ کیمرے بھی لگا دیئے گئے ۔دہشت گردی کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے یہاں رینجرز اور ایف سی کے جوان بھی گاہے گاہے گشت کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن پھر بھی مذہبی طبقات اپنا احتجاج ڈی چوک تک لے آئے ۔انھوں نے کنٹینر بھی پھلانگے اور خوب توڑ پھوڑ بھی کی ۔ اب ایک بار پھر پانامہ لیک کے حوالے سے دھرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف اگرچہ لاہور میں قائم ہوئی تاہم وہ اپنا 20واں یومِ تاسیس ایف 9 پارک میں منانا چاہتی ہے ۔جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اعلان کر چکے ہیں کہ اب اسلام آباد کو یرغمال بنانے کی روایت ختم ہو جانی چاہئے ۔

ویسے سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پر دھرنا دینے والوں نے ایک بار بھی اپنے مطالبات پارلیمنٹ کے سامنے نہیں رکھے بلکہ اِ دھر اُدھر آوازیں لگاتے رہے  ۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ ان کا ایک واضح مقصد منتخب پارلیمانی جمہوری اداروں کی مسلسل بے توقیری ہے ۔کاش دھرنے والے پارلیمنٹ کے طریق کار کے مطابق اس سے انصاف مانگتے تو شاید سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور چئیر مین سینیٹ سینیٹر رضا ربانی پارلیمنٹ ہاؤس میں عوامی شکایات کی وصولی کی ونڈو کھول دیتے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی چوک کاکیا کیا جائے ۔دھرنے والوں کو تو خوب چسکا لگ چکا ہے اور انھیں یہاں 24×7پبلسٹی کی آکسیجن بھی خوب مل جاتی ہے ۔کیا اس مقام کو پاکستان کے ہائیڈ پارک کا درجہ دیا جائے اور یہاں پُر امن احتجاج کی حدود و قیود طے کر کے معاملہ ایسے ہی چلنے دیا جائے ۔یا پھر کوئی ایسی یاد گار اور جھیل بنا دی جائے کہ ہر کوئی جمہوری اداروں کی طرف پیراکی نہ کرتا پھرے ۔سچ تو یہ ہے کہ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ہماری “سوشیالوجی آف اینگر “یعنی ہمارے غصے اور احتجاج میں آگ ، توڑ پھوڑ اور تیزابی لہجے چھا چکے ہیں ۔لہٰذا ہمیں عوام کو پر امن احتجاج کے جمہوری حق کے ذمہ دار انہ استعمال کی ترغیب اور تربیت دینا ہو گی ۔نیز یہ بھی اہم ہے کہ حکمران اور ادارے عوام کی آواز سننے اور ان کی داد رسی کا کلچر بنائیں تاکہ جمہوری امیدیں دھرنا نگر کی کھائیوں میں نہ کھو جائیں ۔

آخری بات : دھرنا نگر بسانے والوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اسلام آباد 12 لاکھ لوگوں کا شہر ہے ، حکمران تو آتے جاتے رہتے ہیں ۔یہاں جب احتجاج آتا ہے تو لوگوں کی زندگی تھم جاتی ہے ۔کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے اور سکول بند ہو جاتے ہیں ۔اور اب تو ہے بھی بچوں کے امتحانات کا موسم ۔اسلام آباد میں مقامی حکومت کے انتخابات بھی ہو چکے ہیں ۔اگرچہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود بھی اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا افتتاحی اجلاس تک نہیں ہو سکا ۔پھر بھی اسلام آباد اور یہاں کے شہریوں کی بہتر زندگی بنانے میں میئر اور کونسلروں کا کردار ہے جو ابھی کہیں نظر نہیں آتا ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...