افسانے کی روایت کا اگلا پڑاؤ

1,366

وہ اپنے افسانوں کے مجموعے کچھوے میں لکھتے ہیں،”میں اپنی مصیبت میں زمینوں اور زمانوں میں آوارہ پھرتا ہوں۔ کتنے دن اجودھیا اور کربلا کے بیچ مارا مارا پھرتا رہا۔ یہ جاننے کے لیے کہ جب بھلے آدمی بستی چھوڑتے ہیں تو ان کے اوپر کیا بیتتی ہے؟“

انتظار حسین کی انفرادیت کے کئی پہلو ہیں۔ تاہم جو بات انھیں باقی سبھی لکھنے والوں سے ممتاز و منفرد کرتی ہے وہ ان کی برصغیر کے قدیم ادبی اثاثوں سے استفادے کی غیر معمولی کامیاب کوششیں ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ آپ نے افسانہ کے لگے بندھے اسلوب سے ہٹ کر اپنا اسلوب بنانے کی خواہش اورجتن کیا۔ آپ نے ہند مسلم تہذیبوں کے اشتراکات سے استفادہ کیا۔ آپ کی آواز میں ان دونوں تہذیبوں کے مشترکہ سُر گونجتے ہیں۔ وہ نہ صرف اردو کی کلاسیکی داستانوں اور ملفوظات کے ادب اور قدیم نثری اسالیب سے کماحقہ آگاہ تھے بلکہ سنسکرت کلاسیکی اور ہندی کتھاؤں پر بھی انھیں دست گاہ تھیں۔ ان دونوں ادبی روایتوں کو انھوں نے برتا اور ایک ترکیب بنائی جسے ہم انتظار حسین کی نثر اور اسلوب کے طورپر جانتے ہیں۔ یہ نثر انتظار حسین کا برانڈ تھی۔

اس برانڈ کی جھلکیاں ہمیں آخری آدمی کی کہانیوں میں بہت واضح دکھائی دیتی ہیں۔ یہ افسانے اردو کی آبرو ہیں اور جب تک اردو باقی ہے، یہ انتظار حسین کے نام کو زندہ رکھیں گے۔

اس ترکیب سازی کی مثال اس سے پہلے ہمیں کہیں اور ایسی کامیابی کے ساتھ دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن افسوس ہے کہ اپنی روایت کے وہ آخری آدمی تھے۔ اب ان اشتراکات کی بات کرنے والا اور ان سے استفادے کی صورتیں نکالنے والا کوئی اور نہیں رہا۔ آپ نے اردو فکشن کو جتنے اسالیب دیے اس کی مثال بھی ہمیں کسی دوسرے فکشن نگار کے ہاں نہیں ملتی۔ چاہے وہ ملفوظات کا روحانی مکالمے کا رنگ ہو، یا انجیل کا بلند روایتی آہنگ، یا داستانوں اور کتھاؤں کی اسرار بھری طرز ہو، انتظار حسین نے ان اسالیب میں رچ بس کر انھیں اردو فکشن کا حصہ بنایا۔

اس برانڈ میں محض قدیم اسالیب نثر سے ہی استفادے کی کارفرمائی نہیں ہے بلکہ اس ترکیب میں ناسٹیلجیا کی قوس قزح کے رنگ بھی شامل ہیں۔ یوں تودنیا کا تقریباً سبھی بڑا ادب ناسٹیلجیا ہی کی ایک صورت بنتا ہے اور ماضی کا ہی صیغہ ادب میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن انتظار حسین کے ہاں اس ناسٹیلجیا کے معانی کی کئی پرتیں ہیں۔ ان کے ہاں ناسٹیلجیا یاد ماضی کی مریضانہ صورت نہیں ہے۔انتظار حسین نے ناسٹیلجیا کو ایک طاقت کے طورپر استعمال کیا اوراسے اپنی تہذیبی شناخت ، اور اپنی ثقافتی اور تہذیبی جڑیں دریافت کرنے کا وسیلہ بنایا۔ یوں وہ ایک طرف تو ناسٹیلجیا کو ماضی کی طرف مڑ کر دیکھنے کے حوالے کے طورپر استعمال کرتے ہیں دوم وہ ماضی کو آئینہ بنا کر اس میں لمحہ موجود کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔لمحہ موجود کی ایک نئی تعبیر اور تفہیم کے لیے۔

انتظار حسین کے ہاں ناسٹیلجیا فعال قوت کی صورت میں موجود ہے جو آپ کواور اپنے عصری مسائل کی وجوہات اور ان کا حل تلاش کرنے میں معاون ہے۔

 ناسٹیلجیا ان کے پاس ایک ہتھیار ہے جس کی مدد سے وہ اپنا یہ سفر کرتے اور ہمارے اجتماعی لاشعور سے جڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس اجتماعی لاشعور کی دریافت کے لیے انھوں نے ہند اسلامی مشترکہ تہذیبی روایت سے استفادے کی صورتیں نکالیں۔

اپنی تہذیبی اور ثقافتی جڑوں کی تلاش کی ضرورت انتظار حسین کے ہاں ہجرت کے تجربے کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی۔ اس تجربے نے لکھنے والوں کو ایسے سوالوں کے سامنے لاکھڑا کیا جن سے انھیں اس سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔ سیاسی اور جغرافیائی تقسیم کے ساتھ انسانی ذات کی تقسیم کا سوال متصادم ہوا تھا۔نئی صورت حال بھی درپیش تھی جس میں نظریاتی اور جغرافیائی سرحدیں اور حد بندیاں اپنا کردار ادا کررہی تھیں۔ تو ایسے میں لکھنے والوں نے چاہے وہ قرة العین حیدر ہو، عبداللہ حسین، منٹو یا انتظار حسین ، انھوں نے اپنے اپنے اندازمیں ان سوالوں کے جواب تلاش کیے ۔

ایسا ہی ایک سوال تھا، کیا ایسا ممکن ہے کہ خارج میں نظریے یا جغرافیے کی بنیاد پر ہونے والی کوئی سیاسی و سماجی تقسیم انسانی ذات کے ا ندر بھی کوئی خط انقطاع کھینچے۔ انتظار حسین کا جواب انکار میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھیں اپنی جڑوں کی تلاش کی ضرورت پیدا ہوئی۔ ایک طرف انھوں نے ہندی کتھاؤں اور دیومالا کی طرف رجوع کیا، تو دوسری طرف بڑا حوالہ اسلامی تہذیب کا تھا خاص کر اسلامی تشیعی روایت جس سے وہ مسلکی اعتبار سے منسلک تھے۔ وہ مذہبی طورپر کٹر پن کا شکار نہیں تھے لیکن مذہب کو اپنی تہذیبی شناخت کا ایک حوالہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں ناسٹیلجیاان کے پاس ایک ہتھیار ہے جس کی مدد سے وہ اپنا یہ سفر کرتے اور ہمارے اجتماعی لاشعور سے جڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس اجتماعی لاشعور کی دریافت کے لیے انھوں نے ہند اسلامی مشترکہ تہذیبی روایت سے استفادے کی صورتیں نکالیں۔

انھوں نے نہ صرف اردو فکشن کے لیے نئے اسالیب اس سفر کے نتیجے میں وضع کیے بلکہ حال کو سمجھنے کے لیے ماضی کے آئینے کو سامنے کیا۔

ماضی ہمیں ایسے اسباق بار بار پڑھاتا ہے جو ہمارے حال اور مستقبل کے عمل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمیں ماضی کے ان کلیوں کو جاننے کی ضرورت ہے، جو حال میں بھی کارفرما ہیں اور مستقبل میں بھی ہوں گے۔

انتظار حسین کی ہجرت کا سفر بظاہر ڈبائی (ہندوستان) سے لاہور (پاکستان) تک پھیلا ہوا ہے۔ ڈبائی جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور جہاں ان کی محبت تھی۔ اس ڈبائی اور وہاں رہ جانے والی محبت کی کہانی ہمیں ان کے نہ صرف افسانوں میں اپنی جھلک دکھاتی معلوم ہوتی ہے ،بلکہ بستی سمیت چاند گہن، تذکرہ اور آگے سمندر ہے، جیسے ناولوں میں بھی بنیادی لہر کی صورت موجودہے۔ لیکن اس ہجرت نے ان کے اندرجہاں ایک طرف ناسٹیلجیا کی پنیری لگادی اور اس کیاری میں رنگا رنگ پھول کھلے جن کی مہک سے گلشن اردو ادب مہکا ہوا ہے۔ تو ساتھ ہی ساتھ اس تجربے نے انھیں اپنے دکھ کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی طرف مائل کیا اور انھوں نے خود کو حال اور ماضی میں ہجرت کرنے والے کروڑوں انسانوں کی برادری کا ایک فرد تصور کیا۔

وہ اپنے افسانوں کے مجموعے کچھوے میں لکھتے ہیں،”میں اپنی مصیبت میں زمینوں اور زمانوں میں آوارہ پھرتا ہوں۔ کتنے دن اجودھیا اور کربلا کے بیچ مارا مارا پھرتا رہا۔ یہ جاننے کے لیے کہ جب بھلے آدمی بستی چھوڑتے ہیں تو ان کےاو پر کیا بیتتی ہے؟“

یہ جاننے کے لیے کہ مہاجرت کا کیا دکھ ہے، کیا بیتتی ہے مہاجرت میں مبتلا لوگوں پر اور کیا جواب ہے ان سوالوں کا جو ہجرت ان خستہ حالوں کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے؟ اس کھوج میں انھوں نے اسلامی اور خصوصاً شیعہ فرقہ کی تاریخ کو کھنگالا، اور سنسکرت کے ادبی ورثہ سے رجوع کیا۔ کوروکشیتر (مہابھارت) کے میدان، اور کبھی کربلا کی خاک چھانی۔ پاکستان کو درپیش ہونے والے ہر بحران نے انھیں زیادہ شدت سے ان سوالوں کی زد میں لا پھینکا۔

انتظار حسین کے افسانوں کے اولین مجموعہ ’گلی کوچے‘ میں انسانی رشتوں میں پڑنے والی دراڑوں کی بپتا بیان کی گئی ہے۔ آنے والے مجموعوں میں یہ المیہ درختوں، پرندوں اور گلیوں کو محیط ہوگیا۔ پھر انسانی شناخت کے المیہ کا روپ دھا رگیا۔ اور انتظار حسین کا شاہکار افسانوی مجموعہ آخری آدمی منظر عام پر آیا جس نے انتظار حسین کو اردو ادب میں جیسے ہمیشہ کے لیے ایک بلند سنگھاسن پرلا بٹھایا۔سبھی اسلوبیاتی تجربات جو انتظار حسین اب تک کرتے رہے تھے، ان کی معراج ہمیں اس مجموعے میں دکھائی دیتی ہے جو اردو افسانے کی روایت میں ایک اگلا پڑاؤ ہے، ایک سنگ میل، افسانہ نگاروں کے لیے امکانات کی ایک نئی دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہوا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...